شرح ’’تعامل اہل قبلہ‘‘6
عام دُہائی[1] کے وقت
عوامِ امت پر کڑی شرطیں.. اہلسنت کا منہج نہیں
(بسلسلہ حاشیہ 6، متن سفر الحوالی)
یہ ایک نہایت اہم مبحث ہے: امت کے کھلے دشمن کے خلاف اہل سنت کی ہمہ جہتی جنگ میں امت کے ہر طبقے، کو ساتھ چلایا جاتا ہے، جن میں ایسے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آئیں گے جن کی زندگی شریعت کی بعض واضح خلاف ورزیوں سے آلودہ ہے یا جن کے عقیدے میں ایک درجے کی خرابی ہے۔یہ شرط نہیں لگائی جائے گی کہ پہلے وہ شریعت کی اُن خلاف ورزیوں کو اپنی زندگی سے باہر کریں یا اپنے عقیدے کی خرابیوں کو دور کریںاور اس کے بعدکافر کے خلاف ہمارے اِس قتال یا منافق کے خلاف ہماری اِس سماجی مزاحمت میں شریک ہوں؛ البتہ جب تک ان کے اعمال اور حلیے باشرع نہیں ہوتے اور ان سے عقیدے کی خرابیاں دور نہیں ہوتیں تب تک کافر ہمارے ساتھ جو کرتا ہے کرتا رہے!!! تب تک صلیبی، کمیونسٹ، سیکولر، لبرل ہماری بستیوں کو تاراج، ہماری عصمتوں کو پامال اور ہمارے معاشروں کو مسخ کرنے کا مشن جس قدر پورا کر سکتا ہے اور اس میں جس قدر آگے بڑھ سکتا ہے بڑھ لے!!!یہ درست ہے کہ اِس عمل کے دوران ہم نہایت حکمت اور دانائی سے کام لیتے ہوئے[2]ان کو سنت اور اطاعت کی راہ پر لانے کی بھی کوشش کریں گے؛ بلکہ خود اِس عمل کی برکت سے ان کی زندگی میں نہایت اعلیٰ تبدیلیاں برپا ہوتی چلی جائیں گی (ان شاءاللہ)..تاہمکفر کو گزند پہنچانے کی یہ سعادت لینے سے ہم انہیں ان کی اِس گناہگاری کی حالت میں بھی کسی صورت نہ روکیں گے (بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں گے)؛اور ان میں کسی بھی عمل کی کمزوری یا عقیدے کی خرابی کو اِس فرض کی ادائیگی سے پیچھے رہنے کی ’’دلیل‘‘ نہیں بنائیں گے۔ کیونکہ جہاد سے پیچھے رہنے کےلیے یہ فی الواقع دلیل نہیں ہے۔ جو شخص اِسے دلیل سمجھتا ہے، اور بلاشبہ بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے، اسے چاہئے وہ کتاب یا سنت یا فقہائے اسلام سے اس کا ثبوت پیش کرے۔
یہ غلط فہمی جو اِس وقت بڑےبڑے نیک لوگوں میں پائی جاتی ہے… کچھ عظیم مغالطوں کی پیداکردہ ہے۔ بلکہ خود اِسے ایک انحراف اور بدعت ماننا چاہئے۔ یہ ہے: ’’جہاد‘‘ اور ’’کافر سے نبردآزمائی‘‘ ایسے شریعت کے کچھ جلی ابواب کو ’’فرائض‘‘ کی لسٹ میں نہ رکھنا… بلکہ صحیح تر الفاظ میں:ایک ایسا دین رکھنا جس میں جہاد نہیں۔ کیونکہ؛اگر یہحضرات ’’جہاد‘‘ کو ’’فرائض‘‘ میں گنتے تو اس سےروکنے کی اِن کے پاس کیا دلیل ہوسکتی تھی؟ کس فقیہ نے کہا ہے کہ ایک آدمی جب تک کچھ گناہوں میں ملوث ہے تب تک اس کے حق میں دین کے بعض فرائض ادا کرنا منع ہے۔ جو فرض ہے وہ فرض ہے؛ نیکوکار پر بھی اور گناہگار پر بھی۔ اور جب تک شرک نہ ہو، دونوں کا عمل اللہ قبول کرتا ہے۔ خود یہ حضرات سوچ لیں؛ایک آدمی کے ڈاڑھی نہ رکھنے یا ایک عورت کے سر نہ ڈھانپنے کو مثلاً اگر یہ گناہ سمجھتے ہیں تو کیا یہ ایک بےڈاڑھی مرد یا ایک بےپرد عورت کو ’’نماز‘‘ پڑھنے سے روکیں گے؟ یا ’’نماز‘‘ پڑھنے سے اُس کی حوصلہ شکنی کریں گے؟ کہ منہ پر ڈاڑھی ہے نہیں اور نماز پڑھنے میں لگے ہو!!! وہاں یہ خود کہیں گے کہ بھئی وہ گناہ اپنی جگہ مگر نماز کا فرض اپنی جگہ۔ تو پھر ’’جہاد‘‘ کا فرض اپنی جگہ کیوں نہیں؟ ایک گناہ کے باعث ’’نماز‘‘ سے نہیں روکا جائے گا، اپنے مدرسہ کو ’’چندہ‘‘ دینے سے نہیں روکا جائے گا، لیکن ’’جہاد‘‘ سے روکا جائے گا![3] سبحان اللہ!!!
