عَنْ تَمِيمٍ الداري رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الدِّينُ النَّصِيحَةُ. الدِّينُ النَّصِيحَةُ. الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ
وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ
(سنن أبي داود
4944، ومثله في الترمذي 1926،والنسائي عن أبي هريرة 4199، وأصله فی صحیح مسلم رقم 95)
تمیم داریؓ سے مروی ہوا، کہا: فرمایا رسول
اللہﷺ نے: دین تو ہے مخلص رہنا۔ دین تو ہے مخلص
رہنا۔ دین تو ہے مخلص رہنا۔ عرض کی گئی: مخلص کس کا، اےاللہ کے رسول؟ فرمایا: مخلص اللہ کا، اس کی کتاب کا، اس کے
رسول کا، مسلمانوں کے ائمہ کا اور عامۃ المسلمین کا۔
اس حدیث میں لفظ ’’النصيحة‘‘ آیا ہے جس کا ترجمہ ہمارے ہاں عام طور پر ’’خیرخواہی‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ برا نہیں، تاہم یہ اس لفظ
کی پوری دلالت، نیز حدیث کا اصل مقصود ادا کرنے
سے قدرے قاصر ہے۔ سورۃ التوبۃ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اُن لوگوں کے حق میں جو بوجہ عذر غزوۂ تبوک (جہادِ فرض عین) پر نہ نکل
سکے مگر ہیں وہ دل سے اللہ اور اس کے
رسولؐ کے ساتھ:
لَيْسَ
عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ
مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ (التوبۃ: 91)
نہیں
کوئی حرج (جہاد سے پیچھے رہنے میں) ضعیفوں پر اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر
جنہیں (راہِ جہاد میں) خرچ کا مقدور نہیں... جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص
ہوں۔
آیت کا سیاق واضح ہے (اس سے پچھلی
آیت کے برعکس) کہ ان صحابہ کا ذکر اُن منافقین کے مقابلے پر آیا ہے جو دل سے اللہ
اور رسول کے ساتھ نہ تھے۔
لفظ ’’النصيحة‘‘ کی لغوی دلالت کے حوالے سے ابن حجر عسقلانیؒ
بخاری کی شرح میں مازریؒ سے دو قول نقل کرتے ہیں:
1.
ایک:
شہد کو چھاننا اور صاف کرنا۔
2.
دوسرا:
چھدے کپڑے کو سی کر درست کرنا؛ مِنۡصَحَة کا لفظ ٹانکہ لگانے والی سوئی
کےلیے مستعمل ہے۔
مازریؒ کہتے ہیں:
پس اس کے دو معنیٰ ہوئے:
1.
کسی
کےلیے مخلص ہونا، اور
2.
اس
کے بگڑے معاملے کو سنوارنا۔
یہاں مازریؒ سورۃ التحریم (آیت 8) میں مذکور تَوبَةً نَصُوحاً کا حوالہ دے کر کہتے ہیں:
’’گویا گناہ نے آدمی کے دین کو چھید دیا تھا اور توبہ نے اس
کو سی کر پہلی حالت پر بحال کردیا‘‘۔
تَوبَةً نَصُوحاً کا مطلب مفسرین عموماً یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ
توبہ جس میں آدمی گناہ کی جانب پلٹنے کا نام نہ لے۔ یہاں سے ’نصح‘ کے
معنیٰ میں’’نبھانے‘‘ اور ’’پورا اترنے‘‘ کا مفہوم بھی آجاتا ہے۔
اس کے بعد ابن حجرؒ کہتے ہیں:
خطابیؒ کہتے ہیں: ’’نَصیحۃ‘‘
ایک جامع لفظ ہے۔ جس کا مطلب ہے کسی کےلیے پورے طور پر مخلص ہونا۔ یہ دریا کو کوزے میں بند کردینے والا کلمہ ہے۔
بلکہ لغت میں ایک لفظ بول کر یہ پورا مفہوم ادا کردینے کےلیے اس سے بہتر کوئی لفظ
ہے ہی نہیں۔ یہ وہ حدیث ہے جس کی بابت کہا
گیا ہے کہ دین کی ایک چوتھائی اِسی ایک حدیث میں آگئی ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں
امام محمد بن اسلم طوسیؒ آتے ہیں۔ جبکہ
نوویؒ کہتے ہیں: یہ حدیث ایک چوتھائی دین کیا، پورے دین کی غرض و غایت کو سمیٹ گئی
ہے کیونکہ دین ان امور سے باہر ہے ہی نہیں جو اس حدیث میں مذکور ہوئے۔
(فتح الباری، کتاب الایمان ترجمۃ باب قول
النبی الدین النصیحۃ ج 1 ص 138)
امام نوویؒ کہتے ہیں: }الدِّينُ النَّصِيحَةُ ’’دین تو ہے مخلص ہونا‘‘{ یہ وہی اسلوب ہے جو اِس
حدیث میں وارد ہوا: }الحَجُّ عَرَفَۃ’’حج
تو ہے عرفہ‘‘{ یعنی حج کا اصل ستون یا بڑا حصہ عرفہ ہے۔
صحیح مسلم کی شرح میں امام
نوویؒ کہتے ہیں:
حدیث میں ’’وفاداری‘‘ کے جو میدان مذکور ہوئے، خطابیؒ اور
دیگر اہل علم نے ان کی بابت نہایت نفیس کلام بیان کیا ہے۔ میں ان سب کو اکٹھا کرکے
تمہارے لیے اختصار سے بیان کردیتا ہوں:
لِلہِ: ’’مخلص رہے۔۔ اللہ کا‘‘
یہ ہوا اللہ پر ایمان لانا۔ اُس سے شریک کی نفی کرنا۔ اُس
کی صفات میں الحاد سے باز رہنا۔ سب کمال اور جلال کے پیرایوں کو اس کے وصف کےلیے
خاص کرنا۔ ہر نقص اور عیب سے اُس کو منزہ اور مبرأ کرنا۔ اُس کی اطاعت کا دم
بھرنا۔ اُس کی نافرمانی سے بچنا۔ انسانوں
سے بھی خاص اُس کی خاطر محبت رکھنا اور اُس کی خاطر بغض۔ اُس کے فرماں برداروں سے
ولاء (دوستی اور وابستگی) رکھنا اور اُس کے نافرمانوں سے دشمنی۔ اُس کا کفر کرنے
والوں سے جہاد کرنا۔ اُس کی نعمتوں کا معترف رہنا۔ ان نعمتوں پر اُس کا شکرگزار
رہنا۔ سب معاملات میں اُس کےلیے خلوص رکھنا۔ جو باتیں اوپر ذکر ہوئیں ان کی طرف
اوروں کو بھی بلانا اور لوگوں پر اس کےلیے زور دینا۔
وَلِکِتَابِہٖ: ’’مخلص رہے... خداکی
کتاب کا‘‘
یہ ہوا آدمی کا ایمان لانا کہ قرآن اللہ کے بولے ہوئے کلمات
ہیں، یہ اُس کی تنزیل ہے۔ مخلوق کا کلام کسی صورت اس جیسا نہیں۔ اس کی تعظیم کرنا۔ اس کی تلاوت کرنا جیسا اس کی
تلاوت کا حق ہے۔ اس کو نہایت عمدگی سے پڑھنا۔ اس کو پڑھتے وقت حالت خشوع میں
آجانا۔ تلاوت میں اس کا ایک ایک حرف ادا کرنا۔
اس میں تاویل کرنے والوں سے اس کا دفاع کرنا اور اس پر طعن کرنے والوں سے
اس کی حفاظت کرنا۔ جو کچھ اس میں آیا ہے اُس کو حق جاننا۔ اس کے احکام پر غور
کرنا۔ اس کے علوم اور اس میں مذکورہ امثال
کو خوب گہرائی میں سمجھنا۔ اس کی سمجھائی ہوئی باتوں سے عبرت لینا۔ اس کے
عجائب پر غور کرنا۔ اس کے محکم پر عمل پیرا ہونا اور اس کے متشابہ کو تسلیم کرنا۔
اس کے عموم، خصوص، ناسخ اور منسوخ کی خوب جانچ پرکھ کرنا۔قرآن کے علوم کو پھیلانا۔
لوگوں کو اس کی طرف اور اس کے حقوق کی طرف بلانا۔
وَلِرَسُوۡلِہٖ: ’’مخلص رہے... خدا کے رسول کا‘‘
یہ ہوا آپﷺ کی رسالت کو حق جاننا۔ آپﷺ جو کچھ لائے ہیں اس
سب پر ایمان لانا۔ آپؐ کے امر و نہی کی اطاعت کرنا۔ آپؐ کی زندگی میں اور آپؐ کی
زندگی کے بعد آپؐ کی نصرت کرنا۔ آپؐ کے دشمن سے دشمنی اور آپؐ کے وابستگان سے
وابستگی رکھنا۔ آپؐ کے حق کو غیرمعمولی جاننا۔ آپ کی توقیر کرنا۔ آپؐ کے طریقے اور
سنت کو زندہ کرنا۔ آپ کے مشن کو پھیلانا اور آپؐ کی شریعت کو عام کرنا۔ آپؐ کی
شریعت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا رد کرنا۔ شریعت کے علوم کو ترقی دینا۔ اس
کے معانی میں گہرائی حاصل کرنا۔ اس کی جانب دعوت دینا۔ اس کے سیکھنے اور سکھانے
میں رقت اختیار کرنا۔ اس کا اِجلال کرنا۔
سنت کی عبارت پڑھتے وقت باادب ہوجانا۔ سنت میں بغیر علم کلام کرنے سے
احتراز کرنا۔ سنت کے علماء کا اِجلال کرنا۔ آپؐ کے اخلاق ایسے اخلاق رکھنا اور آپؐ
کے آداب ایسے آداب رکھنا۔ آپؐ کے اہل بیت اور آپؐ کے اصحاب سے محبت کرنا۔ ان لوگوں
سے دوری اختیار کرنا جو آپؐ کی سنت کو بدعت سے بدلتے ہیں یا جو آپؐ کے اصحابؓ میں
سے کسی پر طعن کرتے ہیں۔
وَلِأئِمَّۃِ الۡمُسۡلِمِیۡنَ: ’’مخلص رہے... مسلمانوں کے قائدین کا‘‘
یہ ہے ان کے ساتھ حق کے معاملہ میں متعاون ہونا۔ اس میں کی
ان کا اطاعت گزار رہنا۔ اس حق کا ان کو بھی پابند کرنا، اس پر اُن کو تنبیہ اور
تذکیر کرنا نرمی اور ملاطفت کے ساتھ۔ اس
میں ان کی کوتاہیوں اور مسلمانوں کے حقوق کے معاملہ میں اُن کی لاعلمی پر ان کو
خبردار کرنا۔ ان کے خلاف خروج نہ کرنا۔ لوگوں کے دلوں میں ان کی اطاعت کےلیے
یکسوئی پیدا کرانا۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا، ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنا۔ ان کو
زکواۃ ادا کرنا۔ ان سے کوئی ناانصافی یا
بدسلوکی سرزد ہوگئی ہو تو اس پر ان کے خلاف تلوار لے کر نکل نہ کھڑے ہونا۔ ان کی
جھوٹی تعریفیں نہ کرنا۔ ان کےلیے نیک رہنے کی دعاء کرنا۔ یہ سب کچھ اس تفسیر کی رو سے کہ ’’ائمۃ
المسلمین‘‘ سے مراد مسلمانوں کے خلفاء یا
دیگر وہ لوگ جو ان کے محکموں کے افسران ہوں، یہی مشہور ہے اور خطابیؒ کے بیان میں
بھی آیا ہے۔ خطابیؒ کہتے ہیں: مگر ’’ائمۃ المسلمین‘‘ سے مراد علمائے دین بھی
ہوسکتے ہیں۔ ان کا مخلص رہنے میں یہ کچھ آئے گا: ان کی روایت قبول کرنا۔ احکام میں
ان کی تقلید کرنا۔ ان کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا۔
وَعَامَّتِھِمۡ:
’’مخلص رہے... عامۃ المسلمین کا‘‘
یہ ہے ان کو ان کے دنیوی فائدے اور اخروی مصالح کا شعور
دینا۔ ان کو ایذاء نہ پہنچنے دینا۔ ان کی جہالت دور کرکے علمِ دین سے بہرہ مند
کرنا اور اس میں قول و عمل سے ان کا مددگار ہونا۔
ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا۔ ان کے ہاں پائے جانے والے رخنوں کو پر کرنا۔ ان سے نقصان دہ اشیاء کو دفع کرنا۔ ان کےلیے نفع
آور اشیاء کو ممکن بنانا۔ ان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا، نرمی، اخلاص
اور شفقت کے ساتھ۔ مسلمانوں میں بڑی عمر کے آدمی کو عزت دینا۔ چھوٹے پر شفقت کرنا۔ ان کو نصیحت کرنے کا اچھے
سے اچھا وقت اور اچھی سے اچھی صورت اختیار کرنا۔
ان کو دھوکہ دینے اور ان کے ساتھ دو نمبری کرنے سے پرہیز کرنا۔ ان سے حسد
نہ کرنا۔ جو اپنے لیے پسند ہو ان کےلیے وہ پسند اور جو اپنے لیے ناپسند ہو ان
کےلیے وہ ناپسند کرنا۔ ان کے مال جائیداد
اور ان کی آبروؤں کا دفاع کرنا۔ قول و فعل سے ان کےلیے دیگر ہر انداز میں فائدہ
مند ہونا۔ نیکی پر ان کی خوب ہمت بندھانا۔
ابن
بطالؒ اس حدیث کے تحت کہتے ہیں: یہاں ’’مخلص اور خیرخواہ رہنے‘‘ کو ہی ’’دین‘‘ اور
’’اسلام‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ فرض ہے۔ کچھ لوگ اس کا حق ادا کردیں تو وہ اجر کے حقدار
ہوتے ہیں جبکہ باقیوں کا فرض بھی اس سے پورا ہوجاتا ہے۔ یہ فرض بقدر استطاعت ہے۔ (دیکھئے شرح صحیح مسلم از امام نووی،
حدیث رقم 95)
یہاں چند نکات اِس حدیث کے ضمن
میں ابن رجبؒ کے بیان سے (اختصار):
سورۃ التوبۃ میں اُن لوگوں کو نیکوکار کہا گیا جو بوجہِ عذر
جہاد میں نہ جا سکے تاہم وہ اللہ و رسولؐ کے مخلص تھے (إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ)۔ بنابریں؛ ایسا وقت آسکتا
ہے جب جملہ اعمالِ دین آدمی سے مرفوع ہوجائیں مگر اللہ اور رسول کا وفادار رہنا تب
بھی اُس سے مرفوع نہ ہوگا۔ اس کو کوئی ایسی بیماری آگئی ہے
کہ وہ دین کا کوئی ایک بھی عمل کرنے کے قابل نہیں رہ گیا ہے، حتیٰ کہ زبان تک چلنے
سے رہ گئی ہے، ہاں ہوش باقی ہے، تو بھی اللہ کا مخلص اور وفادار ہونا اُس سے ساقط
نہ ہوگا۔ مثلاً دل سے اپنے قصوروں پر پشیمان ہونا اور یہ عزم کرنا کہ اگر اللہ نے
اس کو صحت دی تو وہ اس کے عائد کردہ فرائض ادا کرے گا اور اس کے حرام کردہ امور سے
اجتناب کرے گا۔ اگر آدمی پر یہ کیفیت نہیں ہے تو وہ دل سے اللہ کا مخلص اور وفادار
نہیں ہے۔ اسی طرح ’’اللہ کا مخلص ہونا‘‘
یہ بھی ہے کہ اللہ کی معصیت ہورہی ہو تو آدمی اس کو قبول نہ کرے۔
’’رسولؐ کا مخلص رہنے‘‘
میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ایسے شخص پر شدید عتاب رکھو اور اس سے منہ موڑ لو جس کی
دینداری نبیﷺ کی سنت پر نہیں (اس کی بابت کیا خیال ہے جو نبیﷺ کے دین ہی کی بجائے
کوئی اور دین اور دستور اختیار کرتا ہے!)۔ نیز ایسے آدمی پر عتاب رکھو جو دنیا کے
کسی مفاد میں آکر نبیﷺ کی سنت کو گزند پہنچائے چاہے اُس کی اپنی دینداری میں وہ
سنت موجود بھی ہو۔
’’ائمۃ المسلمین کا مخلص رہنے‘‘ میں یہ بھی آتا ہے کہ آدمی
یہ خواہش رکھے کہ امت ان پر جمع رہے، اور اس بات کو ناپسند کرے کہ امت ان کے
معاملہ میں تفرقہ کا شکار ہوجائے۔ اس کو دینداری کا باقاعدہ حصہ جانے کہ اللہ کی
اطاعت میں رہتے ہوئے وہ ان کی اطاعت کرے۔ ان کے خلاف خروج کرنے کو روا رکھنے والے
کو ناپسندیدہ جانے۔ اور یہ پسند کرے کہ اللہ کی اطاعت میں ان کو شوکت اور قوت ملے۔
’’عامۃ
المسلمین کا مخلص رہنے‘‘ میں یہ بھی آتا ہے کہ: آدمی ان کے دکھ پر دکھی ہو۔ اور ان
کی خوشی پر خوش ہو۔ آدمی کا دنیوی نقصان
ہوتا ہو تو بھی مسلمانوں کےلیے جو خوشی کی بات ہے اُس پر وہ خوش ہی ہو، جیسے اشیاء
کی قیمتوں کا نیچے آنا اگرچہ تاجر ہونے کی
صورت میں اس کے منافع کی شرح اس سے نیچے چلی جاتی ہو۔ اسی طرح مسلمانوں کو نقصان
پہنچانے والی ایک پیش رفت پر پریشان ہونا۔ اس بات کی تمنا کرنا کہ مسلم معاشرہ نیک
رہے، مسلمانوں پر نعمتیں دائم رہیں اور مسلمان اپنے دشمن پر فتح اور برتری پا کر
رہیں۔ (جامع العلوم والحکم، شرح حدیث الدین النصیحۃ)
گو ایک عمومی معنیٰ میں مسلمان
تمام بنی آدم کے لیے اخلاص اور خیرخواہی رکھتا ہے، خصوصاً اگر خون کے رشتے ہوں،
جیساکہ انبیاء اپنی اپنی قوم کو کہتے رہے ہیں: وَأَنَا
لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ۔ اور اُس معنیٰ میں بنی نوعِ انسان کی ہدایت
کےلیے تڑپ مومن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ نیز دنیوی معاملات میں ایک کافر کی خیرخواہی
بھی مسلمان کا دستور ہے۔ چنانچہ ابن حجرؒ
کہتے ہیں کہ یہاں ’’اخلاص اور خیرخواہی‘‘ کو ان اشیاء میں محصور کیا گیا ہے
اس لیے کہ اغلب یہی ہے۔ تاہم امام احمد بن حنبلؒ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ
’’اخلاص اور خیرخواہی‘‘ کی وہ خصوصی صورت ہےجو اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب،
جماعۃ المسلمین کی قیادتوں اور اس کے عوام میں ہی محصور ہے۔ (دورِ حاضر کی زبان
میں: یہ مسلمان کی آئینی وفاداری کا ذکر ہے۔ گو اہل اسلام کے ہاں ’’آئین‘‘ محض کسی
سیاسی سیاق میں نہیں آتا بلکہ ایمانی سیاق ہی میں آتا ہے)۔ چنانچہ ہمارے ’ہیومن
اسٹوں‘ کی مایوسی کےلیے، یہ حدیث ’’اَئِمَّۃِ الۡمُسۡلِمِیۡنَ
وَعَامَّتِھِم‘‘ ہی کا ذکر کرتی ہے۔ اس حدیث کے تحت ابن رجبؒ امام احمد
بن حنبلؒ کا قول لے کر آتے ہیں: ’’مسلمان پر ذمی کا وفادار ہونا واجب نہیں، مگر
ذمی پر مسلمانوں کا وفادار رہنا واجب ہے‘‘۔ (دیکھئے جامع
العلوم والحکم، شرح حدیث الدین النصیحۃ) ابن حجرؒ بھی اِسی حدیث کے تحت امام احمدؒ سے نقل کرتے
ہیں کہ احادیث میں نبیﷺ نے مسلمان کے سودے کے اوپر سودا کرنے سے جو ممانعت فرمائی
ہے (جوکہ ’’مسلمان کا مسلمان کےلیے مخلص ہونا‘‘ کے معنیٰ میں شامل ہے) وہ صرف
مسلمان کے ساتھ خاص ہے۔ کافر کے سودے پر سودا کرنا مسلمان پر حرام نہیں۔ (دیکھئےفتح
الباری کا گزشتہ حوالہ)
*****
متن میں آگے چل کر امام ابن
تیمیہؒ خود بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ سب وفاداریاں کسی حلف اٹھانے
سے فرض نہیں ہوتیں (یہ مبحث ہم اپنی تعلیق ’’آسمانی شریعت نہ کہ سوشل کونٹریکٹ‘‘
میں قدرے واضح کرچکے ہیں) بلکہ یہ ذمہ داریاں اور وفاداریاں خدا کی جانب سے ازخود
عائد ہیں۔ یعنی ’’مسلمان‘‘ ہونے کے ناطے ہی آدمی کو اللہ، رسول، کتابِ آسمانی اور
جماعۃ المسلمین کی قیادت اور عوام کا وفادار رہنا ہوتا ہے۔ اس ’’وفاداری‘‘ کو
باقاعدہ ’’دین‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ بذاتِ خود ایمان ہے۔ امام بخاریؒ باب ’’الدِّینُ
النَّصِیۡحَۃ‘‘ کو کتاب الایمان میں لے کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں بھی
یہ باب اور یہ حدیث کتاب الایمان ہی میں آئی ہے۔ اس کے تحت شارحینِ حدیث نے یہی
لکھا ہے کہ مسلمان کی یہ وفاداریاں ’’ایمان‘‘ شمار ہوتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ
کرسکتے ہیں کہ ایمان کا وہ کونسا تصور ہے جو کرۂ ارض پر ’’وفاداریوں‘‘ کا یہ نقشہ
رکھے بغیر مسلمان کے یہاں مکمل ہوجاتا ہے!
بخاری میں باب ’’الدِّینُ
النَّصِیۡحَۃ‘‘ کے تحت امام بخاری جو حدیث لے کر آتے ہیں ، نیز مسلم میں
بھی اسی باب کے تحت جو دوسری حدیث آتی ہے
وہ یوں ہے:
عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: «بَايَعْتُ
رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ
الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ» (صحیح البخاری رقم 57، صحیح مسلم رقم 97)
حضرت جریرؓ سے روایت ہے، کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی
اس بات پر کہ نماز قائم کروں، زکاۃ دوں، اور ہر مسلمان کے ساتھ مخلص اور
خیرخواہ رہوں۔
یعنی رسول اللہﷺ نماز اور زکاۃ
کی طرح اس بات پر بھی باقاعدہ بیعت لیتے رہے ہیں کہ آدمی ہر مسلمان کے ساتھ
خیرخواہی اور وفاداری رکھے گا۔
حدیث کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں
« وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ» ’’ہر مسلمان کے
ساتھ وفاداری اور خیرخواہی‘‘۔
’پاکستانی‘، ’افغانی‘، ’بنگالی‘، ’سعودی‘،
’تیونسی‘ یا ’انڈونیشی‘ نہیں... بلکہ کرۂ ارض کے ہر ’’مسلمان‘‘ کے ساتھ
وفاداری... ہر ’’مسلمان‘‘ کےلیے درد رکھنا!
دوبارہ عرض کردیں، یہ وہ
وفاداری نہیں جو آپ کے حلف اٹھانے سے وجود میں آتی ہو... بلکہ یہ وہ وفاداری ہے جو
آپ کے کلمہ پڑھنے سے خودبخود تشکیل پا جاتی ہے۔
’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا معنیٰ
دینے میں یہ حدیث نہایت قوی ہے۔
سنن النسائی اور مسند احمد میں
عین یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ آتی ہے:
عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: «بَايَعْتُ
رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ
الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وعلیٰ فِرَاقِ المُشِرِک»
(النسائی رقم 4175، مسند أحمد رقم 19163)
حضرت جریرؓ سے روایت ہے، کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی
اس بات پر کہ نماز قائم کروں، زکاۃ دوں، اور ہر مسلمان کے ساتھ مخلص اور
خیرخواہ رہوں، اور یہ کہ مشرک سے ناطہ توڑ کر رکھوں۔
نسائی کی کتاب البیعۃ میں ایک باب کا عنوان ہی یہ ہے: البیعۃ
علىٰ فِراقِ المشرک۔ یعنی
ایک طرف وفاداری قائم کرنی ہے تو دوسری جانب وفاداری ختم کرنی ہے۔ یہ ہے
’’الجماعۃ‘‘۔