جب ہم
کہتے ہیں کہ شریعت بذاتِ خود آئین ہے.... تو اشکال پیش کیا جاتا ہے:
جناب
شریعت سر آنکھوں پر، لیکن آپ تو جانتے ہیں شریعت کی تعبیر اور تفسیر میں
علماء کے مابین کتنا اختلاف ہے۔ حدیث کی تو نصوص ہی کے معاملہ میں ’صحیح‘ اور ’ضعیف‘ کی اچھی خاصی بحث نکل آتی ہے۔ جبکہ آیات کی
تفسیر میں بھی بےشمار مقامات پر اہل علم کی آراء مختلف ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا شریعت کی
اپنی تعبیر اور تفسیر میں ہی جب بہت سے احتمالات موجود رہتے
ہیں تو شریعت ’’آپ سے
آپ‘‘ آئین کیسے؟ شریعت کو ہم آئین کی جگہ
ضرور رکھ دیتے لیکن آئین تو کچھ ایسی واضح، غیر مبہم عبارتوں کا متقاضی ہوتا ہے جن میں
تعددِ مفہومات کا کوئی احتمال نہ ہو اور روایتوں کے ثبوت و عدمِ ثبوت کی کوئی بحث
نہ ہو، جبکہ نصوصِ شریعت میں یہ دونوں مسئلے موجود ہیں۔
لہٰذا شریعت کو ’’بذاتِ
خود آئین‘‘ کیسے
کہا جائے؟
ہمارا جواب:
دورِ حاضر میں ’’آئین‘‘ کے
نام پر دنیا جس چیز سے واقف ہے، آسانیِ مبحث کی خاطر اُسے ہم دو حصوں میں تقسیم
کرسکتے ہیں:
1.
مملکت کا انتظامی ڈھانچہ administrative structure ، تقسیمِ کار division of jobs and offices اور
اس سے متعلقہ تفصیلات اور جداول schedules ۔ آئین کے اِس پہلو کےلیے شرط
صرف اتنی ہے کہ وہ شریعت کے تابع subject to the Shairah رہے۔ باقی اِس حصے کو آپ جیسے مرضی
بنائیں، بدلیں، چلائیں؛ شریعت کی جانب سے اس پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ امور جب شریعت
نے امت کے اہل و عقد پر ہی چھوڑ دیے ہیں تو پھر وہ ان کے اندر تصرف کرنے میں بھی
آزاد ہیں۔ دستور کے اِس حصے پر پچھلے اشکال کے ازالہ میں ہم کچھ وضاحت کر آئے ہیں۔
2.
آئین کا دوسرا پہلو
اجتماعی زندگی کے اصول و مبادی سے متعلق ہوتا ہے۔ اس میں ’’اجتماع‘‘ کی بنیادیں
اور حدود متعین کی گئی ہوتی ہیں (جس کا نتیجہ خود وہ مملکت ہوتی ہے)۔ ’’اختیارات‘‘
کا وہ پورا نقشہ ہوتا ہے جس سے مالکِ کائنات کےلیے مانا گیا ’’مقام‘‘ بھی خودبخود
سامنے آجاتا ہے اور اُس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور اُس کے نازل کردہ شرائع کےلیے
تسلیم کی گئی ’’حیثیت‘‘ بھی متعین ہوجاتی ہے۔ خدا اور رسول کے تشریعی اختصاصات legislative powers واضح ہوجانے کے بعد
انسانوں کے عقل و فیصلہ کےلیے جو گنجائش بچتی
ہے اُس کا بھی آپ سے آپ تعین ہوتا ہے۔ ’’بنیادی حقوق‘‘ basic rights کا
تقرر ہوتا ہے۔ ’’فرائض‘‘ اور ’’پابندیوں‘‘
کا نہ صرف ایک تصور بلکہ ایک فریم ورک بھی سامنے آتا ہے۔ اَدیان، اَرواح (دِماء)،
اَموال، اَعراض (آبروؤں) اور فروج (شرمگاہوں) ایسے مسائل پر اثرانداز ہونے والے
کئی ایک راہنما اصول اسی ’کانسٹی ٹیوشن‘ میں سموئے گئے ہوتے ہیں۔ احکام کو اخذ یا
وضع کرنے کا طریقہ اور حدود و قیود مقرر کی جاتی ہیں۔ غرض اِن تمام جوانب سے کسی
ملک کا آئین وہاں کی اعلیٰ ترین سند ہوتی ہے۔ ’’دستور‘‘
سے اوپر ’’دستوری طور پر‘‘ کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چیز دستور کے تابع subject
to the constitution ہوتی
ہے اور دستور کسی چیز کے تابع subject نہیں
ہوتا۔ ہر وہ چیز جو دستور سے متصادم ہو اپنے حکم اور اپنے لاگو ہونے کے معاملہ میں
کالعدم ٹھہرتی ہے اور دستور اس پر غالب و حاوی superior (العیاذ باللہ ’’مھیمناً علیہ‘‘) ہوتا ہے۔
ہمارا
سارا اعتراض دستور کے اِس دوسرے پہلو کے حوالے سے ہوتا ہے۔
’’آئین‘‘
کے اِس اصل قابل اعتراض پہلو کو سامنے رکھ
کر براہِ کرم اب ہماری گزارشات ملاحظہ فرمائیے:
مذکورہ
بالااشکال کا مفصل جواب ہمارے محترم استاد شیخ صلاح الصاوی نے اپنی کتاب ’’تحکیم الشریعۃ ودعاوی
الخصوم‘‘ فصل
’’دعویٰ
اختلاف الفقھاء وتعدد تجارب التطبیق‘‘ میں دے رکھا ہے۔ ہم یہاں اسے اپنے اسلوب میں
اختصار کے ساتھ بیان کریں گے:
شریعت
خواہ قرآن میں بیان ہوئی ہو یا حدیث میں... دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے:
1.
