بھارت کے انتخابات اور
نریندر مودی
کیا اس بار امیدیں بر آئیں گی؟
ذیشان
وڑائچ
چلئے دس سال کے وقفے کے بعد ہندو احیاء پرست جماعت بی
جے پی ایک پھر امید سے ہے۔ دہلی کے سنگھاسن سے
بہت دور رہ لیا۔ اس بار بہت ساری اُمیدیں نئے الیکشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔
یادش بخیر، ایک دور تھا جب بھارت میں بی جے بی کو لوک
سبھا کی صرف دو تین سیٹیں مل جاتی تھیں۔ پھر اسی کی دہائی میں وہ دور آیا کہ بی جے
پی کو بابری مسجد کے تنازعے کو ذریعۂ استحصال بنانے کا موقعہ ملا۔ رام مندر کے
بہانے بی جی پی نے کشمیر سے کنیا کماری تک مذہبی نفرت کی آگ پھیلادی۔ دوسری طرف
بابری مسجد کے معاملے میں کانگریس نے کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کیا جس کی وجہ سے
مسلمان بھی کانگریس سے ناراض ہوگئے۔ نتیجتاً پہلی بار ہندو احیاء پرست جماعت بی جے
پی ایک طاقتور جماعت بن کر ابھری۔ جنتادل اور دوسری چھوٹی موٹی جماعتوں نے مل کر
حکومت بنالی اور بی جے پی نے باہر سے حکومت کی حمایت کی۔ یہ بی جے پی کا تخت دلی
کی طرف پہلا بہت بڑا قدم تھا۔ اب بی جے پی نے اپنی حمایت سے بنی ہوئی سرکار کے
ہونے کی وجہ سے بابری مسجد کے حوالے سے ماحول گرم کرنا شروع کیا۔ بھڑکیلی، مسلم
دشمن تقاریر سے بھارت کے پورے ماحول کو ہندوفسطائیت کی نذر دیا گیا۔ لال کشن
اڈوانی جو کہ اس پورے پروگرام میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے نے رتھ یاترا کے نام سے
پورے ملک کا دورہ شروع کیا جس کے نتیجے میں پورے ملک میں مذہبی فسادات کی آگ بھڑک
اُٹھی۔ جنتادل حکومت میں موجود سیکولر عناصر نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے
ہوئے رتھ یاترا کو روک دیا۔ نتیجتاً بی جے پی حکومت نے لوک سبھا میں اپنی حمایت سے
بنی ہوئی حکومت سے ہاتھ کھینچ لیا۔
پورے ملک میں نفرت اور فرقہ
واریت کا ماحول گرم تھا، عام امن پسند ہندو بھی بھارت کو ہندو رام راجیہ بنانے کے
شوق میں مبتلاء تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب جو الیکشن ہونگے اس میں بی جے پی اپنے
نفرت کے ایجنڈے کے تحت دلی میں اپنی سرکار ضرور بنا پائے گا۔ لیکن اللہ کا کرنا
کچھ ایسا ہوا کہ کانگریس کے قائد راجیو گاندھی کو سری لنکن تامل انتہاء پسندوں نے
قتل کردیا۔ کانگریس سے ہمدردی کی لہر بی جے پی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی لہر کو بہا
لے گئی۔ بی جے پی اقتدار کے بہت قریب پہونچنے کے باوجود سرکار بنانے سے رہ گئی۔
اگلے پانچ سال ایک کمزور وزیر اعظم کے تحت کانگریس کا اقتدار رہا۔
ایک کمزور اور قوت فیصلہ سے
محروم وزیر اعظم کی موجودگی میں بی جے پی کو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بابری مسجد
کارڈ کو خوب کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا۔ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کا افسوس
ناک واقعہ اور پھر اس کے بعد بمبئی بمب
بلاسٹ کا واقعہ پیش آیا۔ اس طرح پانچ سالوں میں بی جے پی نے مزید ہندو فسطائیت کی
آگ بھڑکادی۔ اب ۱۹۹۶ کا لوگ سبھا الیکشن بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک نادر
موقعہ فراہم کر رہا تھا۔ لیکن اس بار بھی نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی وجہ سے
بی جے پی پچاس فیصد اکثریت سے بہت دور رہ گئے اگرچہ سب سے زیادہ ووٹ بی جے پی کو
ہی ملے تھے۔ کچھ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے کانگریس کی حمایت سے دوسال تک گرتے
پڑتے حکومت چلائی۔
دوسالہ کمزور حکومت اور کانگریس کی جوڑ توڑ کی پالیسی
کی وجہ سے بی جے پی کو ایک بار اور امید بندھی اب تو ان کی حکومت بن ہی جائے گی۔ لیکن ۱۹۹۸ کے الیکشن میں بھی بی جے پی پچاس
فیصد سے بہت دور رہی۔ لیکن اس بار بی جے پی
اپنے اتحادیوں سے کی مدد سے کسی طرح حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ لیکن وائے ناکامی تیرہ مہینے بعد
اتحادیوں میں اندرونی اختلافات کی وجہ سے حکومت گرگئی۔ لیکن ۱۹۹۹ کے الیکشن میں بی جے پی پہلی بار پوری قوت
کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت نے اپنی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیاں
کر کے بیرونی سرمایہ کاروں کو بھر پور
موقعہ فراہم کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقےنے
روزگار کے نئے مواقع کا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ
سے انفراسٹرکچر میں ترقی بھی ہوئی اور ریئل اسٹیٹ کا بزنس خوب چل نکلا۔ گجرات میں
گودھرا ریل میں آگ لگانے اور پھر پورے گجرات میں فسادات بلکہ قتل عالم کی آگ بھڑکانے
کا واقعہ پیش نہ آتا تو شاید بی جے پی اپنی شناخت ایک فرقہ وار جماعت کے بجائے ایک
نظم و ضبط کی حامل انتظامی جماعت کی حیثیت سے منوالیتی۔ گجرات کا ظلم اتنا شدید
تھا کہ بھارت کی بہت ساری این جی اوز نے کھل کے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔
اس سب کے باوجود بی جی پی نے
بھر پور طریقے سے ترقی اور اپنی انتظامی صلاحیت کا میڈیا میں پروپیگنڈا کیا۔ بی جے پی کی کامیابیوں کا تأثر میڈیا میں اتنا شدید
تھا کہ بی جے پی کو پورا یقین ہوگیا کہ اگلے الیکشن میں وہ
بہت بڑی اکثریت سے جیت جائے گی۔ اس زعم میں بی جے پی نے اپنی میعاد ختم ہونے کے چھ
مہینے پہلے ہی الیکشن کروالئے۔ لیکن ہائے حسرت اس بار بی جے پی
ہار گئی اور بری طرح سے ہار گئی۔ بہت ساروں نے
بی جے پی کی یقینی جیت کی وجہ سے اپنی کشتیاں جلا ڈالی تھیں اور ان کے حصے میں
سوائے حسرت کے کچھ نہ آیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک دور کی بھانجی
ہوتی تھی حجن کا نام نجمہ ہپت
اللہ ہے، یہ کانگریس میں ایک سینیر لیڈر ہوتی تھی اور
مولانا آزاد کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں محترم بھی مانی جاتی تھی۔ اس نے ۲۰۰۴ کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کی
امید پر کانگریس چھوڑ کے بی جے پی کی رکنیت اختیار کرلی۔ اور بی جے پی شکست نے اس
کے سیاسی کریر کو مکمل طور پر ختم کردیا۔
پہلے دور کی بہترین کارکردگی کی
وجہ سے ۲۰۰۹ کے الیکشن بھی کانگریس نے اور زیادہ بہتر طریقے سے کامیابی حاصل کی۔
اور اب یہ ۲۰۱۴ چودہ والا
الیکشن اور بی جے پی کی امنگیں ایک بار پھر جوان۔ کانگریس کرپشن میں بدنام، مودی
گجرات میں اپنی انتظامی صلاحیتیں منوانے میں کامیاب، گجرات کے فسادات کا داغ دھلا
تو نہیں لیکن ترقی اور میڈیائی آندھی میں دھندلا ہوچکا ہے، امریکہ جو گجرات
کے فسادات میں مودی کے کردار کے پیش نظر
مودی کو وایز دینے پر پابندی لگا چکا تھا اب مودی کے معاملے میں نرم پڑ چکا ہے۔ ۱۳
فروری کو بھارت میں امریکی سفیر نینسی پاویل مودی سے ملاقات بھی کرچکی ہیں۔ اور
ترقی کے نام پر سرمایہ دار اور کارپوریٹ طبقہ مودی کا زبردست حامی ہے۔ پچھلی پوری دہائی
میں مرکزی اقتدار سے باہر رہنے کی وجہ سے بی جے پی میں مودوی کے علاوہ اور کوئی
مضبوط لیڈر نہیں رہ گیا ہے۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی اپنا کوئی مضبوط تاثر
قائم کرنے میں فی الحال ناکام۔ گویا کہ مودی کے لئے وزیر اعظم بننے کے لئے سٹیج
تیار ہے۔
لیکن ایک اڑچن آ ہی گئی۔ ۲۰۱۱
گیارہ میں بھارت کی ایک با اثر شخصیت، انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک
چلائی تاکہ ایک مضبوط قسم کا اینٹی کرپشن ادارہ بنایا جائے جو براہ راست حکومت کے
تحت نہ ہو۔ بھارت میں کرپشن کی صورت حال اتنی خراب ہوچکی تھی کہ اس تحریک نے بہت
زور پکڑا۔ اس تحریک کے نشانے پر کانگریس اور بی جے پی دونوں بڑی پارٹیاں تھیں۔ یہ
تحریک مختلف مرحلوں سے گزری لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ کانگریس نے اپنی
سیاسی چال بازیوں سے اس تحریک کے ہر حربے کا مقابلہ کیا۔ اس تحریک سے متعلق ایک
شخص اورند کیجریوال نے ایک نئی سیاسی پارٹی بنائی جسکا نام ہے "عام آدمی
پارٹی"۔ اس پارٹی نے عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ دہلی کے صوبائی الیکشن
میں اس پارٹی نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا اگرچہ شدید قسم کے مخالفانہ سیاسی
ماحول اور اپنی اصول پرستی کی وجہ سے صرف پچاس دن ہی حکومت چلا پائی۔
اس وقت عام آدمی پارٹی کے بہت
سارے حمایتی پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس بات کی اُمید ہے کہ مستقبل میں
یہ پارٹی قومی سطح پر ایک بھر پور قوت بن کر ابھرے گی۔ چونکہ راتوں رات بڑی
پارٹیاں نہ بنتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہیں اس لئے یہ بات محال ہے کہ عام آدمی پارٹی
مرکز میں حکومت بنا پائے گی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ عام آدمی پارٹی ہندو فسطائی
جماعت بی جے پی کے بہت سارے ووٹ کھاجائے گی۔ امکان یہی ہے کہ اس بار بی جے پی کی
ہی حکومت بنے گی لیکن ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت کمزور اور بیساکھیوں کی محتاج
ہوگی۔
باخبر ذرائع کے مطابق عام آدمی
پارٹی ایک سچ مچ کی سیکولر اور اصول پسند پارٹی ہے۔ اس بات کی امید ہے کہ یہ پارٹی
بغیر کسی خوف کے ہندو فسطائیت کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کرسکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے
کہ کانگریسوں کی طرح بی جے پی سے ڈرا ڈرا کر مسلمانوں کے ووٹوں کا استحصال کرے۔
جماعت اسلامی ہند نے بھارت کے
انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ۲۰۱۱ میں اپنا ایک سیاسی ونگ بھی بنایا ہوا ہے
جس کا نام ویلفیر پارٹی آف انڈیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ اقدام کتنا صحیح، مفید
اور مؤثر ہے، اس پارٹی نے بھی عام آدمی پارٹی کی حمایت کی ہوئی ہے۔
جمہورت کفر سہی، لیکن اس
انتخابی تماشے پر بہت سارے عالمی اور علاقائی محرکات منحصر ہوتے ہیں۔
امید ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور بھارت کے کچلے ہوئے طبقوں کے لئے کوئی خیر ہی
ظاہر ہوگی۔