عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
فقیدِ امت محمد قطب کے چند زریں اقوال
:عنوان

ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہم نے جو راہ اختیار کی ہے وہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، بلکہ سعی و جہد، خون اور آنسوئوں کے درمیان سے ہو کر گزرتی ہے۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

فقیدِ امت محمد قطب کے

چند زریں اقوال

جمع و ترتیب:  ایقاظ ڈیسک

جیسا کسی قوم کا معبود ویسا اُس کا طرزِ حیات۔

واقعنا المعاصر

*****

تجربے سے ثابت ہے: ’’ماحول‘‘ ایک ایسی بےرحم اور زوردار حقیقت ہے کہ اسے کوئی چیز مات نہیں دے سکتی۔ کوئی چیز اسے ہلاجلا نہیں سکتی۔ ’’ماحول‘‘ پر صرف ایک ہی چیز غالب آسکتی ہے؛ اور اس کا نام ہے ’’عقیدہ‘‘!

مكانة التربية في العمل الإسلامي

*****

اشیاء کو جانچنے کی بنیاد یہ نہیں کہ ’’عالمِ موجودات‘‘ میں کوئی چیز موجود ہے یا غائب۔ جانچنا یہ ہوتا ہے ’’عالمِ نفس‘‘ میں کونسی چیز موجود ہے اور کونسی چیز غائب!!!

دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اِس ’’عالم نفس‘‘ میں کس چیز نے کس قدر جگہ گھیر رکھی ہے!!!

’’یہاں‘‘ کونسی چیز کتنی بڑی ہے اور کتنی چھوٹی!!! یہی چیز آخر خودبخود انسان کے کردار میں جھلکتی ہے۔

پس ضروری نہیں کوئی چیز خارج میں جتنی بڑی ہو عالم نفس میں بھی اتنی ہی بڑی ہو۔ اور خارج میں جتنی چھوٹی اور حقیر ہو عالم نفس میں بھی اتنی ہی چھوٹی اور حقیر ہو۔ اور نہ یہ ضروری ہے کہ انسان کے کردار میں اشیاء اپنے حقیقی حجم کے ساتھ بولتی ہوں۔

پس یہاں سے ’’حقائق‘‘ کو قرآن کی نظر سے دیکھنا اور ’’عالمِ نفس‘‘ میں گہرا اتارنا ضروری ہوجاتا ہے، جوکہ خودبخود کردار میں جھلک آتی ہے… اس کا نام ’’تربیت‘‘ ہے، اور یہی ’’تزکیہ‘‘۔

قبسات من الرسول

*****

جب کسی آسمانی دین پر وہ وقت آتا ہے کہ اُس سے ’’شریعت‘‘ اور ’’دستور‘‘ کا معنیٰ نکال دیا جائے، اور وه محض ایک ’مذہب‘ بن کر رہ جائے…

تو پھر اس دین کے علماء و فقہاء ’’زندگی اور معاشرے کے قائد‘‘ نہیں؛ بلکہ ’مذہبی شخصیات‘ بن کر رہ جاتے ہیں!

یہاں پوپوں اور پادریوں کا رنگ آنے لگتا ہے۔

لوگوں کو ’’راہ دکھانے‘‘ کی بجائے ’پار لگانے‘ کے دھندے چل نکلتے ہیں!

اور یہ خدا اور بندوں کے بیچ واسطہ بننے لگتے ہیں۔

یہ جہان اِن کے ہاتھ سے نکلتا ہے… تو یہ ’اگلے جہان‘ کے مالک بن بیٹھتے ہیں!

ان کے گرد ’’تقدسات‘‘ کا ایک ہالہ بُنتا چلا جاتا ہے۔

لوگوں کے دلوں پر ان کے ’پہنچے ہوئے‘ ہونے کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔

اور تب… روئےزمین پر بدترین قسم کا روحانی ’’طغیان‘‘ شروع ہوجاتا ہے۔

حول التأصيل الإسلامي للعلوم الاجتماعية

*****

ایسے ’ایمان‘ کا فائدہ؟…:

جب آدمی کے ’’نظریات‘‘ یہ کہہ رہے ہوں کہ خدا کی ذات بھی مطلق سچائی absolute truth   تک رسائی نہیں رکھتی!

’مومن‘ کی زبان سے جب آپ یہ سنیں کہ: انسانی علم و تجربہ خدا کے علم کے مقابلے پر کہیں زیادہ قابلِ بھروسہ ہے!

’’خدا اور اُس کی کتاب پر ایمان‘‘ جب یہ کہہ رہا ہو: ’انسانی تحقیق‘ خدائی شریعت کے مقابلے پر کہیں آگےکی چیز ہے اور معاشرے میں نفاذ کی زیادہ حقدار!

یہ ہے ’ایمان‘ کی وہ جدید قسم جو ہماری مادرہائے تعلیمی کے ایک بھاری بھرکم عمل کے ذریعے ہماری حالیہ نسلوں کو ازبر کرائی جارہی ہے!

موقع محمد قطب

*****

“علم” فریضہ ہے۔ اسی طرح اداکیاجاتاہےجس طرح نماز، روزہ اور زکات۔ چنانچہ فرمایاؐ:

“طلب العلم فريضة على کُلِّ مسلم”

“کُلِّ مسلم” … یعنی فرض عین نہ کہ فرض کفایۃ

موقع محمد قطب

*****

عقیدہ کے بغیر ہم مسلمان کوئی قوم نہیں بلکہ نری مٹی ہوتے ہیں۔ ہماری بڑی بڑی آبادیاں بھوسے کا ایک ڈھیر ہوتی ہیں۔ ہم منجمد برف ہوتے ہیں جو کسی تپش کو سہنے سے پگھل کر تحلیل ہوجاتی ہے۔

ہاں کوئی ہم میں ’’عقیدہ‘‘ کی جوت جگا دے… تو ہم معجزے کرتے ہیں اور ایک دنیا کو تلپٹ کردینے کا برتہ رکھتے ہیں۔

ہماری پوری تاریخ اِس حقیقت کے شواہد سے بھری ہوئی ہے۔

معركة التقاليد

*****

یہودی توپ سے نہیں ڈرتا؛ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اِس توپ کے پیچھے کون کھڑا ہے!

توپیں اور ٹینک تو اُن کے اپنے پاس بہت ہیں۔ وہ ہماری توپوں سے کیا ڈریں گے۔ ان کو ڈراتا ہے وہ “مسلمان” جس کے اندر یہ لاالٰہ الااللہ بولتا ہے اور جس کے انگ انگ میں یہ جذبۂ شہادت بھرتا ہے اورجوکہ اِسی کلمہ کا خاصہ ہے۔ ہاں ایسا مسلمان ہو تو نہتا اُن کے اوسان خطا کرتا ہے!

ہمارا سب سے کاری ہتھیار ہمارا لاالٰہ الااللہ ہے، یہودی کی جان جاتی ہے تو اِس سے!

افغانستان پر روس قابض ہوا تو یہی ممولا شبہاز سے جابھڑا تھا! اِسی نے امریکہ کے برج الٹے۔ اور اِسی نے آج ارضِ فلسطین میں بنی صیہون کی نیندیں حرام کررکھی ہیں!

