شرح
’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 10
لوگوں کو بتدریج دین پر لانا
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ راتوں رات سب کچھ انجام پا
جانا ممکن نہیں۔ خدا کا یہ جہان اِس نقشے پر تخلیق ہی نہیں ہوا۔ ہر چیز اپنا ایک
وقت لیتی ہے۔ یوں تو ایک فرد کی بابت بھی یہ اصول درست ہے۔ تاہم جہاں قوموں اور
معاشروں کو خدا کی جانب لےکر چلنا ہو، وہاں تو یہ حقیقت اور بھی جلی ہو کر آپ کے
سامنے آتی ہے۔ جلدباز لوگ کچھ بڑےبڑے حادثات کروا سکتے ہیں۔ سماجی نظر سے محروم لوگ
’دلائل‘ کی بحثیں لے کر بیٹھے رہیں گے، ’’معاشروں‘‘ کو لے کر چلنا البتہ ایک
اور چیز ہے۔ جبکہ ہمارے ائمۂ سنت وہ ہستیاں جو صدیوں معاشروں کو چلاتی اور
راہ دکھاتی رہیں۔
’’اہل سنت‘‘ انسان کو سب سے زیادہ
سمجھنے والا، انسان پر سب سے زیادہ رحمت اور شفقت کرنے والا، اور انسان کو آسودہ
رکھنے اور بیک وقت خدا کی جانب لے کر
بڑھنے والا منہج ہے۔ اس میں
انسان کی اس حالت کا اعتبار کیا جاتا ہے
جہاں سے اس کو خدا کی جانب اپنے اس سفر کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے فقہاء بیک وقت ماہرینِ سماج social
scientists بھی تھے لہٰذا ’’شریعت‘‘
سے ان کا استدلال کرنا ہمارے آج کے شدت پسندوں یا مثالیت پرستوں سے بہت مختلف رہا
ہے۔ اُن کے یہاں شریعت کے ’’دلائل‘‘ کو شریعت کے ’’مقاصد‘‘ اور ’’کلیات‘‘ کے ایک
بڑے فریم میں رکھ کر سمجھا جاتا رہا ہے، نیز ’’انسان‘‘کو اس کی سماجی پیچیدگیوں
اور کمزوریوں سمیت سمجھنا بھی ہمارے فقہاء کے فہمِ شریعت کے پیچھے کارفرما رہا
ہے... جس کے باعث ’’دلائل‘‘ کبھی اُن کے یہاں تجربوں، آزمائشوں اور حادثوں کا
موجب نہیں بننے دیے گئے۔ جبکہ یہاں آئے روز مذاق ہوتے ہیں۔
یہاں؛ جناب الحوالی اِن دو امور کو بیک وقت ذہن نشین
کرواتے ہیں:
1.
جہاں
تک خدائی احکام کا تعلق ہے تو ان کے واجبِ اطاعت ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
خود اِن احکام کے شریعت اور دستور ہونے پر کوئی بحث نہیں۔ یہاں؛ کسی ہستی، کسی اتھارٹی، کسی پارلیمنٹ کا کوئی اختیار
نہیں۔ ’’تشریع‘‘ انجام پا چکی؛ اس میں قیامت تک اب کوئی تدریج نہیں۔ عقیدہ، عبادت،
سماج، ہر معاملہ خدا کی شریعت میں طے ہوچکا؛ اور وہ قیامت تک پتھر پر لکیر
ہے۔ ’’اہل سنت و اتباع‘‘ ان میں سے کسی ایک بھی چیز کو پیچھے کرنے کے روادار نہیں۔
یہ حق پورے کا پورا بیان ہوگا۔ اس میں کوئی
کمی قبول نہیں؛ کیونکہ یہ اللہ کے دین سے تنازل (compromise) ہوگا۔
یہ پیراڈائم (paradigm) کو درست
رکھنے کا مسئلہ ہے۔ یہاں ایک انچ پیچھے ہٹنا ’’وحی کی اتباع‘‘ سے پیچھے ہٹنا ہے۔ اہل سنت کی دعوت اور ان کا مطالبہ
اِسی ’’پورے حق‘‘ کا رہے گا۔
2.