یہ وجہ ہے کہ شیخ سفر الحوالی نے اپنے متن میں بھی ’’جہاد‘‘ اور ’’اقامتِ دین‘‘ کے حوالے سے ’’نماز‘‘ ہی کی مثال دی ہے۔ یہ تو درست ہے کہ آپ خود اپنی نماز سنت کے مطابق پڑھیں گے اور جماعت کےلیے ایک سُنی امام کا اہتمام کریں گے۔ لیکن اگر کوئی گناہگار یا کسی بدعت میں ملوث شخص آپ کے پیچھے آ کر کھڑا ہوجاتا ہے تو کیا آپ اُس کو صف سے نکال دیں گے؟ کیا آپ اس کو مسجد سے باہر کر آنے کے مجاز ہیں؟ آپ معترض ہوسکتے ہیں اُس کے امام بننے پر، لیکن پیچھے کھڑے ہونے سے آپ اُس کو کیسے روک سکتے ہیں؟
چنانچہ یہ بات عام حالات میں بھی درست نہ ہوگی، البتہ جس وقت دشمن عالم اسلام پر چڑھ آیا ہو تب تو اگر دشمن کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کےلیےآپ صرف ’باشرع‘ لوگوں کی شرطیں لگائیں گے تو ملت کا صفایا کروا بیٹھیں گے۔ یہاں تو سب نے اٹھنا ہے اور اپنے دین، اپنی عزتوں، اپنی تہذیب، اپنی سرزمین اور اپنی سالمیت کو دشمن کے چنگل سے رہا کروانا ہے۔ عام لوگوں کو مذہبی حلیے وغیرہ نہ رکھنے کے باعث اگر آپ اس سے روک دیں گےتو خود اپنے ہاتھ سے امت کا ستیاناس کریں گے، جبکہ دین نے آپ کو ایسا کرنے کا نہیں کہا۔ جبکہ آپ ’پابندیِ شرع‘ کے جذبے سے امت کا یہ نقصان کر رہے ہوں گے!ایسا کرنا درحقیقتاحکامِ دین سے لاعلمی اور مقاصدِ شریعت سے ناواقفیت ہوگی۔ نیز سمجھداری سے دور ہونے کی دلیل۔ اور اہل سنت والی فراست اور وسعتِ نظر سے محروم ہونے کی علامت۔ نیز جن لوگوں کو آپ نے اِس موقع پر دین اور امت کی نصرت کے ناقابل جانا، ان کو کمتر اور ناچیز خیال کر بیٹھنا؛ حالانکہ نبیﷺ کا ہر امتی کسی نہ کسی خیر پر ہوسکتا ہے۔ جبکہ نبیﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا کہوَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ (متفق علیہ)’’اللہ تعالیٰ (کسی وقت)ایک بدکار آدمی سے بھی اِس دین کی نصرت کروا لیتا ہے‘‘۔
علمائے دعوت زور دیتے ہیں کہ کفر کے غلبہ کے وقت داعیوں کا خطاب ہی شمولی inclusive اور بھرتی آمیز recruiting ہونا چاہئے نہ کہ بہت زیادہ طعنوں اور جھڑکیوں والا، جوکہ اس وقت خطیبوں کے ہاں عام دیکھا جا رہا ہے۔
*****
اِس مبحث کو مزید کھولنے کےلیے اس کے چند مقدمات اور واضح کرنا ضروری ہے:
