جمہوریت کو ’اسلامیانے‘ میں رکاوٹیں
شیخ لطف اللہ خوجہ (استاذ العقیدہ جامعۃ ام القریٰ مکۃ المکرمۃ)
اردو استفادہ: ابن علی
مسئلۂ نزاع:
نفاذِ
شریعت کے وجوب پر پکا ٹھکا یقین رکھنے والے طبقے... جمہوریت کی بابت رائے اپنانے میں دو فریق
ہوجاتے ہیں۔ اِس معاملہ میں فیصلہ کن موقف
اختیار کرنے کےلیے ضروری ہے کہ اُس اصل سوال کا جواب دےلیا جائے جس پر یہ ساری بحث گھومتی ہے، اور وہ یہ کہ:
کیا
شریعت اور جمہوریت کے مابین ہم آہنگی ہوسکتی ہے؟
ممانعت کرنے
والا فریق کہتا ہے: ہرگز نہیں۔ یہ ہم آہنگی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ ان دونوں میں سے
کسی ایک کے اندر کوئی جذری تبدیلی نہ کردی جائے۔
تائید
کرنے والا فریق کہتا ہے: کیوں نہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جمہوریت
کے دو حصے ہیں : ایک ہے نظریہ ideology
اور ایک ہے میکنزم mechanism۔ جمہوریت
بطورِ نظریہ تو بلاشبہ شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس قاعدے پر کھڑا
ہے کہ احکام کا سرچشمہ عوام ہیں اور یہی جمہوریت کی اصل تفسیر ہے، یعنی حاکمیتِ
عوام۔ البتہ جہاں تک جمہوریت بطورِ میکنزم ہے تو یہ چند سیاسی مراحل اختیار کرنے
کا نام ہے، جس کے ذریعے عوام کے نمائندے اور سربراہِ مملکت کا چناؤ کرلیا جاتا ہے،
یعنی ووٹنگ، امیدواروں کی نامزدگی، انتخابات، اسمبلیوں کے ذریعے حکومت اور سربراہِ
مملکت کا احتساب، نیز حکومت کے کردار کو محض انتظامیہ تک محدود کردینا اور قانون
سازی اور عدلیہ وغیرہ ایسے اختیارات اس کے ہاتھ میں نہ رہنے دینا، وغیرہ... تو یہ
چند عملی طریقے ہیں جن میں سے بعض پر باقاعدہ شرعی دلیل پائی جاتی ہے اور بعض
مباحات میں آجاتے ہیں۔ جبکہ سب کا ماننا ہے کہ یہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ قصہ
کوتاہ جمہوریت بطور میکنزم اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اور جب ایسا ہے تو ہم اِس
میکنزم کو اختیار کرلیتے ہیں؛ ہاں اس کو عوام کی اتھارٹی کے تابع کرنے کی بجائے
شریعت کی اتھارٹی کے تابع کردیتے ہیں۔
اس کی
ضرورت کیوں ہوئی؟ مؤیدین کا کہنا ہے: یہ اس لیے کہ فردِ واحد کو تسلط اور اسبتداد
قائم نہ کرنے دیا جائے، کیونکہ فرد اور معاشرے کے حق میں یہ استبداد نقصان دہ ثابت
ہوا ہے، حقوق اور آزادیاں سلب کرلی جاتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہم ایک دائمی
پسماندگی کا شکار رہے ہیں۔ دوسری طرف جن قوموں نے اس جمہوری طریقے کو اختیار کیا ہے،
