یہ مضمون: (صورتِ موجودہ میں) دین کو کھڑا کرنے کے
حوالے سے پورے ایک منہج کا خاکہ ہے۔
اس مضمون سے متعلق موصول ہونے والا ایک
اعتراض مع جواب بھی حالیہ شمارہ میں شامل ہے۔
عالم
اسلام کی حالیہ ترجیحات کے حوالے سے... فی الوقت آپ کی سرگرمی کے یہ دو ہی
بڑے محور ہیں:
بیرونی:
جو آگے دو حصوں میں تقسیم ہے:
1.
نظریاتی: دینِ مغرب
کے ساتھ آپ کی ایک دو بدو جنگ (نظریاتی سطح
پر)، یعنی معرکۂ شرک و توحید؛ جوکہ عالم اسلام کے چپے چپے پر لڑا جانا ہے۔ شرکِ
ہیومن ازم اور اس کی تمام مصنوعات کے ساتھ ایک کھلی محاذآرائی۔
2.
عسکری: عالم اسلام کے جن جن خطوں پر افواجِ مغرب نے چڑھائی کررکھی ہے اور وہاں مقامی آبادی میں
مجاہدینِ اسلام کی پزیرائی کروائی جانا بوجوہ ممکن ہے(مانند افغانستان، فلسطین،
عراق، کشمیر، مالی وغیرہ) ... وہاں وہاں قتال کے میدانوں میں بھی مغرب کی کمر
توڑ دینے اور پورے عالم اسلام کو اس جہادی عمل کی پشت پر لاتے ہوئے مغرب کو روس ایسے انجام سے قریب تر کردینے
کےلیے کوشاں ہوجانا۔
جس کے
بعد عالم اسلام کے آپشن ان شاء اللہ خودبخود تابناک ہوجانے والے ہیں۔
اندرونی:
معاشرتی عمل پر زیادہ سے زیادہ حاوی ہونے کےلیے کوشاں ہوجانا۔
جس کی دو صورتیں ہیں:
1. دوردراز خطوں remote
areas میں جاہلی اداروں کو زیادہ
سے زیادہ غیرموثر اور متروک کرواتے ہوئے، ممکنہ حد تک اپنے خالص اسلامی ادارے کھڑے
کرنا (تعلیم سے لےکر
انصاف اور معیشت تک)، معاملات کو زیادہ سے زیادہ اپنے (اسلام پسند قوتوں کے) ہاتھ میں کرنا اور وہاں پر ممکنہ حد تک (اور شدید
دانشمندی سے کام لیتے ہوئے، خصوصاً قتل وخونریزی سے مکمل دامن
کش رہتے ہوئے) علماء کی رِٹ قائم کروانا، لوگوں کی دینی ودنیوی
ضروریات خود اپنے ہاتھوں بہم پہنچانے کی حتی الامکان سبیل نکالنا اور اس راہ سے ان
کو جاہلی نظام سے زیادہ سے زیادہ مستغنی کرتے چلےجانا، سماجی رشتوں کو کام میں
لاتے ہوئےلوگوں کے روزمرہ معاملات کو حتی الامکان اپنے ہاتھ میں لینا۔ اِن دوردراز
خطوں میں خان اور وڈیرے اپنی ایک سٹیٹ بناکر رکھتے ہیں یہاں تک کہ تھانے اور
کچہریاں نیلام ہوتی ہیں تو اسلامی قوتوں کےلیے بھی ایسا کوئی سیاسی وسماجی
ونیم انتظامی کنٹرول یہاں پر کوئی شجرِممنوعہ
نہ ہونا چاہئے جبکہ وہ اپنے افراد کو اسلامی تربیت کے مراحل سے گزار چکی ہوں اور
اپنی اس پوری سرگرمی کو مقاصدِ حق کے تابع اور اخروی جوابدہی کا پابند کرچکی ہوں
اور اپنے افراد کی ایمانی واخلاقی افزودگی کو اپنا سب سے بڑا محاذ بناچکی ہوں۔
2. بڑے شہروں میں (جوکہ
