عراقی انقلاب اور آیت اللہ سیستانی کا فتوائےجہاد!
تقی الدین منصور
عراق کے اہلِ تشیع کے امام آیت اللہ سید علی الحسینی سیستانی نے عراقی انقلاب کے خلاف فتویٰ دیا ہے انہوں نے یہ یاد دہانی بھی کروائی ہے کہ نجف اور کربلا میں اہلِ تشیع کےمقدّسات کو بچانے کے لیے ہر اس شخص کو ہتھیار اٹھا لینے چاہییں جس میں ہتھیار اٹھانے کی استطاعت موجود ہے اور اس پر جہاد فرض ہوگیا ہے۔نہ صرف سیستانی بلکہ کربلا میں پچھلے چند ہفتوں سے جاری تقریروں میں شیعہ علماء جہاد فرض ہونےکے فتوے دے رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر ان فتووں کی دھڑا دھڑتشہیر کی جارہی ہے۔ویڈیو بلاگنگ کی ویب سائٹوں پر ان فتووں کی بھرمار ہے۔ آیت اللہ سیستانی کوئی معمولی درجے کے عالم نہیں ہیں۔یہ عراق کے اہلِ تشیع کے مرجع ہیں۔ یہ عراق کے اہلِ تشیع کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے ایرانیوں کے لیے امام، خمینی ہیں۔
ویسے تو عراقی انقلابی تحریک پر بہت سے حوالوں سے کہا لکھا جاسکتا ہے لیکن آیت اللہ سیستانی کا یہ فتویٰ خاصا معنی خیز ہے کیونکہ آیت اللہ سیستانی نے ۲۰۰۳ میں عراق پر امریکا کے حملے پربالکل مختلف موقف اختیار کیا تھا۔ اس وقت انہوں نہ تو اہلِ تشیع عوام کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا اور نہ ہی امریکی قبضے کے بعد اس کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا اعلان کیا بلکہ قبضے کے فوراً بعد امریکہ کی جانب سے بغیر الیکشن کروائے جو عبوری حکومت قائم کی گئی اس حکومت کو انہوں نے نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ مقتدیٰ الصدر کو امریکیوں سے تعاون کرنے اور ان سے لڑائی بند کرنےپر راضی کیا ۔اس پر سی این این نے سرخی لگائی :”عراق کے نئے لیڈروں کو مذہبی لیڈر کی جانب سے ‘ہاں’مل گئی ۔”
ویسے تو جہاد ان کفار کے خلاف فرض ہوتا ہے جو مسلمانوں کے کسی ملک پر حملہ کردیں لیکن یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ دس سال کے لگ بھگ عراق پر امریکی قبضے کے دوران یہ فرض نہیں ہوسکا بلکہ اس قبضےتلے عراق کے تیل اور معدنیات کو بے دھڑک لوٹا گیا اوریہ سب دیکھنےکے باوجود سیستانی بلا جھجک امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتے رہے۔ جہاد کی اس انوکھی تعریف کو شائد ان کے موقف کے حامی ہی واضح کرسکیں ،اس کا ویسےسمجھ میں آناخاصامشکل ہے۔
یہ تو ہوئی ایک بات۔ دوسری طرف جس چیز سے اہلِ تشیع کو ہتھیار اٹھانے پر ابھاراجارہا ہے وہ نجف اور کربلا میں موجود مقدّسات کا تحفظ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ تشیع کے ائمہ اہلِ سنت کےبھی بزرگ ہیں البتہ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اہلِ سنت کے بزرگوں کے بارے میں ایسا رویہ نہیں برتا جاتا۔یہ بات شام میں صحابۂ کرام ؓ کی قبروں کے ساتھ فرقہ وارانہ تنظیموں کی ملیشیاؤں کی بدسلوکی سے ثابت ہوچکی ہےکہ اہلِ سنت کے یہاں قابلِ احترام ہستیوں کی قبور کے ساتھ ان فرقہ پرست ملیشیاؤں کا کیا رویہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ سنت اپنے ہاتھوں اپنی ہی قابلِ احترام ہستیوں کے ساتھ بدسلوکی کریں ؟ اہلِ سنت میں سے کسے اہلِ بیت اور آلِ رسول ﷺ سے محبت نہیں !کیا کوئی سنّی العقیدہ مسلمان حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کی قبروں کو اکھاڑناچاہے گا؟یا پھر اس شور شرابےکی حقیقت یہ ہے کہ یہ عوام کو لڑائی پر ابھارنےاور نوری المالکی کی فرقہ پرست حکومت بچانے کے لیے رچایا جانے والا ایک ڈھونگ ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ امریکیوں سے تو ان مقامات کو کوئی خظرہ لاحق نہیں ہواحالانکہ قبضے کے بعد امریکی سرپرستی میں لوٹ مار کا سلسلہ چل رہا تھا لیکن نوری المالکی کی حکومت کے خلاف تحریک سے نہ صرف “جہاد “لازم ہو گیا بلکہ ناواقف عوام کو مقدّسات کے نام پر ورغلایا جانا بھی جائز ہوگیا۔
پھر اسی پر بس نہیں ۔ نیکی اور پوچھ پوچھ!امریکہ بھی کارِ ثواب سمجھتے ہوئے بحری بیڑوں کے ساتھ جنگ میں کود پڑا ہے۔ شائد “جہاد “کے اجر سے اوباما بھی محروم نہیں رہنا چاہتا۔کوئی اس ملین ڈالر کے سوال کا جواب دے کہ امریکی فوج نوری المالکی کی دُہائیوں پر اسلام اور مسلمانوں کی کس خدمت کے لیے ٹیکس پیئر زمنی سےبمباری کے لیے آموجود ہوئی ہے؟
اگر کہیں نہاں خانۂ دِل میں یہ کھٹکا ہو کہ ایسی باتوں سے فرقہ واریت کا عفریت مزید طاقتور ہوگا تو اس حوالے سےدو باتیں بالکل واضح ہیں۔ایک تو یہ کہ یہ وہ حقائق ہیں جو نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر اخبارات میں جگہ نہیں بنا پاتے۔شائد اس کا ایک سبب فرقہ پرست لابی ہے۔ چنانچہ انہیں بطور ایک خبر لیجیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہلِ سنت اس میں متأثرہ فریق ہیں۔ آغازاور پہل کرنے والا گروہ نہیں ہیں۔ لہٰذا فرقہ واریت کا دوش دینے سے پہلے اس بات کا تعین کرلینا چاہیے کہ یہ کس کےعمل کا ردِّعمل ہے ۔ ایسی صورتِ حال کا صحیح حل یہی ہوگا کہ اہلِ تشیع میں سے سمجھدار لوگ فرقہ پرست مولویوں اور حکومتوں کو disownکرکے اتحاد بین المسلمین کا ثبوت دیں ورنہ ان کی خاموشی سےمعاملہ اور زیادہ بگڑے کا اور اس کی تمام تر ذمہ داری انہیں پر عائد ہوگی۔