خصوصاً یورپی اقوام نے، تو اب وہ انصاف، ترقی اور اصلاح کے راستے میں رواں دواں
ہیں۔
سپیئر پارٹس تبدیلی ناممکن ہے
ممانعت
کرنے والا فریق اس پر جواب دیتا ہے: یہ بات تو درست ہے کہ جمہوریت دو اشیاء کا
مجموعہ ہے: ایک نظریہ اور ایک میکنزم۔ مگر یہ درست نہیں کہ اس کے میکنزم کو اس کے
نظریہ سے الگ کرنے اور پھر اس کو کسی دوسرے نظریے میں فٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ ’سپیئرپارٹ‘ تبدیلی
تین رکاوٹوں کو دور کیے بغیر ممکن نہیں:
پہلی رکاوٹ:
یہ کہ خود
’’ڈیموکریسی‘‘ کی یہ اصطلاح ہی اس بات سے اِبا کرتی ہے کہ اس کے نظریے اور میکنزم
کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے؛ کیونکہ اِس اصطلاح کے وضع کرنے والوں نے اسے ہردو
کےلیے وضع کیا ہے اور دنیا اسے اسی ایک حوالے سے جانتی ہے۔
چنانچہ
پہلا اختلاف یہاں پر سامنے آجاتا ہے۔ ایک فریق کہتا ہے ان دونوں کو الگ الگ کیا
جاسکتا ہے۔ دوسرے فریق کا کہنا ہے: ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
جس فریق
کا کہنا ہے کہ نظریے اور طریقے کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اس کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا ایک مانا ہوا
قاعدہ ہے کہ جن لوگوں نے کوئی اصطلاح وضع کی ہوتی ہے اُس کی تفسیر کرنے یا اس میں
کوئی ردو بدل کرنے کا حق بھی اُنہی کو ہوتا ہے۔
ہاں کسی دوسرے کو اس کی کوئی چیز پسند نہیں اور وہ اس میں ردوبدل کرکے کوئی
نئی چیز لانا چاہتا ہے تو اُس کو وہ
اصطلاح استعمال کرنے کا حق نہیں ہے؛ کیونکہ اُس نے جب وہ چیز بدل دی تو اب اس کو وہ نام بھی کوئی اور دے لے نہ کہ اُن
لوگوں کی اصطلاح استعمال کرتا چلا جائے جنہوں نے اپنے کسی خاص مفہوم کو ادا کرنے
کےلیے وہ لفظ وضع کیا تھا۔
دنیا کے
عقلاء کے ہاں یہی قاعدہ مسلّم ہے: اصطلاحات
کچھ مخصوص مضامین ادا کرنے کےلیے وضع کی گئی ہوتی ہیں، لہٰذا اصطلاحات کو
اُن کے اپنے ہی مخصوص مفہومات کےلیے رہنے دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ حضرات جو کسی
دوسرے کی اصطلاح میں اپنے پاس سے کچھ جمع
تفریق کرنا چاہتے ہیں، خود یہ اس بات کی اجازت نہ دیں گے کہ اِن کی کچھ اصطلاحات
جن کو یہ مقدس مانتے ہیں، کسی دوسرے کے قبضے میں چلی جائیں؛ یعنی کوئی دوسرا اِن
کے ہاں چلنے والی ایک اصطلاح اٹھائے، اس کے تحت یہ جو مفہومات لیتے ہیں وہ ان
مفہومات کو اُس اصطلاح سے باہر کردے اور اس کی جگہ خود اپنے پاس سے کچھ نئے
مفہومات ڈال دے اور پھر اس کو دنیا میں چلانا
شروع کردے!
