دینی
جماعتیں اور ان کا شرعی حکم
اردو استفادہ: ایقاظ ڈیسک
ہمارے گزشتہ و
حالیہ شمارہ کا مرکزی مضمون ’’جماعۃ المسلمین‘‘ ہے۔ شاید آئندہ ایک دو شمارے بھی
اِسی مضمون کے گرد رہیں۔ چونکہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ جسے اختصار کے ساتھ ’’الجماعۃ‘‘
بھی کہا جاتا ہے ایک نہایت وسیع حقیقت ہے اور پوری امت کے وجود کو شامل ہے، اس لیے
ہمارے بعض احباب کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ ’’الجماعۃ‘‘ کا دین میں اگر یہی
تصور ہےکہ وہ پوری امت کو شامل ہو اور اہل کفر کے مقابلے پر اہل اسلام کے کیمپ
کےلیے مستعمل ایک شرعی اصطلاح ہو... تو حالیہ مراحل میں جہاں خلافت یا اسلامی دولت
سرے سے نہیں پائی جاتی، موجودہ دینی جماعتوں کا کیا حکم ٹھہرے گا؟ یہ موضوع اس لیے
بھی اہم ہے کہ بعض لوگ حالیہ دینی جماعتوں اور تنظیموں کو جھٹ سے بدعت کہہ دیتے
ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم آپ کی خدمت میں دو استفتاء پیش کر رہے ہیں۔ آئندہ کسی فرصت
میں ان شاء اللہ اس پر مفصل گفتگو ہوگی، جس میں ہم یہ واضح کریں گے کہ ہمارے بعض
معاصر علماء (خصوصاً جزیرۂ عرب کے علماء) نے دینی جماعتوں کے حالیہ فنامنا پر اگر
کچھ تحفظات ظاہر کیے ہیں، اور جن کو یہاں پر بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور ان
کی بنیاد پر لوگوں کو دینی جماعتوں اور جماعتی کام سے متنفر کرایا جاتا ہے... تو ان فتاویٰ کا سیاق وسباق کیا ہے۔
شیخ سفر الحوالی:
سوال: میدان میں اس وقت جو اسلامی جماعتیں پائی جا رہی
ہیں ان کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اتنی زیادہ جماعتیں ہونے کا کوئی فائدہ ہے؟
نیز ان میں سے اقرب الی الصواب کس کو سمجھا جائے؟
جواب: دینی جماعتوں کا پایا جانا ایک نہایت طبعی وفطری
حقیقت ہے۔
سمجھو، پوری
امت ایک بحری جہاز تھا اور ایک کپتان کی سرکردگی میں چلا جا رہا تھا۔ مگر کچھ
اسباب ایسے ہوئے کہ یہ جہاز ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اب یہاں ضروری ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی
چھوٹی موٹی کشتی کا ہی بندوبست کرلائے اور جتنے لوگوں کو اس پر سوار کراکے غرق
ہونے سے بچا سکتا ہو بچا لے (تو یہ بھی غنیمت ہے)۔ چنانچہ یہ جماعتیں جو اپنی اپنی استعداد کے
مطابق لوگوں کو غرق ہونے سے بچانے کےلیے کوشاں ہیں اُسی ایک قافلے کی نجات دہندہ
کشتیاں ہیں۔ بتائیے اس میں کیا اشکال ہے؟ یہ ہیں جہادی اور دعوتی جماعتیں (جو
حالیہ بحران میں امت کی مدد و نصرت کےلیے کھڑی ہیں)۔
مسلمانوں
پر فرض ہے کہ وہ (ان جماعتوں کی سرکردگی میں) اکٹھے ہوں۔ اب اگر سب مسلمان اکٹھے نہیں ہوسکتے،
تو کم از کم وہ لوگ اکٹھے ہوجائیں جنہیں اکٹھے ہونے کی ضرورت اور اہمیت معلوم
ہوگئی ہے۔
ہاں
سوال صرف اتنا ہے کہ اکٹھے کس چیز پر ہوں؟
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا
تَفَرَّقُوا
’’سب
اکٹھے ہوکر اللہ کی رسی کو تھام لیں اور تفرقہ نہ کریں‘‘۔
یہاں
ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی کو بھی غلط مت کہو؛ کوئی جو کرتا ہے کرنے دو، بس
اکٹھا ہونے کےلیے کہو۔ کوئی رافضی ہے تب، قبرپرست ہے تب، خدا کی صفات کا منکر ہے
تب، سب کو جمع کرو۔ ہاں یہ بات نہ عقلاً درست ہے اور نہ شرعاً۔ ہم کہتے ہیں: سب سے
پہلے اہل سنت کو جمع کرلو، یہ سب مجتمع ہوں اور ایک قوت بن جائیں۔ اس کے بعد امت
کو بھی اکٹھا کرلیں۔ اہل سنت کا مجتمع ہونا دراصل امت کو مجتمع کرنے کی بنیاد ہے۔
کیونکہ اہل سنت سے ہی سب سے بڑھ کر توقع ہوسکتی ہے کہ یہ کسی باطل چیز کےلیے تعصب
نہ رکھیں۔ ان کا اکٹھا ہونا کسی تعصب یا حزبیت پر قائم نہ ہو بلکہ یہ حق پر مجتمع
ہوں، یہ اپنے مابین شوریٰ کا نظام قائم کریں اور ان کا مقصد دین کی نصرت ہو۔
عالم
اسلام میں ہر جگہ ایسی جماعتیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ مل کر شرعِ خداوندی کی
