“ایمان واحتساب”
قلبِ سلیم کی ریاضت
’’رمضان‘‘ کی بارش… اور ’’ایمان‘‘ کی ہریالی ہونے کو ہے۔
آخرت کے طلبگاروں کا من پسند موسم آیا چاہتا ہے۔
خوش نصیب تیاریوں میں لگے ہیں… اور بدنصیب انہی عفونت زدہ اہداف میں گم۔ پار لگنے والوں کے جذبے بخدا اِسی دنیا میں بولتے ہیں! اِن کے تمتماتے چہرے آپ اپنا بیان ہیں! ’’عبادت‘‘ کے لمحات میں اِن پر آتے جاتے رنگ؛ کبھی ملاحظہ کرنا! یقین کرو؛ آخرت کے خریدار اِس موسم میں آرام، چین اور نیند تک بھول جاتے ہیں!
تو آئیے ذرا ہم بھی فصلِ آخرت کے کاشتکار بنیں… ابد کے دیس میں کچھ اپنی تعمیرات کرتے جائیں!!
بھائی! سب سے پہلا کام جو تمہیں کرنا ہے وہ ہے اس ’’آلے‘‘ کی اصلاح جو عالم بالا سے اتصال کروانے کےلیے تمہارے وجود میں نصب ہے۔ اِس کے بغیر، سمجھو انسان گونگا، بہرا اور اندھا ہے؛ نہ اُدھر کی بات اِس کے کان پڑے اور نہ یہ اُدھر والوں کو اپنی سنا سکے؛ اور نہ اُن حقائق کو دیکھ سکے جو کتابوں اور رسالتوں کے ذریعے اِس تک پہنچائے گئے۔ بلکہ اس کے بغیر؛ یہ اُن حقائق کو نہیں دیکھ سکتا جو خود اِسی کے چاروں طرف پھیلا رکھے گئے ہیں؛ اور جن پر غوروفکر کرکے اِس کو ’’تخلیق‘‘ کی اِس پوری کہانی کو سمجھنا اور ’’خالق‘‘ تک پہنچنا ہے۔ بلکہ اس کے بغیر؛ یہ خود اپنے نفس میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتا جو اِس کے حرکات و سکنات میں بولتا ہے! یعنی مطلق جاہل اور علم و معرفت سے یکسر کورا؛ اس جہانِ مرئی کے پیچھے گویا کچھ ہے ہی نہیں! اس کی بلا سے، یہی روٹی پانی کی دنیا ہے؛ اس کے ’ماوراء‘ کچھ نہیں! اب تم خود بتاؤ، ’’روزہ‘‘ ایسے آدمی کےلیے کیا معنیٰ رکھے گا؟! ’’نماز‘‘ جو ہر چند ساعت بعدتم سے کسی عظیم تر جہان کی جستجو کرواتی ہے، ایسے بھلےمانس کےلیے اٹھک بیٹھک سے بڑھ کر کیا مفہوم رکھے گی؟! غرض ’’عبادت‘‘ و ’’خشیت‘‘ کے جملہ اعمال اور رویے ایسے آدمی کےلیے بےمعنیٰ ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہی کہ اِس آدمی کے وجود کا وہ اہم ترین گوشہ جو عُلوی حقائق و احساسات کا محل ہے، اِس کے ہاں ناکارہ و زنگ آلود پڑا ہے… جسے درست کرنے کی کبھی اِس کو فکر نہیں ہوئی!
تو اب ذرا اُس آدمی کا اندازہ کرو جو اپنے قلب کی سرگرمی سے تو سراسر غافل ہے البتہ معدے کو خوب چالو حالت میں رکھے ہوئے ہے! ایسے آدمی کےلیے ’’روزے‘‘ کا مطلب بھی اگر کچھ ہوگا تو وہ ’سحری اور افطاری‘ ہے!!!
ابدی جہان کی جستجو کرنے والا یہ آلہ ہی اگر کہیں پر خراب پڑا ہے تو وہاں ’’معبود‘‘ کی پہچان اور ’’عبادت‘‘ کا شعور کہاں سے آئے؟!
تو بھائی سب سے پہلے اپنے اِسی چھپے گوشے کی خبر لو۔ اگر یہ ناکارہ ہے تو سمجھو نہ خدا کے اتارے ہوئے کلام کا اِس پر کوئی اثر اور نہ رسولؐ کی لائی ہوئی حکمت کا۔ ’’کتاب‘‘ اور ’’سنت‘‘ خواہ اپنی جگہ ’’حقیقت‘‘ کا کتنا ہی بڑا سرچشمہ ہوں؛ مگر ایسے شخص کو اس سے کیا؟! اِس کےلیے تو نہ خدا کے کلام میں کوئی پیغام اور نہ رسولؐ کی سیرت میں! ایسے آدمی کےلیے تو یہ پوری کائنات گونگی ہے! خدا کو پہچاننے، خدا کو چاہنے اور خدا سے ڈرنے کی صفت انسان کے اِسی گوشے میں پائی جاتی ہے؛ اگر یہی اِس کے ہاں مدفون پڑی ہے تو کہاں کی محبت اور کہاں کا خوف؟ کہاں کی ’’عبادت‘‘ اور کہاں کی ’’جستجوئے آخرت‘‘؟ ایسا آدمی خیرکےلیے یقیناً منہ تو بہت بہت کھولے گا؛ جیساکہ ہمیں قرآن میں بتایا گیا: (وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ) تاہم خیر کے سرچشمۂ ازلی سے منہ موڑ کر ہی رکھے گا۔ (إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ)[1] اِس درماندگی کا اب تم خود اندازہ کرلو۔ خیر کی طلب، مگر خیر کے سرچشمہ سے اعراض!!! حالانکہ اصل خوش بختی یہ تھی کہ یہ خیر کے اس منبع ہی کو پالے۔ (بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[2]… وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ[3])
پس عالمِ بالا کے ساتھ تعامل interaction اور اتصال communication کی یہ طبعی استعداد تمہارے وجود کے جس حصے میں ودیعت کر رکھی گئی ہے اور جس کو تمہیں اب خوب خوب نکھارنا ہے، وہ تمہارا قلب ہے۔ اِس کو سنوارے اور حاضر کیے بغیر نہ کوئی علم، علمِ نافع اور نہ کوئی عمل، عملِ صالح۔
اور سچ پوچھو تو یہ چار روزہ محنت جس کو تم ’’دین‘‘ یا ’’ایمان‘‘ کہتے ہو، اس کا مطلب ہے ہی تمہارے وجود کے اِس حصے کو کارآمد رکھنا۔ سب امتحان سمجھو اسی کا ہے۔
سفرِآخرت پر روانہ ہونے کےلیےاِس جہان سے بس یہی پونجی درکار ہے…: قلبِ سلیم۔ ایک شفاف نفیس قلب۔ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (الشعراء: 88، 89) ’’وہ دن جب مال کام دے گا اور نہ بیٹے۔ سوائے وہ شخص جو خدا کے پاس ایک صحیح سالم دل لے آیا‘‘۔
قلبِ سلیم… یعنی ایک صحیح سالم دل جو خدا کے سوا کسی معبود کو نہ پہنچانتا ہو۔ جو اپنے فقر و ذلت کے بند کبھی کسی اور ہستی کے آگے کھولنے کا روادار نہ ہوا ہو۔ اُس ایک کے سوا نہ کسی سے لو، نہ کسی سے امید، نہ کسی پر سہارا، نہ کسی سے دعاء، نہ اُس ایک کے سوا کسی در کی مجاورت اور نہ اُس کے علاوہ کوئی سرکار، جس کا یہ گرویدہ ہو۔ یعنی وہ شخص جو تمام زندگی شرک سے دامن کش رہا اور بندگی و نیاز کے سب جذبات خالص سے خالص تر شکل میں ’’عبادت‘‘ کے اس اصل محل پر ہی نچھاور کرتا چلا گیا۔ اپنی اِس پونجی کو یہاں سے بچا لےجانے کےلیے مسلسل فکرمند؛ شیاطین کے ہاتھوں لٹنے سے ہر دم ہوشیار؛ قدم قدم پر لگی گھاتوں سے بچتا چلا گیا۔ قلبِ سلیم: وہ دل جو خدا کی چیز (عبادت، گرویدگی، اطاعت) خدا ہی کےلیے اعلیٰ سے اعلیٰ اور پاکیزہ سے پاکیزہ حالت میں بچا رکھنے میں کامیاب رہا۔ قلبِ سلیم: ایک پاکیزہ صاف ستھرا دل جو رذائل سے بچتا اور پل پل خدا کا نام لیتا رہا۔ یہی اِس کی زندگی اور یہی اِس کی سلامتی! قلبِ سلیم: جس کی ’’اصل حالت‘‘ کو برقرار رکھنے کی صورت یہی تمہاری نماز ہے، قربانی ہے، صیام ہے، طواف ہے، تمہارا جہاد اور مجاہدہ ہے، ترکِ سیئات، خدا کے باغیوں سے تمہاری عداوت اور خدا کے وفاداروں سے تمہاری دوستی ووفاداری ہے۔ دینا تو خدا کی خاطر، نہ دینا تو خدا کی خاطر، محبت تو خدا کی خاطر، بغض تو خدا کی خاطر۔ حق سے مطلق وابستگی اور باطل سے مطلق بیزاری۔ قلبِ سلیم: جس کی تازگی اور پاکیزگی یہ ہے کہ تم اِس پر ’’معصیت‘‘ کی آلائش نہ آنے دو اور ’’اطاعت‘‘ کے نفیس جوہر سے ہی اِس کو لبریز رکھو۔ اور جہاں کچھ آلائش لگ ہی جائے، وہاں اِس کو توبہ اور انابت کے پانی سے دھوؤ؛ پھر ہر دم اِس کو خدا کی حمد اور تسبیح سے معطر رکھو۔
تبھی فرمایا: إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ[4] ’’خدا تمہاری شکلوں یا تمہارے مال دولت کو دیکھنے والا نہیں۔ وہ تو دیکھتا ہے تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو‘‘۔
*****
انسانی وجود میں قلب کی حیثیت بادشاہ کی ہے؛ جبکہ باقی اعضاء اس کے جنود اور پیادے۔ فرماں روا یہ ہے؛ باقی اعضاء اس کے تابع اور خدمت گزار۔
تو پھر خدا کو بھی تمہارا یہ دل ہی چاہئے! اِسی سورما کو خدا کی چوکھٹ پر جھکانا اصل مقصود ہے؛ پیادوں اور ہرکاروں کا کیا ہے! ’’دین‘‘ اور ’’عبادت‘‘ اصل میں یہ ہے۔
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ…[5]
تمہاری اِس مملکت کا فرماں روا خود اگر خدائےرب العالمین کا زیرنگیں ہوجاتا ہے تو پوری مملکت خدا کی قلمر و ہوجاتی ہے۔ اندازہ کرلو؛ تب وہ اعمال بھی جنہیں لوگ ’’دنیا کے اعمال‘‘ سمجھتے ہیں تمہارے حق میں ’’عبادت‘‘ اور ’’توشۂ آخرت‘‘ ٹھہرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ اعمال بھی جنہیں لوگ ’’مذہب‘‘ اور ’’اعمالِ آخرت‘‘ کے تحت درج کرتے ہیں فی الواقع ’’دنیا کے اعمال‘‘ رہتے ہیں؛ اگلے جہان تک چل کر جانا اِن کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی۔ تو پھر یہ سارا فرق اُس ’’قلب‘‘ سے آیا جو درحقیقت ’’عبادت‘‘ اور ’’نیت‘‘ کا محل ہے۔
انسان کی کل حقیقت اصل میں اس کا یہ قلب اور شعوراور وجدان ہی ہے۔ باقی اشیاء میں تو جانور شاید انسان سے کہیں آگے ہوں!