از کتاب ’’مفہومات‘‘

*****

ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنے فوجی جوان کو بس لاالٰہ الا اللہ دو، توپ مت دو – جیساکہ آج کچھ لوگ سادہ لوحی سے، یا سادہ لوح بن کر، ہماری اس بات کو یہ مطلب پہناتے ہیں –  ہم کہتے ہیں اپنے اِس جوان کو جو جو ہتھیار دے سکتے ہو دو مگر تمہارے جوان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ لاالٰہ الااللہ ہے، اس کے سامان میں یہ کسی صورت مفقود نہیں ہونا چاہئے۔ توپ ضرور حاصل کیجئے، مگر اس کے پیچھے وہ مرد کھڑا کیجئے جس کے اندر لاالٰہ الااللہ بولتا ہے۔ اُس دن آپ دیکھیں گے یہی تھوڑا بہت اسلحہ آپ کو حیرت انگیز حد تک کفایت کرگیا ہے اور اس کے دَم سے، بھیڑیے اب سرزمینِ اسلام کی عزتوں اور آبروؤں کو بھنبھوڑنے کے لیے اِدھر کا رخ کرنا بھول گئے۔

اور یہ باتیں… ہمارے اپنے ’داناؤں‘ سے اوجھل ہوں تو ہوں، ہمارے دشمنوں کو خوب معلوم ہیں۔

از کتاب ’’مفہومات‘‘

*****

خراب کرنا مرجئہ کا دعوتِ لا الہ الا اللہ کو

(1)

تصور تو کریں، اِس لاالٰہ الا اللہ کے حوالے سے ’’تصدیق اور اقرار‘‘ سے بڑھ کر کچھ مطلوب نہ ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے خانہ کعبہ بتوں سے پاک ہوجاتا! اور پھر ایک خانہ کعبہ ہی نہیں، صرف مکہ ہی نہیں، صرف جزیرہ عرب ہی نہیں، جہان کا ایک بڑا حصہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوجاتا، شرک کی پلیدی دور دور تک باقی نہ رہتی اور چہاردانگ عالم اسلام کا ڈنکا بجنے لگتا، درحالیکہ اِس لاالٰہ الا اللہ کے لیے – بطورِ شرطِ نجات – کوئی تکلیف درکار تھی، نہ زحمت نہ مشقت اور نہ جہاد… کچھ مطلوب نہ تھا!

اِس لا الٰہ الا اللہ کے حوالے سے صرف ’’تصدیق اور اقرار‘‘ ہی مطلوب ہوتا تو کیا مدینہ میں اسلام کو کوئی دولت میسر آتی؟ اس لا الٰہ الا اللہ کے لیے ہجرتیں کرنا، گھر چھوڑنا، رشتے قربان کرنا اِس پر ’’ایمان‘‘ کی تعریف میں ہی نہیں آتا؛ ’’ایمان‘‘ اِن سب مصائب کو گلے لگائے بغیر بھی معرضِ وجود میں آجاتا ہے اور جنت اِن سب جان جوکھوں کے بغیر بھی کھری ہے تو اِس دعوت اور اِس نبیؐ پر جان نچھاور کرنے اور اس کی خاطر عرب و عجم کی دشمنی مول لے آنے کا تصور ہی کہاں سے آگیا؟ چند برس کے اندر اندر جزیرۂ عرب کا اسلام کی قلمرو بن جانا، اور پھر ’’ایمان‘‘ کے اِس سیلِ بلاخیز کا پورے جہان کو تہ آب لے آنا اور نصف صدی کے اندر اندر بحر ابیض تا بحراوقیانوس تا بحرہند اِس دین کے ڈنکے بجنا… یہ سب تو رہا ایک طرف؛ اِس نبیؐ کی اکیلی جان کو پناہ ملنا ہی کہاں متصور ہے؛ اِس کی ’’تصدیق‘‘ کرکے ہم فارغ تو ہوچکے؛ باقی تکلیفیں اٹھانا کہاں ‘‘ایمان‘‘ کی تعریف میں شامل ہے؟!

(2)

مسلمانوں نے اگر یہ سمجھا ہوتا کہ اِس لاالٰہ الا اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے بس اس کی تصدیق اور اقرار کرنا… تو مدینہ میں اِس شجر کو خون کون دیتا؟ یہودی اِس دین اور اِس نبی کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تو کرتے رہیں، باہر سے مشرکین قریش اس کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی تیاریاں کررہے ہیں تو کرتے رہیں، جزیرۂ عرب میں اِس نوخیز ریاست کے پائے مضبوط کرنے ہیں ، اور روم اور فارس کی دیوہیکل شہنشاہتوں کو صفحۂ ہستی سے ختم کرکے کرۂ ارض پر اِس لا الٰہ الا اللہ کے پھریرے لہرانے ہیں، اور اسلام کی اِس شریعت اور اِس تہذیب کو روئے زمین کا مرکزی ترین واقعہ بنانا ہے… تو یہ سب ہوتا رہے؛ آخر ہم سے تو اِس لاالٰہ الا اللہ کے حوالے سے’’اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب‘‘ ہی مطلوب ہے نا جس کے بدلے میں نجات اور جنت کا ہم سے وعدہ ہے؛ پورے روئے زمین کو ہلا کر رکھ دینے سے ہمارے اِس لاالہٰ الا اللہ پڑھنے کا تعلق؟!

(3)

آدمی کے أشهد أن لا اله الا الله واشهد أن محمدا رسول الله  بولنے میں ہی یہ بات ضمناً  شامل ہے کہ ’’خدا کی جانب سے آنے والی ہر چیز مجھ کو قبول ہے اور اس کی اتاری ہوئی شریعت میری زندگی کا واحد دستور ہے‘‘۔

اور جب یہ بات اُس کے ’’اقرارِ لاالٰہ‘‘ میں شامل ہے تو جیسے ہی وہ اپنے اِس حلف سے پھرے گا اور شریعتِ خداوندی کے ماسوا کسی چیز کو اپنا آئین بنائے گا تو اُس کا وہ ’’اقرارِ لاالٰہ‘‘ ہی کالعدم قرار پا جائے گا۔ ہاں اب اُس کا وہ ’’اقرارِ لاالٰہ‘‘ اُس کے حق میں نہیں بلکہ اُس کے خلاف حجت ٹھہرے گا۔

پس مرجئہ کی یہ دلیل صرف اس صورت میں معتبر ہوگی اگر اِس کو معنیٰ اور دلالت سے خالی ایک کلمہ مان لیا جائے… ظاہر ہے ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کی بابت اس سے بڑھ کر کوئی بیہودہ اور لغو بات نہیں ہو سکتی۔

(4)

یہ ایک معلوم دعوت ہے۔ ایک معلوم معاشرہ ہے۔ ایک معلوم مطالبہ اور معلوم تقاضا ہے۔ ’’انسان سے محمدﷺ کا مطالبہ‘‘ کسی ایک دن اوجھل نہیں ہوا۔ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اس کا محض عنوان ہے۔ کوئی ایک شخص دنیا میں ایسا نہیں، نہ دورِ نبوی میں اور نہ آج تک، جو ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے اِس دروازے کے پیچھے کسی عمارت کے وجود سے لاعلم ہو۔ یہ صرف مرجئہ کی جدلیات ہیں جو ’’دروازے‘‘ کے پیچھے ’’عمارت‘‘ کو گول کرجاتی ہیں اور ’بحثوں‘ کی نوبت لے آتی ہیں؛ ورنہ عقول اور بدیہیات یہ قبول کرنے سے ہی ابا کرتی ہیں کہ ایک ’’دروازہ‘‘ لازماً کسی ’’احاطے‘‘ میں نہ کھلے۔ مرجئہ ہمیں ایک ایسے دروازے کی خبر دیتے ہیں جس کے پیچھے کوئی چاردیواری ہے اور نہ کوئی حدود اور نہ قیود! ایک چوپٹ دنیا؛ جس کی جانب ان کی ’کلمہ گوئی‘  کا یہ دروازہ کھلتا ہے! محمدﷺ کی لائی ہوئی دعوت، عالمِ انسان سے آپؐ کا مطالبہ، آپؐ کا قائم کردہ معاشرہ، اور اس معاشرے کا دستور اور آئین اس سے کہیں واضح اور کہیں برگزیدہ ہے کہ یہ ’دو لفظوں‘ کی مار ہو؛ جس کے پیچھے نہ کوئی حقیقت، نہ دلالت، نہ عہد، نہ التزام، نہ واجبات اور نہ فرائض اور نہ پابندی! دورِنبوت سے آج تک ہر کسی کو محمدﷺ کے دین میں آنے کا یہ مطلب پیشگی معلوم ہے کہ یہ پورا ایک دین ہے؛ اور یہ کہ جو شخص آپؐ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے اُس کو دن میں پانچ بار خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے، رمضان کے تیس دن صبح سے شام تک خدا کی تعظیم میں بھوک پیاس سہنا ہے۔ اپنے مال کا ایک حصہ نکال کر ہر سال خدا کی راہ میں پیش کرنا ہے، اور حسب استطاعت زندگی میں ایک بار خدا کے گھر کا طواف کرکے آنا ہے، خدا کے نازل کردہ احکام کو اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حلال اور حرام کو اپنے لیے آئین ماننا ہے اور حق وباطل اور درست نادرست اور روا وناروا کی بابت خدا جو فرمادے یا اُس کا رسول جو فرمادے اُس کو حتمی وآخری تسلیم کرنا ہے۔ دینِ محمدؐ کی بابت ہر کس و ناکس پیشگی جانتا ہے کہ یہاں اِن باتوں کی پابندی ہے؛ اور اس کے ’’مسلمان‘‘ ہونے کا آپ سے آپ یہ مطلب ہوگا کہ وہ ان باتوں کا پابند ہے۔

