ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے
بعض احکام‘‘ اور اس سے چل نکلنے والے سلسلۂ کلام پر تنقید، احتجاج اور تبصروں کا
سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ہمارا زیادہ وقت اِس دوران ابن تیمیہؒ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘
پر تعلیقات میں صرف ہوا، جس کی وجہ سے یہ موضوع قدرے موخر ہورہا ہے۔ ہم اُن حضرات
کے ممنون ہیں جنہوں نے اِس سلسلہ میں ہمیں اپنی قیمتی آراء اور تنقید سے مستفید فرمایا۔ جیسے ہی اس پر
تفصیلی گفتگو کی گنجائش ہوئی، ہم ایسے بعض مراسلے بھی ان شاء اللہ ضرور شائع کریں
گے۔
*****
مسلم دنیا کو پچھلے ڈیڑھ سو سال
سے جس عظیم آفت کا سامنا ہے (یعنی امت کا مکمل طور
پر مغلوب ہو جانا اور شریعت کا معاشرے پر اپنی بالادستی کھودینا)... بلاشبہ وہ
ہماری تاریخ کی منفرد ترین آزمائش ہے؛ ایسی ناشدنی صورتحال اس سے
پہلے کبھی اس امت کو
پیش نہیں آئی۔ ایسے میں؛ خود اہل علم کے ہاں خاصی خاصی مختلف آراء کا پیدا ہونا
خصوصاً اس سے نمٹنے کےلیے ایک سے زیادہ طرزِ
عمل سامنے آنا ایک طبعی بات ہے۔ یہاں کوئی
بھی ایسا نہیں جس پر وحی اترتی ہو اور
اِس وجہ سے ہم اسی کی بات کو درست اور
باقی سب کو ہیچ کہہ ڈالیں۔ اور اس لحاظ
سے تو سب لوگ برابر ہیں؛ یہاں پیش کیے جانے والے سب آراء، سب حل اور سب لائحہ عمل
یکساں ہیں؛ کسی کو کسی پر مقدم نہیں رکھا جا سکتا۔
تاہم یہ بات کچھ بند راستے
کھولنے، آراء کی چھان پھٹک اور گہرائی میں جا کر ایک چیز کا مطالعہ
کرنے کے اندر مانع نہیں۔ یہاں کوئی بھی کسی پر مقدم نہیں، پھر بھی ایک طالب علم کو
آگے بڑھنے کےلیے کچھ نہ کچھ پیرامیٹرز parameters درکار رہیں گے۔ لہٰذا
ہماری جتنی بھی گفتگو اِس موضوع پر آج تک رہی ہے یا آئندہ ہوگی، صرف اِس حوالے سے
ہے۔ ہماری درخواست ہے، اِس پورے سلسلۂ گفتگو کو اِس سیاق سے باہر نہ لیا جائے۔
چونکہ طالبعلمی کی سطح کی ایک بات
ہورہی ہے، جس میں اشیاء کو سمجھنے سمجھانے کےلیے ایک گونہ صراحت اور بےتکلفی کے
بغیر چارہ نہیں، لہٰذا یہاں اگر کوئی ’محسوس‘ ہونے والی بات آئے تو وہ اِسی قبیل
سے ہوگی، جس پر ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ سب اہل سنت طبقے، گروہ اور تحریکیں ہمارے
لیے حد سے بڑھ کر قابل احترام ہیں؛ ان سب بھائیوں کے ساتھ محبت اور وابستگی کے ہم دل سے
قائل ہیں اور خیر کی راہ میں ان کےلیے توفیق و کامیابی، ان کی لغزشوں کی بخشش،
غلطیوں کی اصلاح اور نیکیوں کی قبولیت کےلیے ہمہ دم دعا گو۔
*****
طالبعلم کو درکار پیرامیٹرز parameters کے حوالے سے شاید
سب سے پہلی بات یہ کہ...:
ایک طالب علم اپنے لیے جہاں سے علمی
و فقہی راہنمائی لے ، جن علمی شخصیات کی آراء کو وزنی
اور قابلِ توجہ جانے، ایک تو یہ دیکھے کہ اُس خاص موضوع پراُن شخصیات کے
ہاں علمی گہرائی اور وسعتِ نظر ومطالعہ کی کیا صورتحال ہے۔ اس
خاص موضوع پر اُن کا علم کیا تخصص specialization کے درجے کا ہے؟ اور سب سے
بڑھ کر اہم یہ کہ اس پر کیا ان شخصیات کو فکری استحکام حاصل ہے؟
فکری استحکام intellectual stability سے ہماری کیا مراد ہے؟
وہ علمی شخصیات جو ایک عرصہ سے
کسی مسئلہ پر صاحبِ موقف ہیں اور اس پر جتنی سی علمی تحقیق اور مطالعہ ضروری ہے وہ
بہت پہلے (اپنے زمانۂ طالبعلمی میں ہی) اس سے عمومی فراغت پا چکی ہیں...