جب یہ
حضرات اپنی اصطلاحات میں کسی دوسرے کو تصرف کی اجازت نہیں دیتے تو کسی دوسرے کی
اصطلاح میں یہ تصرف کرنے کے مجاز کیونکر ہوسکتے ہیں؟ حتیٰ کہ اگر یہ کہیں کہ یہ
اُن مفہومات کو اس لیے ’ڈیموکریسی‘ کی اصطلاح سے نکالتے ہیں کہ وہ دینِ اسلام سے
متصادم ہیں تو بھی اِن کا یہ تصرف بلاجواز ہے ۔ بلکہ اس صورت میں ان سے پوچھا جائے
گا کہ ایک ایسی اصطلاح سے چمٹنے کی آپ کو رغبت ہی کیوں ہے جو خود آپ کے بقول کچھ
خلافِ شریعت مفہومات پر مشتمل ہے؟! اور اگر اس میں کوئی خلافِ اسلام بات نہیں ہے
تو پھر اس کو ویسا ہی کیوں نہیں رہنے دیا جاتا جیسا اُس کے وضع کرنے والوں نے اس
کو بنایا تھا؛ اس صورت میں آپ کو اس کے اندر تصرف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
جب یہ
ایک مانا ہوا قاعدہ ہے کہ ایک اصطلاح پر اُس کے وضع کنندگان کے جملہ حقوق محفوظ
ہوتے ہیں... تو ہم امتِ اسلام تو دنیا کی وہ قوم ہیں جو دوسروں کے حق کا سب سے بڑھ
کر احترام کرتی ہے۔ لوگوں کے حقوق اور عہد کا ہم سب سے بڑھ کر پاس کرتے ہیں۔ لہٰذا
کسی کے مال پر ہمارا یوں ہاتھ صاف کرجانا بنتا ہی نہیں ہے۔
دوسری رکاوٹ:
یہ کہ
یہ دو متضاد چیزوں کو اکٹھا کرنے کے مترادف ہے۔
شریعت
میں فیصلہ خدا کا چلتا ہے (إن الحکمُ الا لِلّٰہ)
ڈیموکریسی
میں فیصلہ عوام کا چلتا ہے۔
چونکہ
یہ دونوں صریح متصادم ہیں؛ اس لیے ہی تو یہ حضرات مجبور ہوئے کہ جمہوریت کے
’’نظریے‘‘ میں ترمیم کردیں اور اس کے بعد شرعی دلیلوں کو اچھا خاصا کھینچ تان کر
جمہوریت کے ’’میکنزم‘‘ کی موافقت میں لے آئیں!
تیسری رکاوٹ:
تیسری
رکاوٹ ہے اس کی عملی پیچیدگی۔ یہاں ایک ایسا الجھاؤ سامنے آتا ہے کہ آگے بڑھنے کا
راستہ مفقود ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ڈیموکریسی کو شریعت کا پابند کرنا دراصل ڈیموکریسی
سے برگشتہ ہو جانے کے مترادف ہے؛ جو لبرل اور سیکولر طبقوں کےلیے ناقابلِ قبول ہے۔
ڈیموکریسی کےلیے ’حقیقی اخلاص‘ رکھنے والے طبقے یہاں قدم قدم پر آپ کے آڑے آتے
ہیں؛ یوں ہر اسلامی ملک میں آپ عملاً ایک ایسے ڈیڈلاک میں چلے جاتے ہیں جہاں شریعت
کی جانب قوم کی ایک واضح اور زوردار پیش قدمی ناقابلِ تصور رہتی ہے۔ اس رکاوٹ پر
ایک ہی صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ آپ کو میدان کہیں پر لبرلوں،
سیکولروں، اور ’حقیقی‘ جمہوریوں سے مکمل طور پر خالی مل جائے۔ مگر کیا یہ ممکن
ہے!؟
جب یہ
ممکن نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہ سپیئرپارٹ تبدیلیاں عملاً روپزیر ہوتی چلی
جائیں اور یہاں کے لبرل، سیکولر اور ’حقیقی‘ جمہوریت پسند آپ کی اِس مفروضہ
جمہوریت کو قبول کرتے اور اس کےلیے رام ہوتے چلے جائیں!؟ نتیجہ یہ کہ... جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے اِس مشن
میں؛ یہاں آپ صرف پیچیدگیاں بڑھا سکتے ہیں!
کیا یہ
ممکن ہے کہ ان سب طبقوں کو، جو اِس جمہوریت میں ہیں ہی ’اصل جمہوریت‘ سے عشق کی
وجہ سے، میدان سے باہر کردیا جائے اور ان کے پیداکردہ الجھاؤ سے جان چھڑا کر شریعت
کی شاہراہ صاف کرلی جائے؟!
آج تک
دنیا کے کسی بھی خطے میں جمہوریت کو شریعت کی چھت تلے بسیرا کرتے ہوئے ویسے دیکھا
تو نہیں گیا! دنیا کی جتنی جمہوریتیں ہیں ہم نے تو ان کو سیکولرزم کی چھت تلے ہی
پنپتے دیکھا ہے!