- امت کے اُن عام لوگوں کو، جن کا ظاہر بعض گناہوں یا شریعت کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا ہے، معمولی جاننا نہ صرف اُن امتیوں کے ساتھ بلکہ اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے متعدد مقامات پر اس جانب اشارہ فرمایا ہے کہ ایک بدعمل سے بدعمل شخص کسی وقت اللہ کی اطاعت کا کوئی ایسا کام کرلیتا ہے جو اس کےلیے ذریعۂ خیر بن جائے۔ مثال کے طور پر ایک بدکار عورت کا ایک پیاس سے بلکتے کتے کو پانی پلانے کےلیے کنویں میں اترنا اور پھر اپنے بندجوتے میں پانی بھر کر اور اسے اپنے دانتوں میں دبا کر کنویں کا منڈیر چڑھنا؛ جس کی اللہ نے قدر فرمائی اور اِسی عمل کو اُس کےلیے ذریعۂ بخشش بنا دیا۔ اندازہ کرلیجئے، ایک کتے کو پیاسا دیکھ کر! تو پھر امتِ محمدﷺ کی لٹتی عصمتوں کےلیے جوش میں آنا اور کافر بھیڑیوں کے ہاتھوں بھنبھوڑی جانے والی اپنی معصوم بیٹیوں کی چیخ و پکار پراٹھ کھڑا ہونایا نبیﷺ کی توہین کرنے والے ایککافر کی زبان کھینچ لینے کےلیے بےتاب ہونا ایک گناہگار کےلیے ذریعۂ بخشش کیوں نہیں ہو سکتا؟ پس گناہوں میں گرفتار طبقے کو کسی قابل نہ جاننا ہمارے دین کی تعلیم نہیں۔ اللہ نے اِن کو، اِن کے گناہوں کے باوجود، ’’کتاب کے وارثوں‘‘ میں شمار کیا ہے، جیساکہ ہم پچھلی فصل میں دیکھ آئے۔ تو پھر لامحالہ، اپنی اِس حالت پر رہتے ہوئے بھی، اپنی کتاب، اپنی شریعت، اپنے نبیؐ اور اپنی امت کے حق میںاِن کا کوئی کردار ہوگا۔ فقہائے منہج اس بات کے شدید مخالف ہیں کہ کسی کٹھن موقع پرامت کے کمزور طبقوں کا کردار معطل کروا دیا جائے اور کسی جان لیوا موڑ پر صالحین اِن سے اور یہ صالحین سے کٹ جائیں۔ نتیجتاً؛ یہ شیطان کےلیے اور بھی لقمۂتر بنیں جبکہ صالحین دشمن کےلیے اور بھی زیادہ آسان ہدف۔یہ اپنی اِس حالت میں بھی؛ اگر لادین قیادتوں کی بجائے صالحین سے اور صالحین اِن سے مانوس ہوں، تو معاشرے میں خیر کے بہت سے دروزاے کھلے اور شر کے بہت سے دروازے بند رکھے جا سکتے ہیں۔
- یہ قاعدہ ہم پیچھے واضح کر آئے ہیں کہ امت کے ’’عوام الناس‘‘ کسی فرقے کے نہیں ہوتے، صرف اللہ اور رسول کے ہوتے ہیں۔ بےشک فرقوں نے ان پر اپنے اپنے ٹھپے لگارکھے ہوں اور یہ بھی کسی درجے میں ان کے ساتھ منسلک ہوں، حتیٰ کہ اگر یہ خود بھی کوئی خاص نام یا لیبل اٹھالیتے ہوں مگر باعتبارِ حقیقت یہ ’’عام قسم مسلمان‘‘ کے سٹیٹس سے باہر نہیں ہوتے، الاماشاءاللہ۔ جبکہ پیچھے ہم دیکھ آئے، امت کی ’’عوام‘‘ اہل سنت ہی شمار ہوتی ہے خواہ ان پر لاکھ ٹھپے لگے ہوں تاوقتیکہ ان میں سے کسی کا – باعتبارِ حقیقت – اہل بدعت میں سے ہونا پایۂثبوت کو نہ پہنچ لے۔