اتفاق یا اختلاف بےشک آپ ان شخصیات سے بھی کریں گے، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
طالبعلم کےلیے ان کی آراء کی جانب رجوع کرنا ایک درست بات ہے۔
لیکن وہ شخصیات جنہوں نے کسی
تحریکی موضوع پر ’’تحقیق‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘ کا مرحلہ ہی سر نہیں کیا؛ تحریکی دنیا
سے متعلقہ بہت سے مباحث ان کےلیے نئے ہیں؛ اپنی دعوتی و تحریکی زندگی میں یہ نیک
شخصیات اِس وقت جن اشیاء کی قائل ہیں چند سال پیشتر ابھی یہ ان اشیاء کو سمجھنے کی
کوشش کر رہی تھیں اور شاید کچھ دیر تک ان کو رد بھی کرتی رہی ہوں؛ یعنی خود یہ اشیاء
بھی جن کو آج یہ ’حتمی وقطعی‘ سمجھنے لگی ہیں چند سال پہلے ان کےلیے ’’نئی‘‘ تھیں
اور ان میں سے ایک ایک چیز کو سمجھنے اور اس پر شرح صدر پانے کےلیے ان کو ڈھیروں
وقت درکار ہوا تھا؛ جبکہ ممکن ہے ایسی بہت سی اشیاء ابھی پڑی ہوں جن کو پڑھنے،
سمجھنے اور ان پر شرح صدر پانے کےلیے ان کو ابھی ڈھیروں وقت درکار ہو... غرض وہ شخصیات جن کا علمی سفر ’’تحریکی
موضوعات‘‘ کے حوالے سے ابھی خاصا باقی ہے؛ اور اس سلسلہ میں بہت سی ’نقل مکانی‘ کا
امکان ان کے ہاں ابھی پایا جاتا ہے اگرچہ وہ اس سے کتنا ہی انکار کریں اور اپنے آپ
کو ’حتمی‘ مواقف پر پہنچا ہوا محسوس کریں... ہماری نظر میں ضروری ہے کہ ان سب شخصیات
کو ابھی وقت دیا جائے؛ اور علمی مراجعہ کےلیے اِن حضرات کی بجائے عالم اسلام کی
صرف اُن شخصیات کا رخ کیا جائے جو باقاعدہ ’’سکول آف تھاٹ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں
اور بڑی دیر سے اپنے ان مواقف کے مالہٗ وماعلیہ کا ہمہ جہت بیان کرتی آرہی ہیں۔
اسی کو ہم علمی یا فکری استحکام intellectual stability کہتے ہیں۔
اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ
تحریکی ضرورت کے بہت سے مباحث جو اِس وقت میدان میں ہیں، برصغیر کے باہر کی دنیا میں پروان چڑھے اور
حالیہ برسوں میں یہاں ’’منتقل‘‘ ہوئے ہیں۔ چند برس یا چند عشرے پیشتر یہ موضوعات
نہ یہاں پائے جاتے تھے
اور نہ اِن کو پیش کرنے والی یہاں کی مقامی شخصیات ہیں۔ یہاں بہت سے دینی طبقے اب بھی ایسے ہیں جو عشروں پیشتر کے اُن
مناہج ہی کو من وعن چلا رہے ہیں جو برصغیر کی کچھ شخصیات کے ہاتھوں سامنے لائے گئے
تھے۔ بہت سی تنظیمیں، بہت سی جماعتیں،
اپنے اُنہی عشروں پرانے طریقے پر یہاں دعوت اور تحریک کا کام کرنے میں شبانہ روز مصروف
ہیں اور معاشرے کا ایک طبقہ ان کے ساتھ مل کر یہاں دین کے احیاء اور اقامت
کےلیے سرگرمِ عمل ہے۔ اِن جماعتوں کا پیچھے جانا، خواہ اس کے جو بھی اسباب ہوں، حالیہ دگرگوں حالات میں اپنی جگہ ایک
