اِس سسٹم کی سب سے دلکش و پرکشش بات... نااُمیدی کا یاں دور دور تک گزر نہیں!
یہ سسٹم جب ہے ہی اس لیے کہ آپ کی سنی جائے؛ آپ کی خواہش
جاننے کےلیے نیتا خود چل کر آپ کی چوکھٹ
پر آئے اور تاعمر آپ کے آگے جوابدہ رہے تو آپ کی خواہشات اور مطالبات پورے ہوئے
بغیررہ جانے کا تو سوال ہی نہیں!
دیکھئے نا... ایک سسٹم بنا ہی اس لیے
ہے اور استبدادی نظاموں سے اُس کا سارا فرق ہی یہ ہے کہ آپ خود اپنے حاکم ہوں اور
یہاں صرف آپ کی مرضی چلے نہ کہ کسی فردِواحد یا
چند افراد کی، ایک سسٹم کی وجہ تسمیہ ہی یہ ٹھہری کہ عوام اپنی قسمت کے آپ
مالک ہیں، دنیا کے دیگر طرزہائے حکومت سے اِس کی لڑائی ہی اس نکتے پر ہے کہ کوئی آپ پر اپنی مرضی مسلط
نہیں کرسکتا... تو آپ کی شنوائی تو یہاں ہوگی!
یہاں آپ جو چاہیں جس وقت چاہیں بدل ڈالیں؛ اِس سسٹم کا مطلب
ہی یہ ہے!
کوئی آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو یہ کوئی بادشاہت
تھوڑی ہے؛ آپ اس کو کان سے پکڑ کر نکال دیجئے۔ بڑے آرام کے ساتھ اسے ’تبدیل‘
کردیجئے۔ جمہوری عمل اور ناامیدی، چہ معنی؟ اب اگلے الیکشن ہوں تو اس کے بجائے آپ کسی
اور کو ووٹ دیجئے۔ دوسرے نمائندوں کو آگے لایئے؛ تاکہ اِس کو سبق ہو۔ نیا
پارلیمانی بلاک تشکیل دیجئے۔ ’پریشر گروپ‘ کی ٹیکنیک آزمائیے۔ اگلی بار کے الیکشن
میں کسی اور پارٹی سے انتخابی اتحاد کیجئے؛ وہ بدبخت بھی اپنے وعدے سے پھر جائے تو
یہاں پارٹیوں کی کیا کمی ہے۔ جمہوریت تعددِ احزاب پر یقین رکھتی ہے۔ ہر نیا الیکشن
یہاں نئے امکانات لےکر آتا ہے۔ آپ دن گنتے جایئے مگر زندگی اسی جمہوریت کے آسمان
تلے گزاریئے۔ یہی دنیا ہے؛ اس سے باہر آپ کہاں جائیں گے۔ اورا س کا متبادل آپ کے
پاس ہے کیا!
یعنی... ایک عالمی نظام کی وہی پرانی نوکری! اُسی تنخواہ
میں عالمی ایلیٹ کی سیوا؛ اُسی کے منظورِنظر چہروں کےلیے باربار تالیاں!
یہ ضرور ہے کہ یہ اپنے انداز کی ایک منفرد نوکری ہے۔ ایک
دائرے کے اندر اندر آپ کو واقعی پوری آزادی حاصل ہے۔ چناؤ کے سبھی راستے آپ کے سامنے ’کھلے‘ ہوتے ہیں جن کے رد یا
اختیار کا آپ کو پورا پورا اختیار ہوتا ہے اورتھوڑےتھوڑے فرق کے ساتھ ان میں اتنا ’تنوع‘
ہوتا ہے کہ واقعتاً آپ کو یہ پوری ایک دنیا لگتی ہے۔ اس دائرے پر دنیا آپ کو ختم
ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ؛ یہ ’دائرہ‘ نظرسے اوجھل کردیا جاتا ہے ۔
کوئی آپ کوپکڑکر نہیں رکھتا البتہ اس کے باہر خود ہی آپ کی نظر نہیں جاتی۔ حتی کہ
تخیل کی سرحد یہی ہوجاتی ہے۔ اکادکا کسی شخص کی نظر اس سے باہر چلی جائے تو بھی
کیا فرق پڑتا ہے؛ لوگ خود ہی اس کو ’جنونی‘ اور انتہاپسند‘ کہہ کر بٹھا دیں گے۔
بطور قوم آپ اس دائرے کے اندر حیران کن تیزی اور سرگرمی سے عمل کرتے ہیں مگردائرے
سے کبھی نکلتے نہیں۔
اس میں اضافی طور پرآپ کویہ یقین دلادیا جاتا ہے کہ اپنی یہ
دنیا آپ نے بڑی محنت اور جان جوکھوں سے خود بنائی ہے۔ اِس کےلیے آپ نے قربانیاں دی
ہیں! یہ آپ نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہے؛ اور
آپ کی سب سے قیمتی پونجی یہی ہے۔ تب آپ اس سے اور بھی وابستہ ہوتے اور ’قربانیوں‘
کےلیے مزید تیار ہوتے ہیں۔ اب ’مواقع‘ وہی جویہاں پائے جائیں۔ ’مجبوریاں‘ وہی جو
یہاں سمجھی جائیں۔ چناؤ کے امکانات صرف وہی جو یہاں دستیاب ہوں۔ ’گنجائش‘ اور ’چارہ
جوئی‘ کے سب مفہومات آپکی نظر میں اب یہیں سے شروع ہوکر یہیں ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس
سے باہر اگر کسی چیز کا وجود تسلیم ہوتا ہے تو وہ خلاہے!
غرض یہ
ایک ذہنی اور نفسیاتی حصار ہے۔ اس کو آزادی کی نیلم پری میں بدل ڈالنے کےلئے کچھ
کرشمے چاہئیں۔ ان میں سر فہرست یہاں کی ’جمہوریت‘ ہے ۔ یہ نہ ہو تو ہمیں یہ یقین
ہی نہ آئے کہ ہم ایک ’آزادقوم ‘ ہیں۔ بار بار ووٹ دے کرہمیں اس بات کا کہیں زیادہ
یقین آئے گا! اپنی ’قسمت‘ کی پرچی پر خود مہر
لگائیں تو قسمت پھوٹنے پر افسوس تو نہ ہوگا! اپنی مرضی سے آزادانہ اپنے
نمائندے منتخب کریں ، جس کو چاہیں مینڈیٹ دیں جس کا چاہیں مینڈیٹ ضبط کرلیں آخر
یہ اسی بات کی دلیل تو ہے کہ ہم اپنے فیصلے آپ کرتے ہیں!
ہم نے
نشانی طلب کی تھی جس سے ہمیں پتہ چلے کہ آزادی کے حصول ایسا واقعہ ہماری زندگی میں
کامیابی کے ساتھ رونما ہوچکا ہے۔ ہماری یہ جمہوریت ہمارے اسی سوال کا جواب ہے!
(ہمارے کتابچہ ’’اپنی جمہوریت، یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘ سے
اقتباس)