’’خلافت‘‘ کے خلاف ایک بددیانت پراپیگنڈہ،
اور اس کا بطلان:
’’قبیلوں‘‘ اور ’’شاخوں‘‘ (شعوب)، نیز زبانوں اور اقالیم
(طبعی خطوں) کا لحاظ کیا جانا شریعت کے بےشمار شواہد سے ثابت ہے۔
علاقائی رہن سہن کا تحفظ ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کی تاریخ میں
ایک معلوم حقیقت ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اپنی فطرت اور
مزاج میں ایک ایسی خوبصورت، رحمدل اور مسحورکن وحدت ہے کہ وہ سب مصائب جو ’نیشن سٹیٹ‘ والی وحدت پیدا
کرکے دیتی ہے یہاں کبھی پیش ہی نہیں آئے۔
البتہ داعیانِ ’نیشن سٹیٹ‘ کو کیا سوجھی، جس چیز (طبعی
رشتوں اور علاقائی رہن سہن) کو قتل کرتے کرتے آج یہ ناپید کردینے کے قریب ہیں اُس
کے تحفظ کا واسطہ دے کر یہ اپنی اس بےرحم ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے کیس کو ثابت اور ہماری
’’خلافت‘‘ کو ناثابت کرنے لگے! یہ ایک الٹی گنگا ہے جسے ہمارے بہت سے لوگ سمجھنے
سے قاصر ہو رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے اس میدان میں بھی ہمارا ہی پلڑا بھاری ہے؛
بلکہ فریقِ مخالف اِسی ایک پوائنٹ پر ہم سے مات کھا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانیت
بلکہ انسانی رشتوں اور انسانی جذبوں کے بھی قاتل ہیں؛ البتہ دجل میں ان کا جواب
نہیں۔
اسی کیس کو ’مذہبی‘ سپورٹ دینے کےلیے’’المورد‘‘کے مفتیانِ
کرام ٹی وی چینلز پر طریقے طریقے سے اپنا وہ مدعا بیان کرنے لگے ہوتے ہیں کہ: اصل فساد مملکتِ پاکستان کے
اُس خمیر اور اُس فارمولے میں ہے جو ’’دین‘‘ کو ’’مملکت‘‘ کی بنیاد بنانے سے
اٹھایا گیا تھا؛ اور پھر ’بنگلہ دیش‘ کی مثال کو گھماگھما کر اپنے دعوے کے حق میں
’دلیلِ قطعی‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں! اس پر؛ ان کا ٹیپ کا مصرع یہ ہوتا ہے کہ ’ریاست‘
کی بنیاد تو زبان اور علاقائی رہن سہن وغیرہ ہی ہوسکتا ہے؛ اس کی بنیاد ’مذہب‘ کو
بنانا تو سراسر نادانی ہے؛ شریعت نے کب یہ کہا ہے کہ ریاست کی بنیاد ’مذہب‘ ہو؟!
پھر یہاں سے ان کا رخ ’’خلافت‘‘ کی طرف ہوجاتا ہے جوکہ ان
کی نظر میں اور بھی بڑی دیوانگی ہے؛ باربار سوال اٹھاتے ہیں کہ کیسے آپ مراکش سے
انڈونیشیا تک کو ایک کرلیں گے جہاں درجنوں زبانیں اور ڈھیروں کلچر ہیں! (’درجنوں
زبانوں اور ڈھیروں کلچرز‘ کو ’ایک ریاست‘ کی قید ڈالنے پر کاش ہماری ’’ٖخلافت‘‘ یا
’’پاکستان کے فارمولے‘‘ کو
معاف کرکے فی الحال اِن حضرات کا رخ
’’بھارت‘‘ کی طرف ہوجائے جہاں ملک کے ایک طرف کا باشندہ دوسری طرف کے باشندے کی
بات سمجھ تک نہیں سکتا؛ لیکن یہ تسلسل کے ساتھ ’’پاکستان‘‘ اور ’’خلافت‘‘ ہی کو
اپنی مشقِ سخن کےلیے منتخب فرماتے ہیں! البتہ ’ذہانت‘ سے کام لیتے ہوئے ’بنگالیوں‘
کی مثال دینے کے بعد اپنی بات ’نامکمل‘ چھوڑ دیتے ہیں! ظاہر ہے بلوچ کو پنجابی سے
جوڑنے والی کوئی گوند ’مذہب‘ سے بڑھ کر مضبوط نہیں ہے؛ اس گوند کا استعمال متروک
ٹھہرا دیں تو یہ رشتہ خود ہی قابل ترس
ہوجاتا ہے)۔
*****
طبعی رشتے، علاقائی رنگ، زبانوں کا تنوع (اخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ)...
