السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
قارئین کرام
گزشتہ سہ ماہی میں امت مسلمہ کی ہچکولے کھاتی کشتی کو یکے بعد دیگرے تند و تیزطوفانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک طرف آسمان علم و فضل کا درخشاں تارہ کئی عشروں تک نظر کو خیرہ کر دینے والی چمک اور روشنی بکھیرتا آخر کار عالم فانی کو چھوڑ کر عالم ابد کی طر ف رواں دواں ہو گیا۔عصر حاضر کے مفکر ، داعی اور مجاہد شیخ محمد قطب ‘ہر رنگ میں جلنے کے بعد’اپنے حصے کی شمع روشن کر کے رب رحیم کی آغوشِ رحمت میں واپس چلے گئے ۔روایتی اسلام کی اصل برقرار رکھتے ہوئےعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا جو ملکہ شیخ محترم کو حاصل تھا وہ آج بھی عوام وخواص کی تربیت کرنے اورسیکولر لبرلسٹ طبقے کے شکوک و شبہات کو رفع کر دینے کیلئے کفایت کرتا ہے۔جدید جاہلیت کے عفریت سے خبردار کرنے والے اس مردِ دوراندیش کی تنبیہ پر کان نہ دھرنے کا انجام انکے ہم وطنوںکوایک ‘شفاف جمہوری عمل ‘ کے ذریعے ۹۷ فیصد ووٹ لیکر، اقتدار میں آنے والے فرعون کے جانشین عبدالفتاح سیسی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے جس کے ہاتھ اسلام پسندوں کے خون سے رنگے گئے ہیں، جسکی جنگ اخوان یا اسکی قیادت سے نہیں بلکہ اسلام کی روح و غایت کا ادراک رکھنے والے ہر مسلمان سے ہے جو باطل سے ٹکر لینے کیلئے سر اٹھانے کی جسارت کرتا ہے۔
نام نہاد ‘ڈیموکریسی’ کا کرشمہ کہ شیطانوں کی اس ٹولی کا سرغنہ بشار الاسد حکومتی کنٹرول والے علاقہ جات میں ۸۸ فیصدووٹ حاصل کر کے تیسری مرتبہ ۷ سال کیلئے دفتر صدارت کےلیے اہل قرار دے دیا گیا ہے۔اس سے کسی کو کیا سروکار کہ اسکی گردن پر تقریبا دو لاکھ شہداء کاخون ہے جنھیں ختم کرنے کیلئے درندگی کی وہ وہ حدیں پار کی گئی ہیں کہ درندے دنگ رہ جائیں۔کیا فرق پڑتا ہے کہ ارض شام کےجو علاقے حریت پسندوں کے زیر اثر ہیں وہاں رائے دہی کا موقع دانستہ فراہم ہی نہ کیا گیا!مغربی تجزیہ نگار تک اس سب کو تمسخر قرار دینے پر مجبور ہو گئے ہیں مگر جمہوریت کا نفاذ’ترجیح’ ہے اور جمہوریت بھی وہ جو انکے تقاضوں پر پوری اترے ، اس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو تو ‘سب اچھا ہے’!فجارکی اسی کڑی میں ایک اور روسیاہ، سانحۂ بابری مسجد کے مرکزی مجرم ، گجرات میں ۲۰۰۰ مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار خونی بھیڑیے نریندرا مودی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہورت کے ایوان اقتدار تک رسائی دے دی گئی ہے اور امریکی صدر کی جانب سے ملاقات کی شدید خواہش کا بھی برملا اظہار کر دیا گیاہے۔خون مسلم اتنا ارزاں تو کبھی بھی نہ تھا مگر جمہوریت کے فیوض و برکات نے ایساممکن بنا ڈالا !
آزمائشوں کے اس دور میں کچھ ایسی حوصلہ افزا پیش رفت بھی ہے جو زخموں پر پھاہے کا کام دے رہی ہے۔ سرزمین عراق میں مجاہدین کی پیشقدی اور نوری المالکی کی رافضی حکومت کے مقابل سیسہ پلائی بن کر ڈٹے رہنا اس وقت امت کے حق میں فیصلہ کن محاذکی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آیت اللہ سیستانی کے فتوائے جہاد نے اہل تشیع کو بھڑکا کر رکھ دیا ہے مگر ۳۰ ملین عراقیوں کی امید بننے والے مجاہدین ٹھان چکے کہ موصل تو فتح کر چکے اور اب قافلے بغداد تک پہنچ کر ہی دم لیں گے ان شاءاللہ!ادھرمغربی کنارے میں ابن خلیل کے مجاہدین کے ہاتھوں تین اسرائیلی باشندوں کا اغوا صیہونیت کے ہو ش اڑا دینے میں کامیاب ہو چکا ہے اور وہ جدید ترین اسلحے اور آلات تفتیش ہوتے ہوئے بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ انتفاضہ کا لاوا فرزندان قدس کےاندر ہی اند ر پک رہا ہے اور اپنی تشنگی بجھانے کیلئے کسی وقت ابل پڑا تو یہودی مکر و فریب کو بہا کر لے جائے گا!
قارئین کرام ایک بار پھر رمضان کی ساعتیں آپکا مقدر بننے والی ہیں ۔رب العرش ایک موقع اور دے رہا ہے۔ ایسے میں جہاں نفوس کا تزکیہ و تربیت مقصود ہے وہاں خدارا امت کے ان رستے زخموں کو نظرانداز کرنے کا گناہ اپنے اعمال نامے میں درج کروانے سے گریز کریں۔خون نہ سہی دہائی تو دیں!دشمنان اسلام کو یہ پیغام تو دیں کہ جہاں امت کی بقا ء کا معاملہ ہو وہاں فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےآپ اپنی صفوں کو ترتیب دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں گے۔کون جانے کہ رحمتوں اور برکتوں کا یہ مہینہ نصرت و تمکین کے تہنیتی پیغام اپنے اندر سموئے ہو اور آپ سے آپکے حصے کی کاوش کا منتظر!دعا ہے کہ ہمارا شمار اس کاررواں میں نہ سہی، اسکے قدموں سے اڑنے والی خاک میں سے ہی ہو… رحمت خداوندی سے کیا بعید کہ وہ دھول ہی ہمارے لیے دنیا میں موجب فتح اور آخرت میں باعث نجات بن جائے ۔جنتوں کی راہ تکنے کی بجائے انکو پانے کی سعی اس ماہ مبارک سے کرنے کی نیت کریں، شاید علیین کے دفتر میں آپکا نام بھی درج ہو جائے..
واللہ ولی التوفیق والہادی والمعین…
تحریر: عائشہ جاوید