ایک ہے: شریعت کا وہ حصہ
جسے ہم قطعیات کہتے ہیں۔ جیسے:
i.
توحید۔
ii.
رسالت۔
iii.
نماز کی فرضیت۔
iv.
زکات، روزہ اور حج وغیرہ
کی فرضیت۔
v.
نیز اِن اشیاء کی فرضیت:
مانند
i.
دعوت (اللہ تعالیٰ کی
خدائی اور محمدﷺ کی رسالت پر کافروں کے ساتھ اپنا اختلاف سامنے لانا اور اُنہیں
اپنا دین چھوڑ کر محمدﷺ کا حلقہ بگوش ہونے کی جانب بلانا)،
ii.
جہاد (اعلائے کلمۃ اللہ
کےلیے کافروں کے ساتھ جنگ)،
iii.
قصاص (خون کے بدلے خون یا
اعضاء کے بدلے اعضاء) اور دیت (خون بہا معاوضہ)،
iv.
حدود: مانند زانی یا چور
یا شرابی کی سزا وغیرہ
vi.
نیز اِن اشیاء کی تقریر:
جیسے نکاح، طلاق، میراث، بیوع وغیرہ۔
vii.
نیز اِن اشیاء کی حرمت:
جیسے
i.
سودی لین دین
ii.
جوئے پر مشتمل مالی عقود
iii.
فحاشی اور بےحیائی پر مبنی
سرگرمیاں
viii.
مملکتِ اسلام پر خدا کی
جانب سے یہ فرض عائد ہونا کہ وہ:
i.
ملک میں نماز قائم کروائے
ii.
زکات کا ادارہ چلائے
iii.
امر بالمعروف کرے )یعنی نیکی کو معاشرے میں پزیرائی
دلوانے اور مضبوط کرنے کیلئے سب ممکنہ تدابیر اختیار کرے)
iv.
نھی عن المنکر کرے (یعنی برائی کے خاتمہ کےلیے ممکنہ ذرائع اور
وسائل اختیار کرے)۔
ix.
وغیرہ۔ یہ ہوا ’’قطعیات‘‘۔
2.
شریعت کا دوسرا حصہ وہ ہے
جسے ہم ’’ظنیات‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ اشیاء ہیں جن میں یا تو ثبوت کے لحاظ سے اہلِ
شریعت کا اختلاف ہوا ہے یا دلالت (تعبیر و تفسیر) کے لحاظ سے، یا پھر ثبوت اور دلالت دونوں لحاظ سے۔ جیسے:
i.
نماز کے بعض جزئی مسائل جن پر امت کا اختلاف ہوا ہے،
ii.
زکات، روزہ یا حج کے بعض
ایسے مسائل جن میں فقہائے اسلام کے ہاں تعددِ آراء پایا جاتا ہے،
iii.
قصاص اور حدود کے بعض ایسے
جزئی مسائل جو فقہائے اسلام کے ہاں مختلف فیہ ہیں۔ یا نکاح، طلاق اور میراث وغیرہ
سے متعلق ایسے امور جن میں فقہائے سنت کے ہاں ایک سے زیادہ رائے پائی جاتی ہیں۔
iv.
یا سود اور جوئے سے متعلقہ
کچھ ایسے مسائل جن میں کسی ایک فقہی مذہب کی رائے کچھ ہے تو کسی دوسرے فقہی
مذہب کی رائے کچھ اور۔
v.
