رنگ و خوں کی قربانی ’جدید ریاست‘ کےلیےجائز
’’خلافت‘‘ کےلیے ناجائز!
مغرب کی فکری درآمدت کو ’اسلامی‘
بنیادیں فراہم کرنے والے طبقے... تضادات کی دلچسپ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ’’خلافت‘‘
کا رد ہر حال میں ہونا چاہئے، اس کے مقابلے پر ’ماڈرن سٹیٹ‘ کا کیس ہر حال میں
ثابت ہونا چاہئے، نیز یہ ہردو مقدمے ’’اسلامی‘‘ دلائل سے ثابت ہونے چاہئیں، یہ سب
قابل فہم... لیکن یہ سب باتیں منطقی بھی
تو نظر آنی چاہئیں!
’ماڈرن سٹیٹ‘ کے دفاع میں یہ
حضرات وہ دور کی کوڑیاں لائیں گے جو خود ماڈرن سٹیٹ کے فلسفہ
میں فٹ نہ بیٹھیں۔ جدید دنیا انسانوں کی تقسیم ’’دین‘‘ کی بنیاد پر کرنے کی قائل
نہیں، اِن حضرات کے ’اسلامی‘ بیان میں بھی یہ بات من و عن آگئی۔ لیکن
’ماڈرن سٹیٹ‘ تو اپنی دلیل خود ہے ۔ (’ربوبیت‘!) لیکن یہ
حضرات اس کو ’’دین‘‘ سے ثابت کرنے چل دیے! حالانکہ اصولاً یہ اُس کی ضرورت نہیں! وہ تو اپنی دلیل ہی ’’جبر‘‘ سے لیتی ہے
اور ’’جبر‘‘ کے سوا اُس کے پاس کوئی
دلیل نہیں۔ ہمارے یہ اسلامی
حضرات اِس موضوع پر علاقوں کے الگ الگ رہن سہن اور
زبان وغیرہ کی جو دلیل دیتے
ہیں اُس کا حال ہم پیچھے دیکھ آئے؛ ماڈرن سٹیٹ
اپنے حق میں وہ دلیل دے ہی نہیں سکتی۔ ان کی اس دلیل نے
الٹا خلافت کا کیس ثابت کیا ہے نہ کہ ماڈرن سٹیٹ کا۔ کیونکہ ماڈرن سٹیٹ ایک ہی
زبان بولنے اور ایک ہی رہن سہن رکھنے والوں کے مابین باقاعدہ سرحدیں کھڑی کرتی ہے؛
اور یہ واقعہ زمین پر ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اب ہم آگے چلتے ہیں۔
’انتظامی‘ اور ’’مِلّی‘‘ تقسیم کا فرق
اب یہ ان لوگوں کے ہاں طےہے کہ کسی
نہ کسی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم ہونی
ہے... اور واضح رہے یہ تقسیم محض ’انتظامی‘ نہیں بلکہ ’’ملی‘‘ ہوگی؛ یعنی:
1.
ان
میں سے ایک ایک اکائی سوسائٹی کو محض ’چلانے‘ کی اکائی نہ ہوگی بلکہ سوسائٹی کو
’’تشکیل‘‘ دینے والی ایک اکائی ہوگی۔ لہٰذا کچھ نہ کچھ نہ کچھ نظریات، اصول اور
تصورات وہ ضرور ایسے رکھے گی جن کی جانب اس کے معاملات حتمی طور پر ’’لوٹائے‘‘
جائیں گے اور جو وہاں کے ’شہری‘ کی ساخت میں بولیں گے۔ جوکہ ماڈرن سٹیٹ میں ’’الکتاب‘‘ (آئینِ خداوندی) تو ہو نہیں سکتی (لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ)۔ کیونکہ ایسا خطہ آپ کہاں سے لے کر آئیں گے جہاں ایک ہی
مذہب کے لوگ بستے ہوں! لہٰذا حتمی مرجع وہاں پر کسی ایک مذہب کا خدا اور اس کا
رسول ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ہوئی اس کی ’’تشکیلی‘‘ حیثیت۔
2.