- پھر اگر ان میں سے کسی کی خرابی اِس درجے کی ثابت ہو بھی جائے کہ اُسے ہم ’’بدعتی‘‘ کہیں، تو بھی جب تک اُس کا بدعتی ہونا اُسے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کرتا تب تک وہ امت کے گناہگاروں کی صنف سے باہر نہیں ہے۔ جبکہ ’’امت کے گناہگاروں‘‘ کی بابت ہم اِس فصل کے شروع میں پڑھ آئے ہیں کہ ہم نماز اور جہاد میں ان کو اپنے پیچھے آنے سے روکنے کے مجاز نہیں ہیں۔بلکہ اصل یہ ہے کہ نماز اور جہاد میں ہم ان کو اپنے ساتھ لگائیں۔
- اس سلسلہ میں ایک نہایت اہم چیز: دورِ مغلوبیت میں امت کے تربیتی اداروں کے معطل ہو رہنے کے نمایاں اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جس پر ہمارے اکثر واعظ، لوگوں کو کوسنے اور ’شرم دلانے‘ کا اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ بہت سے خطیب ’داڑھی‘ نہ رکھنے والوں کو بھری مسجد میں ذلیل کر کے رکھ دینا آج ’دعوتِ دین‘ سمجھ بیٹھے ہیں! اِن خطیب صاحب کو کیا علم کہ ’داڑھی رکھنا‘ اِن کی اپنی تو شاید مجبوری بھی ہو کہ شروع سے ہی ایک خاص ’مذہبی‘ دنیا میں رہتے آئے ہیں، باہر نکل کر دیکھیں جہاں لوگوں کو’’زندگی کی دوڑ‘‘ میں پورا اترنا پڑ رہا ہے؛ وہاں ماحول کا اپنا جو ایک مومنٹم ہے اُس میں آدمی کو دو دن نکالنے شاید مشکل ہوں۔ بڑی بات ہے جو یہ لوگ اب بھی ’’اذان‘‘ ہوتے ہی سب کام دھندے چھوڑ کر خدا کے گھروں میں آ پہنچتے اور ’’پہلی صف‘‘ میں جگہ ڈھونڈتے ہیں! جس پر حق تو یہ تھا کہ ہم اِن کا ماتھا چومیں اور اِنہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں (وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ)۔ یہ سب لوگ، یا ان میں سے اکثر، غیرمعمولی انسان ہیں۔ خطیب صاحب کو گویا معلوم ہی نہیں کہ زندگی کا وہ مومنٹمجس میں اِن کے مخاطبین دو سو سال سے کھینچے دھکیلے جا رہے ہیں عالمی اور مقامی جاہلیت کا تشکیل کردہ ہے؛ جس میں اِن کی نماز اور حیاء کا ابھی تک بچا رہنا کسی معجزے سے کم نہیں، جبکہ اُس جاہلیت کو جڑ سے ہاتھ ڈالنا اور اس کے خلاف ایک زیرک مزاحمت کھڑی کرنے میں قوم کی قیادت کرنا خطیب صاحب اور ان کے بڑوں کا فرض تھا۔ اس پر سرزنش کریں مگرسامنے بیٹھے اِننمازیوں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو۔ ایک ’’ماحول‘‘ فراہم کیے بغیر ایک ’’عامی‘‘ سے آخر آپ کس چیز کی توقع رکھتے ہیں؟ آپ کے سامنے تو اس وقت دنیا کی یہ ایک مظلوم ترین قوم بیٹھی ہے جسے بیک وقت ایکبےرحم دشمناور ایک نادان دوست کے ساتھ آزمایا گیا ہے۔
اُدھر ’مذہبی‘ خطاب کا یہ حال ہے تو اِدھر ’دانشور‘ کا خطاب شروع ہوتا ہے: دیکھتے نہیں مغرب میں رہنے والوں میں وہ خوبی ہے وہ اچھائی ہے اور تم میں؟! فلاں برائی، فلاں خرابی اور فلاں نالائقی!
