اذانِ عثمانی كی مشروعیت
جمع و
ترتيب: محمد زكريا خان
ادارتی نوٹ: خلفائے راشدین
کے جاری کردہ امور کو ’بدعت‘ کے کھاتے میں ڈالنا ’اتباعِ قرآن و حدیث‘ کے نام پر
تھوڑا آگے چل کر ’’رافضی مواقف‘‘ کے ساتھ جڑ جاتا ہے؛ کیونکہ خلفائے راشدین کے
اقدامات کو دین کی سند سے محروم کرنا اصل میں رافضی ایجنڈا ہے۔ لہٰذا ہمارا یہ
مضمون کچھ دور رس مقاصد کی خاطر ہے۔
جیساکہ ابن تیمیہؒ کی منہاج السنۃ میں بھی اشارہ ملتا ہے:
یہ حضرات عمرؓ کی جاری کردہ جماعتِ تراویح یا عثمانؓ کی جاری کردہ اذانِ جمعہ کو ’دین
میں نیا کام‘ کہنے میں تردد نہیں کریں گے۔ لیکن ایک ہی شہر میں ہر چند قدم پر یہ
لوگ جو ’جمعے‘ پڑھا رہے ہوتے ہیں بلکہ چھوٹے قصبے میں بیس بیس جگہ ’عیدیں‘ منعقد ہوتی
ہیں اس کو یہ حضرات ’’دین میں نیا کام‘‘ نہیں کہیں گے، حالانکہ اللہ کے رسولؐ کے
دور میں پورے مدینہ اور اس کے گرد و نواح تک کے لوگوں کےلیے صرف ایک ’’جمعہ‘‘ ہوتا
تھا!
قرونِ
سلف میں غالب ومعروف دینی اعمال کا دفاع کئی پہلوؤں سے آج کا ایک بہت بڑا محاذ
ہے... اور ایقاظ کے مرکزی ترین موضوعات میں سے ایک موضوع۔
*****
اہل بدعت خصوصاً شیعہ، حضرت عثمان بن
عفانؓ پر طعن كرتے رہتے ہیں۔ یہ مصیبت بھی كم نہیں ہے، لیكن اہل سنت میں سے بعض
علم سے منسوب حضرات یہی كام پیروی رسول یا پیروی اہل بیت كے خود ساختہ اصول پر كر لیتے ہیں!
حضور اكرمﷺ كی وفات كے بعد صحابہ كرام میں مختلف آراء كا پایا جانا ایك
فطری عمل تھا۔ بہت سے اہم امور پر متعدد آراء سامنے آتی تھیں۔ كٰبھی تو صحابہ كرام
مختلف آراء پر تبادلہ خیال كرنے كے بعد متفقہ طور پر كسی نتیجے پر پہنچ جاتے۔
صحابہ كرام كے اتفاق كو اجماع امت كہا جاتا ہے۔ صحابہ كرامؓ كا اجماع شریعت
اسلامیہ كے بنیادی ماخذ میں سے ایك بنیادی ترین ماخذ ہے۔ یا صحابہ كرامؓ میں سے
كسی كے ہاں ایك امر راجح ہوتا اور دوسرے كے ہاں كوئی اور امر راجح ہوتا۔ ہر دو
صورت میں صحابہ كرامؓ كتاب و سنت كی اتباع سے خارج نہیں كہلائیں گے۔ جہاں ان كے
درمیان اتفاق ہو گیا تو وہ ویسے ہی شریعت كا ایك بنیادی ماخذ ٹھہرا۔ جہاں صحابہ كے
درمیان ایك سے زیادہ باتوں كا چلن ہوا تو وہ بھی ہر فریق نے نصوص شریعت سے ہی اخذ
كر ركھا ہوتا تھا۔
صحابہ كرامؓ شریعت میں اضافے، كمی یا تبدیلی(بدعت) كا سختی سے نوٹس لینے
والے تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ ذو النورین نے اپنے عہد خلافت میں جمعہ كی نماز كے
لیے ایك اور اذان كا اضافہ فرمایا تاكہ لوگ دوسری اذان سے پہلے اپنے كام كاج چھوڑ
چھاڑ جمعہ كی بروقت ادائیگی پر مستعد ہو جائیں۔ علمی ماخذ میں اذان عثمانی كو
تیسری اذان یا پہلی اذان كہا جاتا ہے۔ تیسری اذان اس وجہ سے كہ اقامت كو بھی اہل
علم اذان كہہ دیا كرتے تھے۔ اور پہلی اذان اس مناسبت سے كہا جاتا ہے كہ یہ اذان
مدینہ منورہ كے گوشوں میں زوال شمس كے فوراً بعد دی جاتی تھی۔ دوسری اذان خطیب كے
ممبر پر بیٹھنے كے بعد دی جاتی تھی۔ اور جب اقامت پڑھی جاتی تو اقامت كو اذان كہہ
دیا جاتا تھا۔
آپ كے اس عظیم اجتہاد پر كسی ایك صحابی كا بھی اعتراض كہ اذان عثمانی بدعت