اور ہماری ’’الجماعۃ‘‘؛ یہ ایک دوسرے کےلیے ہی تو بنے ہیں! اِس تعددِ اجناس کے
بغیر ’’الجماعۃ‘‘ کا کیا لطف؟! یہ تو ایک عالمی کمیونٹی ہے اور روئے زمین پر ’’مل
کر‘‘ خدا کی عبادت کرتی ہے؛ اس کو رنگوں اور زبانوں کا اختلاف کیا کہے گا؛ یہی تو
اس کی خوبصورتی ہے!
طبعی رشتوں اور قدرتی جذبوں کو اسلام کس طرح اپنی آغوش
فراہم کرتاہے اور ان کو گزند پہنچانے سے کس قدر دور ہے، ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کی
تاریخ ان خوبصورت حقیقتوں سے لبریز ہے۔ اس پر تعلیق 12 میں کچھ بات ہو چکی۔ امیر
المؤمنین حضرت عمر کی ہدایات پر والیِ فارس حضرت سعد بن ابی وقاص نے دو نئے شہر
بسائے، کوفہ اور بصرہ (جس کا ذکر آگے ابن
تیمیہ کے متن میں بھی آر ہا ہے)، تو
’’مسجد‘‘ اور ’’دار الامارۃ‘‘ کو مرکز بنا کر اردگرد کی ہفتگانہ تقسیم کی گئی اور
ہر حصہ قبائل کے ایک ایک مجموعہ کو الاٹ
کیا گیا۔ یہ دونوں شہر دراصل مجاہدین کی رہائشی چھاؤنیاں تھیں (حضرت عمر کا
اجتہاد کہ ہر مجاہد کے چھٹی پر گھر جانے اور واپس آنے میں امت کا وقت ضائع ہوتا
ہے، نیز آدمی کے گھر سے دور رہنے میں کچھ مفاسد ہیں جبکہ جہاد اس امت پر فرض ہے؛
چنانچہ کوفہ و بصرہ کی یہی قبائلی تقسیم (جو پیچھے اُن کے اپنے اپنے قبیلے یا خطے
سے وابستہ تھی) آگے جہاد اور اس کی تیاری میں فائدہ دیتی تھی۔ تاریخ طبری میں ان
قبیلوں کی ترتیب تک درج ہے۔ کہا جاتا ہے حضرت معاویہؓ کے دور تک کوفہ و بصرہ کی
یہی تقسیم رہی۔ یہاں تک کہ زیاد نے اس سباعی تقسیم کو رباعی تقسیم میں بدل دیا جس
سے اُس کا مقصد بنو امیہ کو ناپسند کچھ قبائل کو بکھیرنا تھا۔ ہر اقلیم کی وحدت اور انفرادیت کو مختلف سطحوں
پر برقرار رکھنا خلافت میں ایک عمومی تسلسل کے طور پر ہمیں نظر آتا ہے۔
خلافت ایک ’’وسیع تر وحدت‘‘ اور ایسے ’’توازن‘‘ کا نام تھا
جس کے اندر یہ سب ’’طبعی‘‘رشتے پنپتے بھی خوب تھے البتہ ’عصبیتیں‘ بھی نہ بنتے
تھے۔ کیوں نہ ہوتا؛ کہ یہ خدا کے دین پر قائم ’’الجماعۃ‘‘ تھی جو انسانی فطرت کو
سب سے زیادہ سمجھتا اور سب سے زیادہ آسودہ کرتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری
اسلامی زندگی میں ’عصبیتوں‘ نے کبھی سر نہیں اٹھایا، مگر ایک بڑی سطح پر اس کی
مثال ایسے ہی رہی جیسے گھر میں دو بھائیوں اور ان کی اولادوں کے
مابین لڑائی چھڑ جائے اور کسی وقت مرنے مرانے تک نوبت چلی جائے مگر ’’رشتوں‘‘ کی مٹھاس پھر کسی وقت عود کر آئے! ہماری یہ خلافت سوا
ہزار سال تک قائم رہی، خلافت کے کمزور پڑجانے کے بڑے بڑے طویل عرصوں کے دوران
ہماری اسلامی امارتوں(جو بالعموم خلافت سے ایک انتساب رکھتی تھیں) کا فنامنا تاریخ