پس تمہارے وجود کا وہ حصہ جو ’’عالم‘‘، ’’باخبر‘‘ اور ’’اِدراک کا محل‘‘ ہے، اور جہاں ’’امانت‘‘ اور ’’دانائی‘‘ پنپتی ہے، وہ تمہارا قلب ہے۔
یہی درحقیقت شرائع کا مخاطَب، اِسی سے عالم بالا کے سب تقاضے اور مطالبے، اور یہی ثواب و عذاب کا اصل محل۔
علم کا محل بھی یہ اور تقویٰ کا بھی۔ اخلاص کا بھی صدرمقام یہ اور نفاق کا بھی۔ محبت کا بھی اور بغض کا بھی۔ یقین کا بھی اور شکوک و وسواس کا بھی۔ کفر ہوتا ہے تو وہ درحقیقت یہاں ہوتا ہے۔ ایمان ٹھاٹھیں مارتا ہے تو وہ اِس چشمے سے پھوٹ کر آتا ہے۔ خشیت، انابت، طمانینت سب اِسی منبع سےنکلتے ہیں۔
پس خدا کا عالم، خدا سے اتصال کرنے والا، خدا کے ہاں تقرب پانے والا، خدا کا نوکر اور مزدور، خدا کی جانب دوڑ لگانے والا، اور خدا کا مجاور جا بننے والا کوئی گوشہ تمہارے اندر رکھ چھوڑا گیا ہے تو وہ اصل میں تمہارا یہ دل ہے؛ باقی اعضاء تو محض اِس کے چلائے چلتے اور اِس کے بٹھائے بیٹھتے ہیں۔
یہی وہ گوشہ ہے جو خدا کے ہاں اصل میں قبول ہوتا ہے؛ بشرطیکہ وہ ’’غیراللہ‘‘ کی آلائش سے بچ گیا ہو۔
یہی وہ گوشہ ہے جو درماندہ اور باریابی سے محروم رہتا ہے؛ اگر وہ ’’غیراللہ‘‘ کے زیرتسلط رہ گیا ہو۔
یہی ہے جو تزکیہ پا کر فلاح پاجاتا ہے۔ اور یہی ہے جو گناہ میں لت پت ہو کر نامراد پڑا رہتا ہے۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا[6]
’’روشنی‘‘ یہاں سے پھوٹتی ہے؛ اعضاء محض اسی کی شعاعوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔
’’تاریکی‘‘ اور ’’بدکاری‘‘ یہاں جنم لیتی ہے؛ اعضاء صرف ان غلاظتوں کے باہر آنے کے راستے ہیں۔
اِس کی صحت سے پورے وجود کی صحت۔ اِس کے فساد سے پورے وجود کا فساد۔
بقول ابن القیمؒ:
نفس کی دنیا میں ہزاروں ڈاکو گھات لگائے بیٹھے ہیں جو ’’عمل‘‘ پر شبخون مارتے ہیں؛ اور اسے خدا تک پہنچنے کا رہنے ہی نہیں دیتے۔ یہ تمام تر راستہ طے کر کے خدا تک وہی عمل پہنچتا ہے جو شروع تا آخر ’’اخلاص‘‘ پر ہو؛ یعنی خالصتاً خدا کا طالب اور خدا کا مطلوب ہو؛ مگر وہ ہزاروں راہزن ’’عمل‘‘ پر یہ منزل آنے ہی نہیں دیتے۔ راستے میں کہیں کِبر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ کہیں خود پسندی۔ کہیں نخرے۔ کہیں عمل ہی کو کچھ سمجھ بیٹھنا۔ کہیں خدا کی ممنونیت کا جاتا رہنا۔ کہیں خوف کی کمی۔ کہیں امید کی کمی۔ کہیں محبت کا روپوش ہونا۔ کہیں خدا کی جانب التفات کا ناپید ہونا۔ کہیں طلبِ آخرت کا مفقود ہونا۔ کہیں خدا کےلیے دوستی مفقود، کہیں خدا کےلیے دشمنی مفقود۔ کہیں حق و باطل کا فرق روپوش، تو کہیں خدا کے دوستوں اور خدا کے دشمنوں میں تمییز غائب۔ کہیں شک اور بےیقینی، تو کہیں ناشکری، تو کہیں بےخوفی، تو کہیں ناامیدی۔ کہیں اِعراض تو کہیں بےرغبتی وبےرُخی۔ ہزاروں وسوسے، ہزاروں خطرات اور ہزاروں پوشیدہ سقم۔ اِن سب راہزنوں سے اپناآپ بچا کر ’’عمل‘‘ نے خدا تک پہنچنا ہوتا ہے۔ بہت سے ’راہ گیر‘ ایسے ہیں جو راستے میں ہی کہیں لٹ پٹ جاتے ہیں۔ کوئی ہی ’’عمل‘‘ ہے جو یہ پورا جنگل گزر کر خدا تک پہنچتا ہے!