بھائی مغرب میں لوگوں کا اس سے برا حال تھا وہاں کے سمجھداروں نے بڑی محنت کے ساتھ اُن کو ایک سسٹم دیا ہے۔ یہ تم وہاں کے ایک ’عام فرد‘ کی اچھائیوں پر جس طرح قربان ہوئے جاتے ہو، وہ ’عام فرد‘وہاں زمین سے نہیں اگ آیا بلکہ ایک خاص ماحول اور خاص سسٹم کا پروردہ ہے جسے وہاں کے سمجھداروں نے بڑی محنت سے کھڑا کیا ہے؛ جبکہ یہاں کے سمجھدار تم ہو!
غرض یہ تاثر عام ہوجانا کہ امت میں خیر نہیں ہے، شیطان کا ایک بہت بڑا حربہ ہے۔ صرف بات اتنی ہے کہ غلاموں کی کوئی زندگی نہیں۔ قوم کے سمجھداروں کو ایک بہت بڑی سطح پر اِس بازی کو پلٹنا ہے۔ ورنہ اِس امت میں اللہ کا شکر ہے خیر ہی خیر ہے۔یہ سب جو آپ دیکھ رہے ہیں ایک خاص ماحول اور خاص نظام کا تشکیل کردہ ہے۔یہ غلاموں کےلیے باقاعدہ بنایا گیا ہے۔ اِس میں ’’فرد‘‘ کو ڈانٹنا کسی مسئلے کا حل نہیں؛[4] بات بہت اوپر کی سطح پر بگاڑی گئی ہے۔اس کےلیے کوئی اونچے درجے کی سکیم ہی سامنے آنا ضروری ہے۔ اور فی الحال آپ کو اِسی ’’فرد‘‘ کے ساتھ گزارا کرنا ہے؛ اور یہ ’’فرد‘‘ بڑی غنیمت ہے جو اب بھی اپنے دین اور اپنے نبیؐ سے بیگانہ نہیں۔ اِسی کو ساتھ لےکر آپ کو اِس بحرظلمات میں پار لگنا ہے۔ ہاں جب یہاں کی تعلیمی، تربیتی اور ابلاغی مشینری خدا کی عبادت کروانے کےلیے مسخر ہوگی اور اپنی اسلامی تہذیب کے نغمے چھیڑے گی، تب خودبخود آپ کے یہاں ایک اور طرح کا ’’فرد‘‘ پیدا ہونے لگے گا۔ تب نہ واعظ کو چیخنے کی ضرورت ہوگی اور نہ دانشور کو سر پیٹنے کی۔ البتہ آج واعظ کو بھی اپنا فرض پہچانناہے اور دانشور کو بھی۔ مشکل اوقات میں آسانی کے ایام کی سہولتیں ڈھونڈنا (کہ مسلم معاشرے میں معیار سے اترا ایک آدمی جہاں نظر آیا ڈانٹ دیا) قوم کے سمجھداروں کو تو ہرگز زیب نہیں۔یہاں روئیں تو خود اپنے فرض سے غافل رہنے پر؛ کہ ’مذہب‘ اور ’اصلاح‘ کے نام پر نجانے ہم اِن بیچاروں کا کیا کیا نقصان کرتے رہے۔
شیخ، متن میں لکھتے ہیں: ائمۂ سنت اپنے دور کے خطباء کو مسلمانوں کے عیوب برسرِمنبر بیان کرنے سے منع فرماتے، کہ مبادا اس سے کافروں کو بغلیں بجانے کا موقع ملے۔ سبحان اللہ۔ہمارے ائمہ اپنے وقت کے صرف ’مذہبی راہنما‘ نہیں بلکہ ’’سماجی ماہرین‘‘ بھی تھے۔ ’قومی ملامت‘ اعصاب کو تباہ کردینے والی چیز ہے۔اِس سے عیوب کی اصلاح تو پھر بھی نہیں ہوتی، البتہ قوم کا مورال گر جاتا ہے۔ اور نفسیاتی طور پر یہ چیز قبول ہونے لگتی ہے کہ ’ہم ایک ناکام قوم ہیں‘، جیساکہ اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے طبقوں کےلیے جو اپنی قوم کے حوصلے پست کرکے باہر والوں کا کام آسان کریں، دورِحاضر میں باقاعدہ اصطلاح رائج ہے: ففتھ کالم Fifth Column۔ دشمن کی فوجیں وہ کام نہیں کرتیں جو یہ بیٹھے بٹھائے کردیتے ہیں۔ ہمارے خطباء کی بڑی تعداد نیز دانشوروں کے بڑے طبقے میں اِس وقت یہ لہجے عام ہیں، جس سے متنبہ ہونا چاہئے۔