وہ
سوسائٹی کی محض ’انتظامی‘ اکائی نہیں بلکہ اس کی باقاعدہ ’’شناخت‘‘ ہوگی۔ یعنی
وہاں کے انسانوں کی ہر دوسری شناخت اس کے اندر باقاعدہ گم کرائی جائے گی۔ اس کو
زیادہ سے زیادہ ’’نمایاں‘‘ اور ’’متفقہ‘‘ اور ’’باربار کا حوالہ‘‘ بنایا جائے گا۔
’دوسروں‘ سے مختلف نظر آنے کے معاملہ میں اس کو ’’امتیاز‘‘ اور ’’فخر‘‘ کی واحد
معتبر بنیاد مانا جائے گا ؛ اس کے مقابلے پر شناخت کے دیگر عوامل (مانند ’مذہب‘،
لسان، نسل اور جنس وغیرہ) کو ’’امتیاز‘‘
اور ’’فخر‘‘ کے طور پر سامنے لانے کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ جوکہ
اس کو ’’ملت‘‘ کا ایک باقاعدہ معنیٰ دیتا ہے۔
مگر یہ
’’تقسیم‘‘ خلافت کے حق میں جرم ہے!
یعنی اب دو باتیں سرے لگیں:
1.
ایک
تو (ان کے ہاں) یہ طے ہے کہ کسی نہ کسی بنیاد پر بنی آدم کی تقسیم ہونی ہے۔ (کیوں
ہونی ہے؟ نہیں معلوم؛ بس ہونی ہے!)۔ اور واضح رہے یہ محض کوئی ’انتظامی‘ تقسیم
نہیں بلکہ سوسائٹی کو ’’تشکیل‘‘ دینے والی تقسیم ہوگی، جیساکہ پیچھے گزر چکا۔
2.
دوسری
یہ بات طے ہے کہ اس تقسیم کا کوئی اصول نہیں ہوگا۔ کہیں ایک ارب انسان ایک ’قوم‘
ہوسکتے ہیں (مانند بھارت) بلکہ اپنے ’چھنے ہوئے‘ حصوں (مانند آزاد کشمیر وغیرہ) کو
اپنے ساتھ ’ملانے‘ کےلیے کوشاں ہوسکتے ہیں، تو کہیں صرف بتیس ہزار انسان ہی ایک مکمل ’قوم‘ ہوسکتے ہیں۔
تو اب چونکہ یہ دو باتیں ’’طے‘‘
ہیں اور ’’حق‘‘ ثابت ہوچکی ہیں }جبکہ آپ کی خلافت (’’دین‘‘ کی
بنیاد پر انسانوں کی تقسیم) حق ہی ثابت نہیں ہوئی کیونکہ آپ کی خلافت کے پاس وہ
اصل دلیل (طاقت کا ڈنڈا) ہی ابھی نہیں ہے!{ ... لہٰذا کیا کریں ایک ہی
نسل، ایک ہی زبان اور ایک ہی رہن سہن کے لوگ اب ’سٹیٹ‘ ایسی ’حق‘ (درحقیقت لغو)
بنیاد پر تقسیم تو ہونے ہیں...! چنانچہ یہ وجہ ہے کہ آدھے کُرد اِدھر آدھے اُدھر،
آدھے تامل اِدھر آدھے اُدھر، آدھے تاجک اِدھر آدھے اُدھر، آدھے بلوچ اِدھر آدھے
اُدھر، آدھے بربر اِدھر آدھے اُدھر، آدھے بنگالی اِدھر آدھے
اُدھر... اور درمیان میں اونچی اونچی دیواریں۔
اب ’’حق‘‘ سے بڑھ کر کونسی چیز اہم ہے! نسلیں،
رشتے، خون وغیرہ اِس ’’حق‘‘ پر آخر قربان تو ہوں گے!!!
تو پھر اب ہم اپنے ’اسلامی‘
ہیومن اسٹوں سے پوچھیں گے: ایک خون اور ایک سے رہن سہن کے رشتوں پر چھری پھرجانا
تو ویسے ہی آپ کی اِس ’جدید‘ دنیا کے اندر طے ہے ، اب اگر چھری پھرنی ہی ہے تو
اس کےلیے اسلام کی دی ہوئی بنیاد ہی کیوں
بری ہے؟ کم از کم ’’دین‘‘ کا فرق کوئی حقیقی فرق تو ہے، ’سٹیٹ‘ کا فرق تو خون میں جدائی ڈالنے کےلیے کوئی ایک بھی
معقول وجہ نہیں رکھتا!!!
یہاں آپ دیکھ چکے لسان، نسل
اور رہن سہن ایسی اکائیوں کو ’ریاست‘ ایسے نام نہاد ’حق‘ پر دو طرح سے قربان کیا جاتا ہے:
1.
ان
کے مابین ریاست ایسے ’’مطلق‘‘ حق کی سرحدیں کھڑی کردینا، (براء) اور
2.
اندرونی
سطح پر ان کو ریاست ایسی ’’بڑی وحدت‘‘ میں
گم کرنا (ولاء)۔
یعنی عین وہ دو معنے جو ہمارے
ہاں ’’ملت‘‘ کے حوالے سے بیان ہوتے آئے ہیں۔
یہاں ہم کہتے ہیں: ہم(خلافت پر
یقین رکھنے والوں) نے بھی ’رنگ‘ اور ’خون‘ کو کب نظرانداز کیا ہے؛ ہم نے بھی تو آپ
کی اس ’بڑی وحدت‘ کو ہی چیلنج کیا ہے کہ اس کی یہ حیثیت کہاں سے ہوئی کہ
رنگ، نسل، زبان اور خونی رشتے اس پر قربان کر ڈالے جائیں!
پس ہم ان
’اسلامی‘ ہیومنسٹوں سے کہتے ہیں کہ رنگ، نسل، زبان اور خونی رشتوں کی قربانی تو
بوقتِ ضرورت آپ کے ہاں بھی طے ٹھہری اور ہمارے ہاں بھی ... بلکہ ان نسلی اور خونی
رشتوں کی قدر ہمارے ہاں تم سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے؛ ان رشتوں کا پاس کرنے کی ہمیں
تو دین میں جابجا تاکید ہے؛ البتہ ہم کہتے ہیں کہ ایسی عزیز چیز اگر قربان ہوسکتی
ہے تو وہ ’’دین‘‘ پر قربان ہوسکتی ہے۔ اس کی نوبت صرف وہاں آسکتی ہے جہاں ہمیں
انسانوں کو اُس رسولؐ پر ایمان لانے والوں
اور نہ لانے والوں میں تقسیم کرنا پڑے جو مالکِ کائنات کی جانب سے ان کی طرف مبعوث
ہوا ہوتا ہے۔ البتہ تم بتاؤ کہ یہ نسلی اور خونی رشتے جن کا پاس کرنا ہمارے ہاں تو
عبادت ہے، تمہارے ہاں یہ کس بت پر قربان کیے جاتے ہیں؟
ذمی کے
ساتھ حسنِ سلوک خلافت کی پہچان
پھر یہ بھی واضح رہے... کہ
’’دین‘‘ دو بھائیوں کے مابین جو جدائی ڈالتا ہے وہ کوئی ایسا فاصلہ نہیں کہ دو بھائی اور ان کی نسلیں محض ایک دوسرے کی شکل
دیکھنے کےلیے ’ویزہ‘ سفارتخانوں کے آگے دو دو میل کی لائنیں بنا
کر کھڑے ہوں اور انسانیت کا مذاق بنیں (’سٹیٹ‘
کا فرق)! ہماری ’’الجماعۃ‘‘ تو دو بھائیوں میں جو جدائی ڈالتی ہے وہ صرف اس
قدر کہ نبی پر ایمان لانے والا بھائی ’’الجماعۃ‘‘ کا حصہ ہے،
جبکہ نبی پر ایمان نہ لانے والا بھائی اگر حربی نہیں تو ’’ذمی‘‘ کی حیثیت میں بڑی
خوشی سے وہیں (اسی ’’الجماعۃ‘‘ کی سرزمیں میں) رہے اور اُن دونوں بھائیوں کے مابین
’’حسنِ سلوک‘‘ بھی قائم رہے؛ جوکہ دعوت کا اہم ذریعہ ہے۔ ہاں
یہ ضرور ہے کہ وہ ذمی مسلمانوں کی ’’الجماعۃ‘‘ کے
معاملات میں دخل دیتا نہیں پھرے گا کہ مسلمانوں کا نظامِ حکومت، یا نظامِ معیشت، یا نظامِ دیوانی و فوجداری کیسا ہو اور
کیسا نہ ہو۔ وہ مسلمانوں کے اعلیٰ مناصب کے اندر ’کوٹہ‘ مانگتا نہیں پھرے گا۔ ہاں وہ مسلمانوں کو یہ نہیں کہے گا کہ دیکھیں
نا یہاں ہم ’غیرمسلم‘ بھی تو ہیں آپ کا ’مذہب‘ ہے تو پھر ہمارا بھی تو ’مذہب‘ ہے!
صرف اس معنیٰ میں وہ ’’الجماعۃ‘‘ کے ہاں ایک ’غیرملکی‘ کے طور پر ڈِیل ہوگا، اُس
کو کہا جائے گا کہ تمہارا یہ رتبہ نہیں کہ تم ہمارے ’’الجماعۃ‘‘ کے معاملات میں
دخل دو۔ خود اُسے معلوم ہوگا کہ یہ ’’الجماعۃ‘‘ مسلمانوں نے کن جان جوکھوں سے
بنائی اور قائم رکھی ہے۔ ہاں اِس ’’جماعت المسلمین‘‘ کے نظامِ مملکت سے البتہ ذمی
کو کوئی لینا دینا نہ ہوگا۔
}جس طرح آج کی ماڈرن سٹیٹ میں رہائش پزیر ایک ’غیرملکی‘ کو
یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ ریاستی معاملات میں دخل دے، چاہے ایسے ’غیرملکی‘ باشندے
وہاں عشروں سے مقیم کیوں نہ ہوں۔ بلکہ کئی ملکوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خاصی
بڑی بڑی کمیونٹیاں جو ’غیرملکی‘ ہوتی ہیں وہاں نسل در نسل آباد رہتی ہیں (جیسے
خلیجی ممالک میں آباد ’پاکستانیوں‘، ’برمیوں‘، ’انڈونیشیوں‘ یا ’چیچنوں‘ کی بڑی
بڑی تعداد) پھر بھی ان ملکوں کی ’’شہریت‘‘ نہیں پاتیں، لہٰذا ریاستی معاملات میں
کوئی دخل نہیں رکھتیں؛ جس پر آج تک کسی ہیومن اسٹ نے
’’انسانی حقوق‘‘ کا شور نہیں الاپا؛ بلکہ صاف تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ ان ریاستوں کا داخلی معاملہ ہے! حالانکہ آپ تصور کرلیں،
ہزاروں کی تعداد میں یہ ’غیرملکی‘ اسی سرزمین
میں پیدا ہوتے ہیں، وہیں پل کر جوان ہوتے ہیں، اپنے آبائی وطن سے ان
کا کوئی ناطہ تک باقی نہیں ہوتا، ان میں سے کئی ایک اپنے آبائی وطن کی زبان تک
بھول چکے ہوتے ہیں، اِن ممالک میں وہ بڑے
بڑے اچھے کاروبار چلاتے اور بڑی بڑی established life گزارتے ہیں، پھر بھی وہ یہاں کے ’’باقاعدہ
شہریوں والے‘‘ حقوق نہیں رکھتے۔ ان پر
وہاں کوئی ظلم ہو، اس پر تو آواز اٹھانا ضرور بنتا ہے، لیکن ان کو اپنی ’سٹیٹ‘ کے
باقاعدہ رکن والے حقوق دینا یا نہ دینا سٹیٹ کا اپنا حق مانا جاتا ہے جسے ’سٹیٹ‘
اپنے ’آئین و قانون‘ کے مطابق طے کرتی ہے۔ نیز ایک ’سٹیٹ‘ یہ حق بھی رکھتی ہے کہ
اگر وہ کسی ’غیرملکی‘ کو اپنی شہریت دینے پر مہربان ہوجائے تو اس پر شرط لگائے کہ
وہ اپنی ’آبائی ریاست‘ کی شہریت ختم کرلے، نیز یہ کہ اس کے بعد اگر وہ کسی دوسرے
ملک کی شہریت حاصل کرے گا تو اُس کی یہ شہریت جاتی رہے گی۔ یہ سب کچھ اُس ریاست کا
’داخلی معاملہ‘ ہے؛ یہاں وہ جیسے مرضی قوانین بنائے! ادھر ہماری ’’الجماعۃ‘‘ (جوکہ
قائم ہی ’’ادیان‘‘ کے فرق پر ہے، اور جس کا پورا نام ’’جماعۃ المسلمین‘‘ ہے) اپنی
سرزمین میں پائے جانے والے ’غیرالمسلمین‘ کو عین وہ حیثیت دے جو ایک ماڈرن سٹیٹ
میں نسل در نسل آباد ایک ’غیرملکی‘ کمیونٹی کو دی جاتی ہے... اور ان کو وہاں پر
’’مسلم‘‘ والے حقوق (لَھُمۡ
مَا لَنَا وَعَلَیۡھِمۡ مَا عَلَیۡنَا) دینے کےلیے یہ شرط رکھے کہ
محمدﷺ پر ایمان لاکر ہمارے دین میں آجائے اور اپنے آبائی دین سے ناطہ توڑ لے، نیز یہ شرط رکھے کہ ’’اسلام‘‘ کی
بجائے کوئی اور دین یا نظریہ اختیار کرلینے کی صورت میں اُس کی ’’الجماعۃ‘‘ کی
رکنیت فی الفور معطل ٹھہرے گی... تو اس پر مغرب کے لوگ نہیں ہمارے ’اسلامی‘ ہیومن
اسٹ آسمان سر پر اٹھا لیں گے؛ ’ایسا ظلم‘! ’حقوقِ انسانی‘ کا ایسا غصب!{
جبکہ معاملہ یہ ہو کہ ذمیوں کے
ساتھ احسان ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے ہاں پوری طرح برقرار ہو؛ جس کی وہ ازروئے شریعت
پابند ہے۔ خصوصاً اگر ذمی یا معاھد کے ساتھ ’’الجماعۃ‘‘ کے کسی فرد کا نسلی و خونی
رشتہ ہو: لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ
عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ
دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ
الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي
الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ
تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8، 9)’’ اللہ تمہیں ان سے منع
نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے
ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب
ہیں، اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں
سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کریں
وہ البتہ ظالم ہیں‘‘۔
ہم اپنے ’اسلامی‘ ہیومن اسٹوں سے دریافت
کریں گے کہ ’’دین‘‘ نہیں تو وہ کونسی منصفانہ قدریں ہیں جن کی بنیاد پر نسل آدم کو تقسیم
کرنا خود ان کی نظر میں جائز و درست ہے؟ اگر یہ پھر کہیں کہ: نسلی و لسانی رشتے... تو ہم کہیں گے
کہ پھر اٹھئے؛ ہماری اسلامی جماعتوں خصوصاً ’’الجماعۃ‘‘ کی داعی تحریکوں کے خلاف
صبح شام بولنے کی بجائے ان ’قومی ریاستوں‘ والے فنامنا کے خلاف تحریک اٹھائیے جو
نسلی و لسانی رشتوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے لخت
لخت کررہا ہے یہاں تک کہ ایک بےرحم ’’ریاستی عمل‘‘ کے نتیجے میں آج بہت سی زبانیں اور
بہت سے علاقائی کلچر ناپید ہوجانے کے قریب ہیں۔
اگر یہ نسلی و لسانی رشتے ہی تمہارے نزدیک انسانوں کو تقسیم کرنے کی جائز
بنیاد ہیں پھر تو تمہیں چاہئے کہ اِس ’نیشن سٹیٹ‘ کے فلسفے کے خلاف تحریک اٹھا دو
لیکن تم تو اس کے حق میں تحریک چلا رہے ہو، اور صرف اس بات کے درپے ہو کہ انسان کی
اجتماعی زندگی کو ’’دین‘‘ پر قائم کرنے والی تحریکوں کو ہی کسی طرح غلط اور ’خلافِ
قرآن‘ ثابت کردو؛ ہر شخص دیکھتا ہے کہ یہاں کے ہر ٹی وی چینل پر تم ان کے خلاف زہر
اگلنے بیٹھے ہوتے ہو؛ حالانکہ ان نسلی و لسانی اکائیوں کو تحفظ دلانے کےلیے یہ
سارا شور اور تحریک تمہیں ہماری ’’خلافت‘‘ کے خلاف نہیں بلکہ اس ’’ماڈرن سٹیٹ‘‘ کے
خلاف اٹھانی چاہئے! بلکہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ ان نسلی ولسانی وعلاقائی
اکائیوں کو تحفظ دلانے میں ہی اگر تم سچے ہو، تو کم از کم اسی ایک مقصد کےلیے
تمہیں ہماری ’’خلافت‘‘ کے حق میں آواز اٹھانی چاہئےجو کبھی ان علاقائی اکائیوں کے
حق میں خطرہ نہیں بنی بلکہ اس کے سائے میں یہ علاقائی رنگ، زبانیں اور کلچر ہمیشہ
اٹکھیلیاں کرتے رہے ہیں... تاہم اگر یہ ’اسلامی‘ ہیومن اسٹ ’’رنگ و نسل‘‘ کا نام
بھی نہ لیں (اور نہ لےسکتے ہیں)، جبکہ ’’دین‘‘ کو اس حیثیت میں وہ اس سے پہلے ہی
رد کر چکے، تو ہم پوچھیں گے کہ پھر ’’ریاست‘‘ اور ’’قوم‘‘ کی بنیاد
آپ کے خیال میں ویسے ہونی کیا چاہئے؟ کوئی تو ایک مقعول بنیاد بتائیں
جس کو سٹینڈرڈ مان کر ہم کہیں کہ فلاں ریاست ٹھیک بنیاد پر قائم ہے اور فلاں ریاست باطل بنیاد پر قائم ہے!!! (یا
یہ ’باطل‘ بنیاد صرف ’’پاکستان‘‘ کے کیس میں ہی بار بار نشان زد کرنا ضروری
ہے؟!!!) ان کی دی ہوئی بنیاد کو بنیاد بناتے ہوئے ہم کہہ سکیں کہ بھارت یا روس وغیرہ ایسے فلاں اور فلاں ملک کو
کتنی ریاستوں میں منقسم ہونا چاہئے اور یہ بھی طے کرسکیں کہ کتنے عرب ممالک کو
اِنہی کے بتائے ہوئے وصف کی بنیاد پر ایک ریاست ہونا چاہئے! یہ ہمیں اگر کوئی
’معقول‘ بنیاد بتائیں تو ہوسکتا ہے ہم انہی کی بتائی ہوئی بنیاد پر ثابت کرسکیں کہ
پنجابی اگر مالاکنڈ اور خیبر کے پشتونوں کے ساتھ مل کر ایک قوم ہوسکتے اور ایک صف
ہو کر ہندو مشرک کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو یہی پنجابی جلال آباد، قندھار اور کابل کے
پشتونوں کے ساتھ مل کر بھی اللہ کے فضل سے ایک قوم ہوسکتے اور غاصب ہندو کا کچومر
نکال سکتے ہیں۔ کوئٹہ اور بدین میں بیٹھا ایک کلمہ پڑھنے والا بلوچ خدا کی توفیق
سے پنجابیوں کی ’’قوم‘‘ ہوسکتا ہے تو چاہ بہار اور زاہدان میں بیٹھے ایک کلمہ
پڑھنے والے بلوچ کو بھی اُسی اللہ اور رسولؐ کے نام پر پنجابیوں کی ’’قوم‘‘ ہونے
میں کوئی مانع نہیں ہو سکتا۔ یہ اگر ہمیں
کوئی ’معقول‘ بنیاد بتائیں تو شاید ہمیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ امرتسر اور
لدھیانہ میں عین ہمارے لہجے میں پنجابی
بولنے اور یہی کبڈی کھیلنے والا ایک سکھ لاہور اور قصور میں بسنے والے نمازیوں کی
’’قوم‘‘ بنتا ہے یا نہیں۔ ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ ہمیں کوئی ایک
بھی معقول consistent وصف بتادیں کہ ملک اور قومیں کس بنیاد پر بننی
چاہئیں تو اس سے اگلے لمحے بہت سے ملک ڈھانے اور بہت سے ملک بنانے پڑ جائیں گے۔ یہ
ہمیں اِس سلسلہ میں کوئی ایک منطقی بات بتادیں تو اِن ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کو ہماری
’’خلافت‘‘ اور ’’اقامتِ شریعت‘‘ کے خلاف اپنی یہ تحریک موخر کرکے اردگرد کے بہت سے
ملکوں میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کے حق میں بولنا پڑ جائے گا نیز بہت سے ملکوں
کو دوسرے ملکوں کے اندر مدغم کردینے کی تحریکوں کے حق میں آواز اٹھانا پڑ جائے گی!
آپ اِن سے یہ اصل سوال پوچھئے، اِس نتیجہ پر پہنچنے میں آپ کو ذرا دیر نہ لگے گی کہ ان لوگوں کے پاس کوئی ایک بھی
قدر یا ایک بھی توجیہ نہیں سوائے ہماری اُن جماعتوں کے خلاف بغض کے جو اِس وقت
ہمارے مسلم مقبوضہ خطوں میں عالمی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہیں یا جو زمین کے
مختلف گوشوں میں اسلامی زندگی کی بحالی کےلیے سرگرم ہیں۔ آپ بآسانی اِس نتیجہ پر
پہنچیں گے کہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر سوائے اِس ایک بات کو ’ثابت‘ کرنے کے کہ
پاکستان ایک نہایت غلط بنیاد پر بنا دیا گیا تھا، ان کا کوئی ایجنڈا نہیں؛ }صبح شام یہی
ٹیپ کا مصرع: بھلا ’مذہب‘ کی یہ حیثیت تھوڑی ہے کہ اس کی بنیاد پر ملک بن جایا کرے؛
’مذہب‘ تو اللہ اللہ کرنے کےلیے ہےاور یہاں ’مذہب‘ کا کیا مصرف ہورہا ہے، ہم اِس
’’اصل غلطی‘‘ کو تو پکڑتے نہیں جو آج سے سات عشرے پہلے کی گئی اور اب اس کے
یہ ’ہولناک‘ نتائج دیکھ کر پریشان ہورہے ہیں؛ مسئلہ کو اُس کی جڑ سے پکڑیے!{ کسے معلوم نہیں مسلمانوں کے گھر میں بیٹھ کر یہ
کس کی بولی بولی جارہی ہے!
آخری بات یہ رہ جاتی
ہے کہ یہ ’اسلامی‘ ہیومنسٹ کہیں کہ ہم تو صرف اِس مار دھاڑ کے خلاف ہیں جو مسلم
ملکوں میں ’’شریعت‘‘ کے نام پر ہورہی ہے اور جس کو ’’خلافت‘‘ یا ’’اسلامی ریاست‘‘
وغیرہ ایسے عنوانات سے جوڑا جاتا ہے؛ بس اِس لیے آپ کے خلاف یہ سب تحریک اٹھا رکھی
ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ آپ سے پہلے ہم اِس ماردھاڑ کے خلاف ہیں۔ ہماری
نظر میں، وقت کے کسی ایک معتبر عالم نے فتویٰ نہیں دیا کہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ یا
’’قیامِ خلافت‘‘ کےلیے مسلمان آج ہتھیار اٹھا کر کھڑے ہوجائیں۔ ہتھیار اٹھانے کا
فتویٰ علماء کی طرف سے صرف وہیں پر دیا گیا ہے جہاں دشمن کی فوجیں کیل کانٹے سے
لیس ہماری کسی مسلم سرزمین میں اتر آئی ہیں (اور جس کی ایک گونہ گنجائش اگر آپ
نکالنے پر آئیں تو اپنے ’ہیومن اسٹ‘ قواعد سے بھی نکال سکتے ہیں؛ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس پر آپ افغان و فلسطینی و
کشمیری وغیرہ مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہوں نہ کہ اپنا پورا ابلاغی وزن ان پر حملہ آور
دشمن کے پلڑے میں ڈال دیں!) لیکن اگر
واقعی اعتراض اس ماردھاڑ پر ہے جو بعض مسلم ملکوں میں ہورہی ہے تو آخر اُن طبقوں
پر کیا اعتراض ہے جو کسی خونریزی کا راستہ اختیار کیے بغیر عالم اسلام میں
’’الجماعۃ‘‘ کے قیام، ’’خلافت‘‘ کے اعادہ اور ’’اسلامی زندگی‘‘ کی بحالی کےلیے
تحریک چلاتے ہیں؟ یہاں کی اقوام نے پہلے (لیگ آف نیشنز کے زمانے کے) استعمار سے
آزادی لی اور اس کےلیے ایک طویل تحریک چلائی تھی (ہمیں معلوم نہیں اس پر آپ کے
بزرگوں کو اعتراض ہوا یا نہیں، یا اُس وقت بھی آپ کا وزن غاصب کے پلڑے میں ہی
تھا)، اس حالیہ (یو این والے) استعمار سے آزادی کےلیے اگر ہم اپنی قوموں کو بیدار
کریں تو اس کے خلاف صبح شام زہر اگلنے کی کیا تک ہے؟
دنیا کا یہ نقشہ جو
آپ کو آج نظر آتا ہےسو سال پہلے ایسا نہ تھا۔ اس لیے یہ کوئی ازلی حقیقت تو ہے نہیں کہ اس کو بدلنے کی بات تک نہ کی جائے۔دنیا کا نقشہ آج
تک بدلتا آیا ہے تو آئندہ بھی اسکو بدلنے سے کوئی قیامت نہ آجائے
گی۔ پست ہمتوں کو اپنا دیکھا ہوا ہر لمحہ کتابِِ تاریخ کا آخری صفحہ نظر آتا ہے اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ تاریخ کو اب یہیں
تھم جانا ہے، حالانکہ ہر نیا سورج یہاں نئے امکانات لے کر آتا ہے؛ اور یہ جہان روز
تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔ پس اس معاملہ میں نہ کوئی شرعی قباحت ہے اور نہ
کوئی عمرانی رکاوٹ کہ دنیا کی ایک باطل تقسیم کو ایک صالح تقسیم سے بدلنے کی کوشش ہو اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اِس
امت کو اس کے رنگوں، نسلوں، زبانوں اور
کلچروں کو پورا تحفظ دیتے ہوئے ایک
بڑی وحدت ’’الجماعۃ‘‘ میں پرونے کی جدوجہد ہو، اس کے مقابلے پر ’یو این‘ کا پیراڈائم جو ہماری گھٹی میں اتارا جارہا ہے
صاف مسترد کردیا جائے۔ آخر اس میں بڑی بات
کیا ہے کہ زمین کی تقسیم جو ’’مُحَمَّدٌ فَرۡقٌ بَیۡنَ
النَّاسِ‘‘ کی بنیاد پر سوا ہزار سال سے زائد عرصہ
چلتی رہی ہے، اِس استعماری تعطل کے بعد پھر بحال ہوجائے؟!
اور اگر یہ مرزا
قادیانی کی سنت پر چلتے ہوئے کہیں کہ ہر چیز آج کی ڈیٹ پر فریز کردینی
چاہئے؛ پورے کرۂ ارض میں جو سٹیٹس کو جس طرح ہے اس کو نظریاتی سطح پر بھی چیلنج مت کریں (کیونکہ ان کی نظر میں
’قرآنی ہدایات‘ کا یہی تقاضا ہے)؛ زمین کی جو ترتیب اور جو تقسیم ہوچکی اُس میں کسی غلطی اور انحراف کی نشاندہی اور
کسی تبدیلی کی تجویز پراَمن طور پر دینا بھی
’خلافِ قرآن‘ ہے؛ دنیا میں کیا چلتا ہے اور کیا نہیں چلتا، اس سے آپ کو کچھ سروکار
ہونا ہی نہیں چاہئے؛ بس جو ہے اس کی اطاعت کرو اور معاملاتِ زمین میں یہ دیکھو ہی
مت کہ یہاں کیا چیز حق ہے اور کیا چیز باطل... تو پھر ان کو اپنا یہ ’مستند قرآنی‘
موقف کسی ایچ پیچ کے بغیر، واضح لفظوں میں بیان کرنا چاہئے؛ کیا بعید ’قانون اتمامِ
حجت‘ اپنی ’واضح‘ دلالتوں کے ساتھ کسی دن یہ بھی تقاضا کرے کہ ’’موسیٰ اور اُس کے
معجزات‘‘ کی غیرموجودگی میں ’فرعون‘ کی بیعت اور دل سے اس کا وفادار رہنا ہی فرض
ہے!