پس… بقول ابن القیمؒ:
- ایک مسافت قلب اور عمل کے مابین ہے؛ جسے آدمی کو طے کرنا ہوتا ہے۔ اِس کے بغیر عمل ’’عمل‘‘ ہی نہیں ہوتا۔
- عمل جنم پا لے… تو پھر ایک مسافت قلب اور پروردگار کے مابین ہے؛ جسے ہر حال میں طے کرنا ہوتا ہے۔ اِس کے بغیر عمل خدا کے ہاں ’’باریاب‘‘ ہی نہیں ہوتا۔
پس قلب کو پورا زور صرف کردینا ہوتا ہے کہ:
- اپنا رخ مسلسل اللہ اور دارِ آخرت کی طرف رکھے
- حق کا راستہ اور حق کا منہج مسلسل نگاہوں کے سامنے رہے
- نفس اور عمل کی آفتوں سے مسلسل خبردار
- اور راہزنوں سے مسلسل ہوشیار۔
اور اس کےلیے اسے پانچ چیزیں درکار رہیں گی:
- دل کا زندہ وبیدار رہنا
- توانا و تندرست رہنا، عزم و ہمت جوان رہنا
- دل کا نور نہ بجھنے دینا
- اپنے سمع و بصر پر پہرے بٹھا رکھنا
- اور راستے کی بھول بھلیوں سے بچتا چلا جانا۔
یہاں تک کہ منزل آجائے۔[7]
علمائے قلوب کا یہی کہنا ہے کہ قلب کو ’’زندگی‘‘ سے آشنا کرنے کےلیے کچھ دیر اس کے بوریت زدہ معمولات موقوف کردینا، گھسی پٹی روٹین سے نکال لانا اور کچھ غیرمعمولی اضطراب اور مرکوز ایمانی احوال سے گزارنا ضروری ہے۔ ہاں ایک بار وہ ’’راہ‘‘ پر چڑھ آئے تو پھر بےشک اس کے بہت سے معمولات ایک خاص نگرانی، بیداری اور انتظام کے تحت بحال کردیے جائیں۔ پھر وقفےوقفے سے اس کو ایسے ہی خصوصی احوال سے گزارا جاتا رہے۔
تو صاحبو! کیا خیال ہے اِس بار کا رمضان اِس ’’غیرمعمولی تبدیلی‘‘ کا ذریعہ بنایا جائے! ’’ایمان اور احتساب‘‘ کی ایک مرکوز ریاضت سے گزرا جائے!
آئیے خدا سے دعاء کریں کہ اس رمضان میں وہ اپنے فضل اور مہربانی سے ہمیں ’’قلوب کی زندگی‘‘ عطا فرمادے؛ رمضان کے موسم اور قرآن کی بارش سے یہ مردہ زمین ایک بار ہری بھری ہوجائے؛ قلوب کو وہ ’’حیات‘‘ نصیب ہوجائے جو تمام اعمال کی جان ہے۔
اللّٰهُمَّ إنِّي أسْألُكَ إيْمَاناً لا يَرتَدُّ، وَنَعِيْماً لا يَنْفَدُ، وَمُرَافَقَةَ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ، فِي أعْلىٰ جُنَّةِ الْخُلْدِ[8]
اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ[9]
*****
تمہاری منزل اور تمہارا مقصود خواہ کتنا بھی قیمتی ہو… سب سے مشکل کام اُس کی جانب پہلا قدم اٹھانا ہے۔ پس ایک مبتدی کےلیے جتنا بڑا سوال ’’منزلِ مقصود‘‘ کو جاننے اور اس کےلیے دلجمعی پیدا کرنے کا ہے، اتنا ہی اہم سوال اُس کی جانب ’’پہلا قدم‘‘ اٹھانے کا ہے۔
جو مرضی ’پروگرام‘ بنا لو، جو مرضی ’اہداف‘ طے کرلو، جو مرضی ’ارادے‘ باندھ لو… اصل سوال وہی رہے گاکہ اِس سفر کا آغاز کس طرح ہو۔
ہمیں معلوم ہے، ’’ہدف‘‘ کا تعین کرلینے کے بعد قاری کے ذہن میں اب یہی سوال کھڑا ہوگا۔ ’’چلنے‘‘ کا فیصلہ ہوچکا تو پھر یہ تین چیزیں آپ کی ضرورت ہیں:
- قوتِ عزم،
- صالحین کی صحبت
- خدا سے التجاء