ہے، تاریخ نے مستند ذریعے سے محفوظ نہیں كیا ہے۔ علاوہ ازیں اذان مسلم سوسائٹی میں
ایك نمایاں ترین شعار ہے۔ روزانہ پانچ وقت مسلمانوں كے ہر محلے اور شہر میں بلند
ترین آواز سے جو نغمہ گونجتا ہے وہ اذان ہے۔ یہ ممكن ہی نہیں كہ ایسے نمایاں ترین
شعار میں كوئی تبدیلی لائے اور پھر اس پر صحابہ كرام ہنگامہ كھڑا نہ كریں۔ یہ ابو
بكر صدیقؓ ہیں۔ آپ تمام صحابہ كرام كو اس بات پر آمادہ كر لیتے ہیں كہ زكوٰة كی مد
میں اگر ایك رسی بھی ادا نہ كی گئی تو ہم اس كے خلاف جنگ كریں گے۔ حضرت عثمان كی
اذان كا صحابہ كے درمیان مقبول ہونا در اصل اذان عثمانی كے مشروع ہونے كی واضح
ترین دلیل ہے۔ صحابہ كرام میں سے اس پر ایك اعتراض بھی نہیں ہے۔
ʼمصنف ابن ابی شیبہʻمیں ایك
اثرحضرت عبداللہ بن عمرسےمنقول ہوا ہے۔ آپؓ سے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں: الأَذانُ الأَوَّلُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ
بِدْعَةٌ ʼجمعہ كے
روز پہلی اذان بدعت ہے۔ابن عمرؓ كے اِس اثر پر ہم آگے بات كریں گے۔
اصول اہل سنت و الجماعت میں سے ایك متفقہ اصول یہ ہے كہ جس چیز پر اصحاب
رسول پائے گئے اُسے مضبوطی سے تھام كر ركھنا ہے۔ اس لیے كہ: وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ
مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ
الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى
وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} (النساء
:115)ʼاورجوبعداس
كےكہ ہدایت اُس پركھل گئی ہووہ پھربھی رسول كی مخالفت پر ہی تُل گیا ہو، اور پیروی
كرنے نكل پڑا ہو اُس راستے كی جو مومن مسلمانوں كا راستہ نہ ہو، تو ہم اُسے پھیر
دیں گے اُس طرف جدھر كو وہ جانا چاہتا ہے، اور ہم پہنچا كر رہیں گے اسے جہنم میں۔
اور كیا ہی برا ٹھكانہ ہے۔ʻ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں كہ
ʼولم يستوعب الحق إلا
من اتبع المهاجرين والأنصار:ʼكوئی شخص بھی حق كااحاطہ اُس
وقت نہیں كرسكتاجب تك وہ صحابہ كرام، مہاجرین و انصار كی مكمل پیروی اختیار نہیں
كرتاʻ۔
اذان
عثمانی كی مشروعیت شریعت كے متعدد اصولوں سے ثابت ہوتی ہے۔
از روئے كتاب: سورت نساء115 كی آیت جو اوپر مذكور ہوئی ہے۔ اس آیت مباركہ
میں سبیل مومنین كی پیروی نہ كرنے والے كے بارے میں سخت وعید بیان ہوئی ہے۔
از روئے اجماع:
امام منذرؒاپنی كتاب ʼاوسطʻمیں لكھتےہیں: عثمان رضی اللہ عنہ نےتیسری اذان جاری فرمائی۔
(وجہ اس كی یہ ہوئی) كہ لوگ بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ تعداد كے لحاظ سے تیسری اذان زوال
شمس كی بعد كہی جاتی۔ مہاجرین و انصار صحابہ كے بیچ یہ عمل ہوا۔ ہمارے علم میں كسی
ایك صحابی كا بھی اذان عثمانی پر اعتراض سامنے نہیں آیا۔ پھر پوری امت اس طریقے پر
چل پڑی تادم تحریر۔ (الاوسط
ص 63جلد4)
از روئے سنت: نبی علیہ السلام نے فرمایا: ʼعليكم
بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدیʻ (تم پر
لازم ہے كہ میرے بعد میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین كی سنت كو مضبوطی سے
تھامے ركھنا۔ʻ)
مذكورہ حدیث صحیح ابن حبان، ابو داوٗد،
ترمذی، احمد، حاكم اور بہت ساری دوسری كتب میں مذكور ہوئی ہے۔ متقدمین میں سے كسی
نے بھی اس حدیث كو ضعیف نہیں كہا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس حدیث سے استدلال كیا
ہے۔ علاوہ اس كے امت كے اہل علم اس حدیث كو نسل در نسل خلفاء راشدین كی اتباع پر
بطور دلیل نقل كرتے رہے ہیں۔
از روئے اہل علم :
امام بخاری كتاب جمعہ باب التأذین عند خطبہ میں لكھتے ہیں: فثبت الأمر علی ذلك ʼپس یہ امر (تیسری اذان) اُس وقت سے دستور بن گیا ہے۔(حدیث نمبر889)
سعید بن مسیب فرماتے ہیں: فثبتت السنة علی ذلك ʼپس سنت اُس
وقت سے یہی ٹھہر گئی ہے۔ (تاریخ
مدینہ مؤلفہ ابن شبہ ص 960 جلد 3(
امام بدر الدین العینی حنفی بخاری كی
شرح میں لكھتے ہیں كہ فثبت الامر سے امام بخاری كی مراد ہے دو اذانیں اور تیسری
اقامت۔ جیسے كہ اب تمام مسلم ملكوں میں اسی پر عمل ہوتا ہے۔ اس لیے كہ بعد والے
پہلوں (سلف) كے متبع رہیں۔ (عمدہ القاری ص 214 جلد 6 (
اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں: فصار سنةʼپس یہ سنت
ٹھہری۔ʻ (الفتح ،حافظ ابن رجب
ص 220-221 جلد 8 (
ابن قدامہ ʼالكافیʻمیں لكھتے
ہیں كہ (جمعہ كےروز)اول وقت میں پہلی اذان سنت كی حیثیت ركھتی ہے۔ یہ سنت اس لیے
ٹھہری ہے كہ حضرت عثمان نے اس كا آغاز كیا اور ان كے بعد امت اس پر عمل كرتی چلی آ
رہی ہے۔(الكافي ص 494جلد 1 (
ابن قطان ʼاقناع فی مسائل اجماعʻ میں لكھتے
ہیں كہ نبیﷺ كےوقت تواس طرح اذان دی جاتی كہ جب آپؐ منبرپرخطبہ كےلیےتشریف فرما ہوتےاس
وقت اذان دی جاتی
تھی ۔ ابو بكرؓ اور عمرؓ كے وقت بھی ان كے ممبر پر تشریف ركھتے اذان كہی جاتی۔ پھر
عثمانؓ كے وقت بہت لوگ ہوئے تو ایك اذان انہوں نے بڑھا دی جو ʼزوراءʻمیں كہی
جاتی۔پس امام كےسامنےاذان كہنےپریہ نص ہوئی۔اب البتہ اس پر تمام اہل علم كاعمل ہے،مسلمانوں
كےشہروں میں جیسےحجازہےاسی طرح عراق اور دوسرے علاقے۔( ص 451جلد 2)
ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں كہ اِس اذان كا مسنون ہونا اس بات پر موقوف ہے كہ
اسے حضرت عثمان نے روا جانا اور مسلمانوں كا اس پر اتفاق ہوا۔ ( الفتاوی الكبری ص 161جلد 1)
منہاج السنہ میں ابن تیمیہ لكھتے ہیں
كہ پہلی اذان كی شروعات جو حضرت عثمان كی سنت ہے، اس پر لوگوں كا اتفاق ہوا خواہ
مذاہب اربعہ ہوں یا ان كے علاوہ۔
مملكت سعودی عرب كے موقر دار الافتاء
اللجنة الدائمة كا اس بابت یہ فتوی ہے۔: والأذان الأول يوم الجمعة أمر به عثمان بن عفان
رضي الله عنه، وهو ثالث الخلفاء الراشدين، ولم ينكر عليه أحدٌ من الصحابة رضي الله
عنهم، وتبعه جماهير المسلمين على ذلك.(جمعہ كے روز پہلی اذان حضرت عثمانؓ
نے جاری فرمائی۔ وہ خلفاء میں تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم
میں سے اِس (اذان عثمانی پر) كسی ایك
صحابی كا بھی اعتراض نہیں ہے۔ مزید براں جماھیر مسلمان اس (اذان) پر كار بند رہے
ہیں۔)
معاصر علماء كرام میں سے شیخ عثیمین
اذان عثمانی كی افضلیت پر فتویٰ دیتے ہوئے
كہتے ہیں : الأفضل أن يكون للجمعة أذانان اقتداءً بأمير المؤمنين عثمان بن
عفان رضي الله عنه؛ لأنه أحد الخلفاء الراشدين الذين أمرنا رسول الله صلى الله
عليه وعلى آله وسلم باتباع سنتهم ʼافضل یہ ہے كہ جمعہ كو
(ایك اذان كی بجائے) دو ہی اذانیں كہی جائیں تاكہ اس امر سے اقتداء ہو جائے امیر
المئومنین عثمان بن عفانؓ كی كیونكہ وہ خلفاء راشدین میں سے ایك ہیں۔ ان كے بارے
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حكم دیا ہے كہ ہم خلفاء راشدین كی چلائی ہوئی سنتوں كی پیروی كرتے چلے جائیں۔
ملاحظہ فرمائیں یہ لنك (http://ar.islamway.net/fatwa/18553)
شبہات
اہل سنہ كے ہاں جمعہ كی پہلی اذان كے مشروع ہونے پر اتفاق پایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اہل سنت كے ہی بعض ذہنون میں اس اذان كی مشروعیت پر شكوك و شبہات ضرور
پائے جاتے ہیں جن كا ازالہ یہاں كر دینا اس غرض سے ضروری ہے كہ اہل سنت كے متفقہ
مسائل پر یكسوئی پیدا كی جائے۔ نیز اہل سنت كے عوام مسلمانوں كے دلوں میں اعتماد
پیدا كیا جائے كہ اُن كے علماء علمی دلیل پر ہی اپنے مسائل كی بنیاد ركھتے ہیں۔
پہلا شبہہ: یہ
اذان نبی علیہ السلام كے زمانے میں نہیں كہی جاتی تھی۔
نبی علیہ السلام نے قرآن مجید كو اپنی زندگی میں یكجا نہیں كیا تھا بلكہ
صحابہ كرام قرآن مجید كو جمع كرنے پر متردد ہوئے اور یہی دلیل وہاں پیش كی گئی كہ
یہ كام خود آپؐ نے نہیں فرمایا۔ بعد ازاں صحابہ كرام كے اتفاق سے قرآن مجید كو
یكجا كیا گیا۔
تراویح كی نماز كا باضابطہ آغاز حضرت
عمر نے فرمایا اور سب كو ایك امام كے تحت مسجد نبوی میں جمع كیا۔
اس طرح كے سبھی امور سبیل المومنیں كے اصل اصول كی بنیاد پر كبھی اجماع سے
كبھی خلفاء راشدین كے جاری كرنے اور امت كا اسے قبول كر لینے سے ثابت ہوتے ہیں۔
امام
مسلم كتاب الحدود كے باب خمر میں حضرت علی
كا قول لائے ہیں: فرماتے ہیں ʼنبیﷺ نےچالیس كوڑے لگائے ، ابوبكرؓ نےبھی چالیس لگائے ، عمرؓ
نے اسی كوڑے لگائے۔یہ سب ہی مسنون ہیں۔اورمجھےاس وقت یہ والی(كوڑوں كی تعداد) مناسب
لگتی ہے۔
یہاں حضرت علی خلفاء راشدین كی ہر دو طرح كی رائے كو سنت كہہ رہے ہیں۔
دوسرا شبہہ: حضرت عبداللہ بن عمر كا یہ
كہنا كہ الأَذانُ الأَوَّلُ یَوْمَ
الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ ʼجمعہ كے روز پہلی اذان (جو آج كل كہی جاتی ہے)بدعت
ہے۔ʻ
اس اثر
کی تخريج كے لیے ملاحظہ فرمائیں آرٹیكلʼ الذب عن الخليفة
الراشد عثمانʻ خلاصہ یہ ہے كہ ھشام حضرت نافع كے بلند پایا شاگردوں سے الگ یہ اثر روایت
كر رہے ہیں۔ حضرت نافع كے بہت شاگرد ہوئے۔ ان كی
اپنی اولاد اور مدینے كے رہنے والے بہت ہی بلند پایہ اصحاب حدیث۔ مدینے میں
مستقل رہنے والے اصحاب حدیث جو حضرت نافع كے شاگرد ہوئے ان میں سے كسی نے یہ اثر
نقل نہیں كیا ہے۔
مذكورہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں دو طرح سے
وارد ہوئی ہے۔ دوسری جگہ الفاظ ہیں: ھشام بن غاز نے نافع جو ابن عمر كے آزاد كردہ
غلام تھے سے پوچھا ʼالأَذانُ الأَوَّلُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ؟ كیا جمعہ كے روز پہلی اذان نئی ہے۔ حضرت نافع نے
فرمایا: ابن عمر كہتے تھے ہاں (نئی ہے۔) (كتاب الجمعہ الاذان یوم الجمعہ ص
۵۳۶۳)
یہاں صرف یہ پوچھا گیا ہے كہ كیا پہلی اذان نئی ہے یا نبی علیہ السلام بھی ʼزوراءʻمیں اسی
طرح اذان دلواتے تھے۔ تو اس پر نافع نے اپنے استاد كی فراہم كی گئی معلومات كی
روشنی میں كہا كہ وہ كہتے تھے ʼہاںʻ یہ عمدہ كام
بعد میں ہوا ہے۔
اگر صحابہ یا تابعین كرام اسے مذموم بدعت كہتے تو سائل یوں پوچھتا كہ لوگوں
میں یہ بات عام ہے كہ یہ پہلی اذان دین میں اضافہ ہے۔ جبكہ یہاں صرف اذان كا زمانہ
دریافت كرنا مطلوب ہے نہ كہ اس اذان پر شرعی ضابطہ فوجداری كا اطلاق كرنا۔
عمر بن خطاب كے گھرانے میں جب شریعت میں پہلے سے موجود ایك عبادت كی تنظیم
كی جاتی اور اُس پر مہاجرین و انصار صحابہ اتفاق كر لیتے تو حضرت عمرؓ خوشی سے
كہتے نعمت البدعة ھذہ (كیا ہی
خوب صورت كام ہوا ہے)۔ عبد اللہ بن عمر كا یہ اثر اگر صحیح تسلیم كر
لیا جائے تو وہ تعریف كے معنی میں ہے تنقید كے معنی میں نہیں۔
اگر كہا جائے كہ بخاری كی شرح میں جو
ابن رجبؒ نے كہا ہے كہ ʼابن عمركے یہ الفاظ یا تو اُس معنی میں ہیں جس معنی میں
اُن كے والد بدعت كا لفظ استعمال كرتے تھے یا ابن عمر یہاں پہلی اذان كو ناپسندیدگی
كی وجہ سے ایسا كہہ رہے ہیں۔ʻ تواس كا
جواب یہ ہے كہ ابن رجبؒ نے خود سے اس اثر پر كوئی حكم نہیں لگایا۔ (مرتب)
ابن رجب كے قول سے یہ بھی ثابت ہوا كہ
عمرؓ كے گھرانے میں بدعت كا لفظ تعریف كے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
اس اثر كے صحیح ہونے كی صورت میں حافظ ابن رجب بخاری كی شرح ʼالفتحʻمیں خود
ہی دو امكانات بتا رہے ہیں ۔ جہاں دو باتیں ایك ساتھ موجود ہوں یعنی تعریف بھی اور
تنقیدبھی توكسی تیسرے ضابطےسےمعنی متعین ہوگا۔
تیسرا ضابطہ یہ ہے كہ حضرت ابن عمر اذان میں مذموم اضافہ كرنے والے كے
پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ سنن ابو داوٗد میں ابن عمر كا رویہ اس مسئلے میں یوں
بیان ہوا ہے: عن مجاهد قال كنت مع ابن عمر فثوب رجل في
الظهر أو العصر قال اخرج بنا فإن هذه
بدعة ʼمجاہدكہتے
ہیں میں ابن عمركے ہمراہ تھا جب اذان ظہر یا اذان
عصر میں ایك شخص نے اذان میں ʼتثویبʻكی۔ فرمایا (ابن عمر نے) اٹھو یہاں سے یہ بدعت كا كام
ہوا ہے۔ ابو داوٗد كی شرح عون المعبود میں شیخ عظیم آبادی فرماتے ہیں كہ بعض حضرات
كے نزدیك تثویب سے مراد ہے:ʼ فجر كی اذان
میں ʼʼالصلاة خیر من
النومʻʻ كہناʻ۔
علاوہ ازیں حضرت ابن عمر عثمان بن عفان كی نہ صرف فقاہت كے قائل تھے بلكہ
اپنے فتویٰ سے اُس وقت رجوع كر لیتے جب عثمان بن عفان كا فتویٰ سن لیتے۔ نحاسؒ كی
كتابʼالناسخ والمنسوخʻ میں مذكور ہے كہ ابن عمر نے عدت كے مسئلے میں
اپنے فتوے سے رجوع كرتے ہوئے فرمایا: عُثمانُ خَیرُنا وَ أعلَمُناʻعثمان ہم
سےبہت بہتر ہیں اور ہم سےكہیں بڑھ كرعلم میں رسوخ ركھتے ہیں۔ (حدیث 139 اور
ابن ابی شیبہ حدیث14905 كتاب الطلاق)
تیسرا شبہہ: حضرت عثمان سفر میں نماز میں تخفیف
نہیں كرتے تھے۔ اگر حضرت عثمان كا اذان والا اجتہاد روا ہے تو پھر نماز میں قصر كو
بھی قبول نہ كریں۔
سفر میں نماز میں تخفیف كرنا اور نہ كرنا دونوں صحابہ كرام كے عمل سے ثابت
ہیں۔ جمہور صحابہ تخفیف كے قائل تھے۔ صحابہ كے درمیان یہ مسئلہ پیش بھی ہوا
تو انہوں نے اس پر نزاع پیدا كرنے كو شر پھیلانے سے تعبیر كیا۔ اس پر بحث سے گریز
كیا۔ جمہور ائمہ نے سفر میں صحابہ كی بڑی تعداد جو قصر كرتی تھی اسے
لیا ہے جبكہ سفر میں اتمام(پوری نماز) كو مذموم كسی نے بھی نہیں كہا۔
علاوہ ازیں یہ عثمانؓ كے حق میں دلیل ثابت ہوئی
كہ جس مسئلے پر اتفاق تھا وہ تو جوں كا توں چلا اور جس پر صحابہ كے درمیان دو
رائیں پائی گئیں وہاں جمہور صحابہ كا مذہب زیادہ چلا۔
29 ھجری میں حج كے دنوں میں حضرت عبد الرحمن بن عوف نے
حضرت عثمان كا نماز پوری پڑھنے پر مواخذہ كیا۔ حضرت عثمان نے انہیں اطمنان دلایا۔
ابن عوف وہاں سے عبد اللہ بن مسعود كے پاس آئے۔ حضرت عثمانؓ كے ساتھ بات چیت كا
تذكرہ ہوا۔ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: ʼالخلاف شرٌّʻ (اختلاف میں شرہے) مزیدفرمایاكہ
مجھےچارركعت ادا كرنے كی خبر پہنچی ہے۔ میں نے مع اپنے اصحاب كے چار ہی ركعتیں
پڑھی تھیں۔
عبدالرحمن ابن عوفؓ نے فرمایا: ʼمیں نےساتھیوں كے ساتھ دو
ہی ركعتیں پڑھی ہیں۔ مجھے بھی معلوم تھا كہ عثمان نے چار پڑھی ہیں۔ آئندہ سے میں
بھی یہی كروں گا جو آپ نے كیا ہے۔ʻیعنی عثمان كےساتھ چار ركعتیں پڑھوں گا۔ (تاریخ طبری حدیث نمبر1380)
یہ اثر گو ان الفاظ كے ساتھ تاریخ طبری میں
مذكور ہوا ہے اور احادیث مباركہ كے چھان پھٹك كے سخت معیار پر پورا نہ بھی اترتا
ہو لیكن معنی كے لحاظ سے یہ صحیح ہے۔ اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے۔ اور اس كی اصل ابو داوٗد و غیرہ میں مذكور ہے۔
سنن ابی داوٗد میں كتاب المناسك كے
باب ʼمنیٰ
میں نمازʻ حدیث نمبر 1688
میں اس طرح كا واقعہ مذكور ہوا ہے اور اس میں عبد اللہ بن مسعود كے یہ
الفاظ من و عن موجود ہیں كہ ʼʼالخلافُ شرٌّʻʻ
سفر میں نماز قصر میں حضرت عثمان كے ساتھ صحابہ نے گفتگو كی تھی۔ پھر فقہاء
صحابہ نے اس موضوع پر الگ سے بھی بات كی اور كسی نہ كسی نتیجے پر باہمی مشاورت سے
پہنچ گئے۔ عبد اللہ بن عمر اگر فی الواقع تیسری اذان پر تحفظات ركھتے تھے تو وہ
یقیناً اسے حضرت عثمان یہ كسی اور صاحب الرائے صحابی كے ساتھ زیر بحث لاتے۔ جب
ہمیں ایسا كوئی ثبوت نہیں ملتا تو یہ ایسا واقعہ جس میں حضرت عثمان كے فعل پر
تنقید ہو یا تو منكر درجے كا ہے یا پھر بدعت سے مراد وہی ہے جو عمر كے گھرانے میں
رائج تھی۔
یہ كہنا نہایت بے ادبی كی بات ہو گی كہ حضرت عثمان خلیفہ تھے تو اِس وجہ سے
اُن سے خاص رعایت برتی گئی۔ اوپر عبدالرحمن ابن عوفؓ كا واقعہ گزر چكا ہے۔
ایسا بھی نہیں كہ صحابہ كرام ہر قسم كے خلاف سے بچتے تھے۔ صحابہ كرام بدعت
كا سختی سے نوٹس لیتے تھے۔ مانعین زكوٰة كا واقعہ معلوم و معروف ہے كہ جس میں اہل
قبلہ كے ساتھ پہلی مرتبہ قتال كیا گیا۔ ابن عمر ظہر یا عصر میں اذان میں اضافی
الفاظ كی وجہ سے مسجد سے یہ كہہ كر نكل پڑتے ہیں كہ یہ بدعت كا كام ہوا ہے۔ مروان
بن حكم مدینے كے گورنر تھے۔ جب عید نماز كے لیے وہ منبر لائے اور نماز سے پہلے
خطبہ عید كے لیے ممبر پر جانے لگے تو حضرت ابو سعید خدری اُن كا رخ مصلے كی طرف
كرتے كہ پہلے نماز پڑھائیں اور ممبر پر چڑھ كر عید كا خطبہ دینا بھی مسنون نہیں۔
صحیح مسلم میں كتاب عیدین حدیث نمبر 1519میں یوں مذكور ہوا ہے:ʼʼأين الابتداء
بالصلاة ؟ فقال : لا ، يا أبا سعيد قد ترك ما تعلم ، قلت : كلاʻʻ (نماز سے پہل كرنا كہاں جائے گا۔ مروان نے كہا:
نہیں جناب ابو سعید صاحب جو آپ جانتے ہیں وہ موقوف ہو گیا ہے۔ میں نے كہا: ہرگز
موقوف نہ ہوگا۔)
صحابہ كرام ہی اس بات كو جاننے
والے تھے كہ كون سا اجتہاد كس درجے كا ہے۔ نیز اُن كا یہ طریقہ بھی نہ تھا كہ جدید
مسائل كو اہل حل و العقد صحابہ كے درمیان ریكارڈ پر لائے بغیر معاذ اللہ لوگوں میں
پروپگنڈہ شروع كر دیں۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔
حضرت علیؓ نے اپنی خلافت میں حضرت عثمان كے سیاسی امور میں بہت سی باتوں
میں اپنے اجتہاد سے كام لیا۔ ابن تیمیہ كے اقوال كا خلاصہ یہ ہے جو ان كی كتاب
منہاج سے ماخوذ ہے كہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمان كے گورنروں كو تبدیل كیا۔ معاویہؓ
كے ساتھ تو انہیں باقاعدہ مہم جوئی كرنا پڑی جنہیں حضرت عثمان نے ہی گورنر مقرر
كیا تھا۔ اس كے باوجود كہ حضرت علی كو ان امور میں سختی سے كام لینا پڑا انہوں نے
اذان عثمانی كو ختم نہیں كیا حالانكہ معاویہؓ كے ساتھ بر سر پیكار ہونے كی نسبت یہ
كام آسان تھا۔ اگر یہ كہا جائے بقول ابن تیمیہ كہ لوگوں كو اس بات سے نہیں ہٹایا
جا سكتا تھا تو وہ فرماتے ہیں كہ یہی تو عثمان كے حق میں دلیل ہے كہ مسلمان اس
اذان كے اجراء پر راضی تھے۔
اس سلسلے میں ایك روایت تفسیر قرطبی
سے لائی جاتی ہے كہ حضرت علیؓ نے اپنی خلافت كے زمانہ میں كوفہ میں ایك اذان پر
اكتفاء كیا، تو اس كا جواب یہ ہے كہ یہ روایت سرے سے ʼمسندʻ ہے ہی نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : ʼاتحاف أهل الإيمان بإجماع العلماء على
سنية الأذان الأولʻجس كا
خلاصہ یہ ہے كہ : اگر اس غیر مسند روایت كو
صحیح تسلیم كر لیا جائے تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے كہ كوفہ میں ایك اذان كافی
سمجھی گئی۔ اس سے یہ كب ثابت ہوا كہ اذان عثمانی بدعت تھی۔
معاصر علماء میں سے بھی جن اصحاب نے
ایك اذان كی تجویز دی ہے جیسے شیخ البانی تو یہ سبھی علماء اس وجہ سے تھوڑی یہ بات
كرتے ہیں كہ حضرت عثمانؓ سے بدعت سر زد ہوئی تھی بلكہ ان علماء كرام كا اتنا كہنا
ہے كہ اب وہ سبب نہیں رہا جو اُس وقت حضرت عثمان كے وقت ملحوظ خاطر ركھا گیا تھا۔
دراصل یہی بات درست ہے كہ حضرت عثمان
كی مخالفت كسی ایك صحابی سے صحیح روایت كے ساتھ ثابت نہیں ہےبہ شمول قرطبی میں درج
غیر مسند روایت كے۔ خلاصہ جس كا امام ابن تیمیہ نے ʼ منہاجʻ میں یوں پیش كیا ہے : (فالجواب أن علياً -رضي الله عنه- كان ممن
يوافق على ذلك في حياة عثمان وبعد مقتله، ولهذا لما صار خليفة لم يأمر بإزالة هذا
الأذان).(جلد 6 ص 290). (رافضیوں كے رد میں کہتے ہیں)
كہ اس كا جواب یہ ہے كہ علی ؓحضرت عثمانؓ
كی زندگی میں بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جو( اس مسئلہ میں عثمان كی) موافقت پر
تھے اور اُن كی شہادت كے بعد بھی۔ یہی وجہ ہے كہ جب علیؓ خلیفہ ہوئے تو اِس اذان
كے موقوف كرنے كا امر جاری نہیں فرمایا۔
اوپر ہم نے ʼمنہاج ʻہی سے
اس كی كچھ تفصیل بیان كی ہے كہ حضرت علیؓ نے بہرحال حضرت عثمان كے بہت سے گورنروں
كو تبدیل كیا اور بعض سے تو انہیں جنگ بھی كرنا پڑی۔ اور امام ابن تیمیہؒ كے الفاظ
میں اذان عثمانی (اگر حضرت علیؓ مسنون نہ
سمجھتے) كا موقوف كرنا بہت سے دوسرے مشكل فیصلوں كی نسبت ان كے لیے آسان ہوتا۔
ملاحظہ فرمائیں: (منہاج،جلد 6 ص 290)
چوتھا شبہہ: سنیوں كے بہت ہی جید اہل علم اس عمل
كو بدعت كہہ گئے ہیں جیسے عبد اللہ بن عمر، عطاء بن ابی رباح، امام شافعی، احمد
شاكر، شوكانی، امیر صنعانی، شیخ مقبل، شیخ البانی اور ہندوستان كے شیخ مبارك پوری۔
یہ نام مبالغے كے ساتھ شیعہ پیش كرتے ہیں۔ سنی علماء كرام میں سے كسی ایك
نے بھی اس عمل كو بدعت نہیں كہا ہے۔ ہاں سنی علماء تیسری اذان كے وجوب كے قائل
نہیں ہیں۔ زياده سے زياده یہ ہے كہ مذكوره علماء كے ہاں تیسری اذان كا سبب مذكور
ہوا ہے۔ جہاں ان علماء كرام نے سبب كو مفقود پایا ہے وہاں دو اذانوں پر اكتفاء
كرنے كی رائے دی ہے۔ اذان عثمانی كو بدعت متقدمین میں سے كسی ایك نے بھی نہیں كہا
ہے۔
جہاں تك امیر صنعانی، شیخ مقبل اور شیخ مبارك پوری كا تعلق ہے تو بلا شبہہ
یہ بلند پایہ علماء كرام ہیں۔ لیكن ان علماء كرام كی رائے اگر ایسی ہی شدید ہے تو
اسے شاذ(نادر) سمجھا جائے گا۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ ایك عمل صدیوں پہلے ہوا خیر
القرون میں۔ اُس وقت ہمیں ایسی بات نہیں ملتی بلكہ اُس كے مسنوں ہونے پر اہل علم
كے ہاں اتفاق پایا گیا ہے۔ بنا بریں اس مسئلے میں سلف صالحین كی رائے ہی معتبر ہو
گی اور متاخر علماء كی رائے كو معتبر تسلیم نہیں كیا جائے گا۔
(و اللہ اعلم بالصواب)
ہمارے اس مضمون كا بنیادی انحصار ابن تیمیہؒ كی كتاب ʼالمنہاجʻپر ہے۔ درج ذیل مضامین سے مدد لی گئی
ہے:
*
ʼاتحاف أهل الإيمان بإجماع
العلماء على سنية الأذان الأولʻ۔ از شیخ عرفات بن حسن
المحمدی
http://www.m-sobolalhoda.net/salafi/showthread.php?t=46
* إجماع الصحابة والعلماء ومن بعدهم على مشروعية
أذان الخليفة الراشد عثمان رضي الله عنه والذي يطعن فيه إنما يطعن في الصحابة وعلماء
الأمة از بشیر بن سلۃ الجزائری:
http://www.sahab.net/forums/index.php?showtopic=139820
* معنى أثر ابن عمر رضي الله عنهما ’’الأذان
الأول يوم الجمعة بدعة‘‘ از عبد اللہ بادحدح
http://www.sahab.net/forums/index.php?showtopic=130471
* ʼالذب عن الخليفة الراشد عثمانʻ از
شیخ ربیع المدخلی
http://www.sahab.net/forums/?showtopic=137186