(5)

منافقین نہ تو توحید کے مسئلے پر بحث کرتے، نہ ہی عبادات کے مسئلے پر بحث کرتے (اگرچہ ان کے ادا کرنے میں سستی اور بددلی دکھاتے)۔ مگر سوسائٹی سے متعلقہ احکام اور ضابطوں سے، جو “شریعت” کی صورت میں اتارے جارہے تھے، ان کی جان جاتی۔ یہاں؛ وہ “اعراض” کرتے۔ یہ (سماجی) زنجیریں سب سے گراں تھیں۔ اِس سے بھاگنے کی وہ پوری کوشش کرتے اور طاغوت کے حکم اور دستور کی جانب لوٹنے کی ہر صورت نکالتے۔ چنانچہ مدینہ کے اندر قرآنی آیات منافقین کے تذکروں کے دوران بے شمار پہلوؤں سے حکم بما انزل اللہ کے مسئلے کو لے کر آتی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ اُس وقت کا ’برننگ ایشو‘ یہی تھا: سوسائٹی میں رائج ضابطے اور دستور۔ (اور آج بھی ’برننگ ایشو‘ یہی ہوگیا ہے!) یہاں؛ دوٹوک انداز میں فرمانِ خداوندی جاری کیا جاتا ہے: أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْماً لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدة 50) ’’تو کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک فیصلہ کرنے میں اللہ سے بہتر کوئی نہیں ہے‘‘۔

(6)

مسلم معاشرے ہوں اور شریعت نہ ہو، تیرہ صدیوں تک کوئی آپ کو یہ پہیلی بوجھ کر نہ دے سکتا تھا! شریعت کو ہٹا کر اور اس کی جگہ پوری کی پوری غیراسلامی شریعت کو لاکر دھر دیا جائے، اور اس سے اسلام اور ایمان کو کچھ فرق نہ آئے، یہ بات کسے سمجھ آسکتی تھی؛ اور مرجئہ جدید سے پہلے یہ بات کیسے کسی کے دماغ میں بیٹھ سکتی تھی؟شریعت کو (معاذ اللہ) ردی میں پھنک دیا جانے کا تصور آدمی کرسکتا تھا تو وہ یہ کہ خدانخواستہ کسی وقت مسلمان ملک پر صلیبیوں وغیرہ کا قبضہ ہوجائے۔ مگر یہ کام ’مسلمان‘ کے ہاتھ سے بھی ہوسکتا ہے، یہ کسی کے وہم و گمان میں کیسے آسکتا تھا؟
مگر صلیبی استعمار کی چند عشروں کی محنت نے یہاں کیا کیا کرشمے نہیں کردیے…!
میں اپنی دیگر تصانیف میں اس پر قدرے تفصیل سے بات کرآیا ہوں کہ اس صلیبی برین واشنگ نے یہاں کیا کیا کارنامے کر کے دیے ہیں، اس کی فکری یلغار، تعلیمی نصاب اور مناہج، ذرائع ابلاغ، اس کی دی ہوئی ادبیات اور فکریات، اُس کا چلایا ہوا سیاسی عمل، تحریکِ نسواں، اخلاق اور اقدار کے بخیے ادھیڑنے کے گوناگوں انتظامات… اور نہ جانے کیا کیا کچھ جو یہاں ‘مسلمان بغیر اسلام’ نام کی جنس متعارف کرانے کے لیےمیدان میں لا پھینکا گیا… اور بالآخر یہ قسم ایجاد ہوگئی یعنی ’مسلمان بغیر اسلام‘، ساتھ میں مرجئہ جدید کے دھڑا دھڑ سرٹیفکیٹ!

از کتاب ’’مفہومات‘‘

*****

دراصل ارجائی فکر نے جو حشر ’’ایمان‘‘ کا کیا اور اس عظیم چیز کو خالی ’تصدیق اور اقرار‘ میں بھگتادیا اگرچہ عمل، رویہ، سلوک اور کردار  میں اسکی کوئی جھلک تک نہ ہو… ویسا ہی حشر اس نے حدیث میں مذکور اِس ’’ومن جاھدھم بقلبه‘‘ اور ’’فَمَن كَرِه‘‘ کا کیا۔ یعنی یہ کچھ اس طرح کا ’دل سے برا جاننا‘ ہے جس کو ساری عمر دل کے نہاں خانے میں دفن رہنا ہے؛ آدمی کے تیور اور رویے چاہے ہمیشہ اس سے بیگانہ رہیں! حالانکہ حدیث ایک باقاعدہ ’’مزاحمت‘‘ کی شرط لگاتی ہے: من جاھدھم بقلبه۔ یعنی یہ آدمی باطل کے خلاف ہونے والے جہاد میں کم از کم دل کے ساتھ شریک ضرور ہے۔اس سے کمتر ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں؛ ازروئے حدیث۔ رہا مرجئہ کے طریقے پر ہونے والا ’قلبی انکار‘ تو اُس کا معاملہ ویسا ہی ہوگا جیسا مرجئہ کے طریقے پر رکھا جانے والا ’ایمان‘؛ نہ اُس سے کچھ برآمد اور نہ اِس سے کچھ حاصل!ایک باقاعدہ ’’مزاحمت‘‘ کی شرط لگاتی ہے: من جاهدهم بقلبه۔ یعنی یہ آدمی باطل کے خلاف ہونے والے جہاد میں کم از کم دل کے ساتھ شریک ضرور ہے۔اس سے کمتر ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں؛ ازروئے حدیث۔ رہا مرجئہ کے طریقے پر ہونے والا ’قلبی انکار‘ تو اُس کا معاملہ ویسا ہی ہوگا جیسا مرجئہ کے طریقے پر رکھا جانے والا ’ایمان‘؛ نہ اُس سے کچھ برآمد اور نہ اِس سے کچھ حاصل!یث ایک باقاعدہ ’’مزاحمت‘‘ کی شرط لگاتی ہے: من جاهدهم بقلبه۔ یعنی یہ آدمی باطل کے خلاف ہونے والے جہاد میں کم از کم دل کے ساتھ شریک ضرور ہے۔اس سے کمتر ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں؛ ازروئے حدیث۔ رہا مرجئہ کے طریقے پر ہونے والا ’قلبی انکار‘ تو اُس کا معاملہ ویسا ہی ہوگا جیسا مرجئہ کے طریقے پر رکھا جانے والا ’ایمان‘؛ نہ اُس سے کچھ برآمد اور نہ اِس سے کچھ حاصل! محمد قطب (’’حدیث میں مذکور قلبی مجاہدہ اور ارجائی فکر‘‘ ۔

از کتاب ’’مفہومات‘‘

*****

صرف ’’سمع وطاعت‘‘ پر تربیت دینا ’سپاہی‘ اور ’کارکن‘ تو پیدا کردے گا مگر ’’لیڈر‘‘ پیدا نہیں کرے گا!

مكانة التربية في العمل الإسلامي

*****

سیاست اور سیاسی واقتصادی وسماجی محکموں اور فکری وتعلیمی شعبوں سے بےدخل کردیا جانے والا دین کوئی بھی دین ہوسکتا ہے سوائے اُس ایک دین کے جو ’’آسمان سے نازل ہوا‘‘۔

موقع محمد قطب

*****

شریعت اِس امت پر عائد ایک ربانی عہد اور آسمانی فریضہ ہے۔

شریعت کا اس بات سے کیا تعلق کہ اس کو کتنے ووٹ پڑتے ہیں۔ اس کو اس بات سے کیا واسطہ کہ لوگوں کو یہ منظور ہے یا نامنظور۔ اس کو نامنظور کرنے کا تو کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا اور جو یہ اختیار رکھے گا وہ مسلمان کہاں رہے گا!؟

واقعنا الماصر

*****

لطف و نرمی بےشک واجب ہے… مگر حق بتانے کے عمل میں، نہ کہ حق چھپانے کے عمل میں!

موقع محمد قطب

*****

ہمارا سب سے بنیادی اور سب سے بڑا مسئلہ لوگوں پر حکم لگانا نہیں بلکہ لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے۔

واقعنا المعاصر

*****

قرآن وہ چشمہ ہے جس کے سوتے کبھی خشک ہونے کے نہیں۔ مگر یہ انسانوں کو دیتا اُن کے ’’ظروف‘‘ کے بقدر ہے۔

موقع محمد قطب

*****

انسان اپنی فطرت میں  ’’عبادت کرنے والا‘‘ ہے۔ سوال ’’معبود‘‘ کی نوعیت کا ہے!

موقع محمد قطب

*****

مسئلہ عبادت کرنا نہیں؛ عبادت تو ہر شخص کر رہا ہے۔ مسئلہ ’’صحیح عبادت‘‘ کا ہے۔ یا یوں کہو کہ مسئلہ ’’معبود‘‘ کے تعین کا ہے!

موقع محمد قطب

*****

وہ اسلام کے دشمن ہیں؛ کسی اور سبب سے نہیں؛ بس اس لیے کہ یہ اسلام ہے۔

وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں؛ کسی اور سبب سے نہیں بس اس لیے کہ یہ مسلمان ہیں۔

فرانسیسی جنرل گوروڈ 1920 میں دمشق فتح کرتا ہے تو صلاح الدین ایوبی﷫  کی قبر پر خم ٹھونک کر کہتا ہے: صلاح الدین! دیکھو ہم آگئے۔ ظاہر ہے ابھی ’نائن الیون‘ نہیں ہوا تھا!

موقع محمد قطب

*****

تہذیب سب سے پہلے اقدار کا نام ہے۔ انتظامی عبقریت اور مادی بہبود کے مظاہر اس کے بعد آتے ہیں۔

موقع محمد قطب

*****

یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ وہ امت کو ایک ایسے حال میں تمکین نہیں دیتا جب وہ اُس کے راستے سے بھٹکی ہوئی ہے۔  وہ اسے ایسے حال میں تمکین دینا چاہتا ہے جس سے وہ خود راضی ہو۔

موقع محمد قطب

*****

قرآن بلاشبہ ہدایت اور معرفت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔ حرکت اور زندگی سے لبریز ہے۔ مگر ان خزانوں کو ایک کنجی لگتی ہے، اس کا بندوبست البتہ تمہیں ہی کرنا ہوگا۔ یہ کنجی ہے ’’ایمان‘‘۔  ’’ایمان‘‘ کی کنجی کے بغیر البتہ ’’قرآن‘‘ کے خزانے نہیں کھلتے۔

موقع محمد قطب

*****

یوں نہیں ہوتا کہ ایک پلڑے میں آپ ’’آزادی‘‘ رکھ دیں گے اور دوسرے میں ’’قید‘‘… اور پھر فیصلہ کرنے چل دیں گے کہ کونسی چیز بہتر ہے!

نہیں بھائی، معاملہ یوں نہیں ہوتا۔ ہر ’’آزادی‘‘ کی کچھ ’’قیود‘‘ ہوں گی اور ہر ’’قید‘‘ میں کچھ ’’آزادیاں‘‘ ہوں گی۔  پس ہر دو پلڑے میں تمہیں قیود بھی رکھنا ہوں گی اور ان سے مناسبت رکھنے والی آزادیاں بھی۔ یہ کرنے کے بعد پھر تولنا ہوگا کہ کس کا ’’پیکیج‘‘ وزنی اور معقول ہے۔

موقع محمد قطب

*****

ہر آزادی کسی قید کے ساتھ جُڑی ہے۔ ہر قید کسی آزادی کے ساتھ جُڑی ہے۔ انسانی زندگی اِس قانون سے نکل ہی نہیں سکتی!

موقع محمد قطب

*****

انبیاء کے پیروکاروں کو دیکھ کر جاہلیت کے وجود میں وہی سنسنی دوڑتی ہے جو چور کے وجود میں کوتوالی کو دیکھ کر! وہ انبیاء کے پیروکاروں کو ’خطرہ‘ دیکھے بغیر رہ ہی نہیں سکتی؛ خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو!

پس اِس ’منافرت‘ کے اسباب خارج میں ڈھونڈنا فضول ہے؛ چور اور کوتوال کا تعلق ہی کچھ ایسا ہے؛ خواہ چور کے ہاتھ کسی وقت کتنے ہی لمبے کیوں نہ ہوگئے ہوں اور کوتوال کتنا ہی بےبس کیوں نہ ہوگیا ہو!

موقع محمد قطب

*****

ہر وہ حکومت جو  ’’مَا أنۡزَلَ اللّٰہ‘‘  کے مطابق فیصلہ کرے وہ ایک شرعی حکومت ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کس شکل اور کس طریقے سے قائم ہے۔

موقع محمد قطب

*****

اطلاق[1]  اور تعیین[2]  کا فرق:

ہمیں اس بات سے کوئی غرض ہونی ہی نہیں چاہئے کہ ہم کسی شخص کو کہیں کہ تم مشرک ہو یا اس کے بارے میں لوگوں کو بتائیں کہ وہ مشرک ہے۔ ہمیں جس بات سے غرض ہے اور جو کہ ہمارا فرض منصبی ہے وہ یہ بتا دینا ہے کہ تم جو کر رہے ہو یہ شرک ہے اور حکمت ودانائی اور موعظہ حسنہ کے ذریعے اسے یہ دعوت دینا ہے کہ وہ اس شرک سے نکل آئے اور اسلام کی حقیقت کو اپنا لے۔

(’’دعوت کا منہج کیا ہو‘‘ ص56)

’’ہمارے اِس نقطے پر پہنچ لینے کے بعد، کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اب تو لازماً ہم لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے! ظاہر ہے یہاں پر شریعت کا دستور نہیں ہے اور ہم نواقضِ لاالٰہ الا اللہ بیان کررہے ہیں!

لہٰذا ہمارے اِس بیانِ لاالٰہ سے ان کو خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اب لوگوں کی تکفیر شروع کی جائے گی! اور اس خدشہ کی بنا پر ضروری ہے کہ یہ ہمارے لاالٰہ الا اللہ کے اِس اصولی بیان کو ہی سرے سے مسترد کردیں، کیونکہ اگر انہوں نے اس اصول سے اتفاق کر لیا تو لامحالہ ان کو فتوے بھی لگانے پڑیں گے…!‘‘

محمد قطب کے مذکورہ بالا کلمات سے پہلے فکرِ ارجاء کا مرثیہ یوں بیان ہوا:

’’اِس نئے انتظام کے تحت جتنا جتنا اسلام مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہا، اُتنااُتنا ارجائی فکر وہاں تسلی دلانے کو موجود ہوتا…! حکم بما اَنزل اللہ (شریعت کا حاکم اور بالاتر ہونا) اپنے یہاں سے چلا گیا تو کیا ہے، اسلام تو باقی ہے؛ یہ تو محض ایک ’عمل‘ ہے اور اس سے کوئی کفر تھوڑی ہوجاتا ہے! اسلام کے جملہ فرائض کا ترک ہوگیا، تو کیا ہے؛ اسلام تو باقی ہے؛ ’اعمال‘ کوئی ایمان کا حصہ تھوڑی ہے؛ یہ تو خوارج کا مذہب ہے؛ بھائی لوگ کلمہ تو پڑھتے ہیں؛ ’تصدیق‘ اور ’اقرار‘ باقی ہے تو اِن سب نظریات، اِن سب افکار، اِن سب نظاموں، اِن سب طرزہائے حیات اور اِس سب تہذیبی کایاپلٹ کے باوجود آدمی کی مسلمانی تو پوری طرح برقرار ہے!‘‘

