شریعت،
بغیر مرضیِ عوام!؟
شیخ لطف اللہ خوجہ (استاذ العقیدہ جامعۃ ام القریٰ مکۃ المکرمۃ)
اردو استفادہ: ابن علی
سوال: اسلام
میں شریعت کو عوام پر زبردستی
نافذکرنے کا کیا حکم ہے، جبکہ اس معاملہ میں عوام کی منظوری یا رائے نہ لی گئی
ہو؟ نیز انتخابات کے ذریعے حکومت یا
اقتدار میں تبدیلی لانے کی بابت شرعی موقف کیا ہے؟ کیا یہ بات اسلام کے بنیادی
مسلمات اور مبادی کے ساتھ متصادم نہیں ہے؟ نیز اس بابت کیا شرعی موقف ہے کہ اسلام
پسند حضرات کچھ دوسرے لوگوں کے حق میں جو کہ سیکولر ہو سکتے ہیں حکومت اور اقتدار
سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ اقتدار میں رہنے کےلیے جتنی سیٹیں درکار تھیں اسلام پسندوں کو اتنی سیٹیں نہیں مل پائیں؟
جواب: سوال میں بنیادی طور
پر تین مسئلے اٹھائے گئے ہیں:
1.
عوام کی مرضی اور منظوری حاصل کیے بغیر ان پر شریعت نافذ
کرنے کا حکم؟
2.
انتخابات کے ذریعے حکومت اور اقتدار میں تبدیلی لانے کا
حکم؟ نیز یہ کہ اس کا اسلام کے مسلمات اور مبادی کے ساتھ کوئی تصادم تو نہیں ہے؟
3.
اسلام پسندوں کا اقتدار سے دستبردار ہونا اور ناکافی سیٹوں کے باعث کرسیِ اقتدار کو
کچھ ایسے لوگوں کےلیے جو سیکولر ہوسکتے ہیں، چھوڑ دینا؟
عوام کی مرضی کے بغیر شریعت کا
نفاذ؟
ایک
مسلمان ملک میں ایک مسلمان حکمران کے لیے جائز
ہی نہیں ہے کہ وہ خدا کی نازل کردہ شریعت کے ماسوا کسی چیز کے مطابق فیصلے
کرے، اگرچہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا عوام کی خواہشاتِ نفس سے موافقت نہ رکھتا
ہو۔ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا اصل دستور
ہے؛ اس پر نہ کسی لے دے کی گنجائش ہے اور نہ اس پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔
اِسی پر
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کےلیے اپنا عہد مقرر فرما رکھا ہے، فرمایا:
وَأَنِ
احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ
أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ
أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا
مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ
مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدۃ:
49، 50)
پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ
قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ
کرو؛ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ
کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان
لو کہ اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ
ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے
قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ
اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
پھر عملاً
نبیﷺ نے یہی کیا۔ بعدازاں خلفاء کا بھی یہی معمول رہا (کہ عوام کی منظوری لیے
بغیر ان پر اللہ کی شریعت لاگو کی جائے) اور چودہ صدیاں معاملہ اِسی طرح چلتا رہا۔
لہٰذا مسلم
حکمران پر مسلم ملک میں شریعت نافذ کر رکھنا منجانب خداوندی فرض ہے اور وہ اس کےلیے
خدا کے آگے جوابدہ ہے۔ شریعت نے مسلم حکمران کو ہرگز اس بات کا پابند نہیں کیا کہ
وہ اس کےلیے لوگوں سے منظوری لے۔
یہ ہے
قاعدہ۔ ہاں ہر قاعدے میں استثناء ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک ایسی صورتحال میں جہاں مسلم
حکومت کو اِس درجہ کا ضعف لاحق ہو کہ وہ اپنا بچاؤ کرنے سے ہی عاجز ہو، اور اس کا
اقتدار میں باقی رہنا کچھ دوسرے عناصر کے
رحم وکرم پر ہو، اگرچہ وہ عناصر دین میں
اس کے مخالف ہوں؛ لہٰذا یہاں اگر وہ عوام