وغیرہ
قطعیات
اور ظنیات کا یہ فرق نہایت بامعنیٰ ہے اور اس سے شریعت کی لاتعداد حکمتیں وابستہ
ہیں۔ اب اگر شریعت کے قطعیات اور ظنیات کی یہ تقسیم واضح ہوگئی تو...:
أ)
جہاں تک شریعت کے ’’قطعیات‘‘
کا تعلق ہے تو وہ تو خودبخود آئین ہیں۔
اِن پر نہ بحث ہوگی، نہ ووٹنگ، نہ کوئی مفاہمت، نہ اجتہاد اور نہ کبھی بھی کوئی
تبدیلی۔ یہ آئینِ شریعت کا اصل ڈھانچہ main structure ہے۔ اس پر
آجانے سے آپ خودبخود شریعت کی شاہراہ پر چڑھ آتے ہیں۔
ب)
البتہ ’’ظنیات‘‘ کے معاملہ
میں:
أ)
اگر معاملہ انفرادی ہے تو
لوگوں کو ان کے اختیار کردہ تحقیق یا مسلک پر چھوڑ دیا جائے گا۔
ب) اور اگر
معاملہ اجتماعی ہے تو وقت کے اہلِ علم اپنے اجتہاد سے کسی ایک رائے کو دستور
ٹھہرا دیں گے۔ کل کو وہ اس پر کوئی اور اجتہاد کر لیں اور اس سے مختلف کوئی رائے
اپنا لیں، اس کی بھی پوری گنجائش ہے۔
’’قطعیات‘‘ اور ’’ظنیات‘‘ کی یہ تقسیم شریعت کو درحقیقت ایک حسن
دیتی ہے۔ یہاں خدا کی مقررکردہ حدود اور انسانی اجتہاد کا ایک حسین
امتزاج سامنے آتا ہے:
1.
اب مثال کے طور پر...
’’سود کی حرمت‘‘ شریعت کے قطعیات میں آتی ہے۔ لہٰذا:
i.
’’سود کی حرمت‘‘ خودبخود آئین ہے۔ ’’سود
کی حرمت‘‘ کے ’’آئین‘‘ ہونے کو کسی ’دوتہائی‘ یا کسی ’اکثریت‘ سے پاس ہونے پر
موقوف ٹھہرانا ایک نہایت عظیم الحاد ہوگا۔ جو آدمی ’’سود کی حرمت‘‘ کو آئین
نہیں مانتا مسلم معاشرے میں اس کے مسلمان ہونے
پر ہی سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہو گا۔
ii.
وہ
سب امور جن کے ’’سود‘‘ ہونے پر فقہائے اسلام کے مابین کوئی اختلاف نہیں
خودبخود اس کے ساتھ ملحق ہوں گے۔ یعنی ان سودی عقود کی ممانعت خودبخود ’’آئین‘‘
ٹھہرے گی۔ کسی کا ان امور سے لاعلم ہونا
اگر فرض کر بھی لیا جائے تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے ’ماڈرن سٹیٹ‘ میں کوئی
شخص اپنے ملک کے آئین کی کسی بات سے ناواقف ہو۔ ’’ماہرینِ آئین‘‘ (فقہائے شریعت)
جوں ہی اُسے بتائیں گے کہ اِس مسئلہ کے سود ہونے پر فقہائے اسلام کا کوئی نزاع
نہیں، توں ہی اُس کو ’’آئین‘‘ کے اِس مسئلہ کا علم ہو جائے گا۔
iii.
ہاں
لین دین کے وہ معاملات جن کو فقہائے شریعت (شریعت کو سمجھنے والے مستند علماء) میں سے کسی ایک فریق نے سودی شمار کیا
ہے تو کسی دوسرے فریق نے غیرسودی شمار کیا ہے... تو ایسے نزاعی امور
میں فقہاء کے کسی ایک فریق کی رائے دوسرے فریق کی رائے کے مقابلے پر ’’خودبخود‘‘
آئین نہیں ہوگی؛ بلکہ وقت کے علماء اور فقہاء بحیثیت اہل الحل والعقد اِس بات
کے مجاز ہوں گے کہ وہ اپنی تحقیقی و اجتہادی نظر سے کام لیتے ہوئے ان میں سے
کسی ایک رائے کو دستور ٹھہرا دیں۔ کل کو وہ اپنے اِس اجتہاد میں کوئی ترمیم
کرلیں، اس کی بھی پوری گنجائش ہے۔ یعنی دستور کا یہ حصہ اور اس میں ردوبدل
علمائےشریعت کے اجتہاد پر منحصر رہے گا اور قابل تبدیل ہے۔
یہ ہوئی
ایک ’اجتماعی معاملہ‘ کی مثال۔
اب ہم
’انفرادی معاملہ‘ کی ایک مثال لیتے ہیں:
2.