آج تک
ہم نے ایسا کوئی ’جمہوری میکنزم‘ نہیں دیکھا
جس میں ’حقیقی‘ جمہوریت کے متعقد شریک نہ ہوں، یعنی وہ لوگ جو عوام کو ہی
طاقت و اختیارات کا سرچشمہ مانتے ہیں، اس سے باہر ہوگئے ہوں۔ بلکہ ہم نے تو آج تک
کوئی ایسا ’جمہوری میکنزم‘ نہیں دیکھا جس میں ’مغربی جمہوریت‘ کے معتقد چھائے ہوئے
اور معاملے کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے نہ ہوں۔
مفروضے جن پر دلیل درکار ہے
اب
مؤیدین کی طرف سے سوال آتا ہے: جمہوری حل والا راستہ اگر آپ کے ہاں بند رہتا ہے تو
پھر یہ بتائیے کہ اس استبداد، کرپشن اور پسماندگی سے جان کیسے چھڑائی جائے گی؟
یعنی
قوم ایک منصفانہ، صاف ستھری اور ترقی یافتہ زندگی کا سراغ ’’جمہوری عمل‘‘ کے بغیر کیسے پاسکتی ہے؟
لیکن
اگر آپ غور کریں تو اس سوال میں چند دعوے پوشیدہ ہیں جوکہ تشنۂ دلیل ہیں:
یہ سوال
اٹھانے والوں کے نزدیک عالم اسلام کے پسماندہ اور ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے
رہ جانے کا تعلق گویا اس بات سے ہے کہ یہاں فردی اقتدار رہا ہے۔
مگر یہ
تعلق تبھی ثابت ہوسکتا ہے جب دنیا میں ایسی مثالیں نہ پائی جائیں جہاں کسی فردی یا غیر جمہوری حکومت نے ترقی حاصل کرکے دکھائی
ہو۔
البتہ
اگر ایسی ڈھیروں مثالیں پائی جائیں جہاں غیرجمہوری قوموں نے بھی خوب خوب ترقی اور
خوشحالی حاصل کرکے دکھائی ہو... تو لامحالہ یہ دعویٰ باطل ٹھہرے گا۔
تو پھر آئیے ذرا نگاہ دوڑائیں؛
کیا ایک غیرجمہوری قوم کے ہاں بھی ترقی، خوشحالی اور عدل و انصاف پایا گیا ہے؟ یہاں ہمارے سامنے ایسی قومیں آتی ہیں
جہاں ایک شخص مطلق اختیارات کا مالک
تھا، یا جہاں یک جماعتی نظام تھا لیکن دنیا کی دوڑ میں وہ دوسری قوموں کی نسبت بہت
آگے پائی گئیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال چین ہے۔ اس سے پہلے آپ کے سامنے سوویت
یونین تھا جہاں پر ’حکمران پارٹی‘ ہی
ملک کے سیاہ سفید کی مالک تھی اور ترقی اس قدر کہ وہ دنیا کی سپرپاور تھی۔ زمانہ
قدیم میں فارس اور روم دنیا کی سپر پاور رہی ہیں جہاں مطلق فردی حکومت تھی جبکہ وہ
آدھی دنیا پر حکمران تھیں اور انتظام و انصرام میں کمال درجے پر تھیں۔
جہاں تک
کرپشن کا تعلق ہے، خواہ وہ مالی کرپشن ہو یا سیاسی یا اخلاقی یا ثقافتی... تو اس
کا لازمی تعلق فردی اقتدار سے جوڑنا، دوسری جانب ’جمہوری اقتدار‘ کو کرپشن کی ان
سب اقسام سے مبرا قرار دینا، یہ بھی کوئی علمی طرزِ استدلال نہیں۔ یہ دعویٰ بھی
صرف اسی صورت میں درست ٹھہرے گا جب اس سے متصادم مثالیں دنیا میں نہ پائی جاتی