پر شریعت لاگو کردے، جبکہ اس سے پہلے شریعت وہاں پر لاگو نہیں تھی، تو اس صورت میں اس کا اقتدار چلا جانا یقینی
ہو، یا اس کو کوئی ایسا نقصان لاحق ہونے کا اندیشہ ہو جسے وہ برداشت کرنے کی متحمل
نہ ہو... تو یہ ایک حالتِ اضطرار ہے؛ اور اضطرار کے وقت ممنوعہ چیزیں مباح ہوجاتی
ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کےلیے یہ تک مباح کردیا کہ جہاں اس کو اپنی جان کا خطرہ
ہو وہاں وہ زبان سے کلمہِ کفر بول دے۔ مسلمان جب مکہ کے اندر حالتِ استضعاف میں
تھے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے شریعت کے یہ احکاماتِ عامہ نازل نہیں فرمائے۔ یہاں تک
کہ جب مسلمان قوت میں آگئے، ان کو پشت کی
مضبوطی میسر آگئی تو مدینہ میں جاکر یہ احکام نازل ہونے لگے۔
یہ
تدریجی عمل اِس بات پر دلیل ہے، نیز حالتِ ضعف کا اعتبار کرنا اور اکراہ کی
صورتحال میں آدمی کو معذور جاننا ایسے قواعد سے بھی یہ بات ثابت ہے... کہ شریعت
نافذ کرنے کے معاملہ میں مسلمانوں کو یہ گنجائش حاصل ہے کہ جہاں یہ بات یقینی نظر
آتی ہو کہ ان کا دھڑن تختہ ہوجائے گااور ان کی آبادیاں دشمن کے زیرتسلط آجائیں گی،
جبکہ ایسے خطرے سے نمٹنے کی وہ طاقت نہیں رکھتے تو وہاں وہ نفاذِ شریعت کو مؤخر
کرسکتے ہیں، تاوقتیکہ اللہ ان کےلیے اس معاملہ میں کوئی سبیل نکال دے۔
البتہ
شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ اجتہاد کرنا اضطرار کی دلیل پر انحصار کرتا ہو، نہ کہ
شریعت کے دلائل ہی کو توڑ مروڑ کر یہ بات ثابت کی جارہی ہو۔
صرف
ایسی کسی مجبوری کے تحت اس بات کی گنجائش ہے کہ شریعت نافذ کرنے کےلیے عوام کی
منظوری حاصل کرلی جائے، یا اس پر لوگوں سے ووٹ ڈلوا لیے جائیں، کیونکہ اس سے بڑھ
کر کچھ کرلینا ممکن ہی نہیں ہے؛ جس طرح اضطرار کے وقت مردار کھالینے کے سوا کوئی
چارہ ہی نہیں ہوتا۔
انتخابات کے ذریعے اقتدار میں
تبدیلی لانا؟
ظاہر ہے
اس سے مراد عام انتخابات ہیں جو جمہوری اصولوں کے مقرر کردہ ہیں۔ انتخابات کا یہ
جو طریقہ ہے، اس کی سند نہ تو نصوصِ شریعت میں ملتی ہے اور نہ خلفائے راشدین کی
تطبیقات میں نظر آتی ہے، باوجود اس کے کہ لوگوں نے کھینچ تان کر اس کو شریعت اور
خلفائے راشدین کے دستور سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چودہ سو سال تک یہ طریقہ
ہمارے ہاں کہیں نہیں پایا گیا۔ اس کے قریب ترین، نہ کہ اس جیسی، جو چیز ہمارے ہاں
پائی گئی اس کے نام ہے شوریٰ۔ ان دونوں کے مابین واضح فرق ہے۔ کیونکہ شوریٰ ایک
خاص طبقے میں محصور ہے جن کو ہم اہل حل و عقد کہتے ہیں اور جوکہ علماء اور فہم و
دانش میں اعلیٰ سطح کے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’عام لوگ‘ اس میں نہیں آتے، جو کہ
جمہوریت کی رو سے ضروری ہے۔
یہ طریقہ
ہمارے ہاں کبھی معروف نہیں رہا، تاہم انتخابِ عام کے ذریعے حاکم کا چناؤ کرنے میں
شریعت کے اندر کوئی واضح ممانعت بھی وارد نہیں ہوئی ہے۔ البتہ چناؤ کے اِس طریقے میں جو مفاسد پائے جاتے ہیں اُن پر اگر نصوصِ
شریعت کی روشنی میں نظر ڈالی جائے تو مقاصد و نتائج کے اعتبار سے نصوصِ شریعت ہمیں
اس طریقۂ انتخاب سے ممانعت کرتی نظر آئیں گی۔ کیونکہ اصل مقصود ہے ایک اہل اور
موزوں حکمران کا چناؤ، جبکہ اِس طریقے سے صرف وہی شخص اوپر آتا ہے جو زیادہ پرکشش
بن سکے، زیادہ زبان چلا سکے یا جس کے پاس پیسہ زیادہ ہو یا جس کی پشت پر سرمایہ
دار ہوں۔ اس طریقۂ انتخاب میں آپ بکثرت دیکھتے ہیں کہ اپنے اپنے امیدوار کےلیے
نہایت گمراہ کن پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ گروپ بازی اور پارٹی بازی پر اصل سہارا