’تہذیب‘ کا گڑھ باور ہوتے ہیں)، جاہلیت کے قائم کردہ اداروں اور معاشرے پر تاثیر
رکھنے والے مراکز ہی میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے چلے جانا، یہاں رجحانات پر چھاجانے
کی صلاحیت پیدا کرنا، طاقت کے سرچشموں تک پہنچنا، صالح نوجوانوں کو
زیادہ سے زیادہ اونچی پوزیشنوں تک پہنچانا... اور اِس طریقے سے حاملینِ دین کو
یہاں کی سب سے موثر قوت بنادینے پر کمربستہ ہونا۔ اِس پر ہم اپنی دیگر تحریروں میں
کچھ بات کرچکے ہیں۔
*****
نظریاتی سطح پر؛ مغرب اور اسلام کی اشیاء کے مابین ’بیچ
کی راہ‘ نکال کر ہمارا کیس عالم اسلام کے اندر جس قدر خراب کیا گیا ہے، اِس ملغوبے
نے ہمارے اُس مقدمے پر جس پر ہم نے امت کو کھڑا کرنا تھا جس قدر مٹی ڈال دی ہے، اس
سے عالم اسلام کی حقیقی آزادی کا ہمارا وہ پورا کیس ہی دریابرد ہوکر رہ گیا ہے...
اس کا تدارک اب اسی صورت ممکن ہے کہ اسلام اور مغرب کی اشیاء کے مابین وہ اصل دوری
اور مفاصلت سامنے لائی جائے جو اِس مسئلہ کو دو ملتوں کی جنگ بناتی ہے۔
یہ نظریاتی جنگ آج اگر کھڑی
کردی جاتی ہے – اور جس کو جیتے بغیر ہمارے نزدیک آگے بڑھنے کا
کوئی راستہ موجود نہیں ہے – تو یہ نہ صرف دو کیمپوں کے مابین ہونے والے اِس
تاریخی گھمسان میں یہاں کے ایک مسلمان کو اپنی پوزیشن طے کرنے میں مدد دے گی بلکہ
اِس معاملہ میں ’’جانبداری‘‘ اور ’’عدم جانبداری‘‘ کے سوال کو ایک مسلمان کی نظر
میں ’’ایمان‘‘ اور ’’نفاق‘‘ کا سوال بھی بنادےگی؛ جس کے نتیجے میں یہاں پر ایمان
اور کفر کی وہ کشمکش آپ سے آپ کھڑی ہو گی جو عالم اسلام کو اس کی حقیقی آزادی کی
جانب لےکر بڑھنے والی ہے۔
حضرات! عالم اسلام کے لیے ایک
حقیقی آزادی حاصل کرلینے سے پہلے... عالم اسلام
کو درپیش اِس علمی، نظریاتی، سماجی اور عسکری معرکے میں دشمن کی کمر توڑ لینے سے پہلے... کم از کم بھی، دشمن کو عالم اسلام میں بےبس کرلینے سے
پہلے... یہاں کسی ’خلافت‘، کسی ’اسلامی معاشرے‘ اور کسی ’اسلامی نظام‘ کی منزل کی
راہ تکنا نری خام خیالی ہوگی۔ آزادی کا ایک بڑا معرکہ لڑے بغیر یہاں کوئی
راستہ نہیں ہے۔ فی الحال یہاں ہر ہر میدان میں ایک کشمکش ہی چلے گی۔ بہتر ہے کہ ’’کشمکش‘‘ کا یہ مرحلہ ہی فی الحال جس قدر
تیزی اور نتیجہ خیزی کے ساتھ ممکن ہو، طے کرلیا جائے؛ اور اس کے سوا کسی بات کی
جلدی نہ کی جائے۔ سمجھ لو، ایک معرکہ ہے جو ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا؛ اور
یہ معرکہ ہمیں یہاں ہر ہر میدان میں لڑنا ہے، کہیں پر اس کی صورت عسکری ہوگی تو
کہیں پر سیاسی تو کہیں پر سماجی، جبکہ نظریاتی اور عقائدی تو اس کو ہونا ہی ہے۔
اِس معرکے کے اپنے طبعی انجام کو پہنچنے سے پہلے نہ کسی سیاسی پیش رفت سے یہاں
کوئی بڑی امیدیں وابستہ کرلینا حقیقت پسندی کہلائے گا اور نہ کسی چھوٹی موٹی عسکری
پیش قدمی سے۔ (فی
الحال جو بھی عسکری پیش رفت ہوگی وہ ہماری نظر میں ’’چھوٹی موٹی‘‘ ہی ہے تاآنکہ
عالم اسلام بھر میں ہماری فضاؤں اور ہمارے پانیوں میں اپنی عسکری قوت کے ساتھ
براجمان رہنا دشمن کے لیے ایک مشکل ترین سوال نہ بن جائے؛ فی الحال کوئی علاقائی
پیش رفت ہوبھی جائے تو اس سطح کو پہنچنا پھر
بھی ایک وقت اور محنت لےگا۔ قتال کے
میدان میں کسی کامیابی کے نتیجے میں ابھی کہیں پر آپ کوئی علاقائی اِمارت
قائم کرلیتے ہیں، جوکہ موقع ملے تو ضرور کرنی چاہئے، تو بھی
دشمن جب تک خطے میں دندناتا ہے وہ آپ کو ہزارہا اہداف کے ساتھ الجھاتا، طرح طرح کی کھیلیں
کھیلتا اور ایک کے بعد ایک پتہ پھینکتا رہے گا؛ پورے یا عالم اسلام کے بیشتر حصے
میں اسکے خلاف مزاحمت اٹھائے بغیر اور اُس کو خود اپنے گھر کی بپتا ڈالے بغیر چارہ
نہیں)۔ اِس ’’درمیانی مرحلہ‘‘ میں جہاں جہاں ہمیں کچھ سیاسی یا سماجی یا علمی یا
عسکری پیش رفت ملتی چلی جائے گی یوں سمجھئے یہ ہمارا آگے بڑھنے کا ’’راستہ‘‘ صاف
کرتی جائے گی مگر کسی ’’ٹھوس منزل‘‘ کا سوال ابھی قبل از وقت
ہوگا اور اس کی ’’تفصیلات‘‘
کو لے کر بیٹھ جانا وقت کا ضیاع۔ اِس مرحلہ میں ہماری اصل قوت جس چیز میں پنہاں
ہے وہ البتہ مغرب کے فکری پیراڈائم کو توڑنا ہے نہ کہ اس میں فٹ ہونا۔ اِس کو
توڑنے میں ہماری زندگی ہے اور اس کے اندر فٹ ہونے میں ہماری موت۔ مغرب
جس کا عالم اسلام پر فکری، سیاسی اور معاشی اقتدار توڑنے کا ہمیں اس وقت چیلنج
درپیش ہے، اور اِس چیلنج پر پورا اترنے کو ہی ہم نے ’’عالمِ اسلام کی حقیقی
آزادی‘‘ سے تعبیر کیا ہے... مغرب کے ساتھ اپنے اِس معرکے میں ہماری قوت کا اصل راز
اور ہماری ’’پیش قدمی‘‘ کو جانچنے کا اصل معیار یہی ہوگا کہ ہم مغرب کی نظریاتی
مصنوعات اور ان کی ’اسلامائزڈ‘ صورتوں کو کس شدت سے مسترد کرواتے اور ان کی جگہ پر
اپنی خالص اسلامی اشیاء کےلیے جگہ پیدا کرانے اور قوم کو اپنی ان خالص اسلامی
اشیاء کےلیے بے چین کرنے میں کس درجے کی کامیابی پاتے ہیں۔
*****
اِس مقصد کےلیے ضروری ہے کہ:
مغرب کے ساتھ ہماری عقائدی جنگ تو عالم اسلام کے ہرہر خطے
میں کھڑی ہوجائے... ’’دو ملتوں‘‘ کا فرق (دینِ مغرب کی جدید مصنوعات کے حوالے سے) اِس شدت
کے ساتھ سامنے لے آیا جائے کہ ملت کا ایک ایک فرد اِس معرکہ میں اپنی ’’جانبداری‘‘
کا سوال طے کرنے پر مجبور ہوجائے۔
Þ
پڑھےلکھے اِس
’’عقائدی جنگ‘‘ کی علمی جہتوں کو لے کر چلیں، اور
Ý
عوام الناس اِس کی
سماجی جہتوں سے وابستہ کرائے جائیں۔
یہ چیز تو ہر ہر ملک میں
ضروری ہے۔ اصل کام جس سے یہ سب معاملہ کوئی جہت اختیار کرے گا، یہی ہے۔
ہاں اس کے بعد دیکھا جائے:
جس جس خطے میں سیاسی پیش قدمی
ممکن ہو وہاں وہاں سیاسی پیش قدمی کی جائے (سیاسی میدان میں جہاں کچھ پیش رفت ہو
وہاں بھی، دانشمندی کا دامن تھام رکھتے ہوئے، محنت کا فوکس اپنی تعمیرات کھڑی کرنے سے بڑھ کر دشمن کی تعمیرات گرانے پر
رکھا جائے؛ کیونکہ
فی الوقت کی اصل ترجیح ہے ہی دشمن کو پچھاڑنا اور اُس کے تسلط سے نکلنا؛ دشمن کا
تسلط جب تک برقرار ہے اُس کی ایک سے ایک نئی شرارت کےلیے آپ کو تیار رہنا ہوگا؛
صاف بات ہے ایک پائیدار صورتحال اِس مرحلہ سے گزرلینے کےبعد ہی آئےگی۔)
اور جس خطے میں عسکری پہلوؤں
سے استعمار کے دانت کھٹے کرنے کے مواقع ملیں (مانند افغانستان، عراق، مالی، صومال
وغیرہ) وہاں پر عالم اسلام کی بہت ساری قوت جہاد کی نصرت پر جھونک دینے کی سبیل
ہونی چاہئے۔ ان مقامات پر بھی ’’اسلامی حکومتیں‘‘ بنانے یا
’’اسلامی نظام‘‘ کھڑے کرنے کی کوئی ایسی جلدی نہ ہونی چاہئے (گو اِسے کوئی ممنوعہ
چیز بھی نہ سمجھنا چاہئے)؛ ہمارا ’’اقتدار‘‘ فی الوقت یہاں سو بار گرایا جائے تو پروا نہ ہونی
چاہئے۔
(ایک پائیدار
’’اقتدار‘‘ یا ’’نظام‘‘ یا ’’خلافت‘‘ ایسی اشیاء اِس گھمسان سے گزر لینے کے بعد ہی
ممکن ہیں) اصل چیز فی الوقت یہاں استشراق اور استعمار کی کمر توڑنا ہے؛ یہ اگر ہوجاتا ہے تو عالم
اسلام پر اُس کی جکڑ آپ سے آپ ڈھیلی پڑتی جائے گی اور تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ آپ
یہاں اپنی مرضی کی ایک دنیا کھڑی کرنے کے آزادانہ مواقع پانے لگیں۔ عسکری میدانوں
میں دشمن پر لگائی گئی ہر ضرب اُس کو روس کے انجام سے قریب تر کرتی چلی جائےگی جس
کی بابت ہمیں یاد ہے اس کا
اصل انہدام collapse
of the Soviet Empire مجاہدین کی اُن چھوٹی چھوٹی
ضربوں سے عسکری میدان میں نہیں بلکہ معاشی میدان میں ہوا تھا۔ ایسی
ہی صورت (ان شاء اللہ وبفضلہٖ تعالیٰ) اِس مغربی عفریت کو بھی پیش آسکتی ہے (جس کے بعد اس کو اپنے ہی
اندر کی بپتا پڑ جائے) بشرطیکہ ہمارے وہ سب دینی طبقے جن کے کھل کر سامنے آنے میں
نقصان نہیں آج پوری قوت کے ساتھ ہمارے اِس عالمی جہادی عمل کی پشت پر آجائیں اور
امت کو بھی اس کی پشت پہ لےآنے پر کمربستہ ہوجائیں۔
(ہماری ڈیڑھ سال پرانی ایک تحریر
’’پیراڈائم شفٹ‘‘ سے اقتباس)