ہوں۔ البتہ اگر ڈھیروں مثالیں اس کے برعکس
پائی جائیں تو ان حضرات کا یہ دعویٰ خودبخود ساقط ہوجائے گا۔
کرپشن
سے مکمل طور پر پاک حکومتیں تو شاید آج آپ
کو کہیں بھی نہیں ملیں گی حتیٰ کہ جمہوری ملکوں میں بھی کرپشن سے پاک حکومتوں کی
نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ تاہم تاریخ اسلامی میں کئی ایک ادوار ایسے ذکر کیے جاسکتے
ہیں جہاں فرد کا اختیار نہایت وسیع تھا مگر اس کا اقتدار کرپشن سے پاک تھا:
»
خلافتِ راشدہ سے لے کر معاویہؓ کے دورِ اقتدار کے اختتام
تک، پھر عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور، پھر
عباسیوں میں معتضد کا دور۔
»
پھر نورالدین زنکی سے لے کر صلاح الدین ایوبی کا دور۔
»
پھر سلطان سبکتگین اور سلطان محمود غزنوی کا دور۔
یہ وہ
ادوار ہیں جب ڈھیروں ترقی ہوئی، ڈھیروں اصلاح ہوئی، عدل کا بول بالا ہوا، جبکہ
جمہوریت نہیں تھی۔ لہٰذا ترقی، انصاف،
دیانت، اصلاح اور عدل کو خاص جمہوریت سے جوڑنا سرے سے کوئی علمی دعویٰ نہیں رہتا۔
یہ مانا
جا سکتا ہے کہ فردی اقتدار اِن منفی اشیاء کا ایک حد تک سبب ہو۔ لیکن یہ ان اشیاء
کا لازمی سبب ہو، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسری جانب جمہوریت آپ کو اِن منفی
اشیاء سے تحفظ دلانے کا لازمی سبب ہو، یہ بھی دعویٰ بلادلیل ہے۔ یہاں آپ کو ان گنت
ملک ایسے ملیں گے جو جمہوری ہیں مگر شدید بدانتظامی اور پسماندگی سے دوچار ہیں۔
بلکہ ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جمہوریت کو اختیار کرنے سے پہلے نسبتاً ان کی
حالت بہتر تھی، مثال کے طور پر جنوبی امریکہ کے کئی ایک ممالک، مشرقی ایشیا کے بہت
سے ممالک، تقریباً سب کے سب مسلم ممالک۔ پچھلی پون صدی سے یہاں جمہوریت نے جو گل
کھلائے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے بہت سے ممالک میں بدترین آمریت ہے مگر وہ آپ
کے یہاں جمہوریت کے چہرے کے ساتھ براجمان ہے۔
مغربی
ممالک میں جو ترقی اور خوشحالی ہے، جمہوریت کسی حد تک اس میں ممد ضرور ہے۔ لیکن اس کے اور بےشمار اسباب ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ وہاں کا
ساہوکار ترقی کی دوڑ میں قوم کو ساتھ لے
کر چلنے پر مصمم نظر آتا ہے، جس کی
تفصیل کےلیے کوئی اور موقع درکار ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اہم قومی امور میں وہاں عوام
کی چلتی ہے ایک بےبنیاد دعویٰ ہے۔ استبداد وہاں کہیں زیادہ عقلمندی اور منصوبہ
بندی کے ساتھ برسر عمل ہے، اب مثلاً آپ یہی دیکھ لیں:
»
وہاں حکومتیں جس وقت اپنی قوم کو تباہ کن جنگوں میں گھسیٹنا چاہتی ہیں اُس وقت