- اوپر بیان ہونے والے مبحث کی بعض جہتوں کو شیخ سفرالحوالی نے متعدد مقامات پر واضح کیا ہے۔ یہاں ہم ان کے ایک مقام[5] پر ذکر ہونے والے چند نکات بیان کریں گے، اس میں پیرایہ و اسلوب گوہمارااپناہے:
اس وقت جب امت کا دشمن ہر طرف سے اور ہر ہر انداز سے اِس پر ٹوٹ پڑا ہے، دشمن کی ہم پر یلغار کے آج سو رنگ ہیں اور سو ڈھنگ، ہزارہا وسائل اور ان گنت چہرےاور بھانت بھانت کے ٹولے اور طرح طرح کی کمپنیاں، ادارے، پروگرام، پراجیکٹ،احسانات، مہربانیاں، قرضے، این جی اوز… تواَشد ضروری ہے کہ اِس وقتپوری امت کو ہی اس کے مقابلے پر ایک رضاکار فوج میں بدل ڈالا جائے۔ امت کے کسی بھی شعبےاور کسی بھی طبقے کوآج معمولی نہ جانا جائے۔ امت کے وجود میں جو جو صلاحیت اور توانائی کی جو جو رمق موجود ہے امت کے ایجنڈا کےلیے اسےآخری حد تک برتنے کی کوشش ہونی چاہئے؛ اس سے استغناء کیسا؟ امت کا ہر فرد جو ہمیں مل سکتا ہے، ہرہرجماعت، ہرہر خطہ، ہرہر پیشہ اہم ہے۔ ایک ایک مسلمان قیمتی ہے۔ وہ جو کرکے دے سکتا ہے، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔میں کہتا ہوں ’دیندار‘ اور ’بےدین‘ کی وہ روایتی تقسیم جس سے ہم اب تک مانوس رہے ہیں، اس وقت ترک کردی جانی چاہئے۔ دین کی نصرت پوری امت سے مطلوب ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس میں کچھ خیر نہ ہو۔ اور یاد رکھئے: ایمان ایک شعبہ نہیں؛ متعدد شعبے ہیں۔ ایمان کے کچھ شعبوں کا تعلق ’’ظاہر‘‘ سے ہے تو کچھ کا تعلق ’’باطن‘‘ سے۔ یہاں کتنے ہی فرد آپ کو ایسے نظر آئیں گے جو ’’ظاہری حلیے‘‘ میں ایمان کی سب شرطیں پوری کر رہے ہوں گےمگر اندر سے کھوکھلے اور خدا سے غافل۔ اور کتنے ہی فرد آپ کو ایسے ملیں گے جو ظاہری حلیے سے گو ایسا نظر نہیں آئیں گےلیکن اندر خیر سے بھرے ہوئے اور ایمان سے لبریز۔ پھر ان طبقوں میں آپ کو بلا کے ذہین، سمجھدار اور دانائی کے پتلے ملیں گے۔ میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ایمان کے سب ظاہری و باطنی شعبوں پر محنت ترک کردیں اور امت کو تربیت دینے کا عمل موقوف ٹھہرا دیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ آج پوری امت کو وہ جس بھی حالت میں ہے اٹھانے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ عمل ان شاءاللہبذاتِ خود اس بات کا موجب ہوگاکہ اس سفر کے دوران گناہگار میں تائب ہونے، غافل میں بیدار ہونے اور نیکوکار میں اپنا تزکیہ کروانے کا داعیہ پیدا ہو۔
