فصل چہارم ("مفہومات" مؤلفہ محمد قطب)
’’دنیا
اور آخرت‘‘
’’ وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ ‘‘
’’دنیا‘‘ و ’’آخرت‘‘... کیا دو متصادم راستے ہیں؟
اول
عہد کی مسلم نسلوں کے ہاں ’’دنیا‘‘ اور ’’آخرت‘‘ کے مابین وہ گہری حدِفاصل نہیں تھی جو اِن آخری
دور کی نسلوں کے ہاں وجود پاچکی ہے۔
’’دنیا
کے اعمال‘‘ جن کا آخرت سے کوئی
تعلق نہ ہو، اور ’’آخرت کے اعمال‘‘ جن کا دنیا سے کچھ تعلق نہ ہو... دورِاول کے
مسلمان اِس تصور سے ہی واقف نہ تھے۔
درست
ہے کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن پر روحانیت غالب ہے، جیسے نماز، دعاء، ذکر، اور دیگر
شعائرِ عبادت۔ جبکہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن پر فکری ضرورت غالب ہے جیسے علم کی
جستجو، تحقیقِ مسائل، سیاست، معیشت اور
امورِ صلح وجنگ وغیرہ ایسے معاملاتِ زندگی کی تدبیر و تنظیم وغیرہ۔ پھر کچھ اعمال
ایسے ہیں جن پر جسمانی ضرورت غالب ہے جیسے کھانا، پینا، پہننا، سکونت اختیار کرنا
اور جنسی تسکین پانا وغیرہ۔ تاہم یہ سب اعمال ایک دوسرے سے کٹے ہوئے نہیں ہیں،
کیونکہ یہ اِسی انسانی وجود سے برآمد ہوتے ہیں جو دراصل ایک اکائی ہے۔ نیز یہ بھی
درست نہیں کہ ان میں سے کوئی چیز آخرت کےلیے ہو تو دنیا سے اُس کا کوئی رشتہ نہ رہ
جاتا ہو یا دنیا کےلیے ہو تو آخرت سے کوئی رشتہ نہ بنتا ہو۔
اُن
مسلمانوں کے ہاں دراصل ’’عبادت‘‘ ہی کا جو ایک صحیح تصور قائم کرا لیاگیا تھا...
اُس سے ’’زندگی‘‘ کے بارے میں خودبخود ان کا ایک کامل اور درست
تصور قائم ہوجاتا تھا۔ اور یہاں سے؛ ان کی پوری زندگی ایک ہی لڑی میں پروئی جاتی
تھی:
قُلْ
إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لا
شَرِيكَ لَهُ .. (الانعام 162-163)
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا
مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
وَمَا
خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْأِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات 156)
اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔
اب
یہ جو ایک تصور بنا، اس میں... شعائرِ عبادت ’’عمل‘‘ سے الگ نہیں۔ نہ ہی دنیا آخرت سے جدا ہوتی ہے۔
یہ وجہ ہے کہ اُن مسلمانوں کی نظر میں زندگی ایک اکائی کا نام تھا جس کا کوئی حصہ
دوسرے سے جدا نہ ہوتا تھا۔ یہاں نماز، قربانی، کھانا پینا اور جنسی تسکین، قتال فی
سبیل اللہ، حصولِ رزق، جستجوئےعلم، تعمیرِ ارض... سب کے سب ’’عبادت‘‘ میں آتے تھے۔ یہ بہ یک وقت ’’دنیا
کے اعمال‘‘ بھی تھے اور ’’آخرت
کے اعمال‘‘ بھی۔ ہر وہ لحظہ جو
شعور کی حالت میں گزرے خواہ وہ دن کی کوئی ساعت ہو یا رات کی... اور ہر وہ عمل جس
میں آدمی نے اپنا رخ خدا کو سونپ رکھا ہو اور جس میں وہ خدائی تنزیل کا پابند
ہو... ایسا ہر لحظہ اور ایسا ہر عمل ’’عبادت‘‘ ہی کا کوئی نہ کوئی رنگ لیے ہوتا تھا اور یہ سب
کچھ باہم جڑا ہوتا تھا۔ یوں یہ مسلمان ایک عبادت سے نکلتا تو دوسری عبادت میں داخل
ہوتا۔ دوسری سے نکلتا تو تیسری عبادت میں داخل۔ علیٰ ھٰذا القیاس... وہ عمل اور سرگرمی
کی اِن سب صورتوں میں اپنی ہستی کی غایت پوری کررہا ہوتا اور جوکہ اُس کے پورے
وجود سے ہی تعلق رکھتی ہے؛ اور اس کے پورے وجود کو خدا رُخ کرانے سے عمل پزیر ہوتی
ہے۔
یہاں؛
نماز، زکاۃ، روزہ اور حج وغیرہ میں اگر روحانیت غالب ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ
عبادت بس یہی ہے۔ نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ نماز، روزہ، زکاۃ و حج آخرت کےلیے ہے
تو دنیا میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا کچھ کام آخرت سے متعلق ہے
تو کچھ کام دنیا سے متعلق۔ نماز ہے تو اس کو یہاں بےحیائی اور برائی سے روکنا ہے۔
زکاۃ ہے تو وہ اِس نفس اور اِس مال کو پاک کرتی ہے۔ روزہ ہے تو وہ یہاں تقویٰ کی
پیداوار دیتا ہے۔ حج انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دینے والا ایک عمل ہے...
دوسری
صنف کے اعمال اگر اپنے اندر عقلی یا جسمانی رنگ لیے ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ عبادت میں نہیں آتے۔ اِن سب امور میں اگر آدمی
نے اپنےآپ کو خدا رُخ کر رکھا
ہے اور اِن میں وہ خدائی احکام کا پابند ہے تو یہ چیز عبادت ہی کے ایک وسیع تر
مفہوم میں آتی ہے۔ اور یوں یہ
اعمال محض ’دنیا کے اعمال‘ نہیں رہ جاتے جن کا آخرت سے کوئی تعلق نہ رہ گیا
ہو۔
اب
جب انسان کی پوری زندگی ایک اکائی بنی، زمین پر اُس کی کل سرگرمی ایک لڑی میں
پروئی گئی... تو یہاں سے وہ ’’عبادت‘‘ سامنے آئی جس سے یہ اپنی ہستی کی غایت پوری کرتا
ہے۔ اور یہاں سے؛ دنیا آخرت سے جڑ گئی اور آخرت دنیا سے پھوٹنے لگی۔ ان میں
علیحدگی کا کوئی تصور باقی نہ رہا۔
*****
یہ
تھا قرنِ اول کے مسلمان کے یہاں ’’دنیا
و آخرت‘‘ کا تصور...
وہ
چیز جو اُس کی زندگی کے سب جوانب کو ایک نظم میں لےآتی، ان سب کو یکجا کردیتی اور
ان کو ایک ہی سمت عطا کرتی وہ چیز لا الٰہ الا اللہ تھی اپنے اُس عالیشان گہرے
مفہوم کے ساتھ جس کا سبق وہ (قرنِ اول کا مسلمان) صبح شام ازبر کیا کرتا تھا۔
چنانچہ...
آدمی جب اِس لا الٰہ الا اللہ کی صورت، خدا کی وحدانیت پر ایک پختہ اعتقاد رکھتا
ہے، اور پھر اسی لا الٰہ الا اللہ کو زندگی پر محیط ایک طرزِبودوباش کے طور پر
اختیار کرلیتا ہے، یوں اُس ہدایت کا پیرو ہوجاتا ہے جو اس کی زندگی کو ایک باقاعدہ
رخ دینے کے لیے خدا کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اور جس کی رُو سے اس کی زندگی وہ درست
ترین سمت اختیار کرتی ہے کہ آدمی کی یہ دنیا ہی اُس کی اخروی نجات اور سلامتی کی
شاہراہ کا
کام دینے لگتی ہے... تو پھر یہ سارا دین ایک ہی قالب بن جاتا ہے جس کے کسی ایک
گوشے کو دوسرے سے اور ایک جزء کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
جس
وقت جاہلیت متعدد آلہہ کی عبادت کرتی تھی – چاہے وہ یہ دعویٰ کیوں نہ کرتی ہو کہ خدا ہی
ان سب خداؤں کا بڑا ہے اور بیشک وہ یہ زعم کیوں نہ رکھتی ہو کہ اِن آلِہہ کی پرستش
سے بھی اُس کا مقصد اُس ایک ہی (بڑے) خدا کے ہاں رسائی پانا ہے – تو
اِس جاہلی انسان کی زندگی یوں بکھری ہوئی ہوتی جیسے منتشر ریزے۔
وہ آخرت
پر ایمان نہیں رکھتا تھا لہٰذا اُس کی دنیا آخرت سے بیگانہ تھی۔
اُس کے
خداؤں کی تعداد جتنی زیادہ تھی اُس کی عبادت اُتنی ہی منقسم تھی۔
کسی
گھڑی بتوں کی پوجا، کسی گھڑی قبیلے کی پوجا، کسی گھڑی آباء واجداد کے دستور کی
پوجا، کسی گھڑی اپنی اھواء اور خواہشات کی پوجا۔ اتنے مختلف معبودوں کی بہ یک وقت
پوجا ہو تو یہ عبادت ایک مربوط اکائی کیسے رہ سکتی تھی؟ زندگی کے نہ صرف حصےبخرے
ہوتے بلکہ یہ زندگی کسی غایت کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہتی۔ ایک ایسی بےہنگم
بےسمت زندگی کو بھلا آخرت کے بامعنی جہان سے کیا تعلق؟
وَقَالُوا
مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا
إِلَّا الدَّهْرُ (الجاثیۃ
24)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ "زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے،
یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک
کرتی ہو"
اور جب ’’زندگی‘‘ کو اِسی ڈھب پر گزرنا ہے تو پھر وہ جیسے بھی
گزرے! جس لمحے، جو بھی سامنے آئے! وہی امرؤ القیس کا نعرۂ مستانہ اليوم خمۡرٌ وغداً أمۡرٌ ’’آج شراب
چلےگی۔ کیا کرنا ہے، کل دیکھا جائے گا‘‘۔
چنانچہ
یہ انتشار اور پراگندگی جاہلیت کا نمایاں ترین وصف ٹھہری۔ تاریخِ انسانی کی ہر
جاہلیت اِسی ڈھب پر رہی، ہاں اِس پراگندگی کے ’’مظاہر‘‘ ضرور مختلف رہے اور ان کے مابین ’’درجات‘‘ کا فرق بھی ضرور دیکھنے میں آیا۔
آخر...
یہ جاہلی عرب اِس لاالٰہ الا اللہ پر ایمان لےآتے ہیں... تو اب یہ کوئی اور ہی
مخلوق ہوجاتے ہیں!
وہ سب
پراگندگی یوں چلی جاتی ہے... نفس کا وہ بکھرا ہوا شیرازہ یکایک یوں مجتمع
ہوتا ہے کہ یہ ایک ’’اکائی‘‘ میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک جامع مجتمع اکائی۔
اور پھر
ایسی بہت سی اکائیاں مل کر ایک بڑی اکائی بنتی ہیں... ’’امت‘‘!
متحارب
قبائل یکجا ہوتے ہیں تو یہاں ایک ’’امت‘‘ دیکھی جانے لگتی ہے! اِن منتشر قبائل کی تاریخ
میں پہلی بار ایک امت! اس سے پہلے ان پر کتنی صدیاں گزر چکی تھیں مگر اِن قبائل کو
ایک ’اکائی‘ بننا نصیب نہ ہوا تھا۔
اور پھر
معاملہ عربوں تک نہ رہا۔ رنگا رنگ قبیلے، برادریاں، قومیں، زبانیں، مختلف المظاہر
ثقافتیں ایک ہی قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں اور ایک ’’امت‘‘ کی صورت میں ظہور کرتی چلی جاتی
ہیں۔ اتنی دور دراز قومیں جن کو ایک ’’اکائی‘‘ میں ڈھال دینے کا کبھی تصور تک نہ ہوسکتا تھا۔
نفسِ
انسانی کو دراصل ایک ایسا سانچہ میسر آگیا تھا جس میں اُس کے وہ ریزہ ریزہ اجزاء
ایک اکائی کے اندر سموئے جاسکتے تھے! نفس کے ہر ہر ذرے کو بہ یک وقت ایک ہی سمت
میں چلنا میسر آگیا تھا۔ معبودِ واحد کی جانب یک رخ ہوئے بغیر نفس کا شیرازہ کبھی مجتمع ہونے کا نہیں! ’’وَجَّهْتُ
وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ
الْمُشْرِكِينَ‘‘
اب
معاملہ یہ نہیں رہا تھا کہ نفس کی ’’جسمانی
ضرورت‘‘ کا لحظہ کوئی ایک سمت رکھے تو ’’عقل
وفکر‘‘ کا لحظہ کوئی دوسری سمت تو ’’روحانیت‘‘ کا لحظہ کوئی تیسری سمت۔ خود یہ انسان ہی جس کو
خدا نے ایک خاص فطرت پر تخلیق کیا ہے اپنی جگہ ایک مربوط اکائی ہے جس کے – اصولاً – حصےبخرے نہیں ہوسکتے۔ ’’زندگی‘‘ متحارب سمتوں میں نہیں چل سکتی۔ یہ نفس ریزہ
ریزہ ہواا اور اس کی وحدت پارہ پارہ ہوئی تو اِس لیے کہ اِس نفس کے آلِہہ بیشمار
ہوگئے اور اِس کی عبادت ان بیشمار آلِہہ میں بٹ گئی۔ پھر جونہی اس کا معبود ایک
یکتا معبود ہوا، اِس کی عبادت یکجا ہوئی... اور تب وہ منتشر شیرازہ اپنی وحدت میں
واپس آگیا اور ’’انسان‘‘ اپنی اُس فطرت پر لوٹ آیا جس پر خدا نے اول اس
کی تخلیق کی تھی۔ یوں وہ ’’انسان‘‘ بازیاب کرالیا گیا جو متحارب خداؤں کی
کھینچاتانی میں کٹ پھٹ گیا تھا!