از کتاب ’’مفہومات‘‘ ص 125

چنانچہ پہلا پیرا ایک طرح کے انحراف پر تنبیہ ہے تو دوسرا پیرا دوسری طرح کے انحراف پر

میں اپنی تحریروں میں جابجا متنبہ کرچکا ہوں کہ ہمارے اِس مطلوبہ مشن میں لوگوں پر فتویٰ لگانا سرے سے نہیں آتا۔ ہمارا مسئلہ اس سے کہیں بڑا اور سنجیدہ ہے…
سرزمین اسلام میں آج جو لوگ اسلام یا کفر کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے فتوے سے نہ وہ جنت میں داخل ہونے والے ہیں اور نہ جہنم میں! ان کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔ ہم کسی مملکت کی سرکار نہیں جسے مرتدین کا تعین کرنا ہو کہ وہ کس کس پر حد لگائے اور کس کس کو چھوڑے! ہم تو ہیں فی الحال محض ایک دعوت، جس کو ایک امانت لوگوں تک پہنچاکر اپنے فرض سے سبکدوش ہونا ہے۔ اور یہ امانت ہے لوگوں پر اسلام کی حقیقت واضح کردینا، اسلام کی اِس غربتِ ثانیہ میں ان کے دین کے حقائق کو روشن اور جلی کردینا…

از کتاب ’’مفہومات‘‘ ص126

*****

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا…!!!

غربتِ اسلام کا نوحہ

یہ سب روگ جب مل کر اُمت کے وجود کو لاحق ہوئے… تو دو بہت بڑے بڑے واقعات اُمت کی زندگی میں رونما ہوئے جبکہ ان دونوں کی ہی رسول اللہﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی:

1۔ ایک اسلام کا یہاں غریب الدیار ہو جانا

2۔ اور دوسرا قوموں کا اِس اُمت پہ چڑھ دوڑنا۔

رسول اللہﷺ کی پہلی پیشین گوئی:  یہاں اسلام کا غریب الدیار ہوجانا

اسلام یہاں ویسے ہی اجنبی اور غریب الدیار نظر آنے لگا جیسا یہ اپنی ابتدا کے وقت کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے سب مفہوم یہاں اجنبی ہو گئے۔ اسلام کے وہ اصل مفاہیم جو خدا کے ہاں سے نازل ہوئے تھے گویا روپوش ہی ہو گئے….

* ’لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللہ‘ اب الفاظ کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا جس کو صرف زبان سے ادا کردیا جانا تھا چاہے دل اس کی دلالت اور مفہوم سے کتنا ہی غافل اور کردار اس کے تقاضوں سے کتنا ہی ناآشنا کیوں نہ ہو!

* ’عبادت‘ کچھ شعائر میں محدود ہو کر رہ گئی۔ اور وہ شعائر بھی پھر ایک روایتی انداز اختیار کر گئے جس کے اندر شعور کی کوئی روح تک نہ تھی۔ پھر شعائر کی یہ روایتی ادائیگی بھی دم توڑتی چلی گئی، یہاں تک کہ یہ ایک تھوڑی تعداد کا معمول ہو کر رہ گیا۔ زیادہ لوگ اتنی تکلیف کے بھی روادار نہ رہے۔ ’نماز روزہ اور چندہ خیرات‘ کا دل میں احترام ہونا بھی کافی مان لیا گیا!

* ’عقیدۂ قضا وقدر‘ لمبی تان کر سو رہنے کی دلیل بنا۔ ایک حد درجہ قنوطیت، یبوست اور عدم فاعلیت روگ کی صورت میں ان مسلم اقوام کو لاحق ہوئی۔ جبکہ یہ عقیدہ ان کو خدا پر بھروسہ کرنا سکھانے اور ان کے عزم وہمت کو جواں کرنے اور اسباب کو مسخر کرنے کا سبق دینے آیا تھا۔ یہ ’عقیدہ‘ آخرکار اس بات کی بنیاد بنا کہ اپنی سب نااہلی اور نامردی اور اپنی سب غلطیوں کو یہ خدا کے کھاتے میں ڈال آیا کریں اور اس کو ’خدا کا کرنا‘ سمجھ کر قبول کئے رہنا ’ایمان‘ کا تقاضا جانیں۔ نتیجتاً اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں!

* ’دُنیا اور آخرت‘ لوگوں کے خیال میں دو الگ الگ راستوں کے نام بن کر رہ گئے جو کہیں آپس میں نہیں ملتے۔ دُنیا کیلئے کام کرنا آخرت کو نظرانداز کرنا قرار پایا اور آخرت کی محنت دُنیا اور بہبودِ ارض کے منافی سمجھی گئی!

* ’جہاد‘ کا مفہوم سکڑ سکڑ کر ’دفاع‘ تک آگیا۔ پھر یہ ’دفاع‘ بھی ان سے نہ ہو پایا اور یہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے تقاضے ادا کرنے سے بھی ان کی جان جانے لگی!

* ’تربیت‘ کا مفہوم مسخ ہو کر ایک خاص ’حلیہ‘ اپنا رکھنے اور ایک خاص مذہبی جکڑبندی کی صورت اختیار کر گیا جس کے پیچھے نہ کوئی تخلیقی روح کارفرما رہ گئی تھی اور نہ فکری رفعت کا کوئی تصور!

* ’صبر‘ کا مطلب ’حِس‘ کا ختم ہو جانا اور ’ذلت‘ کو قبول کئے رہنا ہو گیا!

* ’تقویٰ‘ و ’پرہیز گاری‘ سے یہ مراد ٹھہری کہ انسان میں کوئی جذبات رہ جائیں اور نہ کوئی ولولہ وامنگ!

اسلام کے بنیادی مفہومات میں جب اتنا بڑا خلل آیا …. دوسرے لفظوں میں اسلام جب یہاں غربت کا شکار ہوا تو پھر’’پسماندگی‘‘ کا دور دورہ ہوا۔ یہ ’پسماندگی‘ پھر ہر میدان میں آئی:

عسکری پسماندگی،

سیاسی پسماندگی،

سماجی پسماندگی، معاشرتی پسماندگی….

پسماندگی کی ہر وہ صورت جو آپ کے ذہن میں آسکتی ہے یہاں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر عرصۂ عروج اس اُمت میں جو ترقی وکمال پایا گیا اس کا دراصل ایک ہی منبع تھا اور وہ تھا اللہ اور یوم آخرت کی بابت اِس اُمت کا صحیح عقیدہ و تصور۔

مگر جب قلب وذہن میں اس ترقی وکمال کے سوتے خشک ہوگئے __ الا ماشاءاللہ __ تو پھر کوئی چیز ایسی نہ رہی جو اس عظیم الشان عمل کو قوت اور غذا فراہم کرتی:

ألاَ وانَّ فی الجَسَدِ مضغةً اِذَا صَلَحت صَلَحَ الجَسَدُ کُلُّهٗ، واَذا فَسَدَت فَسَدَ الجَسَدُ کُلُّهٗ، اَلَا وَھِیَ القَلۡبُ                                                                                       (صحیحین)

خبردار جسم کے اندر ایک لوتھڑا پایا جاتا ہے جو اگر صحیح کام کرے تو سارا جسم صحیح کام کرتا ہے۔ اگر وہ خرابی کرے تو سارا جسم خرابی کرتا ہے۔ خبردار یہ لوتھڑا دل ہے

رسول اللہﷺ کی دوسری پیشگوئی: استعمار کا ہم پر ٹوٹ پڑنا

معاملہ جب اس نوبت تک پہنچ چکا تو دُنیا کی قومیں اِس اُمت پر ٹوٹ پڑیں جبکہ اس کی اپنی حالت وہ تھی جو خس وخاشاک کی ہوا کرتی ہے۔

دشمن تو صدیوں سے تھے ہی اسی موقعہ کی تلاش میں!