البتہ لوگوں کو اِس حق پر
لے کر چلنے میں نرمی بھی ہوگی، شفقت بھی۔ جس رفتار سے وہ چل سکتے ہوں اُس رفتار سے
ان کو چلایا جائے گا۔ اُن کی اُس حالت کا جس میں وہ ہیں، اعتبار کیا جائے گا۔ ایک
غلط حالت کو صحیح حالت میں بدلنے کےلیے جو جو کوشش، جو جو محنت اور جو جو تیاری درکار ہےاس کا
ضرور لوگوں کو پابند کیا جائے گا؛ تاہم اگر وہ اس محنت اور تیاری میں جت گئے ہوئے
ہیں تو درمیانی مرحلہ میں ان کا عذر تسلیم کیا جائے گا۔ ان کی استطاعت سے بڑھ کر ان سے کچھ طلب نہیں
کیا جائے گا؛ اور ’’شریعت پر آنا‘‘ لوگوں کےلیے عذاب یا مذاق نہیں بننے دیا جائے
گا۔
یہاں اِس مسئلہ پر تفصیل سے بات نہ ہو سکے گی، تاہم
’’تدریج‘‘ کے جو معانی ہمیں سنت اور سیرتِ خلفاء میں واضح طور پر ملتے ہیں اور
ہمارے ائمہ اور فقہاء ان کا اعتبار کرتے ہیں، اور جس سے ہماری شریعت کی وسعت، مُرونت
flexibility
، انسان رحمی اور سماج فہمی نہایت خوبصورت طور پر عیاں ہوتی ہے، اس
کی جانب یہاں ہم چند اشارے کریں گے:
Ã
لوگوں کو ایک ایک کر کے
دین کے اعمال پر لانا ’’تعلیم‘‘ اور ’’تربیت‘‘ کا نبوی منہج ہے۔ معاذ کو یمن
بھیجتے وقت آپﷺ نے ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلے انہیں توحید سکھانا۔ جب وہ توحید
سیکھ جائیں تو نماز اور پھر زکات۔
Ã
شریعت
کے اصول: جو انسان کو اس کی ’’استطاعت‘‘ کے دائرے میں مکلف کرتے ہیں۔ یہ بات شریعت
کے کلیات میں آتی ہے۔ اب یہ تو معلوم ہے کہ ’’استطاعت‘‘ جسمانی بھی ہوسکتی ہے،
عقلی بھی اور سماجی بھی۔ لہٰذا کوئی اپنی
استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہ کیا جائے گا؛ نہ ’’چلانے‘‘ والے اور نہ ’’چلنے‘‘ والے۔
Ã
لوگوں کی ’’حالت‘‘ کا
اعتبار کرنا، جس پر شریعت سے کئی شواہد ملتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ کا غزوات وغیرہ کے دوران کسی پر حد قائم کرنے سے ممانعت فرمانا۔ اور حضرت عمر کا اس کی یہ توجیہ فرمانا کہ
دشمن کا علاقہ قریب ہونے کے باعث مبادا شیطان آدمی کو خراب کرے اور وہ سزا سے بھاگ
کر دشمن سے جا ملے؛ یوں معاملہ ایک چھوٹے
شر سے نکل کر بڑے شر میں جا پڑے۔ فقہائے
اسلام نے نبیﷺ کی اس حدیث اور عمر ودیگر صحابہ کے ان آثار کی بنیاد پر کئی ایک
مسائل اخذ کیے ہیں۔ سبھی میں یہی چیز پیش نظر ہے کہ ایک معمول سے ہٹی ہوئی صورتحال
کا حسبِ سنگینی اعتبار کرنا ضروری ہے۔
امام ابو حنیفہ یہاں تک گئے ہیں کہ دارالحرب میں شرعی سزائیں نہیں دی جائیں گی۔
دوسرے فقہاء بھی باعتبارِ مضمون یہی کہتے ہیں۔
Ã
اس کے علاوہ ’’مصالح
ومفاسد‘‘ کے موازنہ کا اصول۔ نیز رفعِ ضرر
کے احکام۔ وغیرہ۔