قوم کی ایک نہیں سنی جاتی اور فیصلے کرلیے جاتے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ نے عراق کی
جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا، قوم اس کے خلاف جلوس نکالتی رہ گئی مگر آمرانہ طریقوں
سے جنگ کے بگل بجا ڈالے گئے۔
»
بےروزگاری کے گراف ان میں سے کئی ملکوں میں تیزی کے ساتھ
اوپر جا رہے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کو فارغ کردیتی
ہیں اور سستی لیبر کی تلاش میں اپنی بہت سی صنعتیں ترقی پزیر ملکوں میں منتقل
کردیتی ہیں جس کے باعث وہاں کا مقامی آدمی شدید نقصان اٹھاتا ہے جبکہ ساہوکار کی
چاندی ہوتی ہے، لیکن فیصلے ساہوکار کے چلتے ہیں۔ ویسے بھی جو خوشحالی مغرب میں
دیکھی جاتی رہی تھی اس کی وجہ وہاں کی جمہوریت نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ کمیونسٹ
بلاک تھا، جس کے ختم ہوجانے کے بعد اب بھوک اور افلاس کا رخ اُدھر کو بھی ہونے لگا
ہے۔
پھر اگر
’فردی حکومت‘ میں کسی خاص خاندان، یا خاص نسل، یا خاص قبیلے کی اجارہ داری ہوتی ہے
... تو جمہوریت میں یہی اجارہ داری ایک خاص سرمایہ دار اقلیت کے پاس ہوتی ہے، فرق
کیا رہا؟ یہ سرمایہ دار اقلیت خود حکومت نہ کرے کٹھ پتلیاں لے آئے، بات تو ایک ہے۔
یہ وجہ ہے کہ جمہوریت میں برسراقتدار آنے والی پارٹیاں اس مراعات یافتہ طبقے کے
مفادات کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتیں۔ قانون ہمیشہ ان کا تحفظ کرکے آگے گزر جاتا ہے۔
جمہوریت
کے پاس ایسا ’میکنزم‘ آج تک نہیں پایا گیا جہاں یہ قوم کو سرمایہ داری استبداد سے
تحفظ دلا سکے اور ساہوکاروں کی لوٹ مار سے نجات دلوا سکے۔ لوگ تو پھر نوکر کے نوکر
رہے۔ ہاں اجارہ داری ایک طبقے سے کسی
دوسرے طبقے کو منتقل ہوگئی!
یہ مانا
جاسکتا ہے کہ ہر قاعدے کی کوئی نہ کوئی استثنا ہو۔ لہٰذا کہیں خال خال ایسی صورت
پائی جائے جہاں جمہوریت نے واقعتاً لوگوں کو ہر قسم کے طبقے کی اجارہ داری سے تحفظ
دلوا دیا ہو تو وہ کوئی استثناء ہی ہوسکتی ہے نہ کہ ایک عمومی قاعدہ۔
’فردی
اقتدار‘ میں لوگوں کے حقوق اگر طاقت اور تشدد کے ذریعے ہضم کیے جاتے ہیں تو
’جمہوری اقتدار‘ میں مراعات یافتہ طبقہ ’سسٹم‘ اور ’قانون سازی‘ ہتھکنڈوں سے لوگوں
کا استحصال کرلیتا ہے۔
یہ
بالکل سچ ہے کہ جمہوریت میں کچھ مثبت اشیاء بھی پائی جاتی ہیں، تاہم اس میں منفی
اشیاء بھی پائی جاتی ہے۔ مگر یہ چیز تو ہر
نظام کے ساتھ ہے۔ دنیا کے ہر نظام میں ہی بہت سی اچھی اشیاء بھی ہوں گی اور بہت سی
بری اشیاء بھی!
