|
|
آخر آپ نےقیمت دی ہےرسید تو ملنی چاہیے۔کیوں نہیں، اسکے بدلےمیں آپ ووٹ ڈال سکتےہیں۔ آزادی کی اس سےبڑی علامت کیا ہوسکتی ہے!ایک آزاد قوم کی اسکےعلاوہ کیا نشانی ہے!اسکےسر
پر سینگ تو نہیں ہوتےوہ ووٹ ہی تو ڈالتی ہے |
|
|
نوکر کو ہر کوئی کھلاتا ہے، یہ دنیا کا دستور ہے، مگر وہ
نہیں جو مالک خود کھائے یا جو نوکر طلب کرے۔ پیٹ بھر کر دیا جائے یا کم ، یہ بھی
انہی کا اختیار تھا۔ ہمیں کیا مزدروی کرنی تھی؟ اپنے سب وسائل اب ہمیں اپنے ہی
ہاتھ سے کھود کھود کر اور فصلیں اُگا اُگا کر ان کے خزانے بھرنے تھے۔ ٹیکسوں سے
گلے بھربھر کر ان کو دینے تھے۔ ہم پر خود ہماری ہی نسل کے کچھ فرض شناس ’ٹیکس کلکٹر‘ تعینات کردیےگئے۔ کچھ دیر ہمیں
اور ا ن کو اپنی نگرانی میں تربیت دےلینے کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ’ٹیکس کلکٹر‘ رہ گئے۔ اپنی
نوکری وہی رہی۔ تنخواہ اس سے بھی کم ہوگئی۔ کہا گیا کہ یہ آزادی کا مول ہے۔
کس کی آزادی ؟ ہمارے ’ٹیکس کلکٹروں‘ کی ! ان کی خوب چاندی بنی۔ آزادی
’انسان‘ کی بنیادی ضرورت ہوا کرتی ہے ، سو سال تک وہ یہ بات ولایت میں پڑھ پڑھ
کرآتے رہے تھے۔ ہندوستان میں کچھ عشروں کی محنت کرکے بالآخر ان (’ٹیکس کلکٹروں‘)
نے ہمیں اس بات پر تیار کرلیا کہ ہم انہیں انگریزوں سے’آزادی‘ دلادیں۔ ہماری سب
امیدیں اپنے ان ولایت پڑھوں سے ہی وابستہ تھیں۔ ہم نے آج تک ان کے کون سے ناز نہیں اٹھائے۔ ہم نے ان سے یہ تک نہ پوچھا کہ اس منصوبے پر
ہماری کیا لاگت آئے گی۔ ہم نے ان کو آزادی لےدی۔ ہماری اگلی پچھلی پونجی ملا کر
بھی اس کےلیے ناکافی نکلی۔ مگر یہ کوئی واپس کرنے کی چیز
تھوڑی ہے۔ ہم نے اپنے ہر دلعزیز لیڈروں کی، جنہیں ہم کندھوں پر اٹھااٹھا کر ایوان
اقتدار میں پہنچاتے رہے، اس ’بنیادی انسانی ضرورت‘ کو پورا کرنے کےلئے قرضے
اٹھائے۔ ہماری خوش قسمتی ، قرضے بخوشی دے دیے گئے۔وہ اب ہم ’آسان ‘ قسطوں پرا پنی
تنخواہ میں کٹاتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو اور قرضے لے لیتے ہیں۔ ہم ایک خوددار قوم ،
روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرلیا مگر اپنے لیڈروں کی ’آزادی‘ پرآنچ نہ آنے دی !
اس کے
بعد ایک سوال باقی تھا ۔آخرہمیں پتہ کیسے چلے کہ ’آزادی‘حاصل ہوچکی؟ ہم اس طرح
کیسے یقین کرلیں ، اس بات کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔یہ جاننا ہمارا انسانی حق مانا
گیا۔ واقعی پتہ چلنا چاہیے کہ آزادی کے حصول ایسا عظیم الشان واقعہ اِس قوم کے حق
میں پیش آچکا ہے۔ آخر آپ نے اس کی قیمت دی ہے رسید تو ملنی چاہیے۔ کیوں نہیں، اس
کے بدلے میں آپ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ آزادی کی اِس سے بڑی علامت کیا ہوسکتی ہے! ایک آزاد
قوم کی اِس کے علاوہ کیا نشانی ہے!اس کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے وہ ووٹ ہی تو
ڈالتی ہے! آپ بھی بار بار ووٹ ڈالئے۔ کوئی مغربی قوم انتخابی ٹرم کے دوران اگر ایک
بار ووٹ ڈالتی ہے تو آپ دوبار ڈالئے۔ کچھ طبیعت اکتا جائے تو درمیان میں
ریفرنڈم کروائیے۔
اپنی پسند کے جس امیدوار کو د ل چاہے اور جتنی دیر تک چاہے کندھے پر اٹھا کر
پھریئے جی بھر جائے تو پٹخ دیجئے۔ بار بار ’کندھے‘ بدلئے ۔اسلام پسندوں کےلئے بس
ایک غیر مرئی چھلنی لگی ہے لہٰذا اِن پر ووٹ ضائع مت کیجئے البتہ جو ’اسکیننگ‘ سے
گزر جائیں ان میں سے جس کا پسند ہو انتخاب فرمایئے۔دیواروں اور شاہراہوں
پر اشتہار کی کوئی جگہ نہ چھوڑیئے ۔ شوق سے جتنا جی چاہے شور اٹھایئے ۔ اودھم
مچایئے۔ یہ آپ کا اپناملک ہے آپ نے قربانیوں سے لیا ہے۔ اس میں ’آزادی‘ کے اپنے سب
ارمان پورے کیجئے۔ انتخابی سیاست سے کبھی دل تنگ ہی آجائے اور مارشل لاءکو آپ
کااپنا ہی جی چاہے تو اس کا بھی بندوبست ہے!
(ہمارے کتابچہ
’’اپنی جمہوریت، یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘ سے اقتباس)
|
|
|
|
|
|