میں نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ اسلامی امارتیں الگ الگ ’’انتظامی اکائیاں‘‘
ضرور تھیں جو اکثر اوقات ’خودمختار‘ بھی ہوتی تھیں، اس کے باوجو آج کی ’نیشن سٹیٹ‘ کے برعکس وہ وہاں بسنے والے انسانوں
کے حق میں ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘، ’’تقسیمِ بنی آدم‘‘ اور ’’شناخت‘‘ کے کسی فلسفے
پر قائم نہ تھیں۔ جہاں تک ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘، ’’تقسیمِ بنی آدم‘‘ اور
’’شناخت‘‘ کا تعلق ہے تو – ’’دار
الاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کا فرق برقرار ہونے کے باعث – اِن
الگ الگ اور انتظامی طور پر خودمختار اکائیوں کے باوجود ’’الجماعۃ‘‘ کا
وہ عمومی معنیٰ ہی یہاں پر برقرار تھا۔
(علاوہ اس بات کے کہ یہ امارتیں ایک
مجموعی معنیٰ میں محمدﷺ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے واقف نہ تھیں)۔
البتہ نہ خلافت میں، اور نہ ان اسلامی امارتوں کے عہد میں... کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے قوموں کو بانٹا
اور قبیلوں کو کاٹا ہو۔ (اِس ’ماڈرن سٹیٹ‘ والے فنامنا کی طرح) کبھی ہم نے کردوں
کو کردوں سے کاٹا ہو اور وہ بیچارے اپنی خونی وحدت کے واسطے دے دے کر ہلکان ہوتے
پھر رہے ہوں؛ (اِن کئی کئی ’ماڈرن سٹیٹس‘ میں بٹ کر ’’کرد‘‘ اپنی قومی پہچان کو
ہمیشہ کےلیے ختم ہوتا دیکھ رہے ہوں؛ جہاں ان کے ’قومی نصاب‘ پڑھنے والےبچے ایک دن
اپنی کرد شناخت کو مکمل طور پر بھول جائیں گے اور جوکہ کردوں کے بڑوں کو اپنی
آئندہ نسلوں کےلیے کسی صورت برداشت نہیں؛ اور جوکہ یقینی طور پر ان کا حق ہے)۔
کبھی ہم نے بربروں کو بربروں سے کاٹ کر ان کو پانچ الگ الگ رنگوں کے ’پاسپورٹ‘
تھمائے ہوں۔ پشتون کو پشتون سے، بلوچ کو بلوچ سے، ترک کو ترک سے، بنگالی کو بنگالی
سے، بہاری کو بہاری سے،عرب کو عرب اور حبشی کو حبشی سے الگ کرکے ان کے مابین
’سرحدیں‘ کھڑی کی ہوں۔ }فَهَلْ
عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا
أَرْحَامَكُمْ أُولَئِكَ الَّذِينَ
لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (محمد: 22، 23) ’’تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم
صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رشتے کاٹ ڈالو؟ یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے پھرانہیں بہرا
اوراندھا بھی کر دیا ہے‘‘{ یہ سب کنبے، قبیلے، قومیں،
برادریاں ہماری خلافت اور ہماری اسلامی امارتوں کے سائے میں پوری آزادی سے پنپتی
رہی ہیں۔
’’رشتوں‘‘ کو جوڑنا اِس دین کے بڑے بڑے اسباق میں آتا ہے؛
اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کی پابندی کی ہے۔ لوگوں کے طبعی میلانات اور قدرتی جذبات
