رمضان کےلیے بےتابی!
جب تک کسی چیز کو پانے کےلیے
شوق ظاہر نہ کرو، وہ تمہاری منزلِ مراد نہیں ہوتی۔ ایسی چیز تمہاری زندگی کا کوئی
سرِ راہ واقعہ تو ضرور ہوسکتا ہے؛ لیکن ’’منزل‘‘ ہم اس کو نہیں کہیں گے۔
ایک چیز سے جب تک تمہارا
’’مطلوب و مقصود‘‘ واضح نہیں، تب تک وہ تمہارے لیے بےمعنیٰ ہے، چاہے اپنی جگہ وہ
کتنی ہی بیش قیمت اور نایاب ہو۔
رسول اللہﷺ کی زبان سے رمضان کا
یوں تذکرہ ہونا... رمضان کےلیے تم میں بےقراری پیدا کرنے کےلیے ہی تو ہے:
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ
أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
رمضان آئے تو جنت کا ایک ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ دوزخ
کا ایک ایک دروازہ بند کردیا جاتا ہے۔ اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔
اتنے بڑے بڑے واقعات! پھر بھی
وہی مردنی! وہی بےدلی! پھر بھی وہی پاؤں گھسیٹتے ہوئے چلنا۔ قدرشناسوں کو تو یہ
باتیں بتائی ہی اس لیے گئی تھیں کہ لپک کر بڑھو! خدا کو تمہارے اندر وہ تڑپ ہی تو
دیکھنی ہے جو تم میں پوشیدہ کسی ’’طلب‘‘ کی خبر دے۔ نوافل کے ڈھیر تو نہیں
لگوانے! اصل میں تو وہ چیز دیکھنی ہے جو
کسی بےبہا ’’دولت‘‘ کی خبر پالینے والے کے اندر آپ سے آپ بولتی ہے۔ یہاں تو کُل نظر اُس ’’رغبت‘‘ اور ’’بےقراری‘‘ پر ہے جو ایک پیاسے کے انگ انگ میں ’’پانی‘‘ کا
تصور کرلینے پر جھلکتی ہے! ’’آخرت کی پیاس‘‘ جو دنیا سے جی اچاٹ کر لینے والوں کے
ہاں دیکھنے میں آتی ہے! ’’خدا کی جانب توجہ‘‘ جو ایک ایسے شخص میں آپ سے آپ پیدا
ہوتی ہے جو جان چکا کہ ’’خدا‘‘ کیا ہستی ہے اور اُس لامحدود قوتوں اور قدرتوں کی
مالک ہستی کا کسی پر ’’مہربان‘‘ ہونا اور
کسی سے خوش ہوکر اُس پر اپنی ’’نوازشات‘‘ فرمانا کیا معنیٰ رکھتا ہے! وہ ہستی جو
مانگنے والوں کی ادائیں دیکھتی ہے:
الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (الشعراء: 218، 219)
وہ تمہیں دیکھتا ہے جب تم قیام میں ہوتے ہو
اور تمہارا آنا جانا عبادت گزاروں میں
تبھی؛ جب اہل نفاق کا ذکر کیا
تو یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کےلیے نہیں آتے اور صدقہ و زکات نہیں دیتے، بلکہ کہا:
وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ
إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ (التوبۃ: 54)
نماز کو
آتے ہیں تو سست کاہل ہوکر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے
پس سب سے پہلی بات ہوئی کہ:
’’ایمان اور احتساب‘‘ کے اِس خصوصی کورس کےلیے، جس کی جزاء ’’مغفرت‘‘ سے کم کچھ
نہیں ہے، خوب رغبت اور چاؤ ظاہر کرو۔
یہ بھی واضح رہے... خرابیِ صحت
کے باعث اچھی چیزوں کےلیے آدمی کی بھوک کسی وقت مر بھی جاتی ہے۔ یہاں؛ ’’بحالیِ
صحت‘‘ چاہو تو... علمائے قلوب کے مطابق: ایسے آدمی کے حق میں سنت یہ ٹھہرے گی کہ وہ ایک چیز کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش
کرے؛ کسی دکھاوے کےلیے نہیں بلکہ اپنے آپ کو ایک حالت سے دوسری حالت میں لانے
کےلیے۔ ایسے آدمی کی محنت اور مجاہدہ دیکھ کر کسی وقت مالک اُس پر مہربان ہوجاتا
ہے۔ اس کی سماجت دیکھ کر؛ اس کے دل بند کواڑ خیر کےلیے کھول دیے جاتے ہیں۔ آخر مریض
صحتیاب ہوجاتا ہے اور نافع اشیاء کےلیے اُس کی اشتہاء بڑھنے لگتی ہے۔ اِس مبحث کے
کئی ایک شواہد ہمیں ’’طبِ نبوی‘‘ کے اندر ملتے ہیں:
إنما العلم بالتَّعَلُّم، وإنما الحلم بالتَّحَلُّم، ومن يَتَحَرَّ الۡخَيرَ
يُعطه، ومن يَتَّقِ الشرَّ يُوۡقَه
علم تو آتا ہے سیکھ سیکھ کر۔ اور بردباری آتی ہے بردبار
بننے کی کوشش کر کرکے۔ جو شخص خیر کی تلاش میں لگ گیا اُس کو خیر عطا کر ہی دی
جاتی ہے۔ جو شر سے بچ بچ کر رہے اس کو شر سے بچا ہی لیا جاتا ہے۔
وَمَنْ يَسْتَعِفَّ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ،
وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ
(متفق علیہ)
اور جو شخص عفت اختیار کرے اللہ اُس کو عفت بخش دیتا ہے۔ جو
شخص دل کا دولتمند ہونے کی کوشش کرے اللہ اس کے دل کو دولتمند کر دیتا ہے۔ اور جو
شخص صبر طاری کرلے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے۔
*****
دوزخ سے چھٹکارا پانے کےلیے بےچین اور جنت کے متلاشی ایک شخص
کی نظر سے دیکھو، یہ راتیں کیا کچھ لے کر آتی ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا كَانَ أَوَّلُ
لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ
وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلم يفتح مِنْهَا بَاب، وَفُتِحَتۡ أبۡوَابُ
الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ
الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أقصر، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ
النَّارِ، وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ)).