اِن تین چیزوں پر جب تک انسان کی کل توجہ نہیں ہوجاتی، سمجھو وہ اپنے ’’مقصود‘‘ کے دعوے میں ہی سچا نہیں ہے۔ بھائی کہیں پہنچنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پل پل اپنے عزم کو دہراؤ؛ اور اپنے نفس کو یاد دلاؤ کہ یہ جوہرِ نایاب حاصل کیے بغیر میں ہرگز بیٹھنے کا نہیں (لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا) [10]۔ بار بار اس کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاؤ اور مسلسل مانگو۔ سجدوں میں اپنے اس مقصود کو تلاش کرو۔ اور پھر ایسے لوگوں کا ہاتھ تھام لو جن سے تم اِس راستے میں تحریک اور راہنمائی پاؤ۔ اِن تینوں وسائل کو اپنانے میں مبالغے کی حد تک چلے جاؤ۔
’’صحبت‘‘:
- ایک تو ان لوگوں کی جو تمہیں اِس مقصود کی جانب لےچلنے کےلیے ماحول میں میسر ہوں۔
- اور ایک ان لوگوں کی جن کو کتابوں میں پڑھنے اور مجلسوں میں سننے سے تمہارے قلب کو شادابی ملے اور تم زمان و مکان کی حدود سے نکل کر روزانہ کچھ ساعتیں ان کے ساتھ گزارو۔ یہ انبیاء و صالحین ہیں، جن کا ذکر سب سے پہلے تمہیں قرآن ہی میں ملتا ہے۔ پھر مغازی، سِیَر اور سوانح کی کتب ان سے بھری پڑی ہیں۔ صحابہؓ ومابعد ادوار کی وہ ہستیاں جو اپنے اپنے دور میں ’’ایمان‘‘ اور ’’استقامت‘‘ کی زندہ مثال بنیں۔
ایمان کو ’مجرد‘ شکل میں دیکھنے کی بجائے ’’انسانی پیکروں‘‘ میں دیکھو تو ایمان کی اصل حقیقت دل نشین ہونے لگتی ہے اور انسان اپنے اندر وہ چیز پاتا ہے جس کا تعلق ’’حقیقت‘‘ اور ’’عمل‘‘ سے ہے۔ پس ہر دم صالحین کے ساتھ رہنا؛ چاہے حاضر اور چاہے غائبانہ؛ قلب کا رخ بدل ڈالنے کےلیے بےحد مجرب دیکھا گیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سیدالبشرﷺ کی غائبانہ صحبت۔ رسول اللہﷺ کے ایام کو اگر عقیدت اور گرویدگی سے باربار پڑھو اور سنو تو آخر ایک مقام آتا ہے کہ قرآنِ مجید میں ڈوبنے کے لمحات میں بھی تمہیں رسول اللہﷺ کی یہ غائبانہ صحبت حاصل رہتی ہے۔ کیونکہ کلام اللہ کی سب سے پہلی مخاطب ہستی رسول اللہﷺ ہیں اور قرآنی خطاب کا بہت بڑا حصہ آپؐ ہی کو درپیش حالات و ایام کے گرد گھومتا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ پورے کا پورا قرآنی خطاب۔ تب آدمی ’’خطاب‘‘ اور ’’مخاطَب‘‘ سے بیک وقت فیض یاب ہوتا چلا جاتا ہے اور ’’عبادت‘‘ و ’’تعبد‘‘ کی حقیقت آدمی پر کھلتی چلی جاتی ہے۔ پس صحیح مقدمات کے ساتھ قرآن پڑھنا قرآن کے نظری و عملی جوانب ہردو کو کھولتا چلا جاتا ہے۔ البتہ رسول اللہﷺ اور صحابہ سے دور رہ کر قرآن پڑھنا طرح طرح کے مخمصے پیدا کرتا ہے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ’’حواریین واصحاب‘‘ کے ساتھ حد سے زیادہ وابستگی قرآن مجید سے خاطر خواہ فیض یاب ہونے میں بےشمار پہلوؤں سے ممد ہے۔ اِن ہستیوں سے دور ہوکر، یا ان کو معاذاللہ معمولی یا غیرضروری جان کر جس آدمی کو قرآن مجید ’بہت زیادہ‘ سمجھ آنا شروع ہوجائے، سمجھو وہ کسی روگ میں مبتلا ہے اور کسی گڑھے میں جا گرنے والا ہے۔