اقامت کےلیے یک آواز ہورہے ہیں۔ ایک جماعت
کے بس کی بات واقعتاً نہیں کہ سب لوگوں کو اپنی چھتری تلے لے آئے۔ مگر کچھ لوگ اب
بھی وہیں کھڑے انہونی توقعات لیے بیٹھے ہیں۔ (عوام سے اکٹھا ہونے کی توقعات رکھنے
کی بجائے) اس وقت ضرورت ہے کہ دین کے داعی اکٹھا ہو کر دکھائیں۔ اپنے مابین ایک ایسی وحدت اور یکجہتی لے کر
آئیں اور مشترکہ منصوبہ بندی کی ایسی صورت
پیدا کریں کہ اسلامی بیداری کے اس پورے
عمل کو ایک قیادت میسر آجائے۔ دوسروں سے تو یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ سلف صالحین
کے منہج پر امت کو لےکر چلیں، البتہ اہل سنت جماعتوں سے یہ توقع کی جاسکتی
ہے۔ سلف کا منہج دراصل دین کی اُس آسان
صورت پر مبنی ہے جو ہر قسم کے ماحول میں اسلامی وحدت کےلیے ایک بنیاد بن سکتی ہے۔
یہ دینی
جماعتیں ہر ہر ماحول کی مناسبت سے کام کرتی ہیں۔ جہاں جہاد کی ضرورت ہے وہاں یہ
جماعتیں جہادی ہیں جیسے ارٹریا یا افغانستان، اور اللہ کا شکر ہے سلف کے منہج پر
ہیں۔ جہاں پر ماحول کا تقاضا ہے وہاں یہ جماعتیں دعوتی ہیں۔ کہیں پر علماء ہی ہیں
جن کے گرد نوجوان مجتمع ہوجاتے ہیں۔ غرض
ہر جگہ اور ماحول کی مناسبت سے یہ جماعتیں کام کر رہی ہیں، البتہ ان سب کی غرض و
غایت ایک ہے۔
حکم تعدد الجماعات الإسلامیۃ:
http://www.alhawali.com/index.cfm?method=home.SubContent&contentID=2365
شیخ یوسف القرضاوی:
سوال: اسلامی جماعتوں کا جو ایک فنامنا ہے، اس کی بابت
لوگوں کے نقطۂ نظر بےحد مختلف ہیں۔ یہ جماعتیں جو معاشرے کو تبدیل کرکے ایک اعلیٰ
اسلامی معاشرہ بنانے کےلیے کوشاں ہیں، جیساکہ نبیﷺ اور صحابہؓ کا معاشرہ تھا۔ میرا
سوال ان جماعتوں کے مناہج کے بارے میں نہیں بلکہ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا
اصولاً ان جماعتوں کا بننا درست ہے، یا یہ بدعت میں آئے گا اور اس کو معاشرے میں
تفرقہ و انتشار کا باعث سمجھا جائے گا؟ یا دوسری طرف، جماعتیں جس طرح اس عمل کو
واجب کہتی ہیں، کیا جماعتیں بنانے کے اس عمل کو واجب کہا جائے گا؟
جواب: دینی جماعتوں کا بننا ہرگز غیرشرعی نہیں ہے۔ بلکہ کسی
وقت یہ معاملہ وجوب تک جا سکتا ہے، اور یہ اس صورت میں جب حکومت اس قدر کافی ادارے
نہ رکھتی ہو جو اسلامی مقاصد کو معاشرے کے اندر پورا کر رہے ہوں۔ یہ فرض اصل میں
تو ریاست کا ہے کہ وہ دین اور دینی مقاصد کی نگہبانی کرے۔ لیکن اگر وہ اس فرض پر
پورا نہ اترے، تو افراد پر واجب ہوجاتا ہے کہ اس مشن کو پایۂ تکمیل کو پہنچائیں۔
ہاں یہ
ضروری ہے کہ ان جماعتوں کے مابین خیر اور حق کےلیے تعاون ہو۔ نیز جہاں اسلام اور
مسلمانوں کی مصلحت ہو وہاں یہ اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ جماعتیں مل کر اہل سنت وجماعت کی تشکیل کرتی ہیں، اور
از راہِ عموم یہ سب فرقۂ ناجیہ میں آتی ہیں۔
یہاں ان
فتووں پر تنبیہ ضروری ہے، اور اس پر خاموش رہنا درست نہیں ہے، جن کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی دینی جماعت بنانا
یا اس میں شامل ہونا حرام ہے اور ایک ایسی بدعت ہے جس کا خدا نے اپنے دین میں حکم
نہیں دے رکھا۔ چاہے آپ اس کو جماعت کہہ لیں، انجمن کہہ لیں، پارٹی کہہ لیں، ان کے
خیال میں شریعت اس کی گنجائش نہیں دیتی۔
دین میں
اس دھڑلے سے بات کرنا اور ایک چیز کو حرام کہہ ڈالنا عجیب ہے۔ یہ بغیر دلیل کے ایک
چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں۔ اشیاء اور تصرفات میں اصل اباحت ہے۔ اسلام کےلیے سرگرم
جماعتیں (کم از کم بھی) اِس ضمن میں تو
آتی ہی ہیں۔
البتہ
درست تر بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کا قیام نصوصِ شریعت کی رُو سے واجب قرار پاتا
ہے۔ نیز شریعت کے قواعدِ کلیہ اسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں:
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ
تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة:
2)
تعاون کرو آپس میں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں۔ اور مت
تعاون کرو گناہ اور زیادتی کے کاموں میں۔
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ
قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آل عمران: 103)
اکٹھے ہوکر اللہ کی رسی کو تھام لو اور تفرقہ مت کرو۔ اور
یاد کرو اللہ اپنے اوپر اللہ کی نعمت جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے
تمہارے دل جوڑ دیے اور تم اللہ کے احسان سے بھائی بھائی ہوگئے۔
نیز
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
المؤمن
للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا (متفق عليه عن أبي موسى. ورواه أيضًا الترمذي والنسائي كما في صحيح الجامع الصغير 6654)
مومن مومن کےلیے مربوط عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ
دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔
يد الله
مع الجماعة ومن شذ شذ في النار (رواه الترمذي في سننه من حديث ابن عمر)
اللہ کا ہاتھ جماعت (اکٹھ) کے ساتھ ہے۔ اور جو الگ راستہ
اختیار کرے گا دوزخ میں جا پہنچے گا۔
نیز
فقہی قاعدہ کہتا ہے:
ما لا يتم الواجب إلا
به فهو واجب
وہ چیز جس پر ایک فرض کی انجام دہی موقوف ہو جائے وہ بھی
واجب ہوجاتی ہے۔
جبکہ یہ
قطعی حقیقت ہے کہ اس دور میں اسلام کی ضرورت پوری کرنا، امت کے وجود کا تحفظ کرنا،
اور اسلام کی حکومت قائم کرنا انفرادی کوششوں سے ممکن نہیں۔ یہاں وہاں بکھرا ہوا
کام اس ہدف کو پہنچنے کےلیے قطعی ناکافی ہے۔ اس کےلیے ایک منظم اجتماعی کام ضروری
ہے جو ان بکھری ہوئی کوششوں کو ایک ڈسپلن دے۔ منتشر صلاحیتوں اور ضائع جانے والی
توانائیوں کو ایک دھارے میں لائے اور سب کو ایک جہت کے اندر یکجا کرے، جہاں ایک
ایک شخص کو اس کے کرنے کا کام دیا جائے اور اس کے حاصل کرنے کا ہدف بتایا جائے۔
پھر اس
حقیقت کو سامنے رکھیں تو یہ بات اور بھی قطعی ہوجاتی ہے کہ آج اسلام کے خلاف
برسرعمل رہنے والی قوتیں جو آپ کو نظر آ رہی ہیں وہ کوئی ’انفرادی کوششوں‘ پر مبنی
نہیں ہیں۔ بلکہ وہ بڑے بڑے مضبوط اور منظم بلاک ہیں۔ نہایت منظم ادارے اور جماعتیں
ہیں۔ بڑے بڑے انسانی وسائل اور مادی ذرائع کو کام میں لا کر اسلام کی اینٹ سے اینٹ
بجانے کےلیے سرگرم عمل ہیں۔ ایسی منظم قوتوں کا مقابلہ ہم انفرادی کوششوں سے آخر
کیسے کرلیں گے؟ اہل کفر کے ساتھ ہمارا یہ جو معرکہ ہے اس کا تو اپنا تقاضا ہے کہ
ہم بھی ان کے مقابلے پر مسلمانوں کو ملا کر صف آرا کریں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي
سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف: 4)
یقیناً اللہ پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو اس کے راستے میں
قتال کرتے ہیں ایک صف ہو کر، جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
یہ
جماعتی کام جو اسلام کی نصرت کےلیے ہو رہا ہے، اسلام کی سرزمین کو آزاد کرانے، امت
کو متحد کرنے اور اسلام کا بول بالا
کرنے کےلیے ہورہا ہے... یہ اِس وقت کا فرض بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یہ دین کی رُو سے
فرض ہے۔ اور صورتحال کی رو سے ضرورت ہے۔
جماعتی کام کا مطلب ہے کہ ایسی
منظم قوتیں میدان میں لائی جائیں جو اِن عظیم الشان فرائض سے عہدہ برآ ہوسکیں۔
جماعات من المسلمین نہ کہ جماعۃ
المسلمین:
دوسری
جانب البتہ ایک دوسری انتہا بھی ہے۔ یہ وہ طرزِ فکر ہے جو جماعتی کام کو فرض قرار
دیتا ہے تو اس فرض کو اپنی ایک خاص جماعت کے اندر محصور ٹھہرا دیتا ہے۔ پھر وہ
جماعت اپنے آپ کو اس حیثیت میں پیش کرتی ہے کہ بس یہی خالص حق کی نمائندہ ہے، جبکہ
اس کے ماسوا جماعتیں باطل پر ہیں، گویا فَمَاذَا
بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ!