اور ان کی بابت تو خدا نے ہمیں نہایت واضح الفاظ میں خبردار کر رکھا تھا:

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (البقرۃ: 120)

یہودو نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم انکے طریقے پر نہ چلنے لگو

وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ     (البقرۃ: 217)

وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ __ اگر ان کا بس چلے __ تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں

مگر اب ہم قرآن پڑھتے کب تھے!

مسلمان معاشرے… جہاں اسلام ہی ’’اجنبی‘‘ ہو!!! ایسے موقعے بھلا وہ چھوڑتے ہیں!!!!؟

تو اب وہ چڑھ آئے:

اب وہ آئے اور یہ ٹھان کر آئے کہ اس بار وہ اس دین کا کام تمام کر دیں گے۔

بے شک ان کا یہ مقصد اپنی ذات میں نیا نہ تھا…. ہمارے اقتدار کا چراغ گل کردینا اور ہم پر غلبہ پالینا… یہ وہی قدیمی مقصد ہے جس نے ہرقل کو کسی وقت آمادہ کیا تھا کہ وہ اس دین کو تاریخ کا کوئی بڑا واقعہ بننے سے پہلے ہی کچل کر رکھ دے…. اور یہی وہ مقصد تھا جس نے یورپ کے قرون وسطیٰ میں صلیبی جنگوں کو مہمیز دی تھی…. اور یہی وہ مقصد ہے جو آج ان کو متحرک کئے ہوئے ہے….

البتہ اس بار کی صلیبی یلغار میں جو کہ اس دور جدید میں جاکر ہوئی اور جو کہ دراصل مسلمانوں کو اسپین سے دیس نکالا دینے کے ساتھ ہی شروع کردی گئی…. اس بار کی صلیبی یلغار میں نئی بات یہ تھی کہ اُن کو بہت اعتماد تھا کہ جس مقصد کو لے کر وہ اس امت پر چڑھائی کرنے آئے ہیں اُن کا یہ مقصد اس بار پورا ہوکر رہے گا۔ کیونکہ اس بار وہ دیکھ رہے تھے کہ اب کچھ جان لیوا روگ اِس اُمت کے وجود کو کھا چکے ہیں اور یہ کہ اُن کے پاس کچھ ایسے ہتھیار آچکے ہیں جن کے مقابلے کیلئے یہ اُمت اب ہتھیار تیار نہیں کر پاتی۔ خواہ وہ جنگی ہتھیار ہوں یا سیاسی یا معاشی اور جن میں سب سے مہلک ہتھیار وہ ہے جسے ہم فکری یلغار کا نام دیتے ہیں اور جس کا ہدف یہ ہے کہ دلوں میں پائے جانے والے عقیدہ کے درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ ڈالا جائے…. جبکہ یہ وہ یادگار نصیحت ہے جو ان کو ان کا بادشاہ لویس نہم (Luis IX) منصورہ (مصر) کی قید (دور ایوبی) سے چھوٹنے کے بعد ان کو دے کر گیا، جس نے اس وقت یہ یادگار مقولہ کہا تھاکہ:’’اگر تم مسلمانوں پر غلبہ پانا چاہتے ہو تو محض ہتھیاروں پہ سہارا نہ کرو۔ ہتھیاروں پہ سہارے کا نتیجہ تم دیکھ ہی چکے ہو۔ جنگ کرنا چاہتے ہو تو کسی طرح ان کے عقیدے کے خلاف کرو ان کی ساری قوت یہیں پر پوشیدہ ہے اور ہمیں سارا خطرہ یہیں سے ہے‘‘… اگرچہ اس بار یہودی کید ومکر بھی ان کے ہمرکاب تھا اور جس کا مقصد دولت اسرائیل کا قیام تھا۔

چنانچہ اس بار جو نئی بات تھی، اور جس کی ہمت اُن کو ابھی ہوسکتی تھی… وہ ہے ہمارا فکری وثقافتی مسخ۔

واقعتاً یہ فکری یلغار (غزو فکری) وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کے حصول میں آج تک ان کے سب ہتھیار ناکام رہے تھے….

دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے!

’’ہارنا‘‘ ہماری تاریخ میں نیا نہ تھا؛ مگر یوں ہارنا…!؟

جہاں تک شکست کا معاملہ ہے تو شکست مسلمانوں کو بہر صورت کوئی ایک ہی بار پیش نہیں آئی۔ تاریخ میں کئی بار مسلمانوں کو شکست ہو چکی ہے۔ مگر عسکری ہزیمت مسلمانوں کو کبھی اس حد تک متاثر نہ کر سکی اور نہ ہی ان کو ان کے عقیدہ سے دستبردار ہو جانے اور اس کو چھوڑ کر دوسرے نظریات تلاش کرنے پر آمادہ کرسکی۔

مسلمانوں کو صلیبیوں کے مدمقابل شکست ہوئی۔ تاتاریوں کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ مگر ان کو اس خدائی آوازہ پر کبھی بےیقینی لاحق نہ ہوئی:

وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمرن:139)

’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘

وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ۔وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔فَآتَاهُمُ اللّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَةِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ            (آل عمران: 146۔ 148)

’’کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جومصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہ ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ ان کی دُعا تو بس یہ تھی کہ ’’اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اورکوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو تجاوز ہو گیا ہو اسے معاف کردے۔ ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔ آخرکار اللہ نے ان کو دُنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں‘‘۔

تب تک یہ اس دین کی حقانیت پر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے تھے۔ جانتے تھے کہ یہ معرکہ جہاد کا معرکہ ہے اور یہ راستہ خدا کا راستہ ہے…. چنانچہ کچھ ہی دیر میں یہ صف آرائی کرلینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ خلفشار ہو جانے کے بعد ان کو پھر مجتمع ہو جانے میں دیر نہ لگتی۔ پستی چھوڑ کر پرعزم ہونے میں بہت وقت درکار نہ ہوتا۔ سستی وبے عملی چھوڑ کر تیاری کرنے میں ان کو ایسی دشواری پیش نہ آتی جو ناممکنات میں ہو۔ تب خدا اُن کو دُنیا کا اجر بھی دیتا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔

حتی کہ دورِ ہزیمت کے بدترین لمحات میں بھی کبھی ان پر یہ خیال نہ گزرا کہ ان کے دشمن ان سے بہتر ہیں! ان کے دشمن ان کی نگاہ میں خدا کے کافر تھے اور خود یہ مومن۔ اپنے برتر ہونے کی دلیل یہ اپنے ایمان کے اندر پاتے تھے چاہے میدان میں پانسہ ان کے حق میں پلٹے یا دشمن کی حق میں… اور دشمن کی کمتری کی دلیل اس کے کفر میں پاتے تھے قطع نظر اس کے کہ مادی فتح اِن کو نصیب ہوتی ہے یا دشمن کو۔

البتہ اس بار معاملے میں بہت فرق آگیا تھا…

* اپنے ایمان کی بدولت اپنے آپ کو برتر جاننے کا احساس (ایک بڑی سطح پر) اس بار کہیں روپوش ہو گیا تھا۔ دشمن کے بالمقابل یہاں ایک ذہنی شکست خوردگی تھی۔ چنانچہ دشمن کی فکری یلغار ایسی کامیاب رہی کہ کوئی اس کا تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
صرف ایک ہی صدی کے اندر، بلکہ بعض خطوں میں تو صرف آدھی صدی کے اندر ہی، یہ اُمت مکمل طو رپر تبدیل کرکے رکھ دی گئی۔ دیکھنے والے کو گویا اپنی نظروں پہ یقین بھی نہ آئے کہ کیا یہ وہی اُمت ہے جو کبھی اُمت اسلام کہلاتی تھی!