’’قلبِ سلیم‘‘ کی بنیاد اگر فطرت ہے، قلب کی حیات اگر قرآن سے اور اللہ کا ذکر اور آخرت کی جستجو کرنے سے ہے… تو اس کا سانچہ صرف اسوۂ صالحہ سے دستیاب ہوتا ہے۔ نہ صرف اِس کا مضمون بلکہ یہ جو ’’صورت‘‘ دھارتا ہے وہ بھی حددرجہ اہم ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا (الأحزاب: 21)
بےشک تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں عمدہ نمونہ ہے۔ ہر ایسے شخص کےلیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور اللہ کے بہت تذکرے کرنے والا۔
*****
کوئی ایسا نسخہ جس سے ہمارا ایمان بڑھنے لگے…؟ دل کو وہ چیز نصیب ہوجو عمدہ ترین اور خدا کے پسندیدہ ترین اعمال کو جنم دینے لگے؟
قرآن میں صراحت کے ساتھ جس چیز کو ’’ایمان بڑھنے‘‘ کا موجب ٹھہرایا گیا ہے وہ ’’خدا کی آیات‘‘ پڑھی اور سنی جانا ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کسی چیز کو ’’ایمان میں اضافہ کرنے والی‘‘ نہیں بتایا گیا:
وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (الانفال: 2)
اور جب اس کی آیات ان پر پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں
’’خدا کی آیات‘‘ کی یہ خصوصیت کہ یہ ایمان والوں کو ایمان میں اور بڑھائیں گی، صحابہ کے ماحول میں ایک معروف حقیقت تھی:
وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ (التوبۃ: 124، 125)
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سورت نےتم میں سے کس کے ایمان کو بڑھایا ہے سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو بڑھایا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں
اور جن کے دلوں میں مرض ہے سوان کے حق میں نجاست پر نجاست بڑھادی اور وہ مرتے دم تک کافر ہی رہے
پس بلاشبہ اگر ’’ایمان‘‘ کی حقیقت خوب سمجھ لی گئی ہو تو خدا کی آیات کا پڑھا جانا آدمی کے ایمان کو اور سے اور بڑھا دیتا ہے… یوں وہ ’’توانائی‘‘ پیدا ہونے لگتی ہے جو نفس اور معاشرے کی دنیا میں خیر کے سب منصوبوں کےلیے درکار رہتی ہے۔
[1] (العادیات: 6، 7، 8)
[2] (آل عمران: 26)
[3] (صحیح مسلم، رقم 1184)
[4] صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والآداب، باب لا تحاسدوا۔
[5] البقرۃ: 177 ’’نیکی اصل یہ نہیں کہ منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف؛ نیکی اصل یہ ہے کہ جو مومن ہوجائے اللہ کا…‘‘
[6] الشمس: 9، 10۔ ’’کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اسے پاک کرلیا۔ نامراد ہوا وہ شخص جس نے اسے خاک میں ملا دیا‘‘۔
[7] استفادہ از: مدارج السالکین، فصل ’’علامات الإنابة‘‘ ج1 ص 438۔
[8] سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني رقم (2301) ج 5 ص 379
[9] صحيح البخاري رقم (704)
[10] الکھف: 66 ’’میں ہٹنے کا نہیں جب تک مجمع البحرین نہ پہنچ لوں یا سالہا سال چلتا رہوں‘‘