تشویش ناک بات ہے۔ تاہم ایک تعداد یہاں اب ایسے داعیوں کی ہے جو اُس علمی پیش رفت
کو بھی توجہ دینے لگی ہے جو پچھلے چند عشروں کے دوران عالم اسلام کے بعض دیگر خطوں
خصوصاً عرب کی تحریکی دنیا میں سامنے آئی ہے؛ اور جس سے بہت دیر تک لاتعلق رہنا
اِس گلوبل دنیا کے اندر ویسے ممکن بھی نہیں تھا۔
حق یہ ہے کہ یہاں کے اکثر علماء وفضلاء تک کے لیے یہ موضوعات نئے ہیں۔
یہ اصحابِ علم و فضل کچھ روایتی موضوعات میں بےشک اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں گے مگر
اِن موضوعات کے حوالے سے یہ بڑی حد تک مبتدی ہیں۔
یہ ’’نئے موضوعات‘‘ یہاں پہلے سے پائے جانے والے تحریکی عمل سے
لوگوں کو دور کرنے کا بھی باعث بنے ہیں؛ جوکہ بجائے خود کوئی قابل حوصلہ
افزائی واقعہ نہیں۔ تاحال یہ کوئی بہت صحتمند فنامنا healthy phenomenon ثابت نہیں ہوا۔ یہ یہاں پر پہلے سے پائے جانے والے
تفرقہ، شدت پسندی، تکفیر اور انتشار کو مزید ہوا دینے کا ہی موجب ہوا ہے؛ یعنی
یہاں کسی مسئلہ کا حل ہونے کی بجائے تاحال یہ مسائل پیدا کرنے اور پہلے سے پائی
جانی والی الجھنوں کو بڑھانے کا باعث ہو رہا ہے۔ اس میں ’’مرجعیت‘‘ خاصی حد تک مفقود نظر آتی ہے۔ یعنی یہ واضح ہونا ان موضوعات میں دلچسپی
رکھنے والے شخص کےلیے شدید دشوار ہے کہ ان مسائل میں رجوع کِن مصادر سے ہو؟ اس کی پیداکردہ پیچیدگیاں تاحال اس کی
افادیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جس کے باعث ہم سمجھتے ہیں کہ پختگی کی ایک اعلیٰ
سطح رکھے بغیر ان موضوعات کو اپنی تحریکی دنیا میں درآمد کرنا یا پھیلانا شاید
کہیں زیادہ نقصان دہ ہو اور اس کے مقابلے پر یہاں کے روایتی دینی طبقوں اور
تنظیموں کا پابند رہنا کہیں زیادہ فائدہ مند۔
*****
البتہ یہ طرزِ عمل تشویشناک ہوگا کہ ہر وہ بات جو آپ
کےلیے نئی ہے، جبکہ وہ ایسی شخصیات کی پیش کردہ ہے جو تحریکی دنیا میں سکول آف تھاٹ
مانی جاتی ہیں اور شروع دن سے وہ بات کرتی آ رہی ہیں، آپ اُس پر اچھی خاصی
سنسنی بلکہ محاذکھڑا کرلیں! ’استغفراللہ، ایسی غلط بات! یہ تو نری مداہنت ہے اور
دین کی فلاں اور فلاں حقیقت کے ساتھ کھلا تصادم!‘ ایسی کسی بات کو جو شاید آپ
کےلیے نئی ہےاور جس کو سمجھنے کےلیے ابھی شاید آپ کو کچھ وقت بھی درکار ہے، دین کی ’’طےشدہ‘‘ و ’’متفق علیہ‘‘ باتوں کے
ساتھ تصادم قرار دینے کی بجائے یہ کہیں بہتر ہوگا کہ اس پر آپ غور و خوض کرلیں ؛
اس سے اختلاف بھی کرنا ہے تو کم از کم اس
کو ایک علمی رائے کے طور پر لیں نہ کہ ایک ایسے انحراف کے طور پر جس کا لازماً رد
ہونا چاہئے!