خود نبیﷺ جس فوج کو لے کر جہاد کےلیے نکلتے تھے، اسی کو دیکھ لیجئے۔ کیا نبیﷺ نے کسی ایک بھی آدمی کو اس فوج میں آنے سے روکا کہ ابھی تمہاری تربیت نہیں ہوئی؟ کتنے کتنے مختلف درجوں کے لوگ تھے جو دشمن کے خلاف جنگ میں آپؐ کے ساتھ چلتے تھے۔ ذرا ایک نظر ڈالیے: اسی میں سابقین اولین ہیں۔ اسی میں وہ بدوجو کل مسلمان ہوتے ہیں اور خود قرآن کے بقول ان کے دلوں میں ایمان ابھی اترا ہی نہیں۔ انہی میں ایسے لوگ جنہوں نے قرآن کے اپنے بقول (خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا) ملے جلے عمل کر رکھے ہیں؛ کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اور ایسے بھی جن کی بابت قرآن نے کہا: (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّـهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ) ’’جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے وہ ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کر لے گا‘‘۔ اور ایسے بھی جو اپنے قبیلے برادری کی حمیت میں نکل آتے۔ ابھی ہم چھپے اور علانیہ منافقین کی بات نہیں کررہے، جبکہ یہ بھی اسی فوج میں ہوتے تھے۔ بات یہ ہے کہ پیچھے لگنے والوں کا کیا ہے۔ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ (رایۃ) علمِ قیادت کس کے ہاتھ میں ہے اور ان کو راستہ بنا کردینے والا کون ہے۔ یہ چیز نبیﷺ کے اپنے ہاتھ میں تھی اور آپؐ کے بعد سابقین، دین پر عمل پیرا، قابل اعتماد طبقوں کے پاس۔ اور یہ چیز بہت کافی ہے۔
ضروری ہے، مساجد کے اِنہی پنجوقتہ نمازیوں کو ہم اسلام کی فوج بنا دیں۔اِس مہم میں سب سے پہلے اِنہی کو ساتھ ملائیں۔ دشمن کے خلاف سب کو اٹھا دیں۔ اپنے عزیزوں، دوستوں، آس پاس کام کرنے والوں سب کو اِس ہمہ جہتی جہاد میں ’’بھرتی‘‘ کریں۔ اگرچہ وہ بعض ظاہری گناہوں میں گرفتار کیوں نہ ہوں۔
مقصد یہ کہاس وقت ہمیں جس کثیر شعبہ جنگ کا سامنا ہے، یہاں دین کا مفادہر چیز پر مقدم کرکے دیکھا جائے گا۔ ایسی حالت میں تو؛ ایک مجاہدِ فاسق بھی – خواہ وہ کسی بھی قسم کے جہاد میں سرگرم ہو – اُس دیندار آدمی سے بہتر جانا جائے گا جو (اسلام کو درپیش اِس وسیع تر جنگ میں) دین کے کسی کام کا نہیں۔
[1]فقہاء کی اصطلاح میں استنفارِ عام۔ یعنی جس وقت دشمن کے ساتھ پورا اترنے کےلیے پوری امت کو اٹھ کھڑا ہونے کی دُہائی دی جاتی ہے۔
[2]مگر آسانی (تیسیر) کا منہج نہ چھوڑتے ہوئے؛ کیونکہ ہمارے دین میں ’’حرَج‘‘ رفع کر رکھا گیا ہے اور تنطُّع (معاملات کو مشکل بنانا) کو نبیﷺ نے مذموم ٹھہرایا ہے۔
[3]اس ذہن کی بعض الجھنوں کو دور کرنے پر ہمارا اپریل 2011 کا ایک مضمون ’’یکے از واہیاتِ عصر: چھ فٹ جسم والی دلیل متواتر‘‘ مفید ہوسکتا ہے۔
[4]اس موضوع کی بعض جہتوں پر روشنی ڈالنے کےلیے ہمارا جولائی 2012 کے اداریہ: ’’اصلاحِ فرد کےلیے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘۔
[5]أهمية إدراك المرحلة الدعوية بعد الأحداثhttp://goo.gl/rPHal7 نقطہ (ب)