تو پھر کیا کیا جائے؟
مؤیدین
کی طرف سے سوال آتا ہے: تو پھر کریں کیا؟ اِسی طرح رہیں؟ معاملے کو اِسی طرح چھوڑ
دیں؟ قومی معاملات کو سدھارنے کا خواب بھول جائیں؟ ترقی کا خیال جھٹک دیں؟ انصاف
کی امید ترک کر دیں؟
ہمارا
اصل بحران یہ ہے کہ ہم مسئلے کے حل کو ایک ہی چیز میں محصور سمجھتے ہیں اور پھر پوچھنے لگتے ہیں کہ اگر یہ نہ کریں تو کیا کریں۔ سوال
یہ ہے کہ جمہوری راستہ اپنا کر بھی کیا دیکھ نہیں لیا گیا؟ خود تجربہ ہی بتا رہا ہے کہ جمہوری راستہ ہماری
صورتحال کو سدھارنے کا کم از کم واحد
راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا جمہوری راستے پر چلتے ہوئے بھی اصولاً تو یہی بنتا ہے کہ آپ
یہ سب سوال اسی بےچینی سے اٹھائیں: آخر
کریں کیا؟ اِسی جمہوری مشقت میں رہیں جو ہمیں کہیں لے کر نہیں جارہی؟ معاملے کو
اِسی ڈگر پر چھوڑ دیں؟ قومی معاملات کو
سدھارنے کا خواب بھول جائیں؟ ترقی کا خیال جھٹک دیں؟ انصاف کی امید ترک کر دیں!؟
ہمارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم بہت سی جہتوں میں
بیک وقت آگے بڑھیں۔
یہ ایک
حقیقت ہے کہ جمہوری نظامِ حکومت مسلمانوں کے ہاں کبھی معروف نہیں رہا، اگرچہ دعویٰ
کرنے والے کتنا ہی دعویٰ کریں۔ یہ جمہوریت جس کے تانے مغرب میں بنے گئے اپنی اس
معروف شکل میں کسی بھی دور کے اندر ہماری امت کے اندر رائج نہیں رہی۔ خلافتِ راشدہ
سے لے کر خلافتِ عثمانیہ تک، کبھی یہ ہمارے ہاں نہیں پائی گئی۔
مسلمانوں
کی شریعت یا تاریخ میں اس کا کہیں ذکر تک نہ پایا جانا ہمیں یہ اندازہ کرانے کےلیے
کافی ہے کہ اس کو دین کی دلیلوں سے
واجب الاتباع ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ ہمارے
دین میں اس پر کوئی نص نہیں ہے۔ حتیٰ کی
اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ ہمارے دین کی نصوص یا ہماری خلافت کی
تاریخ سے اگر کوئی کھینچ تان کر اس کو
ثابت کردکھانا چاہے تو الگ بات ہے، لیکن اگر آپ ایک بےساختہ استدلال کرنے کے قائل
ہیں تو ’جمہوریت‘ نامی کوئی چیز آپ کو اپنے شرعی مصادر یا اپنی اسلامی تاریخ میں
کہیں نہیں ملے گی۔
پس اگر
شرعی نصوص ہمیں ’جمہوری حل‘ نہیں دے رہیں، نیز ہماری تاریخ کے کسی عہد میں یہ ’حل‘
ہمارے ہاں معروف نہیں رہا... تو ہمیں ہر حال میں اس سے چمٹ رہنے کی ضرورت نہیں ہے،
بلکہ یہ یقین کرنا چاہئے کہ ہمارے بحران کا حل اس سے کہیں بہتر انداز میں اس کے
ماسوا طریقوں کے اندر بھی پایا جاسکتا ہے۔ یہ اگر ہر حال میں ہمارے مسائل کا حل
ہوتا تو ہماری شریعت اس کو ذکر کیے بغیر نہ
چھوڑتی اور لازماً ایسی نصوص صادر کرتی کہ ہم ہر حال میں جمہوریت کے متبع رہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جس میں خیر ہو اور اُس نے ہمیں اُس کی
جانب واضح راہنمائی نہ فرما دی ہو۔
اس لیے
ہم کہتے ہیں: آپ کو اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے تو اُن اشیاء میں ڈھونڈیے جو
نصوصِ شریعت کے اندر بیان ہوئی ہیں نہ کہ اُس چیز میں جو شریعت میں کہیں ذکر نہیں
ہوئی ہے۔ ہاں شریعت میں جو چیزیں آئی ہیں اور جوکہ ہماری اس صورتحال میں ہماری
شدیدترین ضرورت ہیں، وہ یہ ہیں:
»
دین کی دعوت۔ مؤثر ابلاغ۔ نصیحت وخیرخواہی، حاکم کےلیے بھی،
عالم کےلیے بھی اور عامۃ الناس کےلیے بھی۔
»
تربیت۔ مؤثر افراد کی تیاری۔ اصلاحی عمل۔ خدمت۔ صدقہ۔
»
لوگوں کو اساسیاتِ دین کی تعلیم۔ دنیا کے معاملات میں ان کی
راہنمائی۔
»
صبر، استقامت، تقویٰ۔
»
خدائے وحدہٗ لا شریک کی عبادت، خالص عقیدہ، نیک اعمال: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ
آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ
الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا
يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ
فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ’’اللہ نے وعدہ
فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان
کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا
چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ
تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل
دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد
کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
فی
الحال آپ کو قربانیاں تو دینی ہیں خواہ جمہوریت کے راستے میں دے لیں یا شرعی
اصلاحی راستے میں دے لیں۔ جمہوریت بھی سب کچھ سونے کی طشتری میں رکھ کر آپ کی
منتظر تو بیٹھی ہوئی نہیں ہے جو آپ پوچھیں کہ اچھا اگر ہم نے اِس کو چھوڑ دیا
تو پھر ہمارے اسلامی اہداف کا کیا بنے گا اور
معاشرے کی اجتماعی اسلامی ضرورتیں کیونکر
بر لائی جائیں گی!
