عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
بھارت کے انتخابات اور نریندر مودی کیا اس بار امیدیں بر آئیں گی؟
:عنوان

گجرات کےفسادات کا داغ دھلا تو نہیں لیکن ترقی اور میڈیائی آندھی میں دھندلا ہوچکا ہے، امریکہ جو گجرات کےفسادات میں مودی کےکردار کےپیش نظر مودی کو وایز دینے پر پابندی لگا چکا تھا اب مودی کے معاملے میں نرم پڑ چکا

. احوال :کیٹیگری
ذيشان وڑائچ :مصنف

Text Box: 176بھارت کے انتخابات اور نریندر مودی

 کیا اس بار امیدیں بر آئیں گی؟

ذیشان وڑائچ

چلئے دس سال کے وقفے کے بعد ہندو احیاء پرست جماعت بی جے پی ایک پھر امید سے ہے۔ دہلی کے سنگھاسن سے بہت دور رہ لیا۔ اس بار بہت ساری اُمیدیں نئے الیکشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔

یادش بخیر، ایک دور تھا جب بھارت میں بی جے بی کو لوک سبھا کی صرف دو تین سیٹیں مل جاتی تھیں۔ پھر اسی کی دہائی میں وہ دور آیا کہ بی جے پی کو بابری مسجد کے تنازعے کو ذریعۂ استحصال بنانے کا موقعہ ملا۔ رام مندر کے بہانے بی جی پی نے کشمیر سے کنیا کماری تک مذہبی نفرت کی آگ پھیلادی۔ دوسری طرف بابری مسجد کے معاملے میں کانگریس نے کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کیا جس کی وجہ سے مسلمان بھی کانگریس سے ناراض ہوگئے۔ نتیجتاً پہلی بار ہندو احیاء پرست جماعت بی جے پی ایک طاقتور جماعت بن کر ابھری۔ جنتادل اور دوسری چھوٹی موٹی جماعتوں نے مل کر حکومت بنالی اور بی جے پی نے باہر سے حکومت کی حمایت کی۔ یہ بی جے پی کا تخت دلی کی طرف پہلا بہت بڑا قدم تھا۔ اب بی جے پی نے اپنی حمایت سے بنی ہوئی سرکار کے ہونے کی وجہ سے بابری مسجد کے حوالے سے ماحول گرم کرنا شروع کیا۔ بھڑکیلی، مسلم دشمن تقاریر سے بھارت کے پورے ماحول کو ہندوفسطائیت کی نذر دیا گیا۔ لال کشن اڈوانی جو کہ اس پورے پروگرام میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے نے رتھ یاترا کے نام سے پورے ملک کا دورہ شروع کیا جس کے نتیجے میں پورے ملک میں مذہبی فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی۔ جنتادل حکومت میں موجود سیکولر عناصر نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے رتھ یاترا کو روک دیا۔ نتیجتاً بی جے پی حکومت نے لوک سبھا میں اپنی حمایت سے بنی ہوئی حکومت سے ہاتھ کھینچ لیا۔

پورے ملک میں نفرت اور فرقہ واریت کا ماحول گرم تھا، عام امن پسند ہندو بھی بھارت کو ہندو رام راجیہ بنانے کے شوق میں مبتلاء تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب جو الیکشن ہونگے اس میں بی جے پی اپنے نفرت کے ایجنڈے کے تحت دلی میں اپنی سرکار ضرور بنا پائے گا۔ لیکن اللہ کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ کانگریس کے قائد راجیو گاندھی کو سری لنکن تامل انتہاء پسندوں نے قتل کردیا۔ کانگریس سے ہمدردی کی لہر بی جے پی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی لہر کو بہا لے گئی۔ بی جے پی اقتدار کے بہت قریب پہونچنے کے باوجود سرکار بنانے سے رہ گئی۔ اگلے پانچ سال ایک کمزور وزیر اعظم کے تحت کانگریس کا اقتدار رہا۔

ایک کمزور اور قوت فیصلہ سے محروم وزیر اعظم کی موجودگی میں بی جے پی کو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بابری مسجد کارڈ کو خوب کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا۔ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ  اور پھر اس کے بعد بمبئی بمب بلاسٹ کا واقعہ پیش آیا۔ اس طرح پانچ سالوں میں بی جے پی نے مزید ہندو فسطائیت کی آگ بھڑکادی۔ اب ۱۹۹۶ کا لوگ سبھا الیکشن بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک نادر موقعہ فراہم کر رہا تھا۔ لیکن اس بار بھی نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی وجہ سے بی جے پی پچاس فیصد اکثریت سے بہت دور رہ گئے اگرچہ سب سے زیادہ ووٹ بی جے پی کو ہی ملے تھے۔ کچھ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے کانگریس کی حمایت سے دوسال تک گرتے پڑتے حکومت چلائی۔