مملکتِ اسلام پر یہ فریضہ
عائد ہونا کہ وہ ملک کے طول و عرض میں نماز قائم کروائے، قطعیات میں آتا ہے۔ نماز
کے حوالے سے وضوء، اذان، اقامت، جماعت، استقبالِ قبلہ، تکبیرِ تحریمہ، قیام، رکوع،
سجود اور تشہد وغیرہ سب فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہیں۔ یہاں؛ نہ نصوص کا اختلاف ہے اور نہ تعبیر کا۔
یعنی قطعیات۔ ’’ریاست‘‘ ہر کسی کو نماز کے اِس معلوم عمل کا پابند کرے گی
اور اِس پر عملدرآمد کو اپنا فرضِ منصبی جانے گی۔ چنانچہ ’’نماز قائم کروانے‘‘
کی فرضیت خودبخود ’’آئین‘‘ ہے۔ اِس کے ’’آئین‘‘ ہونے کو کسی ’دو تہائی‘ یا کسی
’اکثریت‘ کے ہاں سے ’پاس‘ ہونے پر موقوف ٹھہرانا بہت بڑا الحاد ہوگا۔ ہاں یہ مسائل
کہ اقامت مثلاً اکہری ہو یا دوہری، قیام میں ہاتھ باندھے جائیں یا چھوڑے جائیں،
اور اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں، مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے یا نہ،
آمین اونچی کہے یا نیچی، رکوع میں یہ دعاء پڑھی جائے یا وہ، سجدے میں جاتے وقت
ہاتھ پہلے دھرے جائیں یا گھٹنے، وغیرہ وغیرہ... تو اِن مسائل میں آپ لوگوں کو اُن
کی تحقیق اور اُن کے اختیار کردہ مسالک پر چھوڑ دیں گے۔ یعنی ’’نماز‘‘ پڑھوانا
تو ریاست کا فرض ہوگا اور یہ تو مملکتِ اسلام کا دائمی اور طےشدہ آئین ہے اور یہ
کسی کے ’پاس‘ کرنے پر موقوف نہیں، البتہ نماز کے بعض فروعی مسائل میں ریاست
لوگوں کو اپنے اپنے طریقے پر چلنے دے گی۔
چنانچہ
ہر ہر معاملے میں ’’قطعیات‘‘ کا آئین ہونا... آپ سے آپ لوگوں کو شریعت کے عمومی سٹرکچر structure پر
لا کھڑا کرے گا؛ کیونکہ ’’سٹرکچر‘‘ (قطعیات) پر اہل اسلام کے مابین کوئی اختلاف ہی نہیں ہے؛ لہٰذا قطعیات کا ’’آئین‘‘ ہونا نہ تو موخر ہوگا اور نہ کسی انسانی ہستی کے ’پاس‘ کرنے پر موقوف۔ اِس حد تک آپ شریعت کے گھیرے میں خودبخود آجاتے ہیں۔
یوں ہر ہر باب میں ’’سٹرکچر‘‘ خودبخود کھڑا ہو جاتا ہے؛ آگے اس ’’سٹرکچر‘‘
کی فِلنگ filling
آپ فقہائے اسلام کی اِس
رائے سے کریں یا اُس رائے سے، اِس سے کوئی بنیادی فرق نہیں آئے گا؛ بلکہ
’’اختلاف‘‘ اور ’’ردوبدل‘‘ کی اِس حد تک گنجائش اِس پورے معاملہ کو اور بھی حسن دیتی ہے۔ نیز ایک توازن دیتی ہے
(یعنی یہاں کچھ چیزیں ثوابت constants
ہیں تو کچھ چیزیں آراء کے ردوبدل کو قبول کرنے والی variables
) اور ’’شریعت‘‘ کو کوئی ایسا جامد قالب نہیں رہنے دیتی جو بدلتے
حالات کی رعایت سے ہی قاصر ہو۔
یہ ہے نقطۂ اعتدال... جو اِفراط اور تفریط کے درمیان
ہے:
»
ایک جانب وہ لوگ ہیں جو قطعیات
کو ظنیات کے درجے تک نیچے لے آتے ہیں؛ ان کے نزدیک قطعیاتِ شریعت کو بھی جب تک
’پاس‘ نہ کیا جائے تب تک وہ آئین نہیں؛ یہ الحاد کی راہ ہے۔
»
دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو ظنیات
کو بھی قطعیات کے درجہ پر فائز کراتے ہیں؛ یہ تفرقہ اور جہالت کی راہ ہے۔
جبکہ شریعت اِن دو انتہاؤں کے بیچ کٹ پھٹ رہی ہے۔