احادیث میں مستعمل لفظ ’’اَثَرَۃ‘‘ جس کا مطلب ہے
ترجیحی یا امتیازی سلوک۔ خواہ اسکی صورت یہ ہو کہ امراء اپنے لیے
ایسی چیزوں کو مخصوص کرلیں جو باقیوں کو نہ ملیں۔ یا یہ صورت کہ حقوق یا عہدوں وغیرہ کے معاملہ میں آپ پر دوسروں کو ناحق
ترجیح دی جائے، یعنی میرٹ کا قتل۔ جوکہ مسلم معاشروں کے حق میں ناسور ہے اور عدل
کے سراسر منافی۔
یہ ظلم یا امتیازی
سلوک مسلم وحدت میں کسی وقت تو ایک حقیقت ہوسکتی ہے،تاہم کسی وقت ایک فرد، یا ایک
قبیلے یا ایک قوم کا اپنا خیال ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے؛ کیونکہ
انصاف بعض لوگوں کو غیرمطمئن اور پریشان بھی کرتا ہے، نیز شیطان نفوس کو بہکاتا
ہے، یہاں تک کہ آبپاشی کے ایک تنازعہ میں نبیﷺ کےفیصلے پر ایک منافق نے آپؐ پر
(معاذ اللہ) اپنے رشتہ دار کی طرفدار ی کا الزام لگا یا۔ اس پر شرعی دلائل موجود
ہیں کہ شیاطینِ جن و انس مسلمانوں کی جماعت اور وحدت سے سب سے بڑھ کر خار کھاتے
ہیں۔ چنانچہ کسی وقت واقعتاً زیادتی ہوتی ہے اور شیطان اس پر مسلمانوں کے مابین
فتنہ اٹھاتا ہے۔ اور کسی وقت زیادتی نہیں بھی ہوتی یا اتنی نہیں ہوتی جتنی شیطان
آدمی کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہےاور اس سے آگ بھڑکا کر مسلم وحدت کو پارہ پارہ
کردینے کی سعی کرتا ہے۔
جہاں تک زیادتی، ناانصافی ،
طرفداری اور ترجیحی سلوک کا تعلق ہےتو یہ معاملہ قریبی رشتہ داروں تک کے مابین
ہوجاتا ہے۔ ایک باپ کسی وقت اپنے دو سگے بیٹوں کے مابین ناانصافی کر بیٹھتا ہے۔
دفتر، ادارے، انجمنیں، قبیلے، برادریاں... زیادتی کہاں نہیں ہوتی۔ جس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اُس کو مسند پر
بٹھا دیں وہ شاید دوسروں سے بڑھ کر زیادتی کرلے! انصاف اور حقوق کی ادائیگی دنیا
کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کےلیے علم، خداخوفی، صلاحیت، تربیت اور صالحین کی مصاحبت
و مشاورت ہردم درکار رہتی ہے۔ پھر بھی
غلطی اور لغزش کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔
دنیا کوئی مثالی جگہ ویسے ہی نہیں ہے۔ گھر سے لے کر قبیلے، قوم اور امت تک
صبر، حوصلہ، برداشت، اصلاح اور معافی تلافی کے سوا یہاں کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ اس
معاملے کے ساتھ پیش آنے کےلیے اسلام میں یہ انتظامات کیے جاتے ہیں:
1.
ایمانی
بنیادوں پر معاشرے کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔ بقول محمد قطب: اس وقت دنیا کا
ہر نصاب ایک ’اچھا شہری‘ پیدا کرنے کے لیے ڈیزائن ہوا ہے؛ کوئی ایک نصاب کرۂ ارض پر ایسا نہیں جو یہاں ایک ’’صالح انسان‘‘ پیدا
کرنے کےلیے ترتیب دیا گیا ہو۔
2.
’’آخرت‘‘ پر
ایمان کو صبح شام کا موضوع بنا دیا جاتا ہے۔ اخروی جوابدہی، خدا کے حضور پیشی، حساب
کتاب اور نجات ایسے موضوعات یہاں گونج کی طرح سنائی دیتے ہیں۔
3.
علماء
اور صلحاء کو معاشرے میں سلاطین سے بڑھ کر توقیر دی جاتی ہے۔ ان کا سلاطین کو
فہمائش کرنا حتیٰ کہ بوقت ضرورت سرزنش کرنا نہایت مؤثر نتائج کا حامل رہتا ہے۔
4.
راعی
کو اُس کے فرائض پر نہایت اہم تنبیہات کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض تاکیدات اور وعیدیں
ایسی ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔
5.
اہلِ
خیر کو سلطان کے روبرو کلمۂ حق کہنے کی شدید تاکید ہوئی ہے۔
6.
حاکم
کا کھلا احتساب کرنے کی ریت ڈالی گئی ہے۔ اس کی لمبی چوڑی تفصیل ہے۔
7.
دوسری
جانب رعایا کو راعی کے ساتھ متعاون رہنے اور
صبر کا دامن تھام رکھنے کی تلقین ہوئی ہے۔ان میں سے کچھ احادیث کا ذکر ابن
تیمیہ کے متن میں ہوا۔ بعض دیگر احادیث میں یہ تک کہا گیا کہ جماعۃ المسلمین کا
دامن کسی صورت نہ چھوڑو، خواہ امام المسلمین تمہارا مال کیوں نہ قبض کرلے (معاشی
ظلم) یا تمہاری پیٹھ پر کوڑے کیوں نہ مارے (جسمانی ظلم)، پھر بھی تم اس کی اطاعت
میں رہو۔ کیونکہ ’’جماعت‘‘ سے خروج کا مطلب صاف جاہلی زندگی ہے؛ اور ایسی حالت پر
مرنا ’’مِیتۃٌ
جاھلیۃٌ‘‘
کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے، ظلم اور ناانصافی جتنی بھی بری ہو، ’’جاہلیت‘‘ کی زندگی اس
سے کہیں بری ہے اور جوکہ آج بڑی محنت سے ہمیں ’’محبوب‘‘ کرائی جارہی ہے۔ مسلم وحدت
اور جماعت کا خاتمہ آدمی کے حق میں موت ہے اور دنیا و آخرت کی ذلت کا موجب۔
’’عقیدہ‘‘ کی مستند ترین کتب
دیکھیں تو مسلمانوں کی ’’جماعت‘‘ (وحدت
اور شیرازہ بندی) کی تاکیدات سے بھری ہوئی
ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان امیر کی سمع و طاعت اختیار کرنا اور اس کے خلاف خروج نہ کرنا
اہل سنت کے امتیازی ترین مسائل میں درج ہوتا ہے۔ بلکہ عقیدہ کا کوئی بیان اس کے
بغیر مکمل نہیں۔
غرض ایک ظلم، زیادتی یا
ناانصافی کا ازالہ کرنے کی ہزاروں صورتیں اختیار کی جائیں گی، لیکن اگر اس کا
ازالہ نہیں ہوتا تو صبر و برداشت کی ہر سبیل اختیار کی جائے گی (اور اصلاح کی کوشش بھی بدستور جاری رہے گی) مگر ’’جماعت‘‘ کی قربانی کرنے
کو کفر کا مترادف جانا جائے گا؛ کیونکہ یہ فی الواقع موت سے بدتر ہے۔ یہ وجہ ہے کہ
رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے بعد
تمہارے ساتھ بڑا بڑا ترجیحی سلوک ہوگا بس تم ’’جماعت‘‘ کے اندر صبر و حوصلہ کے
ساتھ جیسے کیسے وقت گزار لینا، ’’جماعت‘‘ کے معاملہ میں اپنا ’’فرض‘‘ پورا کرتے
رہنا اور اپنا ’’حق‘‘ خدا سے مانگنا ؛ جو کمیاں اور محرومیاں تمہیں یہاں ’’جماعت‘‘
کے اندر رہ جائیں گی وہ حوضِ کوثر پر جا کر پوری کردی جائیں گی۔ کیونکہ حوضِ کوثر
وہ مقام ہے جہاں امت کے سرخرو لوگ اپنے نبیؐ سے ملاقات کریں گے اور ’’جماعت‘‘ کا
یہ اکٹھ پھر ابدی و دائمی ہوگا۔ اس کے مقابلے پر دنیا کی تلخیاں اور محرومیاں بھلا
کیا شےء ہیں!