کی قدر جتنی ہمارے دین میں ہے اتنی کہیں نہیں ہے۔ علاقائی رسم و رواج (کلچرز) کو
صحابہؓ اور ان کے مابعد خلفاء، امراء، فقہاء اور فاتحین نے کبھی نہیں چھیڑا (سوائے
جہاں وہ شریعت ہی سے متصادم ہوں)۔
احادیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک یتیم انصاری بچی
کی پرورش کی اور اس کی شادی کی تو نبیﷺ نے عائشہؓ
کو خود توجہ دلائی کہ یہ اوس اور خزرج ایسے مواقع پر گانابجانا پسند کرنے
والے لوگ ہیں رخصتی کے وقت تم نے دو بچیاں
ساتھ کیوں نہ کردیں جو دف پر کم از کم یہ (لوک گانا) ہی گا دیتیں ’’أتیناکم
أتیناکم، فَحَیُّونا نُحَیِّیۡکم‘‘۔ یعنی ایک علاقائی رواج کا
اعتبار کیا۔
صحابہؓ نے آدھی
دنیا فتح کی، چاہتے تو ’’سنت‘‘ کے نام پر (جیساکہ آج کچھ نادان لوگ کرنے میں لگے
ہیں) لوگوں کے علاقائی لباس، رواج، بولیاں، رہن سہن سب تبدیل کروادیتے اور ان کو
ایک ہی ’’مدینہ‘‘ کے کلچر پر لے آتے؛مگر صحابہؓ نے ان اقوام کو اِن رنگ برنگ
موسموں، کلچروں، بولیوں اور لہجوں کا خوب لطف لینے دیا اور زندگی کو کسی بوریت اور
یکسانیت کی جانب ہرگز نہ دھکیلا۔ صرف ایک ’’عربی زبان کے حیرت انگیز پھیلاؤ‘‘ کو
آپ اس قاعدہ سے مستثنیٰ کرسکتے ہیں لیکن جن لوگوں کو قرآن سے لطف لینا آتا ہے وہ
گواہی دیں گے کہ اِن اقوام کو اِس لطفِ عظیم سے محروم رکھنا ایک بڑا ظلم ہوتا۔
صرف ڈیڑھ سو سال پہلے کی حالت پر نگاہ ڈال لیں؛ کہ جب
’ماڈرن سٹیٹ‘ نام کی یہ بلا ہمارے صحن میں نہیں اتری تھی اور ہماری خلافت اور
اسلامی امارتوں کے باقیات ہی اِن خطوں کے اندر برقرار، نیز زمین کی ’’طبعی تقسیم‘‘
ابھی جوں کی توں تھی۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں کی زبانیں یہاں اپنی زرخیزی کو پوری طرح
برقرار رکھے ہوئے تھیں۔ علاقائی شاعری عروج پر تھی۔ ہر نسل کے لوگ اپنی نسل سے جڑے
ہوئے تھے؛ ایک خون کو’کاٹنے‘، اس کا شیرازہ بکھیرنے اور ان کے مابین ’سرحدیں‘ کھڑی
کرنے والی کوئی غیرانسانی قوت یہاں نہ تھی۔ ’’انسان‘‘ روئے زمین پر آزادی سے چلتا
پھرتا تھا۔ محبتیں قائم؛ مروتیں باقی تھی۔
ہر علاقے اور ہر خطے کے اتنے اتنے مختلف کھیل، اتنی اتنی مختلف دلچسپیاں، اتنی
اتنی مختلف عادات، رسوم، معمولات کہ زندگی رنگوں کے تنوع سے بھری ہوئی تھی۔ یہ تھی
ہماری طبعی دنیا۔
البتہ
’ماڈرن سٹیٹ‘ اُس خاص عالمی ایجنڈا کو رو بہ عمل لانے کا ذریعہ تھی جس کے پیچھے
ایک مخصوص عالمی ٹولہ ہے۔ وہ فری میسونک ٹولہ
جو اسلام ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی صدیوں کا بغض پالے ہوئے تھا؛ (صدیوں کا
دھتکارا ہوا یہودی دماغ) جو اپنی منافقت کا پردہ اتار دے تو ’’انسان‘‘ کو ہنستا
برداشت نہ کرسکے۔ یہاں؛ نسلی رشتوں اور طبعی وحدتوں کو جس کند چھری سے ذبح کیا گیا آج وہ سب کے سامنے ہے؛ اور