* مصدرِ تلقی تبدیل ہوا۔ ذہن وشعور کو غذا کہاں سے ملے، اس کا مصدر اسلام نہ رہا۔ اس کا منبع اب خدا رہا اور نہ رسول۔ شعور کو غذا اب یورپی تہذیب سے ملنے لگی تھی۔ آئیڈیل اب وہ ہو گیا تھا جس کو جس حد تک ہو سکے ذہنوں میں اتارا جانا تھا اور جہاں تک ممکن ہو اسی کا روپ دھارنا تھا۔ اب نفوس کے اندر خدا کا یہ فرمان کوئی بازگشت تک پیدا نہ کرتا تھا:

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ          (المائدۃ:50)

’’تو کیا یہ جاہلیت کا دستور وفیصلہ چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کا یقین اللہ پر ہے ان کیلئے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے‘‘

* اور تو اور یورپ کی ’تہذیب‘ کیلئے ’جاہلیت‘ کا لفظ استعمال کیا جانا حیران وششدر کر دینے والی بات جانا گیا۔ جن لوگوں نے اپنی شناخت تک مغرب کے حوالے کر دی تھی ان کو یہ ایک گردن زدنی بات دکھائی دینے لگی۔ الٹا اسلام ان کی نگاہ میں رجعت، پسماندگی اور بربریت نظر آنے لگا۔

* مسلمان عورت کا حجاب ان کو قید اور ظلمت دکھائی دینے لگا اور اس کا برہنہ ہو کر بازاروں میں پھرنا ترقی اور آزادی!

* کفر اور الحاد بکنا اور خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کا استہزاء کرنا ’آزادی فکر‘ کا معیار ٹھہرا۔

* اسلام کو شعوری اور عملی طور پر خیرباد کہہ دینا اور اپنے فکر وعمل کے وجود کومغرب سے وابستہ کر لینا غلاموں کے اس معاشرے میں ایک ایسی اعلیٰ بات اور ایک ایسی زبردست شناخت قرار پائی کہ اس پر صرف رشک ہی کیا جا سکے۔

* اس کے بعد پھر نئے سے نئے سکول آف تھاٹ آنے لگے: وطنیت، قومیت، سیکولرزم، سوشلزم، ڈیموکریسی…. اور نامعلوم کیا کیا۔ سب اس لئے کہ یہ نظریات ایک ایک کرکے اسلام کا متبادل بنیں اور جس کو اسلام کا جو متبادل پسند آئے وہ اس کو اختیار کرلے…. اور پھر اس لئے بھی کہ اس اُمت کے جتنے چیتھڑے کئے جا سکیں کر دیے جائیں اور دشمن اس اُمت کو، جو کبھی اسلام کے فکری ونظریاتی پرچم تلے متحد تھی اور دشمن کی پیشقدمی کے آگے ناقابل تسخیر دیوار تھی، اب ایک ایک نوالہ کرکے کھائی جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے لقمے بآسانی ہضم ہوں۔ اندازہ کر لیجئے حالت گمراہی میں بھی اس کا ایک ہونا ان کو گوارا نہ تھا!

پستی کی یہ وہ حد تھی جس تک پہنچ رہنے کی اس اُمت کی تاریخ میں کبھی نوبت نہ آئی تھی۔ مگر حدیث میں جس چیز کو ’خس وخاشاک‘ کہا گیا جب وہ روپذیر ہو گئی تو پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس کے سوا آپ توقع کر ہی کیا سکتے تھے!؟

’’دعوت کا منہج کیا ہو؟‘‘

*****

‘مگر یورپ کا نیا خدا انتہائی متلون نکلا ہے۔ یہ ہر لحظہ تغیر کی زد میں ہے اور اس کا موقف مستقلاً تبدیلی کا شکار۔  ایک چیز  کو وہ آج حقیقت کہتا ہے اور کل کو اسے جھوٹ، فریب اور باطل قرار دینے لگتا ہے۔ تبدیلی کا یہ چکر یونہی چلتا رہتا ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور اس کے پجاری بھی دائمی اضطراب اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں، اس طرح کے متلون اور ہرآن بدلتے خدا کے زیر سایہ وہ آخر اور کس چیز کی توقع کر سکتے ہیں؟ ‘

‘ جدید مغربی دنیا پر آج  بے چینی اور اضطراب کے جو بادل چھائے ہیں اور جس طرح گوناگوں نفسیاتی اور اعصابی عوارض میں  مبتلا ہے، وہ اس کے اصل روحانی مرض کی محض علامات ہیں۔’

‘سائنس کو خدائی کے منصب پر بٹھا دینے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ دنیا جس میں ہم آپ رہ رہے ہیں، کسی واضح مققصدیت اور معنویت سے یکسر محروم ہو گئی ہے۔’

‘جو قومیں مادہ  پرستی کی روش پر چل نکلتی ہیں ان پر ایک مستقل آویزش اور خانہ جنگی کی حالت طاری رہتی ہے جس کے نتیجے میں زندگی کا تمام نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور سائنس اور اس کے ہیبت ناک ہتھیار نسل آدم کی خدمت کے بجائے اس کی تباہی و بربادی میں صرف ہونے لگتے ہیں۔’

‘تاریخ میں ایسے بے شمار انسان گزرے ہیں جو عمر بھی حق و صداقت کی خاطر سینہ سپر رہے اور اپنی  جان عزیز تک اس کے لیے قربان کر دی۔ انہیں اپنی سعی و جدوجہد اور قربانیوں کا کوئی ثمرہ اس دنیا میں نہ ملا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس چیز نے ان لوگوں     کو ایک ایسی لڑائی مول لینے پر آمدہ کیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی مادی کامیابی حاصل  نہ ہوئی، بلکہ  جو کچھ ان کے پاس تھا، اس لڑائی کے بعد وہ بھی ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا؟ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ہے ایمان !’

‘ جو لوگ اسلام کو قصہ ماضی سمجھتے ہیں اور موجودہ  زمانے میں اس کی افادیت اور ضرورت کے منکر ہیں، وہ دراصل نہ تو اسلام کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ زندگی میں اس کے اصل مشن سے واقف۔ بچپن میں سامراج کے ایجنٹوں نے درسی کتابوں میں انہیں جو کچھ سکھایا تھا، وہ اب تک اسی آموختہ کو دہراتے چلے آتے  ہیں’

‘جدید یورپ قدیم یونان کا تہذیبی وارث ہے۔ یہ تہذیبی ورثہ رومن امپائر کی وساطت سے یورپ تک پہنچا۔’

‘تیز رفتا طیاروں ، ایٹم بموں، ریڈیو اور روشن برقی قمقموں کو ترقی نہیں کہتے۔ ان کو ترقی کے مترادف قرار دینا غلط بینی ہے اور بس، کیونکہ یہ چیزیں ترقی کو ماپنے کا کوئی انسانی پیمانہ ہمیں دینے سے یکسر قاصر ہیں۔ اگر حقیقی ترقی  کو معلوم کرنا ہے، تو یہ دیکھیے کہ کیا انسان کو اپنی حیوانی  خواہشات اور جذبات پر کامل قابو حاصل ہے یا وہ ان کے ہاتھوں میں ابھی تک کھلونا بنا ہوا ہے ؟ اگر انسان اب بھی اپنی خواہشات نفس کے سامنے بے بس  اور عاجز ہے ۔ اور وہ ان سے اوپر اٹھ کر کوئی بات سوچ ہی نہیں سکتا، تو سمجھ لیجیے کہ انسان حقیقی ترقی سے ابھی تک کوسوں دور ہے اور بحثیت انسان  اس کی حالت علم و فضل اور سائنس کے میدان میں ان تمام خیرہ کن کامیابیوں کے باوجود قابل رحم ہے۔  کجا کہ اس کو ترقی یافتہ اور کامیاب قرار دیا جائے۔ ‘

‘ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہم نے جو راہ اختیار کی ہے وہ پھولوں کی سیج نہیں ہے،  بلکہ سعی و جہد، خون اور آنسوئوں کے درمیان سے ہو کر گزرتی ہے۔ اس میں قربانیاں دیے بغیر چارہ نہیں۔ اپنے اعلیٰ اور پاکیزہ نصب العین کو یعنی عزت و وقار، احترام اور معاشرتی انصاف کو ہم اسی طرح راہ پر چل کر پا سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سودا کوئی مہنگا نہیں ہے!’