(رَوَاهُ
التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه)
ابوہریرہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے:
ماہِ رمضان کی پہلی ہی شب شیاطین اور بڑےبڑے بدمعاش جنات
جکڑ دیے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند
کردیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی ایک بھی دروازہ کھلا نہیں رہنے دیا جاتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ
کوئی ایک بھی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا۔ اور ایک منادی کرنے والا منادی کرتا ہے: اے خیر کے متلاشی! لے آگے بڑھ! اے شر کے
متلاشی! کچھ کم ہوجا!
جبکہ بخاری کی ایک حدیث ہے کہ:
رمضان کے شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (بخاری: رقم 1899)
اس حدیث کے تحت شارحینِ بخاری
کہتے ہیں: اس کی غرض یہ کہ:
Ã
آسمان
سے رحمتوں کا بکثر ت نزول،
Ã
خدا
کی جانب سے اپنے بندوں کو نیک اعمال کی بکثرت توفیق ملنا،
Ã
بندوں
کی جانب سے نیک اعمال کا بکثرت بلند ہونا
Ã
فرشتوں
کا عالم بالا سے زمین کے باشندوں کے ساتھ بکثرت اتصال۔ ان کے اعمال کی بہت زیادہ
ستائش
یہ ہوا مطلب رمضان کے شروع ہوتے
ہی آسمان کے سب دروازے کھول دیے جانے کا!
جبکہ مسلم کی ایک حدیث ہے کہ:
رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:
إِذَا كَانَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ (مسلم:
1079)
تو کیا ہم نے غور کیا، یہاں کس
کس طرح بندوں کے چاؤ پورے کرائے جاتے ہیں۔ کہیں جنت کے دروازے کھول دیے گئے۔ کہیں
آسمانوں کے دروازے۔ کہیں رحمت کے دروازے۔ ذرا خود بتاؤ؛ بندوں کو ’’آواز‘‘ دینے
اور ’’باریاب‘‘ کرنے کی اِس سے قوی کیا تعبیر ہوگی؟ مہربان پروردگار نے قربت کے
طلبگاروں کو سارے ہی اشارے تو دے ڈالے!!!
اور ایک جگہ تو یوں بتایا جاتا ہے:
وَيُزَيِّنُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ كُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ،
ثُمَّ يَقُولُ: يُوشِكُ عِبَادِي الصَّالِحُونَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ
الْمَئُونَةَ وَالْأَذَى وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ
رمضان میں ہر روز یوں ہوتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو سجاتا ہے، پھر فرماتا ہے: قریب ہے
کہ میرے نیک بندے اپنی سب تھکاوٹ اور تنگی اتار کر تیرے ہاں آرہیں!
