ڈاکٹر عبداللہ المدنی
اردو استفادہ: عبد اللہ آدم
شام اور عراق میں تو یہ ملک عرصے سے اپنی فوجیں اتار کر مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے، لیکن مملکت فارس کے عزائم بڑی دور دور تک پہنچ رہے ہیں۔
سری لنکا کے حوالے سے ایران کا ہیجان کچھ عرصے سے دیکھنے والا ہے۔ خصوصا افریقہ اور لاطینی امریکا میں اثرونفوذ بڑھانے کی ایرانی کوششوں کے تناظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران صرف عرب ممالک اور مشرق وسطیٰ میں پاؤں نہیں پھیلا رہا جہاں پہلے بھی اسکے حواری موجود ہیں، بلکہ اسکی نظر خلیج عرب سے لیکر بحرہند اور بحیرہ روم پر ہےاور اسی کے تحت مشرق و مغرب کے بحری تجارتی راستوں پر کنٹرول اسکے عزائم میں شامل ہے۔
ایران نے سری لنکا میں اثر و نفوذ بڑھانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ مثلا اس ملک کی کسمپرسی اور اور ضروریات کے لیے ترقی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے۔چنانچہ 2008ء میں سابق ایرانی صدر کے دورہ سری لنکا کے موقع پر ڈیڑھ میلن ڈالر کا قرضہ دیا گیا،جبکہ بجلی کی پیداوار کے لیے پیٹرول اور گیس کا عطیہ اور نرم ادائیگی کی بنیاد پر 250 ملین ڈالر کا تیل اس کے علاوہ ہے۔۔ اس سب کچھ کا مقصد اس ملک کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا اور ان کو اپنے سیاسی موقف کے لیے ہمنوا بنانا ہے۔
اسی تسلسل میں سری لنکا کی مسلم اقلیت کے ضمن میں شیعوں کے لیے ایرانی خدمات بھی شامل ہیں… چنانچہ مختلف امام بارگاہیں اور درسگاہیں زیر تعمیر ہیں جن کے لیے مالی امداد، کتب اور علماء کے لیے قم (ایران) کے شیعہ مرکز میں اعلیِ تعلیم کے لیے وظائف جاری کرنا بھی شامل ہے۔۔ اب تک ایران کے علمی مرکز، قم میں اعلیِ دینی تعلیم مکمل کرنے والے علماء کی تعداد 40 سے زیادہ ہو چکی ہے، جو تمام کے تمام اس سوچ و فکر کے حامل بن چکے ہیں کہ: “”عالمی استعمار اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والا ہے اور ایران طاغوتوں کے قلع قمع اور اسلامی ریاست کے قیام اور اہل سنت اور اہل تشیع کو اکٹھا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اور یہ کہ ایران کا دستور چاروں سنی فقہی مذاہب کو احترام کا درجہ دیتا ہے اور ہر مذہب کو عمل کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ ایرانی قانون امہات المومنین اور صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والوں اور ان پر بہتان لگانے والوں کا محاسبہ کرتا ہے””۔۔ یہ سب باتیں ایرانی ذمہ دار رفیع ثناء اللہ نے سری لنکا کی جمعیتِ علماء کے ایک وفد سے ملاقات میں کہیں جس نے ۲۰۱۲ء میں شیخ محمد رضوی کی قیادت میں ایران کا سفر کیا۔البتہ ایرانیوں کو ایک غیر متوقع جھٹکا تب لگا جب شیخ رضوی نے جرات سے تلبیس کا رد کرتے ہوءے کہا: “”سری لنکا کے مسلمان اسلام کے یہاں آنے کے وقت سے ہی اہل سنت ہیں اور یہاں کا غالب فقہی مکتب فکر شافعی ہے اور مسلمانوں کے آپس کے معاملات اور تنازعات میں فیصلے بھی اسی کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ اور ہم اہل سنت اور مذہب شافعی کے مقابل کسی فکر کی ترویج کی اجازت دینے کے روادار نہیں ہیں۔ لیکن شدید افسوس کی بات ہے کہ جتنے بھی لوگ قم سے تعلیم حاصل کر کے واپس آئے ہیں وہ شیعہ فکر کو پھیلانے میں مصروف ہیں اور ان کا اصحاب رسول رضوان اللہ علیھم اجمعین اور امھات المومنین پر سب وشتم کرنا اس بات کی دلیل ہے” انہوں نے مزید اضافہ کیا: “اہل سنت باقی صحابہ کی طرح ہی اہل بیت کا احترام کرتے ہیں… رضی اللہ عنھم… نہ تو ہم خود اہل بیت کی عزت و وقار کے خلاف بات کرنے والے ہیں اور نہ ہی کسی قم کے فارغ التحصیل کو امھات امومنین اور صحابہ کرام کے مقام و منصب میں طعن کرنا ہی قبول کرتے ہیں۔ اگر تم لوگ کسی بھی طرح انسانی مدد دیتے ہو تو آل سیلون جمعیتِ علماء اس کا خیر مقدم کرے گی، البتہ عقیدہ اہل سنت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہمیں قطعا پسند نہیں ہے! سخت باتوں پر مجھے معاف کرنا لیکن میری غرض و غایت صرف یہ تھی کہ ہمارے ہاں کے لوگ آپ کے پیروکاروں کی طرف سے جس چیز کا سامنا کر رہے ہیں اس سے آپ کوآگاہ کر دیا جائے” ۔
