بندگی کا جوہر
عبادات میں سے جس بھی عبادت کا رخ کرو، اس سے عبادت کا
جوہر پائے بغیر مت لوٹو۔ خوب جان لو! عبادات کی حقیقت ایک ہے بےشک اشکال مختلف
ہوں۔
1.
’عبادت‘‘ دراصل بندے کا
خدا کی جانب رخ کرنا ہے، خواہ یہ ’’نماز‘‘ کی صورت میں ہو یا ’’روزہ‘‘ کی صورت میں
یا ’’اعتکاف‘‘ یا ’’حج‘‘ اور ’’صدقہ‘‘ کی شکل میں یا ’’ذکر‘‘ اور ’’دعاء‘‘ کی صورت
میں۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ چند لمحات کی کسی ’’عبادت‘‘ میں خدا کی
جانب رخ کرنے والا شخص زندگی کی وسیع تر ’’عبادت‘‘ میں خدا کی جانب پشت کیے ہوئے
نہیں ہوتا۔ خوب یاد رکھو، انسان خدا کی عبادت کر کرکے اس کا ’’خالص عبد‘‘ بن
جاتا ہے۔ پس یہ سب عبادتیں تمہیں اُس کا ’’عبد‘‘ بنانے کےلیے ہیں۔ یہ تمہارے دل پر
اُس کی جبروت اور کبریائی کی دھاک بٹھانے کےلیے ہیں۔ ہر عبادت میں دل کی توجہ ہونا مسلسل تمہارے اندر
’’عبادت‘‘ کا یہ مادہ پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی، عبادت سے تمہاری اصل کمائی ہے۔
’’خدا کا مطلوبہ انسان‘‘ اِس عمل سے باقاعدہ ایک جنم پاتا ہے۔
2.
عبادت خدا کے آگے فقر کا
اظہار ہے اور خدا کے غِنا کا بیان۔ بندے کی جانب سے اُس کے التفات پانے کا سوال
اور اس کا فضل مانگنے کی درخواست۔
3.
عبادت خوبی اور کمال پانے
کی ایک جستجو ہے۔ ’’عبادت‘‘ کرنے والے کی
زندگی بھی اِس کمال اور حسن سے بیگانہ نہیں رہ سکتی۔ تبھی حدیث میں آتا ہے کہ رسول
اللہﷺ ہمیشہ لطف و جود سے متصف رہتے مگر رمضان میں تو آپ کا لطف وکرم عروج پر چلا
جاتا ، یہاں تک وہ خوشگوار ہوا کے تیز جھونکوں کی طرح محسوس ہوتا!
4.
عبادت خدا کی خوبی کا بیان
ہے۔ یعنی تسبیح اور حمد۔ خدا کی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات کا اقرار ہے۔ خدا کو ہر چیز
سے بڑھ کر محبوب اور ہر مطلوب پر مقدم و بالاتر ماننے کا اظہار ہے۔ اِس کے اِعادہ
سے انسان کا ظاہر و باطن دھل جاتا ہے اور انسان کا نفس اور اس کا خارج تزکیہ پاتا
چلا جاتا ہے۔
5.
عبادت ’’اسباب‘‘ سے بالاتر
ہستی سے جڑنے اور لو لگانے کا نام ہے۔پس ’’اسباب‘‘ سے دستبردار ہوکر ایک مطلق قوت
کی ہستی کو اپنی پشت پر لانا اور اپنے معاملات کو اس کی سپرداری میں دینا، پھر اُس
ہستی کو اپنے لیے نہایت کافی جاننا اور سب کچھ اُس کی حکمت و دانائی، اس کی رحمت
اور اُس کے فیصلوں پر چھوڑ دینا؛ اور اپنی سب حول اور قوت سے دستبردار ہوجانا؛ اپنے آپ کو محض اُس کے رحم و کرم سے معلق جاننا
اور اپنا سب معاملہ اُس کے ہاتھ میں ماننا... یہ مضمونِ عبادت کا ایک نہایت اہم
حصہ ہے۔ یہ عبادت کی حقیقت بھی ہے اور عبادت کا نچوڑ اور نفس پر اس کی تاثیر بھی۔
6.
عبادت خدا کے ہاں اُنس
پانا ہے۔ اُس کے غیر کی عبادت سے وحشت کھانا اور خاص اُس کی عبادت اور قربت میں ہی
ایک قرار اور سکون پانا، اُس کو خوش کرنے اور اُس کی پناہ ڈھونڈنے میں ہی زندگی کی
راحت پانا، اُس کا سہارا چھوٹ جانے میں اپنے آپ کو ہلاک اور برباد جاننا، اُس کی
نافرمانی کو اپنے حق میں نحوست اور بربادی جاننا، اُس کے حق میں خطا کر بیٹھنے کو
اپنے حق میں پہاڑ سے بھاری، اور اس کے ہاں قبول ہوجانے اور اس سے بخشش ومغفرت
پالینے کو ہر چیز سے بڑھ کر جاننا، اُس کے ناراض ہوجانے کے تصور سے کانپنا اور اس
کے راضی ہوجانے کو ہر دولت سے بڑھ کر جاننا... ’’تعبد‘‘ کے اہم ترین مضامین میں سے
ایک ہے۔ اس کے بغیر نہ وہ تمہارا ’’معبود‘‘ ہوتا ہے اور نہ تم اس کی ’’عبادت‘‘
کرنے والے!
7.
اِس محدود اور فانی جہان
سے بلند ہوکر ایک ابدی ودائمی جہان میں خدا کی جستجو کرنا، خدا کی عطا کو اُس
لافانی جہان میں تلاش کرنا جس کی وسعتیں کہیں ختم ہونے میں نہیں آتیں... یہ نہ صرف
’’خدا‘‘ کے درست تعارف کا حصہ ہےبلکہ یہ اُس کی ’’عبادت‘‘ اور ’’پرستش‘‘ کا بھی
ایک اہم مضمون ہے۔