السلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہٗ
قارئین کرام، دعاگو
ہیں کہ عشرہ ذوالحجہ کے بابرکت ایام ، عرفۃ کی روح پرور ساعتیں اور جانے والے اس سال کی بازگشت ہمارے لئے بطور فرد اور بطور امت
مثبت انقلاب کی ایک نئی کڑی ثابت ہو۔
۲ جولائی کو القدس میں ۱۴سالہ محمد ابو خضیر کو انتہا پسند صہیونی زندہ جلا ڈالتے ہیں۔ دوسری جانب حماس
پر تین اسرائیلی زیر تربیت فوجیوں کے اغوا کے الزام کی آڑ میں ۵۰ دنوں پر مشتمل آگ
اوربارود کی ایک ایسی جنگ مسلط کر دی جاتی ہے جو غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنا ڈالتی ہے
۔۲۰۰۰ سے زائد نہتے فلسطینی رمضان کے مقدس ماہ میں جام شہادت نوش کر کے ہمارے لیے عزم
و ہمت کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔اللہ کے بعد اپنے زور بازو پر بھروسہ رکھنے والے
مرا بطین کا ثبات، القسام کے مٹھی بھر جانبازوں کی باکمال جنگی حکمت عملی، جن کی
ابتداء غلیلوں سے ہوئی اورجو آج نہ صرف ڈرون رکھتے ہیں بلکہ میدان حرب میں'سرنگی
جنگ' کی اصطلاح متعارف کروانے کا امتیاز
رکھتے ہیں ، اللہ کے ان شیروں کی قربانیوں
کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ.. دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد فوج کو ناکوں چنے چبوا کر میدان
سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ربانی فتح و نصر کی یہ بشارت ارزاں
سودا نہ تھا کہ اس میں محمد علی الضیف،
سارہ الضیف اور وداد جیسی پاکیزہ روحوں کے خون کی آمیزش تھی۔ ختامه مسك...اس معرکہ ٔ حق و باطل پر مہر وفا ثبت کرنے اور رمز نصرت کو محمد برھوم، محمد
ابو شمالہ اور رائد العطار کی قربانیاں درکار تھیں اور ایک عالم نے دیکھا کہ ان
شہداء کی کم سن بچیوں نے اپنے والد کی شہادت پر کس خوشدلی اور استقامت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے کہا یا مقاومۃ اشتدی!یہ جانیں راہ خدا میں فدا ہوئیں! انکی لاج رکھنا!دشمن کی
گیدڑ بھبکیاں حوصلوں کو متزلزل نہ کرنے پائیں !وہی دشمن جو راکٹ فائر بند نہ ہونے
تک نام نہاد مذاکرات کی میز پر آنے میں اکڑ دکھا رہا تھا، جب اسکی جنگی تدبیریں کھائے
ہوئے بھوسے کا ڈھیر ثابت ہوئیں تو اس نے خود فرار میں ہی عافیت جانی کہ زندگی سے
محبت رکھنے والی اس بزدل قوم کا سامنا ان نفوس سے تھا جو اس رب کی بارگاہ میں اپنا
سب کچھ قربان کرنے کو اسکی عطا کردہ معراج جان کر ہنستے ہوئے موت کے گلے جا ملتے
ہیں۔
اس فتح کا جشن ابھی ادھوراتھا کہ امت
کو مکار دشمنان دین کی طرف سے ایک کاری
ضرب لگی۔احرار الشام کے عظیم قائد حسان عبود ابو عبداللہ
الحموی اور انکی قیادت جنان الخلد کی جانب رواں دواں ہو گئے۔ بلاشبہ یہ شامی جہاد کیلئے ایک ناقابل بیان خسارہ تھا۔ اس مرد جری
کی زیر قیادت ۹۰۰۰۰مجاہدین نصیری حکمرانوں کے خلاف ایک علم تلے جمع ہونے کے مراحل میں تھے اور اس مقصد کیلئے مشترکہ لائحۂ
عمل طے کیا جا رہا تھا۔ہم دعاگو ہیں کہ
انکے جانشین ہاشم الشیخ ابو جابر انکے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچاسکیں اور شام کے
مسلمانوں کی آزمائش ختم ہونے میں آئے۔ فاعظم اللہ اجرنا فی اخواننا الذین سبقونا بالجنۃواحسن اللہ عزانا ..جہاد جاری رہے گا ان شاءاللہ کہ یہ اسکے لئے ہے جو
لافانی ہے ۔یہ جہاد رجال کیلئے نہیں رب الرجال کیلئے ہے ، لہذایہ تھپیڑے ان طوفانی
موجوں کو نہ روک پائیں گے جو ساحل تک پہنچنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔اللہ مولانا ولا مولی لھم..
عالم اسلام خصوصاً
عالم عرب کے سکوتِ صحرا،خواب غفلت اور دنیا سے محبت نے ظلمت کے اندھیروں کو تاریک
تر کر دیا جب ۲۳ ستمبر کو رافضی حوثیوں کے ہاتھوںصنعاء کا سقوط ہواگویا کہ سقوط
بغداد کا اعادہ ہوا ! تاتاریوں کی یاد
تازہ ہوگئی۔قتل وغارت کا بازار۔ اہل السنۃ کو گھروں سے نکال دیا گیا اور سنی فوج نے کوئی مزاحمت
نہ کی ۔جامعۃ الایمان کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد میں مصاحف شہید۔ مدارس اور علوم
شرعیہ کے مراکز بند۔ جمعہ کی باجماعت نماز پر پابندی۔ پٹھووزیر اعظم استعفی دے
کرفرار کی راہ اختیار کرتا ہے۔وزیر داخلہ خود سیکورٹی فورسز سے کہتا ہے کہ حملہ
آوروں سے غیر مشروط تعاون کیا جائےاور یوں بنا کسی مزاحمت کے، یمن کا پایہ تخت ،
اصحاب القلوب الرقیقہ کا مرکز ، اصحاب الحکمۃ والایمان کا منبع تھالی میں رکھ کر روافض کے حوالے کر دیا گیا
۔تاہم کسی مغربی سفارت خانے نے اپنے باشندوں کو ملک بدر ہونے کا مشورہ نہ دیا
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حوثی ایک مخصوص ہدف کے تحت آئے تھے اور انکا مطمع نظر محض
اہل السنۃ کی بربادی تھا۔اب حال یہ ہے کہ فوج پولیس پارلیمینٹ مالیاتی اور
مواصلاتی ادارے، جامعات سب انکے کنٹرول میں ہے۔ اور یوں عراق و شام کے بعد اپنوں کی غداری اور خیانت کے باعث فی الوقت
یمن بھی ہم کھو چکے ہیں۔ فانا اللہ وانا الیہ راجعون..
قصہ ء ہزیمت یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔ کل تلک جو اس
بنا پر شامی جہاد کے خلاف تھے کہ کوئی' امام 'نہیں جس کے 'جھنڈے 'تلے جمع ہو کر لڑا
جا سکے ، ’امام اوبامہ‘ کی ایک پکار پر لبیک کر اسکے علم کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ بدبختی
جنکا نصیب ہو ..کہ سال کے افضل ترین ایام میں انکے حصے میں مسلمانوں کے خلاف کفار
کی ہم رکابی آئی۔ خلیجی حکمرانوں کے بھرپور تعاون سےداعش کی آڑ میں دوسرے مجاہدین
گروپس کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے ، نہ صرف یہ بلکہ سویلین شہادتوں کی برابر
اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ۵۰۰ بلین کا بجٹ کیا حقیقتا داعش کے ۱۵۰۰۰ سپاہیوں
کیلئے مختص کیا گیا ہے؟ کیا واقعی ایک سپاہی کو مارنے کیلئے ۳۳ ملین ڈالر درکار
ہیں یا ماجرا کچھ اور ہے اور پس پردہ اہداف شام میں مجاہدین حق کی ابھرتی ہوئی
طاقت نشانے پر ہے؟
قارئین کرام حالیہ جنگ
کفر و اسلام کے مابین وجود کی جنگ ہے ۔ کون غلط ہے کون صحیح، اسکے لیے بس اتنا
دیکھ لینا کافی ہے کہ کس کا نشانہ اہل توحید ہیں اور کس کے ہتھیار دشمن کی کمین
گاہ کا رخ کیے ہوئے ہیں۔ یہی کلیہ حکومتوں پر لاگو ہوتا ہے یہی انتہا پسند اور غلو
کے موذی مرض میں مبتلا ٹولوں پر ۔ فتنے کے اس دور میں رب العرش حق کو باطل سے واضح
کر کے ہمارے سامنے لا رہا ہے۔ ليميز الله الخبيث من
الطيب..
نوجوانوں میں بیداری،
اصول الدین اور اہل قبلہ سے تعامل سے آگہی کی جتنی حاجت آج ہے شاید ہی پہلے کبھی
رہی ہو ۔ اس وقت کو غنیمت جانیے؛ بعد کی نسلوں کو شاید یہ حسرت ہوکہ وہ اس دور میں
پیدا ہوتے اور اہل حق کی تائید کر کے اپنی
عاقبت سنوار پاتے۔ امید کرتے ہیں کہ تاریکی کی یہ رات جلد اختتام کو پہنچے گی اور
سپیدہء سحر امت مسلمہ کی فتح مبین کے ہمراہ نمودار ہو گا ۔ دعا ہے کہ اس میں رائی برابر کاوش آپکی اور
ہماری بھی ہو ۔ نسال الله لنا ولكم التوفيق
تحریر: عائشہ
جاوید