*****
بھائی! اِس دنیائے فانی کو
چھوڑنے سے پہلے خدا نے اگر کوئی مزید نماز نصیب کردی ہے، خدا کو کچھ اور سجدے
کرجانے کا موقع دے دیا ہے، زندگی کا ایک اور مضان اگر دیکھنا مل گیا ہے، تو اِس کے
پیچھے خدا کا کیا کیا لطف وعنایت پوشیدہ ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں کیسی کیسی
بلندیِ درجات ہاتھ آسکتی ہے، یہاں کیسے کیسے امکانات تمہارے سامنے لا دھرے گئے
ہیں... ذرا اِس ایک حدیث سے اندازہ کرلو:
عن طلحة بن عُبيد الله: أن رجلين قدما على رسول الله - صلى
الله عليه وسلم - وكان إسلامهما جميعاً، وكان أحدهما أشدَّ اجتهاداً من صاحبه،
فغزا المجتهد منهما، فاستشهد، ثم مكث الآخر بعده سنة، ثم توفي، قال طلحة: فرأيت
فيما يرى النائم كأني عند باب الجنة، إذا أنا بهما وقد خرج خارج من الجنة، فأَذن
للذي تُوفّي الآخرَ منهما، ثم خرج فأَذن للذي استشهد، ثم رجعِا إلىَّ، فقالا لى:
ارجع، فإنَه لم يأْن لك بعد، فأصبح طلحةُ يحدّث به الناس، فعجبوا لذلك، فبلغ ذلك
رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: من أيّ ذلك تعجبون؟ قالوا: يا رسول الله، هذا كان أشدَّ اجتهاداً ثم
استُشهد في سبيل الله ودخل هذا الجنةَ قبله؟ فقال: أليس قد مكث هذا بعده سنة؟ قالوا: بلى، وأدرك رمضانَ فصامه؟ قالوا: بلى، وصلى كذا وكذا سجدةً في السنة؟ قالوا: بلى، قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم
-: فَلَما بينهما أبعدُ ما بين السماء والأرض.
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے:
دو آدمی
رسول اللہﷺ کے پاس (ہجرت کرکے)آئے۔ یہ دونوں اکھٹے اسلام لائے تھے۔ ان میں سے ایک اپنے
ساتھی کی نسبت (عبادت میں) زیادہ محنت کرنے والا تھا۔ ان میں سے زیادہ محنت کرنے
والا ایک بار جہاد پر نکلا اور شہید ہوگیا۔ دوسرا اس کے بعد ایک سال رہا، پھر وہ فوت
ہوگیا۔ طلحہ کہتے ہیں: تب میں نے خواب دیکھا: گویا میں جنت کے دروازے کے پاس ان
دونوں کو دیکھتا ہوں۔ جنت میں سے کوئی شخص نکل کر آتا ہے اور ان میں سے جو بعد میں
فوت ہوا اس کو داخل ہونے کو کہتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ باہر آتا ہے اور شہید ہونے
والے کو داخل ہونے کو کہتا ہے۔ پھر وہ دونوں لوٹ کر میرے پاس آتے ہیں اور مجھے
کہتے ہیں: تم واپس چلے جاؤ؛ تمہارا ابھی وقت نہیں ہوا۔ صبح ہوئی تو طلحہ وہ خواب
لوگوں کو سنانے لگے اور لوگ اس پر متعجب ہونے لگے۔ تب وہ بات رسول اللہﷺ تک پہنچی،
تو آپؐ نے فرمایا: اِس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کی: وہ (عبادت میں)
زیادہ محنتی تھا، پھر وہ اللہ کے راستے میں شہید ہوا، جبکہ جنت میں داخل یہ پہلے ہوا! تب آپﷺ نے فرمایا: کیا یہ اُس کے بعد پورا ایک سال زندہ نہیں رہا؟ لوگوں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: اور
اِس نے (پورا ایک) رمضان نہیں پایا اور اس کے روزے نہیں رکھے؟ لوگوں نے عرض کی: جی
ایسا ہی ہے۔ فرمایا: پورا سال اس نے اتنی نماز
اور اتنے سجدے نہیں کیے؟ عرض
کی: جی ایسا تو ہے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: تو پھر ان دونوں کے مابین اتنا فرق
ہے جتنا زمین اور آسمان میں بھی نہیں!
دوسری جانب... ذرا یہ حدیث بھی
سن لو کہ ایسا موقع ضائع کردینے والے کے نصیب میں کیا آسکتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ارْتَقَى الْمِنْبَرَ فَقَالَ:
آمِينَ آمِينَ آمِينَ فَقِيلَ
لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا كُنْتَ تَصْنَعُ هَذَا؟ فَقَالَ: قَالَ لِي جَبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ:
رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَقُلْتُ:
آمِينَ، ثُمَّ قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ
عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، ثُمَّ قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ أَدْرَكَ
وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: آمِينَ
ابوہریرہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے منبر پر چڑھتے ہوئے
فرمایا: آمین۔ آمین۔ آمین۔ تب آپؐ سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! آپ کیا کر رہے
تھے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: جبریل نے مجھ سے کہا: نامراد ہو وہ شخص جس پر رمضان آیا اور اُس کی مغفرت نہ ہوئی۔ تو میں نے کہا:
آمین۔ پھر اُس نے کہا: نامراد ہو وہ جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ
بھیجے۔ تو میں نے کہا: آمین۔ پھر اُس نے کہا: نامراد ہو وہ شخص جس نے والدین کو یا
ان دونوں میں سے ایک کو پایا اور جنت نہ لی۔ تو میں نے کہا: آمین۔
*****