یہ ہے
وہ مقام جہاں سلوکِ انسانی کو بھانت بھانت کے راستے چھوڑ کر ایک متعین راستہ چلنا نصیب ہوا۔
اب یہ
انسان وہ نہیں رہا جو کہے ’آج
شراب، کل کچھ اور‘۔ اِس
کےلیے جیسا آج ویسا کل۔ کیا آج اور معبود ہے اور کل کوئی اور معبود ہوگا؟ یا پھر
وہ ایک ہی معبود ہے جس کی خوشنودی آج بھی درکار ہے اور جس کی اطاعت کل بھی کرنی ہے
بلکہ پوری زندگی اُسی ایک کے اشاروں پر چلنا ہے؟
یوں نفس
انسانی کے سب محرکات ایک ہی سمت میں یکسو ہوجاتے ہیں۔ مل کر ایک ہی راستہ چلنے
لگتے ہیں، اور یہ وہ راستہ ہے جو خدائی تنزیل کا بیان کردہ ہے اور خدا کی جانب
لےکر چلتا ہے۔
یہاں سے
وہ ’’مسلمان‘‘ وجود میں آیا: جس کا کھانا پینا، جس کا اٹھنا
بیٹھنا، اوڑھنابچھونا، ماپ تول، خرید فروخت، نماز
روزہ، کام کاج، صنعت و حرفت، صلح وجنگ سب کچھ ایک ہی دستور کا پابند ہے اور
وہ خدائی شریعت ہے۔ یہاں؛ حلال وہ جسے خدا حلال کردے۔ حرام وہ جسے خدا حرام کردے۔
مباح وہ جس کو خدا روا ٹھہرائے۔ مستحب وہ جو خدا کو محبوب ہو۔ مکروہ وہ جو خدا کو
ناپسند ہو۔ نتیجتاً عمل کے ’’میدان‘‘ خواہ جتنے بھی مختلف ہوگئے ہوں، اعمال کی ’’سمت‘‘ ایک ہے۔ کردار کے ’’مظاہر‘‘ خواہ کتنے ہی متنوع ہوں، کردار کی ’’حقیقت‘‘ ایک ہے: خدا کی نازل کردہ شریعت کی پابندی۔ ’’انسان‘‘ نام کی مخلوق مشرق میں ہو یا مغرب میں، اس کی
منزل اب ’’خدا‘‘ ہے۔
اس کے
نتیجے میں یہ ہوا کہ... دنیا کا راستہ اور آخرت کا راستہ ایک ہوگیا!!!
یہ
راستے الگ الگ ہو کیسے جاتے ہیں؟
کیا یہ
راستہ کسی ایک معبود کے در پر جاتا ہے اور وہ راستہ کسی دوسرے معبود کے در پر؟
کیا وہ
الٰہ جو ’’دنیا کی
زندگی‘‘ کےلیے شریعت دیتا ہے اور ہے، اور وہ الٰہ جس کے
حضور انسانوں کو حساب کےلیے پیش ہونا اور
اپنے اعمال کے لیے جوابدہ دینا ہے کوئی اور ہے؟!
آخرت
میں حساب اور جوابدہی کےلیے حاضرکرنے والا الٰہ اگر کوئی اور ہے تو وہ ’’حساب‘‘ اور ’’جوابدہی‘‘ ہوگی کس بنیاد پر؟ اور کس زندگی سے متعلق
جوابدہی ہوگی؟
کیا
دنیوی زندگی کےلیے پیمانہ کوئی اور ہے اور اخروی زندگی کےلیے پیمانہ کوئی اور ہے؟
دنیا کی میزان میں جو عمل ’’نیکی‘‘ ٹھہرتا ہے کیا وہ اخروی میزان میں ’’بدی‘‘ شمار ہوگا؟ اور جو دنیا میں ’’بدی‘‘ ہے وہ آخرت میں ’’نیکی‘‘ نکلے گی؟!