شبهات حول الإسلام )اسلام  اور جدید ذہن کے شبہات، ترجمہ محمد سلیم کیانی ، البدر پبلیکیشنز(

*****

‘یہ معلوم ہونے کے بعد کہ جاہلیت تاریخ کی گردوغبار میں چھپا ہوا کوئی دور نہیں ہے، نہ ہی جاہلیت علم و فن اور تہذیب و تمدن کے بالمقابل ہے۔ بلکہ درحقیقت اللہ کی ہدایت  سے بھٹک جانے اور اس کے حکم کو ٹھکرا دینے کا نام ہے اور یہ کہ جس مرحلے پر بھی اللہ کی ہدایت سے روگردانی کی جائے گی ، اسے جاہلیت ہی کہا جائے گا۔ ‘

‘جاہلیت کی زندگی گزارنے والے تمام انسانوں کا تعلق ایک ہی گروہ سے ہے اور ان کی سوچ اور فکر کا انداز ہر دور میں یکساں اور ملتا جلتا رہتا ہے خواہ وہ تاریخ کے کسی بھی جاہلیت میں زندگی گزارتے رہے ہوں۔’

‘جاہلیت کی ساری پیچیدگی یہ ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت کو تسلیم نہیں کرتی۔ وہ ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ مجمع محاسن ہے اور اللہ کی ہدایت سراسر نقصان اور گھاٹے کا سودا ہے۔’

‘جاہلیت کو یہ کبھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کے اپنے نظام میں کیا خرابیاں ہیں؟ کس قسم کا بگاڑ ہے؟ کون سی بدبختی ہے؟ اور کس قسم کی بے چینی ہے؟ یہ اندازہ اس کو جب ہی ہو سکتا ہے  جب وہ اللہ کی ہدیات کو قبول کر لے اور تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجائے اور جب سارا نظام اللہ کی فکر بنیادوں پر قائم ہو جائے۔’

‘لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرا دینا کہ اللہ کی ہدیات  ان کی تمام مشکلات کا حل ہے۔ بڑا مشکل کام ہے، کیونکہ جاہلیت نے نہ صرف لوگوں کو اللہ کی ہدیات سے دور کر دیا ہے ۔ بلکہ ان کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا ہے اور انسانی زندگی کی متعدد اور گونا گوں تعبیریں کر کے لوگوں کو ان باطل تعبیرات میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ ان کا کسی وقت اللہ کی ہدایت کی طرف متوجہ ہوتا نا ممکن نہیں ، تو مشکل ضرور ہو گیا ہے۔’

‘لوگ پہلے پہل اس بات کی تصدیق نہیں کریں گے کہ آج پوری دنیا میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس کی وجہ اللہ سے دور ہونا ہے۔ کیونکہ جاہلیت جدیدہ کہتی ہے کہ اس عالمگیر بے چینی کی وجہ سرمایہ  ہے یا طبقاتی کش مکش ہے۔ یا انفرادی ملکیت ہے  یا معاشی ابتری ہے۔ جاہلیت یہ تو کہ نہیں سکتی کہ انسانوں کی زندگی کا اللہ سے یا  اللہ کی سنت سے بھی کوئی واسطہ  یا تعلق ہو سکتا ہے بلکہ جاہلیت جدیدہ تو زندگی کے نشیبو فراز کی  ہر اس تعبیر اور ہر اس معنی کا مذاق اڑاتی  ہے۔ جس کا تعلق اللہ سے ہو یا اللہ کی سنت سے ہو۔ کیونکہ جاہلیت کی تمنا اور آخری آرزو تو یہی ہے کہ انسانی فکر و عمل کا رشتہ اللہ سے منقطع کر دے۔ ‘

‘انسان کی تاریخ کبھی بھی دو حالتوں سے خالی نہیں رہری ۔ ہدایت اور گمراہی۔ جاہلیت اور اسلام’

‘کسی جاہلیت میں کچھ خوبیاں اور چند فوائد کے حاصل ہو جانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کی جاہلیت کی زندگی کوئی اچھی زندگی ہے۔ یا اس کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہر جاہلیت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں اور تھوڑے بہت فائدے ضرور ہوتے ہیں ہیں’

‘لیکن عقیدہ کسے کہتے ہیں؟ عقیدہ صرف ضمیر کے وجدان کا نام نہیں ہے۔ بلکہ عقیدہ وہ ستون ہے جس پر پوری زندگی و کائنات کا مرکز ہے۔ عقیدہ ہی انسان کے وجود کا مرکز ہے۔’

‘ہر جاہلیت اپنا تہذیب و تمدن رکھتی ہے۔ جس کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ تہذیب و تمدن زندہ ہے۔ اس سے زیادہ ترقی  کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن  نتیجہ ہمیشہ یہی ہواکہ اپنے بگاڑ اور انحراف کی بنا ہ پر یہ تہذیبیں  اور جاہلیت زوال پذیر ہو گئیں!’

‘کسي بھی جاہلیت کا خاتمہ ایک ایسا ‘عرصہ  انتقال’ ہوتا ہے۔ جس میں انسانیت کو یہ موقع ملتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اللہ کی  بتائی ہوئی جادہ حق اپنا لے، اس پر ایمان لے آئے۔ اور اسی کی راہ نجات سمجھ کر اپنی زندگی کو نظام خیر کا تابع بنا دے ! اگر انسانیت اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ اور اللہ کے بتائے نظام حکم کو قائم کرنے کے لیے پوری جدوجہد نہیں کرتی تو نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسانیت ایک جاہلیت سے نکل کر دوسری جاہلیت کی نذر ہو جاتی ہے اور ایک طاغوت کے پنجے سے نکل کر دوسرے طاغوت کی بھینٹ  چڑھ جاتی ہے۔’

‘جمہوریت  ہو یا آمریت ہر نظام طاغوت ہے اور ہر ایک کے نتائج یکساں ہیں’

‘عالم اسلام میں ایک طبقہ ‘دانشوروں’ کا ہے۔ جو صلیبی اور صیہونی مکرو فریب کا شکار  اور اسلام کا  اصل دشمن ہے کیونکہ ان دانشوروں کو سامراج نے اپنی خاص نگرانی اور توجہ کے ساتھ اپنی تعلیم گاہوں  میں تیار کیا ہے۔  جن کا مقصد مسلمانوں  میں ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جن کو حقیقت اسلام سے ذرا  بھی مس نہ ہوا ہو اور اس کے بجائے  ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف شکوک شبہات پیدا کر دیئے جائیں!’

‘جمہور مسلمان۔ اسلام سے عقیدتاً تو بیزار نہیں لیکن عملی زندگی میں اس کا نفاذ بھی نہیں چاہتے !’

‘ جتنا آج کفر پھیلا ہوا ہے۔ جس قدر عذاب الیم میں آج کی انسانیت مبتلا  ہے  اور جس قدر طاغوتی تاریکیاں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ا سی قدر مستقبل اللہ کے نور سے روشن ہو جائے گا ! اور اس نور کی کرنیں ، جاہلیت کی تاریکیوں میں سے پھوٹنی شروع ہو چکی ہیں! یقیناً کل اللہ کا دین روشن ہونے والا ہے۔  خواہ ہم اپنی مختصر سی عمر میں اللہ کے دین کو پھیلتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یا ہمارے بعد آنے والی نسل اللہ کے نور کی ٹھنڈک میں آجائے ۔۔۔ یہ یقینی ہے ۔۔۔ کہ انسانیت اللہ کی طرف لوٹنے والی ہے۔ اور پھر انسانیت  کا اللہ پر ایمان پختہ اور مکمل ہو گا! ‘

جاهلية القرن العشرين (جدید جاہلیت، ترجمہ ساجد الرحمن صدیقی، البدر پبلیکشنز)

***********************************

 

 

نوٹ: محمد قطب﷫ کی دو کتابیں ادارہ ایقاظ کی ترجمہ کردہ، ہمارے یہاں سے دستیاب ہیں:

1۔       ’’مفہومات‘‘

2۔        ’’دعوت کا منہج کیا ہو‘‘

 

 

 

 

 

 

 

 

 

[1]   اطلاق: یہ کہنا کہ تمہارا یہ قول یا فعل شرک ہے

[2]   تعیین: یہ کہنا کہ تم مشرک ہو

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز