تحریکوں کو جوش اور ہوش کا امتزاج دینے والا
ایک عظیم مفکر
وہ ساٹھ کے عشرے سے اپنا فکرانگیز قلم تھامے ہوئے تھا… اور تب سے اسلام کے تحریکی عمل کےلیے صالح غذا مہیا کرنے میں لگا تھا۔
اس کی تحریرات پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے وہ بہت پہلے اندازہ کرچکا تھا کہ عالم اسلام کا یہ ’پوسٹ کالونیل‘ post-colonial عہد کس کروٹ بیٹھنے والا ہے اور ابھی وہ کونسے دشت اور دریا ہیں جنہیں عالم اسلام کو صبر، حوصلے اور بہادری کے ساتھ پار کرنا ہے۔ قاری دنگ رہ جاتا ہے کہ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں بھی، کہ جب ہر طرف کمیونزم کی آندھیاں تھیں، محمد قطب کو کیوں افق پر ’’صلیبی افواج‘‘ نظر آتی ہیں! وہ ہمیں ایک بڑی جنگ کی گرد اٹھتی بار بار دکھاتا ہے۔’آزادیاں‘، ’حکومتیں‘، ’اقتدار‘، ’منزلوں کا قریب آلگنا‘، ’آئینی ودستوری اصلاحات‘، ’پارلیمانی امیدیں‘… ان سب اوہام پر وہ ایک دردبھرے شفقت آمیز انداز میں مسکرا دیتا ہے: ’’ابھی کہاں‘‘؟! ’تختے الٹنے‘، ’پھٹے اکھیڑنے‘، ’ماردھاڑ‘ کی راہ اختیار کرنے، کسی بھی ’فوری واقعے‘ سے ’طویل امید‘ ایسے نتائج کی توقعات وابستہ کرلینے… ایسے رویوں کو پدرانہ آموزش کے ساتھ ہوش اور پختگی سے بدلتا ہے اور صورتحال کی ایک بڑی تصویر بار بار سامنے لا کر رکھتا ہے۔ عمل پسند نوجوان کو ’’معاشرے‘‘میں اترنے کے گر سکھاتا ہے۔ دشمن کے ایسے ایسے بےرحم نشتروں سے خبردار کرتا ہے جو شاید اس نوجوان کے وہم و گمان میں نہ ہوں۔
’’مسلم نوجوان کو ’’دین کی بنیادی حقیقتوں‘‘ کا سبق پڑھانے کے دوران وہ بڑی کامیابی کے ساتھ وہ تصویر بھی دکھاتا چلا جاتا ہے کہ’’وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا‘‘۔اقبالؒ نے ’’نوجواں مسلم‘‘ کو اُس کے ماضی کی وہ دلکش تصویر اگر ’’جذبے‘‘ اور ’’وجدان‘‘ کی سطح پر دکھائی ہے تو محمدقطب نے عین وہی تصویر ’’مفہومات‘‘ کی سطح پر دکھائی ہے۔ اقبال کا بیدار کیا ہوا نوجوان شاید بہت دیر سے متلاشی تھا کہ دین کے ’’بنیادی حقائق‘‘ کے معاملے میں بھی (کہ جس نے اِس تاریخی واقعے کو جنم دیا تھا) کوئی اِس کا ہاتھ پکڑ کر ’’دورِآبا‘‘ کا ایک نظارہ کروالائے اور اِس کے وہ بہت سے تجسس دور کروادے کہ ’’شتربانوں کا گہوارا‘‘ جو صدہاصد برس سے بانجھ چلا آتا ہے کیونکر چشم زدن میں ’’تمدن آفریں، خلاق آئین جہاں داری‘‘ہوٹھہرتا ہے![1]
[1] ماخوذ از ’’عرض مترجم‘‘… مفہومات