یہاں
اور وہاں کیا ایک ہی پیمانہ نہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ... دنیا میں جو ’’نیکی‘‘ ہے اُسی کا ’’نیک
بدلہ‘‘ آخر ت ہے، اور جو دنیا میں ’’برائی‘‘ ہے اُسی کا ’’برا
بدلہ‘‘ آخرت ہے؟
لِلَّذِينَ
أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلا ذِلَّةٌ
أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ وَالَّذِينَ كَسَبُوا
السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَا لَهُمْ
مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ
اللَّيْلِ مُظْلِماً أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(یونس 26-27)
بھلا کرنے والوں کے لیے بھلا ہے، اور اس سے بھی زائد۔ ان کے منہ
پر نہ چڑھے گی سیاہی اور نہ خواری۔ وہی جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور
جنہوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ اسی جیسا اور ان پر ذلت چڑھے گی، انہیں
اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے ٹکڑے چڑھا
دیئے ہیں وہی دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
فَمَنْ
يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ
شَرّاً يَرَهُ (الزلزلۃ
7-8)
پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے
ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا۔
تِلْكَ
حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي
مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً
خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء 13-14)
یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو حکم مانے اللہ اور اللہ کے رسول کا
اللہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے، اور
یہی ہے بڑی کامیابی۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی کل
حدوں سے بڑھ جائے اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے
خواری کا عذاب ہے۔
أَفَمَنْ
يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى
إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلا
يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ
يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ وَالَّذِينَ
صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا
رَزَقْنَاهُمْ سِرّاً وَعَلانِيَةً وَيَدْرَأُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ
أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ
مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ
عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى
الدَّارِ وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ
وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ
أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (الرعد 19-25)
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر
نازل ہوا ہے حق ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے؟ اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند
ہیں۔ جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے۔ اور جن (رشتہ ہائے
قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے اور اپنے پروردگار سے
ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف رکھتے ہیں۔ اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے
کے لیے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا
ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی دور کرتے ہیں یہی
لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔ (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں وہ داخل
ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں سے جو نیکوکار ہوں گے وہ بھی
(بہشت میں جائیں گے) اور فرشتے (بہشت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔ (اور
کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب
(گھر) ہے۔ اور جو لوگ خدا سے عہد واثق کر کے اس کو توڑ ڈالتے اور (رشتہ ہائے
قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو قطع کر دیتے ہیں اور ملک میں
فساد کرتے ہیں۔ ایسوں پر لعنت ہے اور ان کے لیے گھر بھی برا ہے۔
جی ہاں۔
دنیا اور آخرت جدا ہو کیسے سکتی ہیں؟ یہ دو الگ الگ راستے بن کیسے جاتے ہیں؟
ناممکن۔
یہ ایک ہی راستہ ہے جس کا آغاز ’’دنیا‘‘ ہے تو انجام ’’آخرت‘‘... ہاں
یہ راستہ ہے دو رَویہ؛ مگر یہ ہردو رَو آخرت ہی کی جانب چل رہی ہیں: ایک رَو نیک
اعمال والوں کی ہے اور یہ آخرت کے اُس گوشے میں پہنچاتی ہے جسے ’’بہشت‘‘ کہتے ہیں، جبکہ دوسری رَو بدعملوں کی ہے اور یہ
آخرت کے اُس گوشے پر جاتی ہے جسے ’’دوزخ‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یہ ہے ایک ہی سڑک جو دنیا سے
گزرتے ہوئے آخرت تک جاتی ہے۔
كَمَا
بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلالَةُ
إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الاعراف 29-30)
جیسے اس نے تمہارا آغاز کیا ویسے ہی پلٹو گے۔ ایک فرقے کو راہ
دکھائی اور ایک فرقے کو گمراہی ثابت ہوئی انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا
سرپرست بنالیا ہے۔
*****
حق
یہ ہے کہ دورِ اول کے مسلمانوں کے نزدیک دنیا اور آخرت یوں متصل تھیں کہ وہ جسمانی
طور پر دنیا میں رہتے تھے تو شعوری اور وجدانی طور پر آخرت میں بستے تھے؛ آخرت تھی
گویا فی الواقع اُن کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
کیوں
نہ ہو، قرآنِ مجید میں بعث اور حساب وجزاء پر اِس شدت کا زور دیا گیا، اور قیامت
کے مناظر اِس کثرت اور تکرار کے ساتھ دکھائے گئے کہ اِس قرآن کو ہمہ وقت پڑھنے
والے مسلمان، گویا آخرت ہی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ بلکہ یوں محسوس کرتے گویا دنیا
گزر چکی اور وہ آخرت میں کھڑے ہیں!
وَأَقْبَلَ
بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي
أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ
إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ (الطور 25-28)
اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔ کہیں
گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ
نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز وتند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا۔ ہم اس سے
پہلے ہی اس کی عبادت کیا کرتے تھے، بیشک وه محسن اور مہربان ہے۔
آخرت
پر اِس درجہ یقین رکھتے ہوئے، اور اس انداز میں آخرت پر نگاہیں مرکوز رکھتے ہوئے
کہ جس سے انسان کا وجدان ہل کر رہ جاتا ہے... غرض آخرت کو یوں اپنے سامنے پاتے
ہوئے اُس دور کا مسلمان اپنا لمحۂ حاضر گزارتا۔ اِدھر وہ ایک عمل کرتا اور اُدھر
اُس کا بدلہ اُس کی نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہوتا۔ وہ اپنے ’’عمل‘‘ سے فارغ نہیں ہوا ہوتا کہ وہ اس کے ’’انجام‘‘ میں اپنے آپ کو جنت یا جہنم میں ڈھونڈ نے لگتا! ’’جنت‘‘ کی صورت میں وہ اسی حالت کو برقرار رکھنے کےلیے
سرگرم ہوجاتا اور ’’جہنم‘‘ کی صورت میں وہ اپنے آپ کو وہاں سے نکالنے کےلیے
فکرمند ہوجاتا۔
’’دنیا
و آخرت‘‘ کے اِس درست تصور
کے نتیجے میں... اُن کی اکثریت کی زندگی یوں بدل گئی گویا وہ اِس دنیا کے آدمی نہ
رہے ہوں!
وہ
فرشتے تو نہ ہوئے، اور نہ اپنی بشری ہیئت سے نکل فرشتے بن جانا اُن سے مطلوب تھا،
اور بشر بہرحال خطائیں کرتے ہیں سوائے خدا کے اُن خاص بندوں کے جو اُس کے انبیاء
ہیں اور جن کو خدا کی جانب سے باقاعدہ عصمت حاصل ہوتی ہے... تاہم یہ وہ بشر ضرور
تھے جو خطا ہوتے ہی خدا کے در پر لوٹ آتے ہیں:
وَالَّذِينَ
إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ
فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ
يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ
مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ
خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (آل عمران 125-126)
جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو
فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ
تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے
کام پر اڑ نہیں جاتے۔ انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن
کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے۔
’’كل بني آدم خطاء ، وخير الخطائين
التوابون (احمد، ابو داود، ابن ماجۃ، الدرامی)
سب بنی آدم خطاکار ہیں۔ خطاکاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو
بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہوں‘‘
یہاں
سے؛ ’’دنیا‘‘ اور ’’آخرت‘‘ کا
ایک ہی روزنامچہ بنتا ہے؛ یہ دو الگ الگ کھاتے نہیں رہتے!
’’دنیا کی مذمت‘‘... کس معنیٰ میں؟
درست
ہے کہ ’’دنیا‘‘ کی قرآن میں مذمت ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ کی زبان
سے ’’دنیا‘‘ ملعون ٹھہرائی گئی ہے۔ ’’دنیا‘‘ کے ساتھ لو لگانے سے روکا گیا ہے۔ لیکن قرآن اور حدیث کی یہ ہدایات بھلا کس حوالے سے
آئی ہیں؟
’’دنیا‘‘ سے دور رہنے کی ہدایات دو حوالوں سے آئی ہیں:
1.
جس وقت دنیا – یعنی دنیا سے تعلق
واسطہ رکھنا – اللہ یوم آخرت پر
ایمان کے آڑے آئے،
2.
یا جس وقت یہ جہاد فی سبیل اللہ کے آڑے آئے۔
وَفَرِحُوا
بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا
مَتَاعٌ (الرعد 26)
اور کافر لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں اور دنیا کی
زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے
إِنَّ
الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا
وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ أُولَئِكَ
مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (یونس 7-8)
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش
اور اسی پر مطئمن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں. ان کا ٹھکانہ ان
(اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے
وَوَيْلٌ
لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ
الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا
عِوَجاً أُولَئِكَ فِي ضَلالٍ بَعِيدٍ (ابراھیم 2-3)
اور کافروں کی خرابی ہے ایک سخت عذاب سے۔ جنہیں آخرت سے دنیا کی
زندگی پیاری ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں، وہ دور کی
گمراہی میں ہیں۔
وَلَكِنْ
مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ
عَذَابٌ عَظِيمٌ ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى
الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (النحل 106-107)
ہاں وہ جو دل کھول
کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے، یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی
زندگی آخرت سے پیاری جانی، اور اس لیے کہ اللہ (ایسے) کافروں کو راہ نہیں دیتا۔
یہ
اور اس طرح کی دیگر نصوص اس حُبِ دنیا کی بابت وارد ہوئی ہیں جو انسان کو اللہ اور
یومِ آخرت پر ایمان سے پھیرنے والی ہو۔
رہی
وہ حبِ دنیا جو انسان کو جہاد فی سبیل اللہ کے اندر جان ومال لٹانے سے پھیرنے والی
ہو، تو اس کی بابت یہ اور اس طرح کی دیگر نصوص وارد ہوئی ہیں:
قُلْ
إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ
وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا
وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ
فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا
يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبۃ 24)
کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور
خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور
مکانات جن کو پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے
تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔
اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
وَإِذَا
أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ
اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَـا نَكُنْ مَعَ
الْقَاعِدِينَ رَضُـوا بِأَنْ يَكُونُـوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِـعَ عَلَى
قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ
(التوبۃ 86-87)
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے
رسول کے ساتھ ہو کر لڑائی کرو تو جو ان میں دولت مند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو رہنے ہی دیجیئے کہ جو لوگ گھروں میں رہیں گے ہم بھی
ان کے ساتھ رہیں۔ یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں۔
(گھروں میں بیٹھ) رہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں۔
فَرِحَ
الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ
يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا
تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَوْ كَانُوا
يَفْقَهُونَ (التوبۃ
81)
جو لوگ (غزوہٴ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی)
کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے
مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان
سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے
یہ
بھی نوٹ ہونا چاہئے کہ وہ کونسے طبقے ہیں جن کے حوالے سے یہ آیات آئی ہیں۔ یہ یا
تو کھلے کافر ہیں یا منافقین جو محض دکھلاوے کےلیے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھے ہوئے
تھے البتہ اندر سے وہ بھی مومن نہیں تھے، بلکہ وہ جہنم میں درکِ اسفل پانے والے
تھے، یعنی خدائی کھاتوں میں وہ بھی کافر ہی تھے:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ
الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرا (النساء 145)
بیشک
منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقہ میں ہیں اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا
وَمَا
مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا
بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلا
يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ فَلا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلا
أَوْلادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ
الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (التوبۃ 54-55)
اور ان کے
خرچ (موال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوا اس کے انہوں نے خدا سے
اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز کو آتے ہیں تو سست کاہل ہوکر اور خرچ کرتے ہیں
تو ناخوشی سے۔ تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں
سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ
کافر ہی ہوں۔
اب
یہ ہیں وہ دو پہلو جن کے حوالے سے دنیا کی مذمت آتی ہے، اور جس کی وجوہات ان آیات
میں نہایت واضح طور پر بیان ہوئی ہیں۔
لیکن اِن دونوں پہلوؤں کی اصل حقیقت کیا ہے؟
اِن
دونوں پہلوؤں کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں مذکور ہی وہ دنیا ہوئی ہے جو آخرت سے جدا