ایک علمی رائے سے بھی اختلاف تو
بےشک آپ کرسکتے ہیں، لیکن اس کو ایک منحرف
سوچ کا درجہ دینا اس کے ساتھ، اور بطورِ طالبعلم خود اپنے ساتھ، زیادتی ہوگی۔ یہ رویے ہمارے نوجوانوں میں پختگی آنے کے اندر
مانع رہیں گے۔
*****
یہ ایک مانی ہوئی established علمی رائے ہے اور
امت کے چوٹی کے اہل علم کے ہاں معتبر چلی آتی ہے کہ اِن دو باتوں میں فرق کیا
جائے:
1. ایک ہے معصیت پر مبنی ایک نظام کو ابتداءً by origination یا اختیاراً by choice وجود میں لانا، جوکہ یقینی طور پر غلط اور بذاتِ خود معصیت ہے۔
2. اور ایک ہے معصیت پر مبنی ایک پہلے سے چلے آتے نظام کے ساتھ معاملہ کرنا؛ اور اس میں ظلم اور معصیت
کے عوامل کو کم کرنے اور خیر و عدل کے عوامل کو بڑھانے کےلیے اُس کے اندر کوئی
کردار ادا کرنا، جوکہ مصالح اور مفاسد کی بنیاد پر اختیار کیا جانے والا ایک
معتبر شرعی باب ہے۔
اس پر حالیہ شمارہ میں الگ سے
ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے (از تالیف شیخ ابراہیم السکران)، مسئلہ کی تفصیل وہاں سے
دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک نظام یا ایک
اجتماعتی صورتحال کو باطل کہنے کے باوجود اس کے اندر کسی وقت کوئی فائدہ مند کردار
ادا کرنے کا جواز دیکھنا... علماء کے ہاں ہمیشہ انہی دو
(مذکورہ بالا) چیزوں کے مابین فرق کی بنیاد پر ہوا ہے۔ البتہ جن حضرات کے نزدیک
اِن دو باتوں کے مابین کوئی فرق ہی نہیں ہے، لازمی بات ہے کہ وہ ہر دو معاملہ کا
حکم ایک کردیں؛ یوں سیاسۃ شرعیۃ کا ایک بہت بڑا باب ہی سرے سے بند کردیں۔
اب اگر
تو ہم نے اپنے ان بھائیوں کو ایسے علماء کے فتاویٰ دکھائے ہوں
جو ڈیموکریسی کو درست کہتے یا اس کو ’اسلامی‘ کرنے کی گنجائش نکالتے ہوں
یا ان نظاموں کو جو ڈیموکریسی پر قائم ہیں ’اسلامی‘ ہوجانے کی سند دیتے ہوں، پھر
تو ان بھائیوں کا اعتراض ہم پر ضرور بنتا ہے کہ ہم کن علماء کی رائے کو لے کر بیٹھ
گئے ہیں؛ یعنی جو علماء اپنے وقت کے شرک کو شرک تک نہیں کہہ پائے بلکہ اس شرک کو
اسلام کے ٹانکے لگانے میں مصروف ہیں، اس شرک کے خلاف مزاحمت کھڑی کرنے کے معاملہ
میں کس طرح ہم ان کے فتاویٰ کی جانب رجوع کریں۔ لیکن اگر ہم ان کو دورِ حاضر کے
اُن علمائے توحید کے فتاویٰ پیش کررہے ہیں جو ڈیموکریسی کو صاف باطل کہنے والے ہیں