دوسالہ کمزور حکومت اور کانگریس کی جوڑ توڑ کی پالیسی کی وجہ سے بی جے پی کو ایک بار اور امید بندھی اب تو ان کی حکومت بن ہی جائے گی۔  لیکن ۱۹۹۸ کے الیکشن میں بھی بی جے پی پچاس فیصد سے بہت دور رہی۔ لیکن اس بار بی جے پی اپنے اتحادیوں سے کی مدد سے کسی طرح حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ لیکن وائے ناکامی تیرہ مہینے بعد اتحادیوں میں اندرونی اختلافات کی وجہ سے حکومت گرگئی۔ لیکن ۱۹۹۹ کے الیکشن میں بی جے پی پہلی بار پوری قوت کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت نے اپنی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیاں کر کے بیرونی سرمایہ کاروں کو بھر پور موقعہ فراہم کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقےنے روزگار کے نئے مواقع کا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ سے انفراسٹرکچر میں ترقی بھی ہوئی اور ریئل اسٹیٹ کا بزنس خوب چل نکلا۔ گجرات میں گودھرا ریل میں آگ لگانے اور پھر پورے گجرات میں فسادات بلکہ قتل عالم کی آگ بھڑکانے کا واقعہ پیش نہ آتا تو شاید بی جے پی اپنی شناخت ایک فرقہ وار جماعت کے بجائے ایک نظم و ضبط کی حامل انتظامی جماعت کی حیثیت سے منوالیتی۔ گجرات کا ظلم اتنا شدید تھا کہ بھارت کی بہت ساری این جی اوز نے کھل کے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔

اس سب کے باوجود بی جی پی نے بھر پور طریقے سے ترقی اور اپنی انتظامی صلاحیت کا میڈیا میں پروپیگنڈا کیا۔ بی جے پی کی کامیابیوں کا تأثر میڈیا میں اتنا شدید تھا کہ بی جے پی کو پورا یقین ہوگیا کہ اگلے الیکشن میں وہ بہت بڑی اکثریت سے جیت جائے گی۔ اس زعم میں بی جے پی نے اپنی میعاد ختم ہونے کے چھ مہینے پہلے ہی الیکشن کروالئے۔ لیکن ہائے حسرت اس بار بی جے پی ہار گئی اور بری طرح سے ہار گئی۔ بہت ساروں نے بی جے پی کی یقینی جیت کی وجہ سے اپنی کشتیاں جلا ڈالی تھیں اور ان کے حصے میں سوائے حسرت کے کچھ نہ آیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک دور کی بھانجی ہوتی تھی حجن کا نام نجمہ ہپت اللہ ہے، یہ کانگریس میں ایک سینیر لیڈر ہوتی تھی اور مولانا آزاد کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں محترم بھی مانی جاتی تھی۔ اس نے ۲۰۰۴ کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کی امید پر کانگریس چھوڑ کے بی جے پی کی رکنیت اختیار کرلی۔ اور بی جے پی شکست نے اس کے سیاسی کریر کو مکمل طور پر ختم کردیا۔

پہلے دور کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے ۲۰۰۹ کے الیکشن بھی کانگریس نے اور زیادہ بہتر طریقے سے کامیابی حاصل کی۔

اور اب یہ ۲۰۱۴ چودہ والا الیکشن اور بی جے پی کی امنگیں ایک بار پھر جوان۔ کانگریس کرپشن میں بدنام، مودی گجرات میں اپنی انتظامی صلاحیتیں منوانے میں کامیاب، گجرات کے فسادات کا داغ دھلا تو نہیں لیکن ترقی اور میڈیائی آندھی میں دھندلا ہوچکا ہے، امریکہ جو گجرات کے  فسادات میں مودی کے کردار کے پیش نظر مودی کو وایز دینے پر پابندی لگا چکا تھا اب مودی کے معاملے میں نرم پڑ چکا ہے۔ ۱۳ فروری کو بھارت میں امریکی سفیر نینسی پاویل مودی سے ملاقات بھی کرچکی ہیں۔ اور ترقی کے نام پر سرمایہ دار اور کارپوریٹ طبقہ مودی کا زبردست حامی ہے۔ پچھلی پوری دہائی میں مرکزی اقتدار سے باہر رہنے کی وجہ سے بی جے پی میں مودوی کے علاوہ اور کوئی مضبوط لیڈر نہیں رہ گیا ہے۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی اپنا کوئی مضبوط تاثر قائم کرنے میں فی الحال ناکام۔ گویا کہ مودی کے لئے وزیر اعظم بننے کے لئے سٹیج تیار ہے۔

لیکن ایک اڑچن آ ہی گئی۔ ۲۰۱۱ گیارہ میں بھارت کی ایک با اثر شخصیت، انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی تاکہ ایک مضبوط قسم کا اینٹی کرپشن ادارہ بنایا جائے جو براہ راست حکومت کے تحت نہ ہو۔ بھارت میں کرپشن کی صورت حال اتنی خراب ہوچکی تھی کہ اس تحریک نے بہت زور پکڑا۔ اس تحریک کے نشانے پر کانگریس اور بی جے پی دونوں بڑی پارٹیاں تھیں۔ یہ تحریک مختلف مرحلوں سے گزری لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ کانگریس نے اپنی سیاسی چال بازیوں سے اس تحریک کے ہر حربے کا مقابلہ کیا۔ اس تحریک سے متعلق ایک شخص اورند کیجریوال نے ایک نئی سیاسی پارٹی بنائی جسکا نام ہے "عام آدمی پارٹی"۔ اس پارٹی نے عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ دہلی کے صوبائی الیکشن میں اس پارٹی نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا اگرچہ شدید قسم کے مخالفانہ سیاسی ماحول اور اپنی اصول پرستی کی وجہ سے صرف پچاس دن ہی حکومت چلا پائی۔

اس وقت عام آدمی پارٹی کے بہت سارے حمایتی پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس بات کی اُمید ہے کہ مستقبل میں یہ پارٹی قومی سطح پر ایک بھر پور قوت بن کر ابھرے گی۔ چونکہ راتوں رات بڑی پارٹیاں نہ بنتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہیں اس لئے یہ بات محال ہے کہ عام آدمی پارٹی مرکز میں حکومت بنا پائے گی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ عام آدمی پارٹی ہندو فسطائی جماعت بی جے پی کے بہت سارے ووٹ کھاجائے گی۔ امکان یہی ہے کہ اس بار بی جے پی کی ہی حکومت بنے گی لیکن ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت کمزور اور بیساکھیوں کی محتاج ہوگی۔

باخبر ذرائع کے مطابق عام آدمی پارٹی ایک سچ مچ کی سیکولر اور اصول پسند پارٹی ہے۔ اس بات کی امید ہے کہ یہ پارٹی بغیر کسی خوف کے ہندو فسطائیت کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کرسکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریسوں کی طرح بی جے پی سے ڈرا ڈرا کر مسلمانوں کے ووٹوں کا استحصال کرے۔

جماعت اسلامی ہند نے بھارت کے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ۲۰۱۱ میں اپنا ایک سیاسی ونگ بھی بنایا ہوا ہے جس کا نام ویلفیر پارٹی آف انڈیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ اقدام کتنا صحیح، مفید اور مؤثر ہے، اس پارٹی نے بھی عام آدمی پارٹی کی حمایت کی ہوئی ہے۔

جمہورت کفر سہی، لیکن اس انتخابی تماشے پر بہت سارے عالمی اور علاقائی محرکات منحصر ہوتے ہیں۔

امید ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور بھارت کے کچلے ہوئے طبقوں کے لئے کوئی خیر ہی ظاہر ہوگی۔

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں!
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
یہاں کی سیاسی ہاؤ ہو میں ’حصہ لینے‘ سے متعلق ہماری پوزیشن
احوال- تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
یہاں کی سیاسی ہاؤ ہو میں ’حصہ لینے‘ سے متعلق ہماری پوزیشن حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے وا۔۔۔
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ
احوال-
جہاد- مزاحمت
حامد كمال الدين
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ تحریر: حامد کمال الدین یاسین ملک تم نے کسر نہیں چھوڑی؛&nb۔۔۔
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان
راہنمائى-
احوال-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان تحریر: حامد کمال الدین چند ہفتے پیشتر۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
کل جس طرح آپ نے فیصل آباد کے ایک مرحوم کا یوم وفات منایا
تنقیحات-
احوال-
حامد كمال الدين
کل جس طرح آپ نے فیصل آباد کے ایک مرحوم کا یوم وفات "منایا"! حامد کمال الدین قارئین کو شاید ا۔۔۔
‘بندے’ کو غیر متعلقہ رکھنا آپکے "شاٹ" کو زوردار بناتا
احوال-
حامد كمال الدين
’بندے‘ کو غیر متعلقہ رکھنا آپ کے "شاٹ" کو زوردار بناتا! حامد کمال الدین لبرلز کے ساتھ اپنے ا۔۔۔
مزاحمتوں کی تاریخ میں کونسی بات نئی ہے؟
احوال-
حامد كمال الدين
مضمون کا پہلا حصہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیےمزاحمتوں کی تاریخ میں کونسی بات نئی ہے؟ صلیبی قبضہ کار کے خلاف۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز