عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ
ثَلَاثًا؛ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَأَنْ تَعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَأَنْ تناصحوا مَنْ وَلَّاهُ
اللَّهُ أَمْرَكُمْ (صحیح مسلم رقم 1715)
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ نبیﷺ نے
فرمایا: اللہ کو تمہارے لیے تین باتیں
پسند ہیں: یہ کہ تم اس کی عبادت کرو بغیر اس کے کہ اُس کے ساتھ کسی بھی چیز کو
شریک کرو۔ اور یہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔
اور یہ کہ جن لوگوں کو اللہ نے تمہارا حکمران بنایا ہے ان کا وفادار و خیرخواہ رہو۔
حدیث میں تین چیزیں بیان ہوئیں
جو اللہ کو امتِ محمدﷺ کےلیے خاص طور پر پسند ہیں:
1.
توحید:
یکتا وتنہا اللہ کی عبادت، بلا شرکتِ غیرے۔
2.
جماعت:
سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لیں، اور تفرقہ نہ کریں۔ (لزومِ جماعت)
3.
مناصحت:
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو ان کے معاملاتِ کار کو چلانے والے ہوں، ان کے ساتھ خیرخواہی اور فہمائش کا سلسلہ رکھنا۔
1۔ توحید:
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو
وہ اس ’’جماعت‘‘ (عالمی کمیونٹی) کے وجود میں آنے کی بنیاد ہےاور اس کی سب جان اسی
میں ہے۔لہٰذا اس کی باربار یاددہانی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ دنیا کی ہر کمیونٹی سے ایک
مختلف کمیونٹی ہے؛ کہ اس کی بنیاد نہ وطن، نہ قوم، نہ سٹیٹ، نہ خطہ، بلکہ اس کی بنیاد اپنے مقصدِ تخلیق کی پہچان ہے،
اپنے پیدا کرنے والے کی شناخت ہے، اُس کی عبادت اور بندگی ہے اور دنیا میں اُس کا
نام بلند کرنا اور اُس کے شریکوں اور ہمسروں کا کلمہ پست کرنا ہے... لہٰذا یہ مسلسل ضروری رہتا ہے کہ اِس جماعت میں اس کی
یہ حقیقت باربار تازہ کی جائے۔ جس طرح ایک ’ماڈرن سوسائٹی‘ میں ’ترقی‘ اور
’پیداوار‘ کے آوازے کسی وقت دھیمے نہیں پڑتے، خواہ قوم نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ
کرلی ہو، اسی طرح اِس ’’الجماعۃ‘‘ (موحد سوسائٹی) میں ’’توحید‘‘، ’’آخرت‘‘ اور
’’رسالت‘‘ کے تذکرے اور ان کے ساتھ وابستگی کا اعادہ کسی وقت نہیں تھمتا۔ ’’توحیدِ
عبادت‘‘ کی یہ آئینی وسماجی جہت اگلی فصل کی پہلی تعلیق میں بھی ہمارے زیرِبحث آئے
گی۔
2۔ جماعت:
دوسرا فرض ہے ’’جماعت‘‘۔ جس کا
مطلب ہے: ایک ہونا۔ مجتمع رہنا۔ اختلاف نہ کرنا۔ ٹولیاں،
گروہ، جماعتیں، دھڑے اور فرقے نہ ہونا۔ کئی کئی ملک اور کئی کئی ملتیں نہ ہونا۔
’’اجتماع‘‘ ایک ناقابلِ تصور
چیز ہے جب تک کہ اُس ’’بنیاد‘‘ کا تعین نہ ہو جس کے گرد انسانوں کو مجتمع ہونا اور مجتمع رہنا ہو۔ یہ ہے آئینِ خداوندی:
الکتاب۔ جس کا منصب ہی یہ بیان کیا گیا کہ اس پہ آکر
انسانوں کے نزاعات ختم ہوں اور ان کے آپس میں وحدت کی ایک مستحکم بنیاد فراہم ہو۔ اسی کو ’’حبل اللہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اعتصام
بحبل اللہ کا ذکریہاں حدیث
میں بھی ہوا ہے اور آیت میں بھی۔ اس موضوع پر یہاں ہم سلف کی تفاسیر سے کچھ
استفادہ کریں گے:
حبل اللہ
سے مراد:
طبریؒ اس پر تین تفسیریں نقل
کرتے ہیں:
1.
حبل
اللہ سے مراد ہے: الجماعۃ۔ یہ تفسیر عبد اللہ بن مسعودؓ سے آتی ہے۔
2.
اس
سے مراد ہے: قرآن اور وہ عہد جو قرآن میں اللہ نے (اپنے بندوں سے) لیا ہے۔ یہ
تفسیر خود عبد اللہ بن مسعودؓ، نیز قتادہؒ، سدیؒ، مجاہدؒ، عطاءؒ اور ضحاکؒ سے آتی
ہے۔
3.
اس
سے مراد ہے: خالص توحید۔یہ تفسیر ابوالعالیہؒ اور ابنِ زیدؒ سے مروی ہے۔
ابن جریر طبریؒ اس پر اپنی جامع تفسیر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَاعۡتَصِمُوا
بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعاً: تمسَّكوا بدين الله الذي أمركم به، وعهده الذي عَهده إليكم
في كتابه إليكم، من الألفة والاجتماع على كلمة الحق، والتسليم لأمر الله
یعنی
مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کے دین کو جو اس نے تمہارے لیے دستور ٹھہرایا ہے، اور اُس
کے عہد کو جو اُس نے تمہارے ساتھ اپنی کتاب میں باندھا ہے، یعنی مجتمع اور ایک
رہنا حق کے بول پر اور خدا کے دستور کے
تابع رہنے پر۔
حدیثِ مذکورہ کی شرح میں ترجمانِ سلف ابن عبدالبرؒ حضرت
عبداللہ بن المبارکؒ کے یہ اشعار بھی لے کر آتے ہیں:
إِنَّ الْجَمَاعَةَ حَبْلُ اللَّهِ فَاعْتَصِمُوا ...
مِنْهُ بِعُرْوَتِهِ الْوُثْقَى
لِمَنْ دَانَا
لَوْلَا الْخِلَافَةُ لَمْ
تُؤَمَنْ لَنَا سُبُلٌ ... وَكَانَ
أَضْعَفُنَا نَهْبًا لِأَقْوَانَا
’’الجماعۃ‘‘ ہے اللہ کی رسی۔ تو پھر اس کی مضبوط کڑی سے چمٹ
جاؤ۔ اُس بالادست ہستی کی خاطر۔ خلافت نہ ہوتی تو ہمارے لیے
راستے ہی محفوظ نہ ہوتے۔ تب تو یوں ہوتا کہ ہم میں کا ایک ضعیف آدمی ہمارے طاقتور
کےلیے مالِ غنیمت ہوتا۔
’’حبل اللہ‘‘ کے متعلق ابن
عبدالبرؒ اپنی تقریر دیتے ہیں:
وَحَبْلُ اللَّهِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ فِيهِ قَوْلَانِ
أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ وَالْآخَرُ الْجَمَاعَةُ وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا
بِإِمَامٍ وَهُوَ عِنْدِي مَعْنَى مُتَدَاخِلٌ مُتَقَارِبٌ لِأَنَّ كِتَابَ
اللَّهِ يَأْمُرُ بِالْأُلْفَةِ وَيَنْهَى عَنِ الْفُرْقَةِ
اس مقام پر ’’حبل اللہ‘‘ کی تفسیر میں (سلف سے) دو قول آتے
ہیں: ایک یہ کہ اس سے مراد ہے کتاب اللہ۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد ہے ایکا (جماعت)۔
جبکہ جماعت بغیر امام کے ممکن نہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں معنے ایک دوسرے کے اندر
داخل ہیں اور باہم قریب ہیں؛ کیونکہ کتاب
اللہ کا اپنا حکم یہ ہے کہ (مومن) ایک ہوں اور ٹولہ ٹولہ ہونے سے ممانعت ہے۔
ابن عبدالبرؒ اپنی اِس تقریر پر
(کہ یہ دونوں معنے ایک دوسرے میں داخل ہیں) دلیل دیتے ہیں کہ خود عبداللہ بن مسعودؓ دو الگ الگ مواقع پر ’’حبل اللہ‘‘
کی تفسیر میں یہ دو قول بیان کرتے ہیں:
ایک: عبداللہ بن مسعودؓ
کا قول:
عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا قَالَ حَبْلُ اللَّهِ وَصِرَاطُ اللَّهِ الْمُسْتَقِيمُ
كِتَابُ اللَّهِ ابو وائل، ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں بابت وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، فرمایا: حبلُ اللہ اور صراط ُاللہِ المستقیم ہے اللہ کی
کتاب۔
دوسرا: عبداللہ بن مسعودؓ
کا خطبہ:
عَنْ ثَابِتِ بْنِ قُطْبَةَ قَالَ
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فِي خُطْبَتِهِ أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ
بِالطَّاعَةِ وَالْجَمَاعَةِ فَإِنَّهَا حَبْلُ اللَّهِ الَّذِي أَمَرَ بِهِ وإن
ما تكرهون في الجماعة خير مما تُحِبُّونَ فِي الْفُرْقَةِ ثابت بن قطبہ سے روایت ہے،
کہا: عبداللہ بن مسعودؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! اطاعت اور جماعت کو لازم
پکڑو؛ کیونکہ یہی ہے اللہ کی رسی جس (کو تھامنے) کا اُس نے تمہیں حکم دے رکھا ہے۔
اور دیکھو جماعت (اکٹھا رہنے) میں تمہیں جو چیزیں پریشان کرتی ہیں وہ اُن چیزوں سے
کہیں بہتر ہیں جو ٹولے ٹولے ہونے کی صورت
میں تمہیں بہت بھلی لگتی ہیں۔
(التمھید مؤلفہ ابن عبد البر: 21: 269)
’’جمیعاً‘‘
کی دلالت:
یہ درست ہے کہ ’’جمیع‘‘ کا مطلب ’’سب‘‘ بھی ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ قوی معنیٰ
’’مل کر‘‘ یا ’’مجتمع‘‘ ہوتا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی اشکال ہو تو تفاسیرِ
سلف سے یہ واضح ہے کہ ’’جمیعاً‘‘ کا
لفظ یہاں پر ’’جماعت‘‘ کا معنیٰ دینے میں نہایت مؤثر ہے۔
دراصل مغرب کے تشکیل کردہ جدید اندازِ
معاشرت میں ’انفرادیت پرستی‘ individualism کا اثر ہمارے ’اسلامی‘ ہیومن اسٹ ذہن نے بھی خوب
لیا ہے۔ چنانچہ یہ ذہن آیتِ مذکورہ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ’’جمیعاً‘‘ کا معنیٰ ’’مل کر‘‘ کی بجائے ’’سب لوگ‘‘ کرنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ یعنی اس صورت میں
آیت کی مراد یہ ہوجائے گی کہ: ’’سب لوگ‘‘ اللہ کی رسی (قرآن)
سے چمٹ جاؤ۔ ظاہر ہے ’’سب لوگ‘‘ کچھ ہی
دیر میں ’’ہر آدمی‘‘ سے بدل جاتا ہے۔ یعنی ’’ہر آدمی‘‘ (اپنے اپنے
طور پر) اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لے! یوں ’’جماعت‘‘ کا معنیٰ مکمل طور پر گول ہوگیا اور قرآن کے
اُس مقام پر بھی جہاں (از روئے حدیث و ازروئے
تفسیرِ سلف) ’’جماعت‘‘ کا حکم تھا individualism
ثابت ہوگیا! سلف قرآن کے اِس مقام
پر ’’الجماعۃ‘‘ کے مباحث بیان کرتے رہ گئے؛ اور اِن حضرات کا خیال کہ آیت یہاں
’الگ الگ‘ انسان سے مخاطب ہے!
ویسے تو اگر دیکھا جائے، قرآن
وہ شریعت ہی نہیں ہے جسے ہر شخص ’اپنے اپنے طور پر‘ تھام لے
تو وہ تھاما جائے؛ اسے ’’تھامنے‘‘ کےلیے کرۂ ارض پر پھیلی ایک مربوط انسانی جماعت
درکار ہے۔ اوپر یہ بات واضح کی جا چکی: وَاعۡتَصِمُوا
بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعاً کی تفسیر ’’لُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ‘‘ خود حدیث سے ہی
ثابت ہے۔
’’وَلَا
تَفَرَّقُوا‘‘
آیت میں، اور حدیث میں بھی، اعتصام
بِحَبل اللہ جمیعاً کے بعد مزید تاکید کےلیے تنبیہ ہوتی
ہے: وَلَا تَفَرَّقُوا۔ اس کے تحت امام نوویؒ لکھتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ وَلَا تَفَرَّقُوا فَهُوَ أَمْرٌ بِلُزُومِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ
وَتَأَلُّفِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَهَذِهِ
إِحْدَى قَوَاعِدِ الْإِسْلَامِ
(حدیثِ مذکورہ میں) نبیﷺ کا یہ فرمان کہ ’’ٹولے مت بنو‘‘: دراصل
یہ جماعۃ المسلمین کو لازم پکڑنے کا حکم ہے اور یہ کہ مسلمان ایک دوسرے کے
ساتھ مل اپنی شیرازہ بندی کریں۔ اور یہ اسلام
کے بنیادی پایوں میں سے ایک پایہ ہے۔
3۔ مناصحت:
حدیث میں تیسرا حکم یہ ہے کہ آدمی ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے ڈسپلن کا پابند رہے۔
یہاں کے بااختیار افسروں کا خیرخواہ رہے۔ ان کو فہمائش کا کوئی موقع جانے نہ دے۔
ان کےلیے کلمۂ خیر کہنے میں بخل نہ کرے۔ ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرے (نہ کہ
’جمہوری معاشروں‘ کی طرح ان کو اچھالے)۔ عوام میں ان کے لتے لینے کی بجائے علیحدگی میں سمجھائے۔ ابن عبدالبرؓ حضرت انس بن مالکؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ بزرگ صحابہ ہمیں امراء
کو برا بھلا کہنے سے ممانعت فرمایا کرتے تھے۔
ابن عبدالبرؒ سلف میں سے کسی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی
قوم اپنے امیرکو برا بھلا کہنا روا کرتی ہےخیر سے محروم کردی جاتی ہے۔ احادیث میں
یہاں تک آتا ہے کہ امراء کی ظلم زیادتیوں پر بھی صبر کیا جائے۔ (الاستذکار: 8: 579)
ووٹ اور بیعت... ایک
ہی چیز ؟!