اور اس میں ’اسلامی‘ و ’غیراسلامی‘ کے نکتے ہی سرے سے نہیں اٹھاتے، نیز جو حکم
بغیر ما انزل اللہ کی بنیاد پر چلنے والے نظاموں اور ان کی مجالسِ قانون ساز کو
صریح طور پر باطل کہتے ہیں... تاہم ان نظاموں کو باطل کہنے کے
باوجود یہ علماء یہاں پر موحد قوتوں کےلیے
کسی وقت کوئی کردار بھی تجویز کرتے ہیں تو البتہ ہمارے ان بھائیوں کا سوچنا بنتا
ہے کہ یہ علماء اتنی ’موٹی‘ بات آخر کیوں نہیں سمجھ رہے کہ جب انہوں نے ایک نظام
کو باطل کہہ دیا تو پھر صالحین کےلیے اس میں شریک ہونے اور اس کے اندر کوئی صالح کردار ادا کرنے کی گنجائش وہ کس طرح نکال رہے ہیں! کیا یہ
علماء اپنا یہ ’تناقض‘ ‘self-contradiction’ نہیں سمجھ رہے یا ہمارے یہ بھائی دو باتوں کے
اُس بنیادی فرق سے ناواقف ہیں جس کی اوپر نشاندہی ہوئی ہے اور جوکہ ’’أھۡوَنُ
الشَّرَّیۡنِ‘‘ کے فقہی اصول کو لاگو کرتے وقت ہمیشہ فقہائے کرام کے پیش
نظر ہوتا ہے؟
گویا... ’’أھۡوَنُ
الشَّرَّیۡنِ‘‘ کے فقہی اصول کو لاگو کرنے والے فقہاء یا تو اس
کو ’’شر‘‘ نہ کہیں، اور اگر اس کو ’’شر‘‘ کہہ دیا تو پھر ایک ’’شر‘‘
کو اختیار کیسے کرسکتے ہیں؟!!
امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں، آدمی
کی سمجھ اور فقہ کا امتحان تو اصل میں وہاں ہوتا ہے جہاں اسے دو ’’خیروں‘‘ میں سے
بڑی خیر کا چناؤ کرنا ہوتا ہے یا دو ’’شروں‘‘ میں سے بڑے شر کو دفع اور چھوٹے شر کو اختیار کرنا
ہوتا ہے؛ ورنہ خیرِ محض اور شرِ محض کی پہچان تو آدمی کر ہی لیتا ہے۔ فرماتے ہیں:
لَيْسَ الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ الْخَيْرَ مِنْ
الشَّرِّ وَإِنَّمَا الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ خَيْرَ الْخَيْرَيْنِ وَشَرَّ
الشَّرَّيْنِ (مجموع الفتاوىٰ: ج 20 ص 54)
عاقل وہ نہیں جو خیر اور شر کو جانتا ہو۔ اصل میں عاقل وہ
ہے جو دو خیروں میں سے خیر کو جانے اور دو شروں میں سے شر کو جانے۔
ابن تیمیہ اسی حوالہ سے ایک اہم
مبحث بیان فرماتے ہیں: شرائع صرف اتنا نہیں کہ دنیا کے اندر خیر کو پیدا کرنے
اور شر کو مٹانے کےلیے آتی ہیں۔ بلکہ شرائع کو یہ بھی کرنا ہوتا ہے کہ جہاں
تک انسانی بس ہو خیر کو بڑھائیں اور شر کو کم کریں:
فَإِنَّ الشَّرِيعَةَ جَاءَتْ بِتَحْصِيلِ الْمَصَالِحِ وَتَكْمِيلِهَا
وَتَعْطِيلِ الْمَفَاسِدِ وَتَقْلِيلِهَا بِحَسَبِ الْإِمْكَانِ.
وَمَطْلُوبُهَا تَرْجِيحُ خَيْرِ الْخَيْرَيْنِ إذَا لَمْ يُمْكِنْ أَنْ
يَجْتَمِعَا جَمِيعًا وَدَفْعُ شَرِّ الشَّرَّيْنِ إذَا لَمْ يَنْدَفِعَا جَمِيعًا(مجموع الفتاوىٰ: ج 23 ص 343)
شریعت اس چیز کے ساتھ آئی ہے کہ حسبِ امکان:
ý
مصالح
کو حاصل کیا جائے اور ان کو کامل سے کامل تر کیا جائے، اور
ý
مفاسد
کو ختم کیا جائے یا ان کو کم سے کم کیا جائے۔
شریعت کا مطلوب یہ ہے کہ:
ý
دو
خیروں میں سے جو خیر ہے اس کو ترجیح دی جائے، یہ اس وقت جب ان دونوں خیروں کو
اکٹھا نہ چلایا جا سکتا ہو۔ اور
ý
دو
شروں میں سے جو شر ہے اس کو دفع کیا جائے، یہ اس وقت جب وہ دونوں بیک وقت دفع نہ
ہوسکتے ہوں۔
وَالشَّارِعُ دَائِمًا يُرَجِّحُ خَيْرَ
الْخَيْرَيْنِ بِتَفْوِيتِ أَدْنَاهُمَا؛ وَيَدْفَعُ شَرَّ الشَّرَّيْنِ بِالْتِزَامِ
أَدْنَاهُمَا (مجموع الفتاویٰ: ج 23 ص 182)
شارع کا دستور ہے کہ:
ý
دو
خیروں میں سے جو خیر ہے وہ اس کو ترجیح دے، اور وہ اس طرح کہ ان میں سے جو چھوٹی
خیر ہے اس کو قربان کردے۔ نیز
ý
دو
شروں میں سے جو شر ہےاس کو دفع کرے، اور وہ اس طرح کہ ان میں جو چھوٹا شر ہے اس
کو اختیار کرلے۔
وَمَعْلُومٌ أَنَّ الشَّرِيعَةَ جَاءَتْ بِتَحْصِيلِ
الْمَصَالِحِ وَتَكْمِيلِهَا وَتَعْطِيلِ الْمَفَاسِدِ وَتَقْلِيلِهَا وَأُمِرْنَا
بِتَقْدِيمِ خَيْرِ الْخَيْرَيْنِ بِتَفْوِيتِ أَدْنَاهُمَا وَبِدَفْعِ
شَرِّ الشَّرَّيْنِ بِاحْتِمَالِ أَدْنَاهُمَا (مجموع الفتاویٰ:ج 30 ص 234)
یہ ایک معلوم بات ہے کہ شریعت مصالح کی تحصیل اور تکمیل
کرنے آئی ہے۔ نیز مفاسد کو ختم کرنے اور گھٹانے کےلیے آئی ہے۔ ہم
مامور ہیں کہ دو خیروں میں جو خیر ہے اس کو مقدم کیا کریں اور وہ اس طرح کہ ان
میں سے جو چھوٹی خیر ہے اس کی قربانی کردیں، نیز دو شروں میں سے جو شر ہے
اس کا سدباب کریں اور وہ اس طرح کہ ان میں سے جو چھوٹا شر ہے اس کو اختیار
کرلیں۔
چنانچہ یہاں آپ ایک چیز کو
’’شر‘‘ بھی کہیں گے اور اس کو اختیار بھی کریں گے، اس لیے کہ اس کے مقابلے پر جو ’’شر‘‘
ہے وہ اس سے بھی بڑا ہے۔ ایک باطل نظام،
یا سلطنت یا صورتحال میں آپ کا شریک ہونا اور وہاں پر کوئی کردار ادا کرنا اگر
’’شر‘‘ ہے بھی تو دیکھنا یہ ہے کہ وہاں آپ
کا کوئی کردار ادا نہ کرنا آیا اس سے بھی بڑا ’’شر‘‘ تو نہیں؟ضروری نہیں کہ اس کا
جواب ہمیشہ ہاں میں ہو۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کا جواب ہمیشہ ناں میں ہو۔
یہی وجہ ہے کہ علماء ہمیشہ یہاں ’’مصالح اور مفاسد کے موازنہ‘‘ کی شرط لگاتے ہیں۔
اِسی کو ’’مصلحہ راجحہ‘‘ کہتے ہیں۔ ہاں یہ موازنہ کرلینے کے بعد اگر جواب ہاں میں
آئے تو ایک کام شریعت کا تقاضا ہوگا ورنہ نہیں۔
اب اگر یہ مطلق قاعدہ بیان
کردینے کے بعد اس کو ’اپلائی‘ کرنے کا کام ہم نے اپنے سر لے
لیا ہوتا پھر بھی یہ حق بنتا تھا کہ ہم پر اعتراض ہو۔ کیونکہ واقعتاً یہاں کچھ طبقے ایسے ہیں جو متقدمین کی کتب سے کچھ قواعد نکال نکال کر ان کو فی
زمانہ مسائل پر اپنی تطبیق کے ساتھ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ قواعد کی
تطبیق کےلیے آدمی کا فقیہ ہونا اور فی زمانہ صورتحال پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔ البتہ یہاں اس بات کو بڑا آسان سمجھا جاتا ہے کہ
قدیم ائمہ کے بیان کردہ اصول و قواعد کو بیان کرتے چلے جائیں اور ان کی روشنی میں
نوجوانوں کو فی زمانہ مسائل کی بابت ’’راہنمائی‘‘ دیتے چلے جائیں؛ ساتھ میں یہ بھی
دعویٰ کہ ہم نے خود سے کوئی فتویٰ تھوڑی دیا ہے یہ تو ائمۂ متقدمین کی کتب بول
رہی ہیں جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں! حالانکہ ائمۂ متقدمین کی کتب کو فی زمانہ مسائل
پر منطبق کرنا ایک نہایت بڑا منصب ہے جو وقت کے فقہاء کو اپنے دور میں ادا
کرنا ہوتا ہے۔
حق تو یہ ہے کہ کتب میں بیان
ہونے والے اصولوں کو اپنے دور اور اپنی صورتحال پر چسپاں کرنا ہی ’’فتویٰ‘‘ ہے۔ جو
لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ ’’فتویٰ‘‘ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ یہاں پر
کسرِ نفسی اختیار کرنا اور کہنا کہ ہم تو حلال اور حرام کا تعین کرکے نہیں دے رہے،
اخفائے حقیقت ہے۔
ظاہر ہے ہم اس بات کو غلط جانتے
ہیں کہ ہم جیسے غیر علماء یہ چیز اپنے ہاتھ میں لیں۔ یعنی متقدمین کے بیان
کردہ اصولوں کو ہم خوداپنے زمانے کے مسائل میں تطبیق دیتے چلے جائیں۔ لہٰذا ابن تیمیہ وغیرہ کے حوالے سے جو کچھ قاعدے
اور اصول اوپر بیان ہوئے، ان کو ہمارا بیان کرنا دراصل اس
باب سے ہے کہ دورِ حاضر میں ہمارے وہ علماء اور فقہاء ہی جو یہ فتویٰ دیتے ہیں
کہ یہاں کے سماجی اداروں میں وقت کی صالح قوتوں کا کوئی کردار ہونا چاہئے، ان
کے فتاویٰ کی بنیادیں واضح ہوجائیں۔ البتہ
فتاویٰ پھر بھی ہم وقت کے علماء اور فقہاء ہی سے لے کر آتے ہیں، خود اپنے
پاس سے کبھی فتویٰ نہیں دیتے۔
پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ
اِن آراء اور فتاویٰ سے اختلاف نہیں كيا جا سکتا۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ اِس کا ایک ’’معروف علمی
رائے‘‘ ہونا تسلیم کریں۔ خاص طور پر اس لیے کہ... دورِ حاضر کے وہ علماء جو
ڈیموکریسی کو ہر ہر صورت میں حرام کہتے ہیں، ان کی ایک عظیم ترین اکثریت اِسی رائے
پر ہے۔ اس کے مخالف رائے پر اول تو کبار علماء ہیں نہیں، اور اگر ہوں تو بہت گنے
چنے ہوں گے۔
یہ ’’معروف رائے‘‘ رکھنے والے
ہمارے وقت کے وہ علماء اور فقہاء ہیں جنہوں نے ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کے مسئلہ