یہ ہے جہان کی قیمتی ترین چیز
’’جماعۃ المسلمین‘‘ جس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں وابستہ ہیں اور جس کا ہاتھ سے
جانا، دنیا و آخرت دونوں کی بربادی ہے۔
ماضی قریب میں... عثمانی خلافت
کے ہاتھوں یقیناً عربوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی ہوں گی۔ آخر اس صورتحال کا
فائدہ اٹھانے کےلیے ملتِ صلیب نے لارنس آف عریبیا کو پراجیکٹ دیا کہ وہ عربوں میں
خلافت سے آزادی پانے کی تحریک اٹھائے۔ یہ تحریک کامیاب رہی۔ لارنس
کے تیار کیے ہوئے عرب راہنماؤں کی ’’استدعاء‘‘ پر انگریزی افواج نے بروقت کارروائی
کرکے عربوں کو ’’خلافت‘‘ سے ’’آزادی‘‘ لےدی۔
یہاں تک کہ انگریز ان میں سے ایک کو دوسرے
سے اور دوسرے کو تیسرے سے ’’آزادی‘‘ دلواتا چلا گیا ... اور چند عشروں کے اندراندر
عربوں کو درجنوں ’’آزاد‘‘ ملک مل گئے جو ڈھیروں وسائل کے
باوجود اپنی ذلت کی داستان کہنے کو آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اپنے ترک بھائیوں کی
زیادتی برداشت نہ ہوئی حالانکہ تب یہودی کو عرب سرزمین کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت
نہ تھی، اور آج دیکھ لو صلیب کی شریعت،
اسکے فوجی اڈے اور اسکے لےپالک اسرائیل کے جوتے کیسے راس آ رہے ہیں!
دوسری جانب ماضی کا ایک واقعہ
ہمارے سامنے ہے جو امام ذہبی نے اپنی تاریخ الاسلام میں سن 478 ہجری کے واقعات
میں درج کیا ہے۔ کہ جب مسلم اندلس میں طوائف الملوکی پھیلی اور یہ موقع دیکھ کر
صلیبی بادشاہ الفانسو پوری تیاری کے ساتھ مسلم خطوں پر
چڑھائی کےلیے عازمِ جنگ ہوا... تو ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں بادشاہ معتمد بن عباد نے امیر المرابطین یوسف بن تاشفین کا دروازہ
جا کھٹکھٹایا۔ اس پر اعیانِ سلطنت سٹپٹا گئے کہ مراکش کا وہ بدو سلطان اندلس آیا
تو الفانسو کو شکست دے کر وہ اندلس تمہیں واپس تھوڑی دے گا۔ یہاں معتمد نے اپنا وہ
تاریخی جملہ کہا: دیکھو، (یوسف بن تاشفین کے) اونٹ چرانا (الفانسو کے) خنزیر
چرانے سے کہیں باعزت ہے! بعض مورخین نے معتمد کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: میں
تو کھایا ہی جانے والا ہوں، مگر اندلس پر آج اگر اسلام کا سورج غروب ہوتا ہے تو
منبروں اور محرابوں سے صدیاں جو مجھے لعنت ہوتی رہے گی میں وہ کیوں لوں؟ واقعتاَ
اعیانِ سلطنت کے خدشات سچ ثابت ہوئے۔ معتمد کو اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ساری
زندگی قید میں گزری۔ برس ہا برس بعد ایک بار عید کے موقع پر بیٹیوں سے ملاقات کی
اجازت ملی تو شہزادیوں کے سوت کات کات کر گزر اوقات کرنے والے ہاتھ معتمد سے دیکھے
نہ گئے۔اس پر اُس نے جو شعر کہے وہ آج بھی آپ کے بی اے عربی
کے نصاب میں شامل ہیں۔ ہاں مگر زلاقہ کے مشہور معرکے میں
مرابطین کے اڑتالیس ہزار مجاہدین نے الفانسو کے ایک لاکھ کی تکہ بوٹی کرڈالی، مورخ
کہتا ہےبہت کم صلیبی تھے جو زلاقہ سے زندہ
بچ کر گئے؛ اور اس کے بعد مزید ساڑھے تین سو سال اندلس میں اذان گونجتی
رہی۔
بارہا ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک ’’فرد‘‘ کے صبر وحوصلہ نے ’’جماعت‘‘ کو صدیوں کی
زندگی دے دی۔ اور صبر و برداشت چھوڑنے کے نتیجے میں ’’جماعت‘‘ کے کروڑوں نفوس
نسلوں خوار ہوتے رہے۔ آج جن خطوں میں آپ
کو مسلمانوں کی ذلت اور بےبسی پر رونا آئے اور جہاں کہیں مسلم بیٹیوں کی چیخیں
سنیں، لازماً وہاں کچھ مسلمانوں سے ’’جماعت‘‘ کے حق میں کوئی جرم ہوا ہوگا جس کے
نتیجے میں مسلمان وہاں اس حالت کو پہنچے۔