میرا خیال ہے ’’سو سال‘‘ اپنے نتائج دکھانے
کو خردمندوں کےلیے بہت کافی ہے! ’’دین‘‘تو خیر بہت عظیم شےء ہے اور اس سے بڑھ کر
’’شناخت‘‘ تو بھلا کیا ہوسکتی ہے، لیکن اِس ماڈرن درندے نے تو ’’انسان‘‘ کی کوئی
بھی شناخت باقی نہ رہنے دی۔ دین کے بعد
کوئی شناخت ہوسکتی ہے تو وہ لوگوں کے انساب اور قبائل اور شعوب (شاخیں) ہیں۔ ان کو بھی پوری بےرحمی کے ساتھ کچل ڈالا
گیا۔ ایک ایک قبیلے اور ایک ایک طبعی قوم
کو کئی کئی ’ماڈرن‘ ڈربوں میں ڈال دیا گیا اور آئے روز اِن ’ڈربوں‘ میں
ردوبدل ہوتا رہا۔ انسان کی پہچان کےلیے کیا بچا؟ اس کا وہ ڈربہ! اب اِس ڈربے کا حال دیکھ لیجئے؛ ’’دین‘‘ تو ایک
عظیم چیز ہے اس کو بدلنے کا تو خیر کیا سوال۔ قوم (طبعی معنیٰ کی قوم) ، قبیلہ
اور نسب کبھی بدلا ہی نہیں جاسکتا (نبیﷺ نے نسب بدلنے والے پر لعنت فرمائی
ہے؛ ’’اَنساب‘‘ کا تحفظ کرنے میں اسلام نے حد کردی ہے)۔ البتہ ’ڈربہ‘ ایک لمحے میں بدلا جاسکتا ہے! کیا اس کو ’’شناخت‘‘ کہیں گے
جو انسان کے شایانِ شان ہو؟ اندازہ تو کیجئے: کسی بند کمرے میں دو مشتبہ کرداروں (two
culprits بھٹو
اور مجیب) کے دستخط ایک لمحے کے اندر کروڑوں انسانوں کی ’’شناخت‘‘ بدل دیں؟! ایسی
ناپائیدار اور ناقابلِ بھروسہ چیز؛ جو کسی ظالم کی ایک جنبشِ قلم کی مار ہو؟؟! جس
کو کوئی بھی عالمی مافیا چند سالوں کی محنت سے راکھ کی طرح اڑا دے؟؟! جس کو کسی سے
جوڑنے اور کسی سے توڑنے کےلیے آئے روز ’پلان‘ بنتے پھریں؟؟! ’’شناخت‘‘ کے طور پر
یہودی نے ہم سے ہمارا ’’دین‘‘ چھڑوا دیا (کہ بھلا یہ بھی کوئی پہچان ہوتی ہے؟!)
’’خون‘‘ اور ’’نسل‘‘ کو تتربتر کردیا۔ اور
ایسی ایک پہچان دے دی جس کا پیپر
کرنسی کی طرح کوئی اعتبار نہیں؛ لمحوں میں یہ کہیں سے کہیں چلی جائے! اور اِن ہردو
کے ’فیصلے‘ کہیں اور ہوں!
رہ گئی زبانیں اور کلچر... تو ہر شخص جانتا ہے اکثر علاقائی
زبانیں آج موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں؛ بلکہ علاقائی ہی نہیں ا ِس
مُفسد فی الارض کے ہاتھوں یہاں کی قومی
زبانیں ناپید ہونے لگیں اور اُس اصل ’’جماعۃ‘‘ (global
community) کی
زبان ہی یہاں ہر طرف چھانے لگی جو درحقیقت اس پیکیج کی روحِ رواں ہے! جیساکہ ہم نے
کہا ’ماڈرن سٹیٹ‘ دراصل ایک خاص کلچر کی نمائندہ تھی؛ یہ خود کچھ نہیں اصل میں تو
یہ زمین میں کسی اور ’جماعۃ‘ کی تشکیل کرنے کےلیے ہے۔ اس تہذیب کا سب سے بڑا ہتھیار البتہ منافقت ہے؛
یعنی دکھانا کچھ اور کرنا کچھ اور (hidden agenda)! کیونکہ اس میں مسلم فاتحین والی وہ جرأت اور صاف گوئی مفقود ہے۔
یہ وہ ملت ہے جو ریڈ انڈینز کو کچل دینے کے بعد ہر سال ان کو ’مرغِ رومی‘ (turkey) کا تحفہ دیتی ہے! خاندان کو ریزہ ریزہ کردینے کے
بعد ’مدر ڈے‘ اور ’فادر ڈے‘ کا انعقاد کرواتی ہے! اپنے بھاری بھرکم ابلاغی و
تعلیمی امکانات کو کام میں لاتے ہوئے علاقائی رہن سہن اور رسم و رواج کو تہس نہس
کردینے کے بعد ’لوک کلچرز‘ کے اجڑ جانے کے بین کرتی ہے۔ انساب، قبائل اور اقوام کو
ملیامیٹ کردینے کے بعد لوگوں کو ’’خلافت‘‘
سے ڈراتی ہے کہ اگر یہ قائم ہوگئی تو لوگوں کی ’’علاقائی شناخت‘‘ کا کیا بنے گا! اپنی دیوہیکل ملٹی نیشنلز کھڑی
کردینے کے بعد ’آزادانہ تجارت‘ اور ’فری اکانومی‘ کے راگ الاپتی ہے! واقفانِ حال آپ کو بتائیں گے کہ اِس وقت جتنی
’نیشن سٹیٹس‘ دنیا میں ہیں سب کے ’کانسٹی ٹیوشن‘ قریب قریب ایک دوسرے کا چربہ ہیں۔
یعنی شروع میں ایک ہی دستاویز تیار ہوئی تھی اور پھر تھوڑے ردوبدل کے ساتھ آگے ہر
جگہ اُسی کی نقل ہوتی چلی گئی۔ معیشتیں ایک دوسرے کی نقل۔ سیاسی نظام ایک دوسرے کا
چربہ۔ تعلیمی نظام ایک دوسرے کی مکھی پر مکھی۔ میڈیا ایک سے کورَس۔ غرض قوموں کی
قومیں ایک سی ڈرِل کررہی ہیں۔ انسانی تنوع
کو یہاں پوری بےدردی سے قتل کیا جارہا ہے۔
’’شناخت‘‘ ہی ختم ہوگئی تو پھر باقی کیا رہنا تھا؟ اب ایک
ایک چیز پر بین کرنے کا فائدہ؟
اِس درندے کے ہاتھوں
لوگوں کے علاقائی کھیل تک ختم ہوگئے؛ آپ کا ہر بچہ اب کرکٹ کا بیٹ پکڑے نظر
آئے گا؛ ’اپنی آبائی چیزوں‘ کے اب اِس کو ’درس‘ ہی دیے جاسکتے ہیں یا اس پر آہیں
ہی بھری جاسکتی ہیں؛ ’’دین‘‘ نہیں بچا تو باقی کیا بچے گا؟! ہر ہر معنےٰ میں آپ اِس
کے ہاتھوں موت پائیں گے۔ ’’اچکن‘‘ پہنے
ہوئے بازاروں میں چلتا پھرتا آدمی آج قریب قریب آپ کو مسخرہ لگے گا! یہ اُس لباس
کا حال ہے جو پورے برعظیم کا معززترین لباس تھا! رہ گئے علاقائی لباس، تو وہ صرف
لوک میلوں اور نمائشوں میں دیکھنے کی چیز ہو گئے۔ یعنی ایک سو سال کے اندر اندر،
آپ کے دیکھتے دیکھتے، آپ کی ثقافت کو انہوں نے میوزیم میں چن دیا۔ اپنی سو سال پرانی وضع قطع کے لحاظ سے آج آپ
ایک عجائب گھر ہیں؛ اپنے آپ کو وہاں ڈھونڈیے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے میں آپ کے ذوق
بدل دیے۔ آپ کے بچوں کا من پسند مشروب آج
’کوک‘ اور ’پیپسی‘ اور من پسند کھانا ’پزا ہٹ‘ اور ’میکڈانلڈ‘ میں پایا جاتا ہے!
آپ کی کوئی ایک چیز بچی ہو تو بتائیے! اِس کو کہیں گے فَرَّ
مِنَ الۡمَـــطَـرِ وَقَــامَ تَحْـتَ الْمِـــيْـزَابِ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا
ہوا‘‘!
ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور اُن کی ’یو این کمیونٹی‘ کے مابین کیا کوئی
موازنہ ہے؟!
ہمارا ایک گزشتہ مضمون پمفلٹ کی صورت میں دستیاب:
فتنہ ہیومن
ازم Rs15، ڈاک خرچ بذمہ ادارہ
مطبوعات ایقاظ