ہوتا ہے۔ کہیں پر برادری کا تعصب کام میں لایا جاتا ہے تو کہیں پر مفادات کی بنیاد
پر جیت ہار کرائی جاتی ہے۔ قوم کا اچھا خاصا وقت اور وسائل ضائع کیے جاتے
ہیں۔ ایک ایک امیدوار خاصا خاصا خرچہ کرتا
ہے اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ پھر اکثر اوقات دھاندلی پر مبنی نتائج لائے جاتے ہیں
اور تب جاکر ایک امیدوار جیت پاتا ہے۔ اب اتنے سے وقت میں وہ جتنی قوم کی خدمت کرے
گا اس سے بڑھ کر اُن طبقوں کی خدمت کرے گا جو اُسے اقتدار میں لے کر آئے۔ پھر یہ
چلا جائے گا اور اس سیٹ پر کوئی دوسرا آجائے گا۔ یوں ایک دوڑ چلی رہتی ہے۔ لوگوں کی حالت وہی رہتی ہے۔ ان کے مسائل عموماً
پڑے ہی رہتے ہیں، خال خال کہیں کوئی امیدیں بر آتی ہیں۔ رہ گیا ایک صالح ایماندار
آدمی تو الا ماشاء اللہ وہ اِس ہائے ہو
میں کودنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتا۔ ہر ہر جگہ جا کر اپنی ’خدمات‘ جتانا اور ان کی
بنیاد پر ووٹ مانگ کر آنا اس کی عزتِ نفس کو گوارا ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ میدان
ریاکاروں اور حیلہ بازوں کےلیے خود ہی خالی پڑا رہتا ہے۔ اصلاح کرنے والے کم ہی
یہاں راستہ بنا سکتے ہیں۔
یہ
باتیں جمہوریت کے لوازمات میں آتی ہیں، اور ایسے ہی واقعات اس پر غالب ہیں۔ ظاہر
ہے شریعت ایسے شورشرابے اور ایسی کھینچاتانی
پر موافقت نہ کرے گی۔
ہاں اگر
یہ دور کا مفرضہ قائم کرلیا جائے کہ یہ سب مفاسد اس طریقۂ انتخاب میں نہیں پائے
جائیں گے، اور اسلام کے تقرر کردہ اخلاق، اقدار، دین اور سنت سے اس کی ہم آہنگی
رہے گی تب ہم کہیں گے کہ عام رائے دہی کے ذریعہ سے حکمران کا انتخاب کیا جاسکتا
ہے۔
مزید
برآں، جہاں انتخابات کا مقصد ایک قانون ساز مجلس کا چناؤ کرنا ہو جو حلال اور حرام
کا تقرر کرے گی اور جوکہ شریعتِ خداوندی کے آگے دبی ہوئی نہیں ہے، تو اُس کا یہ عمل کفر اور شرکِ اکبر ہوگا اور دراصل یہ ایک
ایسی بات میں جو خالصتاً خدا کا حق ہے خدا کی ہمسری کرنے کے مترادف ہے۔
ہاں اگر
دوردراز کا یہ مفروضہ قائم کرلیا جائے، اور جو کہ عملاً اس قدر نادر ہے کہ تقریباً
محال ہے، کہ معاشرہ دین اور سنت پر قائم ہے، عین جس طرح صحابہ کا معاشرہ دین اور
سنت پر قائم تھا، تو ایک ایسی نادر بلکہ خیالی صورتحال میں ہی ہم یہ کہہ سکیں گے
کہ اب اس ممانعت کی علت ختم ہوگئی ہے۔ اُس صورت میں ہی یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ
ایک ایسے پابندِ دین معاشرے سے چن کر آئی ہوئی مجلس خدا کی مشروع کردہ حدوں سے گزر
کر تحلیل و تحریم نہ کرے گی، اور ایسی فرضی صورتحال میں مجلسِ قانون ساز کا چناؤ
کرنا جائز ہوجائے گا۔
لیکن...
کہاں یہ صورتحال جو ہم دیکھ رہے ہیں اور کہاں وہ صورتحال جو ہم فرض کررہے ہیں!
سیکولرز کیلئے اقتدار سے
دستبردار ہونا
یہ سوال
کرنا بنتا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ اسلام پسندوں کو اقتدار میں باقی رہنے کےلیے
مطلوب سیٹیں نہیں ملیں تو ان کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے۔ یہاں وہ اقتدار سے
نکلنے پر مجبور ہیں۔ انتخابی عمل میں شریک ہوتے وقت انہوں نے جس اصول پر اتفاق کیا
ہے اس کی رو سے اقتدار اُسی کے پاس جائے گا جو انتخابات میں فتح پائے گا۔ ہاں اب
وہ حزبِ اختلاف کی سیٹ پر بیٹھ سکتے ہیں اور وہاں سے حکمرانوں کا محاسبہ اور
نگرانی کر سکتے ہیں، نیز اگلے انتخابات کےلیے تیاری کرسکتے ہیں۔ یہ رائے جو اسلام
پسندوں کے جمہوری عمل میں شریک ہونے کو مباح قرار دیتی ہے، صرف حالتِ اضطرار کو
مدنظر رکھ کر اختیار کی گئی ہے۔