شیعہ کا وجود سری لنکا میں قدیم ہے،اور یہ بات معروف ہے کہ تاریخی طورپر اس کی جڑیں دور عباسی میں پیوست ہیں۔۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان سے یہ فکر حاصل کی، کولمبو کو مرکز بنا کر آغاز کیا، امام بارگاہیں تعمیر کیں اور پھر یہاں سے دوسرے علاقوں میں پھیل گئے۔۔ آج سری لنکا میں اہل تشیع کے زیر انتظام پانچ بڑے مراکز موجود ہیں۔ شیعیت کو پھیلانے اور مذہب شافعی کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کے لیے ان مراکز کی ہر طرح کی ضروریات تہران پوری کرتا ہے، جبکہ سینکڑوں چھوٹے مراکز اور مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ ان پانچ بڑے مراکز میں موسسۃ الھاشمیہ( کولمبو)مرکز امام جعفر صادق( کولمبو) امام بارگاہ ثقلین( کاندی ) مدرسہ منبع الھدیٰ(اڈموڈی) اور مرکز ثقافت اسلامی( اڈموڈی) شامل ہیں۔ سری لنکا میں مسلمانوں کی عمومی غربت اور تنگدستی کے خاتمے کی آڑ لے کر ایسے مراکز اور ادارے چلانا مشکل نہیں ہے۔
ایران نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے کئی او ذرائع بھی اختیار کیے ہیں جن میں تجارتی تعلقات بھی شامل ہیں… کئی ایک تجربات کی روشنی میں تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہےہے،مثلا چائے کی درآمد جو لاکھوں ایرانیوں کا پسندیدہ مشروب سمجھا جاتا ہے… اسی طرح ایران کے لیے گھریلو خادماوں کو سری لنکا سے بھرتی کیا جاتا ہے جن کو ایران میں شیعہ بنا کر واپس بھیجا جاتا ہے اور یہاں وہ مقامی خواتین میں تشیع کی تخم ریزی کے لیے کام کرتی ہیں۔اس کے علاوہ حکومت ایران اپنے شہریوں کے لیے ایرانی فضائی کمپنی ائیر تہران کے زریعے رعایتی نرخوں پر سری لنکا کی سیاحت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ ایرانی شہری سیاح کے طور پر تو سفر کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ جاسوسی میں ملوث یا ’’وہابیت کے اثر‘‘ کے خلاف خمینی افکار کو پھیلانے والے بھی ہوتے ہیں! حالانکہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ سری لنکن حنبلی(وہابی) کی بجائے شافعی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
عسکری تعاون اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔۔ عسکری اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے ایران سری لنکا کو اسلحہ، تربیت اور گرانٹ دینا شامل ہے۔۔ یہ امداد اس طرح اہم ہے کہ درحقیقت شیعیت کو دی جارہی ہےجس سے ان کی نظر میں ’ولایت فقیہہ‘ جیسے افکار اور ’اسلامی انقلاب‘ کی راہ ہموار کی جانی ہے! انہی عسکری تعلقات میں ایرانی بحریہ کی طرف سے قذاقی کے خاتمے کے لیے سری لنکن ساحلوں پر ایرانی جہازوں کا گشت اور تیز تر حملے اور دفاع کے لیے انقلابی گارڈز کے زیر استعمال سپیڈ بوٹس بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایران نے سری لنکا کو اس خطرے سے خوف ہے جسے وہ ’استکبار‘ کا نام دیتا ہے، تا کہ سری لنکا کو ایران کے ساتھ عسکری معاہدوں پر مائل کیا جا سکے۔
خلیجی ممالک کے ہاں سری لنکا مزدوروں اور خدمت گزاروں کی سستی منڈی کے علاوہ دیگر اہم حیثیتوں سے نظر انداز شدہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران نے گزشتہ خانہ جنگی سے تباہ حال سری لنکا کی عسکری اہلیت کو بڑھانا شروع کیا ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے انفراسٹرکچر کی بحالی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف تعمیراتی منصوبے شروع کیے ہیں اور انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی مہارتوں سے مالا مال قابل اعتماد سرمایہ کار کے روپ میں سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکن وزیر صنعت و تجارت رچرڈ باٹیوڈین نے پچھلے سال مارچ میں تہران کا دورہ کیا تھا۔
درحقیقت خلیجی ممالک کو سری لنکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر وہ ایران کے لیے ترنوالہ ہے۔ سری لنکا اپنے محدود رقبے اور ہند و پاک کی نسبت کم وسائل رکھنے کے باوجود بحر ہند کے علاقے میں اہم تزویراتی اہمیت کا حامل اور مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید کے درمیان تیل کی سپلائی کے راستوں پر واقع ہے۔
اصل مضمون: http://www.alittihad.ae/wajhatdetails.php?id=77872