کو فی زمانہ اٹھایا اور واضح کیا ہے۔ اس کی سنگینی اور توحید سے اس کا تصادم آشکار
کیا ہے۔ ردِ شرک کے اِن جديد مباحث کےلیے بڑی محنت کرکے’’عقیدہ‘‘ کی ذیل میں جگہ
پیدا کرائی ہے۔ البتہ یہ علماء فقہ اور سیاسۃ شرعیۃ کے بنیادی حقائق کے ادراک سے
بھی بہرہ ور ہیں، معاشرے سے کٹے ہوئے بھی نہیں ہیں اور انسانی حقیقتوں سے ناواقف
بھی نہیں، لہٰذا ان کے فتاویٰ میں ’’سلبیت‘‘ اور ’’گوشہ نشینی‘‘ کا وہ روٹ بھی اختیار نہیں کیا جاتا جو اسلامی
قوتوں پر یہاں سماجی شعبوں میں اترنے کے اکثر دروازے بند کردیتا ہے اور اس کے
نتیجے میں ان کے پاس یہاں ’’تبدیلی‘‘ لانے
کےلیے سوائے خطبوں، وعظوں اور رسالوں کے، یا پھر سوائے بندوق اور گولی کے کوئی
راستہ باقی نہیں رہ جاتا۔ جبکہ ہمارے اِن علماء و مشائخ کے اختیار کردہ منہج کی رُو
سے: معاشرتی تبدیلی، معاشرے میں اترے بغیر، اور یہاں کے سماجی شعبوں کے اندر
چھائے بغیر، کبھی ممکن نہیں۔
اصل میں یہی چیز ہے جو فتاویٰ
میں دیکھی جاتی ہے۔ یعنی توحید کا فہم اور التزام رکھنے والے، خدا کی حدوں کے
پابند، شریعت کے عالم لوگ ایک معاملہ میں کہاں تک جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ورنہ
جہاں تک ’’سختی‘‘ کرنے کا تعلق ہے، تو وہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے۔ اور جہاں تک
’’نرمی‘‘ کی بات ہے تو اس کی جانب طبیعتوں کا میلان ہوتا ہی ہے۔ لہٰذا؛ ’’سختی‘‘
اور ’’نرمی‘‘ کی یہ کھینچاتانی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ’’سختی‘‘ اور ’’نرمی‘‘ کی
کوئی حدود نہیں ہوتیں؛ ہر حد کے بعد اس کی کوئی حد نکل آئے گی! ’’سختی‘‘کرنے والے
’’دلائل‘‘ کے اندر بھی سختی تلاش کرلیں گے اور زعم یہ کہ یہ کوئی ہماری بات تھوڑی
ہے یہ تو دلائل سے ثابت ہے! ’’نرمی‘‘ کی جانب مائل لوگ ’’دلائل‘‘ کے اندر بھی نرمی
ہی نرمی دیکھیں گے اور اطمینان یہ کہ یہ کوئی ہماری بات تھوڑی ہے دلائل کا اپنا ہی
اقتضاء یہ ہے! یہاں؛ امام سفیان ثوری وبعض دیگر ائمۂ سلف کا ایک نہایت مشہور قول ہے جو بعد ازاں علماءکے
ہاں بہت زیادہ نقل ہوتا رہا ہے:
إنمَّا الْعلم عندنَا الرُّخْصَة من
ثِقَةٍ، فَأَما التَّشْدِيدُ فُيُحسِنُه كُلُّ أحد
(جامع
بيان العلم وفضله، لابن عبد البر ج 1 ص 784،
آداب الفتویٰ والمفتی
والمستفتی، للنووی، ص 38،
112)
علم اصل میں ہمارے ہاں یہ ہے کہ ایک ثقہ (عالم یا امام) سے ایک
رخصت ملنا ثابت ہو، ورنہ سختی کرنا تو ہر کسی کو آتا ہے۔
اس بات سے ثقہ علماء کے صرف وہ
اقوال مستثنیٰ ہوں گے جو ’’شاذ‘‘ کے زمرے میں آتے ہوں؛ (ظاہر ہے شاذ کے تو احکام
ہی الگ ہیں)... جبکہ عالم اسلام کے سماجی، انتظامی، وسیاسی اداروں میں شرکت کے
جواز کے حوالہ سے ہم جو فتاویٰ پیش کرتے ہیں وہ وقت کے علمائے توحید کی عظیم
ترین اکثریت کی رائے ہے۔