کردی گئی ہو اور جوکہ واقعتاً مذمت کے لائق ہے۔ جس کی صورت یا تو یہ ہے کہ یہ شخص آخرت پر سرے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا یہ کہ اس
کا آخرت پر ایمان رکھنا اتنا بےجان اور بےاثر ہے کہ آخرت کا کوئی واضح عکس اس کے
پردۂ ذہن پر موجود نہیں، جس کے باعث اس کی دنیا میں قدم قدم پر ’’آخرت‘‘ نہیں بولتی۔
اِس شخص کی نظر سے دیکھیں تو گویا جنت جس کا ذکر سننے
میں آتا ہے ’ہوگی کہیں‘! البتہ وہ چیز
اِس کے ہاں مفقود ہے جس کو ہم اس جنت پر ’’ایمان
رکھنا‘‘ کہیں۔ اگر ہے تو بس
وہ ’ایمان‘ جس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر۔ وہ جنت جس کی
باقاعدہ ایک قیمت ہے اور جس کو انسان اپنی جان، مال، خواہش، آرام سب کچھ خدا کی
خوشنودی پر قربان کردینے کے عوض خدا سے مانگتا ہے، ایسی کوئی جنت بہرحال اِس شخص کے ہاں کہیں وجود نہیں رکھتی۔ وہ حیاتِ جاودانی
جس کو پانے کےلیے ایک بار تو اپنی سب خواہشات خدا کی خوشنودی پر قربانی کےلیے پیش
کردی جاتی ہیں پھر خدا اپنی مہربانی سے جتنی چھوٹ دینا چاہے اور جوکہ ’’مباحات‘‘ کا اچھا خاصا ایک وسیع دائرہ ہے، وہ خدا کی
اپنی مرضی اور خدا کی اپنی مہربانی ہے۔ مگر یہ وہ شخص ہے جس کو اس سے غرض نہیں کہ خدا نے اپنی مرضی
اور مہربانی سے اس کے لطف وراحت کےلیے وہ کیا دائرہ رکھا ہے جس کو ’’مباحات‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ نہ اِس کو ’’مباحات‘‘ کا پابند رہنے سے کچھ سروکار ہے۔ یہ اپنی
خواہشات کے پیچھے آخر تک جانا چاہتا ہے۔ خدا نے اِس کے اندر خواہشات پر قابو پانے
کےلیے ’’ضبط‘‘ نام کا جو ایک آلہ نصب کررکھا تھا یہ سرے سے اس
کو معطل رکھتا ہے۔ یہ اپنے نفس کی لذتوں کو کوئی قید اور کوئی لگام ڈالنے کا
روادار نہیں چاہے آپ اس کو لاکھ بتائیں کہ نفس کو یوں بےمہار چھوڑنے کی قیمت بہشت
کی ابدی راحت سے دستبردار ہونا ہے۔
ہاں
اب جب معاملہ اِس خاص صورت کے ساتھ انسان کے سامنے پیش ہوا، یعنی اِس کے سامنے:
ایک طرف وہ ابدی بہشت جس کا ملنا اس بات سے مشروط ہے کہ یہ اپنی خواہش کو ایک خاص
حد سے آگے نہ گزرنے دے اور وہ حد خدا کی مقرر کردہ حد ہے، جبکہ دوسری طرف اِس کی
وہ حد سے بڑھی ہوئی خواہش جس کا پورا ہونا اُس ابدی بہشت کو قربان کردینے کی قیمت
پر ہے... تو اِس شخص نے
راحتِ دنیا کو ترجیح دے ڈالی۔
فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَآثَرَ
الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (النازعات 37-39)
تو جس نے
سرکشی کی تھی۔ اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔ دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ
الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (الاعلیٰ 16-17)
مگر تم
لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے
وَالَّذِينَ
كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ
مَثْوىً لَهُمْ (محمد 12)
اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے
ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے
ہاں
یہ وہ شخص ہے جس
نے وقتی لذت کو (خدا کا مقرر کردہ دائرہ پامال کرتے ہوئے) ترجیح دی ہے، کیونکہ اِس
وقتی لذت سے محروم رہنا اِس کو اُس عذاب سے بھی بڑھ کر دُکھتا ہے جو خدائی وعید
میں جابجا مذکور ہے۔ یا تو آخرت پر سرے سے
اِس کا یقین نہیں اور اِس صورت میں وہ عذاب جس کی وعیدیں سنائی جاتی ہیں اِس کے
نزدیک نرا ایک وہم ہے جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ یا اِس لیے کہ آخرت پر اِس کا
ایمان اس قدر لاغر اور بےجان ہے کہ اخروی عذاب ایسی ایک ’مبہم‘ سی چیز
اِس کے ہاں اُس ’دنیوی عذاب‘ کی نسبت بہرحال ہلکی ہے جو اِس وقتی لذت سے
محروم رہ جانے کی صورت میں اس کو لاحق ہوتا ہے۔ ہردو صورت، یہ ایک ابنارمل انسان
ہے جس کے شعور کے سب پیمانے الٹے ہوچکے؛ کیونکہ یہ شخص صرف اپنے ’دیکھے پر‘ ایمان رکھتا ہے اور اُن اشیاء کو توجہ دینے پر
تیار نہیں جن کی جانب اُس کی ’دیکھی ہوئی
اشیاء‘ چیخ چیخ کر اشارہ
کرتی ہیں کہ بھلےمانس ہم سے ماوراء کچھ ہے جو ’ہمیں‘ دیکھ کر تمہیں معلوم ہوجانا چاہئے، جبکہ یہ
مسلسل اپنی ’دیکھی ہوئی اشیاء‘ کے اِن چیختے دھاڑتے اشاروں کو نظرانداز کرتا
چلا جاتا ہے:
لَهُمْ
قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ
آذَانٌ لا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ
أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف 179)
ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے
نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں
بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
یا
پھر یہ ایک شب کور night-blind شخص ہے جو بہت قریب کی چیز ہی دیکھ سکتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے کہ بہت قریب
کی اشیاء ہی اس کےلیے ایک ’مکمل منظر‘ پیش کرنے لگتی ہیں۔ صرف آس پاس کی اشیاء ہی اِس
کے پردۂ ذہن پر ’کامل ظہور‘ کرتی ہیں! رہیں وہ اشیاء جو ذرا فاصلے پر ہیں تو
اس کی بلا سے وہ یا تو ہیں ہی نہیں اور یا پھر اس قدر مبہم، دھندلی اور گڈمڈ کہ
اِس کا ’نظامِ بصر‘ اُن کو اٹھانے سے جواب دے جاتا ہے!
وَمَنْ
يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ
وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ
مُهْتَدُونَ (الزخرف 36-37)
اور جسے رند تو آئے (شب کوری ہو) رحمن کے ذکر سے ہم اس پر ایک
شیطان تعینات کریں کہ وہ اس کا ساتھی رہے، اور بیشک وہ شیاطین ان کو راہ سے روکتے
ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ راہ پر ہیں۔
*****
رہا
ایک نارمل انسان تو اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے...
نارمل
انسان ابتدا سے ہی اپنی روح کو عالمِ غیب سے بیزار نہیں کرلیتا۔ وہ اپنے آپ کو ’حواسِ خمسہ’ کا اسیر نہیں کرلیتا۔ اِس کو پیدا کرنے والے نے
اِسے دو صلاحیتیں دے کر زمین میں اتارا ہے تاکہ یہ خلافتِ ارضی کی شروط پر پورا