ادھر یورپی
تجربہ سے نتائج اخذ کرنے والوں کا کہنا ہے
کہ جمہوریت کی راہ سے قوموں کو اپنے حقوق تک پہنچنے کےلیے سو سال لگ سکتے ہیں؛ یہ
ایک مسلسل عمل ہے اور قوم کو طویل عرصہ اس پر تربیت پانا ہوگی۔ پھر بھی سب حقوق
نہیں ملتے؛ کچھ حقوق ملتے ہیں۔
یعنی جمہوریت کا راستہ بھی
چلنا ہے تو سو سال تک قوم کو جمہوریت پر
تربیت پانا ہوگی۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ ہم
قوم کو اسلام پر تربیت دے لیں؟ سو سال
لگنے ہی ہیں تو کسی کام کی چیز پر تو لگیں!!!
*****
واضح
رہے، ہماری گفتگو اس حوالے سے تھی کہ کیا جمہوریت کو کسی بھی حوالے سے اسلام کی سند دی جاسکتی ہے یا نہیں؛ جس کا جواب قطعی نفی میں ہے۔
یہاں ہمارا مقصد اس نقطہ نظر کا رد کرنا تھا جس کا کہنا ہے کہ جمہوریت کو اگر محض ایک طریقِ کار کے طور پر
لیا جائے تو وہ ’اسلامی‘ ہوسکتی
ہے۔
البتہ
یہ بات کہ اسلامی تحریکیں معاشرے سے کٹ کر بیٹھ جائیں، گوشہ نشینی میں جا پڑیں اور
زندگی کی دوڑ سے باہر آجائیں... یہ ہماری گفتگو کا موضوع ہے اور نہ مقصود۔
ہم یہ
بالکل نہیں کہہ رہے کہ جمہوریت کو غیراسلامی جاننے کے نام پر آپ میدان سارے کا
سارا اسلام دشمنوں کےلیے خالی چھوڑ دیں اور یہاں پر ان کو کھل کھیل اور من مانی
کرنے دیں۔ یہاں آپ جو کرسکتے ہیں ضرور کریں۔ (انتخابی عمل میں اگر واقعتاً کہیں آپ
کا ہاتھ پڑتا ہے تو اس کے ذریعے سے) شر کو
جتنا کم کرسکتے ہیں اور خیر کےلیے جتنی گنجائش پیدا کرسکتے ہیں ضرور کریں، مگر
اس دلیل سے نہیں کہ یہ جمہوری طریقِ کار ہماری نصوصِ شریعت کا فرض کردہ ہے یا
ہماری خلافتِ راشدہ کے ہاں یہ کوئی دستور چلا آیا ہے، بلکہ اس دلیل سے کہ یہ
ایک اضطرار ہے تاکہ دین دشمنوں کا راستہ کھلا نہ چھوڑا جائے۔ ہاں یہ
اضطرار اور مجبوری ایک بالکل اور مسئلہ ہے، جس کی دلیل بھی اور ہے اور اس کو
زیربحث لانے کی اپروچ بھی اور۔ ظاہر ہے
ہماری بحث اس موضوع پر نہیں تھی۔
عوائق أمام شرعنة
الديمقراطية http://www.saaid.net/Doat/khojah/44.htm