سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید
قطبؒ کے لیے مصر کے معزول صدر اور الاخوان المسلمون کے ایک ممتاز راہنما جناب محمد
مرسی کے کلماتِ خیر نقل ہوئے، اس پر ہمیں ایک فاضل دوست کا استدراک موصول ہوا:
سید قطب نے معالم فی الطریق میں جاہلیت اور دارالحرب کے سلسلے میں جو بات
پیش کی ہے اس میں مبالغہ محسوس ہوتا ہے ، اس پر آپؒ کے شاگرد رشید اور سوانح نگار
ڈاکٹر یوسف العظم نے بڑا معذرت خواہانہ رویہ اپنایا ہے۔
اس حوالہ سے ہم عرض کریں گے:
سید قطبؒ روایتی معنیٰ میں نہ فقیہ تھے اور
نہ فقہی زبان میں لکھتے تھے۔ ان کے اسلوب سے واقف لوگ اس کو مبالغہ بھی نہیں گنتے۔
ہم بھی جب فقہی زبان میں بات کریں گے تو سید کی بیان کردہ باتیں یوں نہیں بیان کریں گے بلکہ فقہی
تطبیقات میں سید کے بہت سے خیالات کو پیش نظر تک نہیں رکھیں گے کیونکہ ان
کا وہ اثاثہ فقہی کھپت کےلیے ہے ہی نہیں۔ بعد کے اخوان بلاشبہ یوسف العظم اور حسن
الہضیبی ہی کی راہ پر رہے ہیں جس کو کسی قدر ’مفاہمت کی راہ‘ کہا جاسکتا ہے۔ میرے
اپنے مطالعہ میں، سید کا لہجہ برقرار رہا تو عبداللہ عزام وغیرہ کے ہاں۔
سیدؒ کے ورثہ کو لے کر چلنے کی متوازن ترین
مثال میری نظر میں عبداللہ عزام ہی ہے (گو ان کا میدان عمل کسی قدر مختلف ہوگیا تھا) جو بقیہ اخوان کے ’معذرت خواہانہ‘ لہجے سے بھی دور رہے اور جماعۃ الجہاد وغیرہ کے ہاں پائی جانے والی ایک گونہ ’تکفیر‘ والی لغت سے بھی دامن کش رہے۔ عبداللہ عزام عملی زندگی
میں حکمرانوں سے دور بھی رہے مگر جہاد واصلاح وغیرہ ایسی ضروریات
کےلیے حسبِ اقتضائے مصالح حکمرانوں سے میل ملاقات کرلینے میں بھی کوئی حرج
محسوس نہ کرتے تھے۔[1] نیز
ایک ایک حکمران کےلیے ’کافر‘ اور
’طاغوت‘ ایسے القاب دستی تیار رکھنا بھی ان کے منہج میں نہیں پایا جاتا۔
(ملا عمر﷿ کے طرزِعمل کا تتبع کرتے ہوئے بھی مجھے عین یہی منہج نظر آیا ہے)۔
قریباً یہی چیز آپ کو سیدقطب کے بھائی محمد
قطب، سفر الحوالی، جعفر شیخ ادریس، صلاح الصاوی، ناصر العمر وغیرہ ایسے مشائخ و
دعاۃ کی پوری ایک کھیپ کے ہاں ملتا ہے۔ خوشگوار بات البتہ یہ ہے کہ یہ سب نیک طبقے
سید قطب کو بلاتردد اپنے تحریکی عمل کا بزرگ جانتے ہیں اور ان کے فکری اثاثہ سے
بھرپور راہنمائی پاتے ہیں۔
سید کے خلاف ’تحریک‘ چلانے اور سیدؒ کو برا بھلا کہہ کر ’فرقۂ ناجیہ‘ میں
نام لکھوانے کا رجحان البتہ بہت بعد میں جاکر شروع ہوا اور عموماً مغرب کے
منظورِنظر حکمرانوں کی گود میں پلتا بڑھتا رہا۔
مدیر ایقاظ کی ٹائم لائن سے تحریر کا لنک
[1] کہنے
کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بات کی اجازت دیتے تھے، جیساکہ سوویت یونین کے خلاف جہاد
میں افغان مجاہد قیادتوں کے ساتھ تعاون کے دوران ان کے ارشادات سامنے آئے۔ بلکہ اس
پر معترض نوجوانوں کو دلائل سے مطمئن بھی کیا کرتے تھے۔