بالفاظِ
دیگر یہ جماعت اپنے آپ کو ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کی حیثیت میں پیش کرے گی نہ کہ
’’جماعۃٌ من المسلمین‘‘ کی حیثیت میں۔ ظاہر ہے اگر اس کی حیثیت ’’جماعۃ المسلمین‘‘
کی ہے تو اس سے باہر رہنے والا شخص ’’مفارقِ الجماعۃ‘‘ ٹھہرے گا۔ یعنی جو شخص بھی
اس جماعت میں شامل نہیں ہوا وہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں ہی نہیں ہے!
دین میں
جتنی احادیث ’’الجماعۃ‘‘ اور ’’لزوم الجماعۃ‘‘ کی بابت آئی ہیں یہ اس کو خاص اپنے
اوپر لاگو کرے گی۔
یہ طرزِ
استدلال اور نصوص کی یہ بےجا تطبیق امت کے حق میں بڑا فتنہ ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ یہ
دلائل شرعیہ کو وہاں لاگو کرتا ہے جو اس کا محل نہیں ہے۔
ان میں
ایسے ایسے طرزِ فکر بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ حق ہماری ہی جماعت میں ہے۔ خاصے خاصے
دلائل یہ ثابت کرنے کےلیے دیے جارہے ہوتے ہیں کہ حق ان کے سوا کسی اور کے ساتھ
نہیں ہے۔
ایک
طرزِ فکر یہ ہے کہ اپنے ایسے فکری و عملی اوصاف بیان کیے جائیں جن سے نشاندہی ہو
جائے کہ ’ہماری‘ ہی جماعت، جماعتِ حقہ ہے، کیونکہ وہ اوصاف اور نشانیاں ہمارے
علاوہ کسی پر منطبق ہوتی ہی نہیں ہیں۔ غرض ایسی ایسی دھونس اور زبردستی جسے علم
اور منطق کسی صورت قبول نہ کرے۔
ایک
طرزِ فکر یہ ہے کہ زمانی ترتیب میں اپنی پہل ثابت کی جائے اور بعد میں بننے والی
جماعتوں کو صرف اسی ایک بنیاد پر ناحق ثابت کردیا جائے! یہاں تک کہ بعض ملکوں میں
اس بنیاد پر باقاعدہ اپنے آپ کو ’’واحد جماعتِ حقہ‘‘ ثابت کر لیا جاتا ہے: چونکہ
سب سے پہلے اسی جماعت نے میدان میں قدم رکھا تھا لہٰذا اس کے بعد میدان میں آنے
والی جماعتیں غیرمعتبر مانی جائیں گی، کیونکہ لوگوں کا اس جماعت کو قبول کرلینا اس
کو اپنی بیعت دے دینے کے مترادف تھا لہٰذا اس کے بعد بننے والی جماعتوں کا وہی حکم
ہوگا جو ایک خلیفہ کی بیعت ہوجانے کے بعد کسی دوسرے خلیفہ کےلیے بیعت مانگنے کا
ہوتا ہے!
یہ جہالت اور کم علمی پر مبنی فتاویٰ ہیں جوکہ امت کو فتنوں
میں دھکیلنے کا باعث چلے آتے ہیں۔
الجماعات الإسلامیۃ بین البدعۃ والوجوب:
http://www.qaradawi.net/fatawaahkam/30/5197-2011-09-21-08-26-20.html