اترے اور یہاں چلتے ہوئے اپنا ’’توازن‘‘ برقرار رکھے: ایک اس کی وہ صلاحیت جو حواسِ خمسہ
کی وساطت کسبِ علم کرتی ہے۔ دوسری اس کی وہ صلاحیت جو ایمان بالغیب کے ذریعے کچھ بلندتر حقائق سے آگہی پاتی ہے۔ پہلی صلاحیت
کے ذریعے یہ اپنے گردوپیش کی اشیاء کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ اِس صلاحیت کے ذریعے یہ
اِس قریب کے مادی جہان کے خواص کا پتہ چلاتا ہے اور پھر اپنے اِس علم و تجربہ کے
ذریعے زمین وآسمان کی اُن طاقتوں کو اپنے قابو میں لاتا ہے جو خدا نے اِس کےلیے
مسخر کر رکھی ہیں اور ان سے یہ زمین کو سنوارتا اور نکھارتا ہے۔ دوسری صلاحیت کے
ذریعے یہ اُن حقائق کے ساتھ تعامل کرتا ہے جنہیں یہ اپنے حواس کے ذریعے مشاہدہ کے
دائرے میں تو نہیں لاسکتا البتہ یہ اپنے حواس کے ذریعے ان حقائق کے ’’آثار‘‘ کا مشاہدہ ضرور کرلیتا ہے۔ اِس کی یہ صلاحیت
اُس فطرت سے وابستہ ہے جو اُن برگزیدہ حقائق کو (جو حواس کی پہنچ سے باہر ہیں)
تسلیم کرنے کے سوا کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ فطرت اُن بلندتر حقائق کے ساتھ
ہم آہنگ ہونا چاہتی ہے۔ اُن کے ساتھ باقاعدہ تعامل کرتی ہے۔ یہ بلندتر حقائق
مانند: الوہیت، نبوت، وحی، بعث بعد الموت اور جزا وسزا۔ انسان کو اِن بلندتر حقائق
کے ساتھ تعامل کرنے کی یہ صلاحیت درحقیقت اس لیے ودیعت ہوئی کہ زمین کی وہ مادی
تعمیر جو یہ اپنے حواس سے مدد لے کر کرتا ہے یہاں عین خدائی نقشے پر انجام پائے۔
تب یہ صرف مادی تعمیر نہ رہے، نہ ہی یہ جسم کے مطالبوں اور لذتوں کو پورا کرانے کے
اندر محصور رہے، بلکہ یہ ایک حقیقی ’’تہذیب‘‘ بنے۔ اِس تعمیرِ ارض میں کچھ نہایت اعلیٰ
وبرگزیدہ قدروں کا مواد استعمال ہو جس کے دم سے انسانی وجود یہاں عین وہ رخ پائے
جو درحقیقت اِس کے شایان ہے۔ یہاں وہ ’’انسان‘‘ سامنے آئے جس کا پتلا تو اِسی مٹی سے بنا ہے مگر
اِس مشتِ خاک میں درحقیقت خدا کی پھونکی ہوئی روح دوڑتی ہے۔ خدا کی پھونکی ہوئی
روح اِس مٹی کے پتلے میں اب اسی صورت بولے گی کہ یہ خدائی وحی و الہام کی عطاکردہ
اُن اعلیٰ وارفع قدروں کو اپنے علمی وجود میں ضم کرے جوکہ اِس کو رشکِ ملائک کرتی
ہیں۔ وحی کی بخشی ہوئی اِن قدروں کے بغیر
یہ نہ صرف ادھورا ہے بلکہ نری مٹی اور کیچڑ ہے اور یہ اسی میں لت پت رہے گا جب تک
کہ اس سے بلند ہوکر یہ آسمان سے ہی اپنا وہ ازلی رشتہ بحال نہ کرے۔ اِس کِرم خاکی میں
سموئی ہوئی وہ سب صلاحیتیں جو اِسے ’’پرواز‘‘ کے قابل بناتی ہیں اسی صورت میں ظہور کریں گی کہ
یہ وحیِ آسمانی کو پانے اور سراہنے کی اعلیٰ قابلیت سامنے لائے۔
یہ
متوازن انسان جس کے نفس کی ترکیب اُسی مشتِ خاک اور نفخۂ روح والے توازن پر
برقرار ہے... اور جس کو معاملے کی ’’پوری
تصویر‘‘ دیکھنے کےلیے ’’حواس‘‘ اور ’’وحی‘‘ ہردو کو کام میں لانا ہے... اِس انسان کے ہاں
معاملے کی بالکل ایک اور تصویر بنتی ہے:
یہاں
حیاتِ دنیا میں جو ایک ’’متاع‘‘ (enjoyment) ہے اُس کا ایک بڑا حصہ یقیناً مباح ہے۔ اور
یہ متاعِ زیست اُس وقت سے مباح (حلال) ہے جب سے آدم اور اس کی جورو کو اِس زمین پر
اتارا گیا ہے:
وَقُلْنَا
اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ
إِلَى حِينٍ (البقرۃ 36)
اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک
وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائده اٹھانا ہے
خدا
کی مباح کردہ یہ ’’متاع‘‘ جس کا تعین خدا نے اپنے علم اور حکمت کی بنا پر
کررکھا ہے... خدا کو معلوم ہے کہ یہ متاع (لذت و آسائش) کی وہ مناسب ترین مقدار ہے
جو انسان کو اِس کرۂ ارض پر رہتے ہوئے درکار ہے اور جوکہ زمین میں اِس کے منصبِ
خلافت کو انجام دینے کےلیے ضروری ہے اور
جس کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ’’لذت‘‘ اور ’’آسائش‘‘ اس کو خراب یا بیکار کرنے کا باعث نہیں بنے گی۔
دوسری جانب یہی دائرہ اِس کےلیے اُس ’’آزمائش‘‘ کا کام دیتا ہے جس کےلیے اِس کی تخلیق ہوئی،
کیونکہ خدا نے اس کی تخلیق فرمائی تو اس کو خواہشات کی چاہت سے بھر دیا:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ
مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ
وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ
مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا..
(آل عمران 14)
لوگوں کے
لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر
زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیوی زندگانی کا چند روزہ
سامانِ آسائش ہیں
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا
تَقْرَبُوهَا (البقرۃ 187)
اللہ کی
حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ
تِلْكَ حُدُودُ
اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا (البقرۃ
229)
یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو
اُس
نے اپنی رحمت سے انسان کو اُن ’’حدوں‘‘ کی نشاندہی فرما دی جو اُس کے علم کی رُو سے
انسان کےلیے اِس کوکبِ ارضی پر رہنے کے دوران فائدہ مند ہیں اور جن کے دائرہ میں
رہتے ہوئے اِس کا اپنی خواہشات پوری کرنا نہ صرف اِس کےحق میں نقصان دہ نہیں اور
اِس کی سرشت کےلیے باعثِ مسخ نہیں بلکہ یہ زمین پر ایک صحتمند عمل کا موجب بھی
ہوسکتا ہے۔ بہ ایں ہمہ، یہاں پر ’’آزمائش‘‘ کا پہلو بھی آجاتا ہے جوکہ اِس بات کا متقاضی
تھا کہ ’’خواہشات‘‘ ایک جانب اِس کےلیے شدید مزین کردی جائیں جہاں
یہ ان (خواہشات) کی زیادہ سے زیادہ مقدار لینے کےلیے بےتاب ہو ، اور دوسری طرف اس
کو خواہشات کی ایک خاص مقدار (مباح) ہی کا پابند کردیا جائے اور اس سے باہر جانے
سے ممانعت کردی جائے خواہ اُن (خواہشات) پر اِس کی کتنی ہی جان کیوں نہ جاتی ہو۔
مگر
اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کےلیے ’’متاع‘‘ (لذت و آسائش) کی ایک جائز مقدار مقرر فرمائی،
اور جوکہ خود اِسی کے فائدہ و مصلحت کےلیے ہے ورنہ اللہ تو غنی اور بےنیاز ہے...
وہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’’خواہشات‘‘ کی کھینچ اور ’’پابندیوں‘‘ کی جکڑ کے مابین کٹنےپھٹنے کےلیے چھوڑ بھی نہیں
دیا (گو خواہشات کی کھینچ اور پابندیوں کی جکڑ ہے اِس کی اپنی ہی مصلحت کےلیے)
بلکہ اِس کو ایک ایسا عظیم وبرگزیدہ آلہ عطا فرمایا جسے کام میں لا کر یہ نہ صرف ’’خواہش‘‘ کی اِس وقتی محرومی کی تکلیف پر قابو پالے بلکہ
اس بےقابو خواہش سے دستبردار ہونے میں یہ باقاعدہ ایک اعتماد اور ایک خوشی پائے۔
اِس عظیم الشان آلہ سے کام لے کر یہ ایک ناروا لذت کو چھوڑتے ہوئے بلندخیالی اور
پاکیزگی کے اعلیٰ احساس سے سرشار ہو۔ یہ خواہشات کی اُس حد سے جو گندگی اور
گھٹیاپن تک چلی جاتی ہے، دور رہنے میں ایک غایت درجے کی خوشی محسوس کرے۔ یہ آلہ جو
ضبطِ نفس کے اِس عمل کو ایک نہایت خوشگوار اور باعثِ طمانینت عمل بناتا ہے انسان
کا ’’قلب‘‘ ہے، جس کو قرآنی اصطلاح میں ’’عقل‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ’’فؤاد‘‘ بھی۔
وَاللَّهُ
أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَجَعَلَ لَكُمُ
السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (النحل 78)
اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم
کچھ نہ جانتے تھے اُس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں، اور سوچنے والے دل دیے، اس
لیے کہ تم شکر گزار بنو
أَفَلَمْ
يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ
آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى
الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج 46)
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے
والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر
وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں
البتہ ’’ابتلاء‘‘ کا پہلو اِس سارے معاملے میں یہ دیکھنا ہے
کہ... آیا انسان اِس عظیم الشان آلے کو، جو اِس پر خدا کی خاص عنایت ہے، کام میں
لاتا ہے اور اس کی مدد سے خواہشات کو ابتداء سے ہی ایک مہار ڈال لیتا ہے، اور اپنے
اِس ضبطِ نفس کی بدولت آیا یہ بلندی کی اُس سطح تک آتا ہے جو انسان کے شایان ہے،
اور جس کے نتیجے میں یہ زمین پر فی الواقع ایک ’’تہذیب‘‘ کھڑی کرتا ہے کہ جس کا ظہور ’’خلافتِ
راشدہ‘‘ کہلائے، اور اس سے
بھی اہم تر یہ کہ یہ اِس پر اپنے مالک سے وہ انعام پائے جو ’’آخرت‘‘ کے وسیع ابدی جہان کے سوا کہیں سمانے کا نہیں
اور وہ بہشت جو ’’نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی دل میں
اس کا خیال گزرا‘‘... ؟یا پھر یہ اُس عظیم آلے کو کباڑ میں جھونک دیتا اور
اپنی گھٹیاخواہشات کے تعاقب میں کھائیوں کے اندر اترتا چلا جاتا ہے، اور یوں اپنا
آپ – بطورِ فرد اور بطورِ جماعت – تباہیوں کی نذر کرتا چلا جاتا ہے خواہ وہ
تباہیاں اِس کی بدکاریوں کے نتیجے میں فوری طور پر سامنے آئیں یا کچھ وقت لیں، اور
یوں وہ کوئی ایسی حقیقی ’’تہذیب‘‘ کھڑی کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے جو درحقیقت
انسان کے شایان ہے اور جو ’’زمین
میں خلافتِ راشدہ‘‘ کہلانے کے لائق ہو،
اور اس سے بھی اہم تر یہ کہ وہ اپنے مالک کے اُس ہولناک عذاب کا حقدار بنتا ہے جسے
جھیلنا انسان کے بس میں نہیں:
إِنَّ
الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَاراً كُلَّمَا نَضِجَتْ
جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُوداً غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ
اللَّهَ كَانَ عَزِيزاً حَكِيماً وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا
أَبَداً لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلاًّ ظَلِيلاً (النساء
56-57)
جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل
کریں گے، جب کبھی ان کی کھالیں پک
جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انہیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں، بیشک اللہ
غالب حکمت والا ہے. اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں
میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے، ان کے لیے وہاں
ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا.
ایک
نارمل انسان کا معاملہ جب یوں ہے تو وہ مناسب ترین رویہ جو حکمت اس سے تقاضا کرتی
ہے، اور جوکہ اِس ’’دل‘‘ کی آواز ہے جسے خدا نے بلندیوں کی جانب اٹھنے
میں مدد دینے کےلیے اس کے انسانی وجود میں نصب کررکھا ہے... وہ مناسب ترین رویہ یہ
ٹھہرتا ہے کہ یہ ’’متاع‘‘ (لذت اور آسائش) کی اُس مقدار پر ہی کفایت کرلے
جو خدا نے اِس کےلیے مباح کردی ہے اور اس سے نکل کر یہ حرام کے اندر قدم نہ رکھے۔
اِس طریقے سے دنیا میں بھی اِس کی زندگی ایک اعلیٰ رخ پر قائم ہوتی ہے اور آخرت
میں بھی یہ نہ صرف خدا کے ہولناک عذاب سے بچتا ہے بلکہ خدا کی خوشنودی اور بہشت
بھی پالیتا ہے۔
یہ
تھا ’’دنیا وآخرت‘‘ کا وہ نقشہ جو دورِ اول کے مسلمان کے ہاں ملتا
ہے۔ یہ وہ مسلمان تھا جس نے دین کے چشمۂ صافی سے ہی اپنے سب کے سب مفہومات لیے
تھے اور جوکہ خالصتاً اللہ کی کتاب ہے یا اُس کے رسولؐ کی سنت۔ ’’دنیا‘‘ اور ’’آخرت‘‘ اُس کے ہاں ایک ہی شاہراہ چلنے کا نام تھا اور
دونوں کےلیے اُس کے ہاں ایک ہی کھاتہ تھا:
وَابْتَغِ
فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا (القصص
77)
اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور
دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول
هُوَ
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُـوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُـوا
مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُـورُ
(الملک 15)
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس
کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے
*****
یہ
خوبصورت توازن جو نفسِ انسانی کے اندر اسلام نے پیدا کیا تھا، اور جوکہ ہمیں قرنِ
اول کے مسلمان کے یہاں واضح طور پر نظر آتا ہے، اور جس کو تاریخ نے بھی محفوظ کرنے
میں ہرگز کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور جس نے واقعتاً نفسِ انسانی کو ایک ایسی اعلیٰ
جہت دی جو کسی ’روحانیت‘ اور کسی ’فلسفے‘ کے بس کی بات نہ تھی...
(اس مضمون کا بقیہ حصہ اگلے
شمارے میں، ان شاء اللہ)
جماعتِ اسلامی کو نیا امیر مبارک!
دعاگو
ہیں، جناب سراج الحق جماعت اور قوم کی توقعات پر پورا اتریں۔
جناب سید منور حسن کو ان کی
خدمات پر خراجِ تحسین۔ ادارہ ایقاظ