فرانسیسی
قصاب... مالی کے بعد وسطی افریقہ؟
عبداللہ
آدم
اگر
کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وسطی افریقہ میں فرانس کی فوجی مداخلت محض قیام
امن کےلیے ہے، جیساکہ فرانسیسی
وزیردفاع جان ایف لوڈریان نے بیان جاری
کیا ہے، تو یہ محض خام خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرانس
اور دوسری استعماری طاقتیں ایک عرصہ دراز
سے افریقہ کے خطوں میں صرف قبضہ کرنےاور
نسل پرستی کو مختلف طریقے سے ہوا دینےپر ہی اکتفا نہیں کرتی ہیں ۔ یہ طاقتیں مقامی
لوگوں میں باہمی جنگ و جدل کو بھی ابھارتی ہیں تاکہ آئندہ ان علاقوں میں کسی بھی
وقت دوبارہ داخلےکا دروازہ کھلا رہے۔اس طرح یہ ممالک آج کے استعمار زدہ علاقوں میں
اپنے مفادات کاتحفظ کرتے ہیں ۔ ماضی کا بظاہر امن و استحکام کسی بھی دیکھنے والے
کو دھوکے میں مبتلا نہ کرے دے ، یہ محض نظر کا دھوکہ ہی ہے اور اس بے بس خطے میں فرانس ، برطانیہ اور دیگر
استعماری طاقتوں کے اڈے آج بھی ایک مختلف
رنگ میں استعمار اور قابضین کی موجودگی کی سند ہیں۔
اقتصادی محرکات( مثلا تیل اور سونے اور ہیرے
نکالنے کی مغربی کمپنیاں) اور بے اندازہ دولت ہی کو فرانس اور دیگر قابضین کے
افریقہ میں داخلے کا اولین سبب مان لیا
جائے پھر بھی اس قسم کے حملوں میں ان کی
اسلام دشمنی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فرانس کا مالی اور وسطی افریقہ میں
فوج کشی عین اسی اسلام دشمن پالیسی کے تحت نظر آتی ہے ،جیسا کہ فرانسیسی وزیر
خارجہ نے 14 نومبر 2013ء کو مالی پر حملے کی
وضاحت ان الفاظ میں دی کہ : " اس حوالے سے ہمارے، یورپ اور افریقہ کے مفادات ایک ہی
ہیں، اس لیے ہمیں جلداز جلد حرکت میں آنا ہوگا"
جس طرح مالی میں فرانسیسی
مداخلت یورپی اور امریکی چھتری تلے وقوع پذیر ہوئی، بالکل اسی طرح وسطی افریقہ میں
بھی ہوا ۔ جی فائیو کی متفقہ قراردادمیں شہریوں کی حفاظت اور مسلح تنظیموں کو بنیاد بنا کر افریقی اور فرانسیسی افواج کو خصوصی طور پر
وسطی افریقہ میں مداخلت کی منظوری دی گئی۔ ہالینڈ نے واضح الفاظ مین بیان جاری
کیا: " قرار داد میں طے ہوا کہ شہریوں کی حفاظت اور قیام امن کو یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے فوری طور پر فرانسیسی فوج کو ملک (وسطی افریقہ)
کے طول و عرض اور خاص طور پر دارالحکومت"بانگی" میں تعینات کیا جا رہا ہے۔بعد میں فوج کی کل
تعداد 1600 تک پہنچ جائے گی۔"
افریقہ میں فرانس کے جو
اقتصادی مفادات اس مداخلت کی وجہ بنے ہیں ان پر نظر دوڑائیں تو کچھ ایسی صورتحال
سامنے آتی ہے:
1۔ علاقے میں فرانسیسی کمپنیوں کے مفادات کی حفاظت کرنا۔
ان کمپنیوں میں ایٹمی توانائی کے میدان میں مصروف کار "اریفا " قابل ذکر
ہے جو باکوما میں یورینیم نکالنے میں
مصروف ہے۔ اس کی اہمیت مزید سامنے آتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرانس اپنی بجلی
کی ضروریات کا قریبا 75 فیصد اسی ایٹمی
توانائی سے پورا کرتا ہے۔
2۔چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر ونفوذ کا مقابلہ کرنا،
جیسا کہ بعض رپورٹیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پچھلی چار دہائیوں سے نائیجر
میں یورینیم کی کان کنی پر "اریفا" کی اجارہ داری تھی اور حال ہی میں
معزول کردہ صدر کی حکومت نے ہندوستانی، چینی، امریکی اور آسٹریلیا کی کمپنیوں کو
یورینیم کی تلاش کے لائسنس جاری کیےتھے۔
3۔ یہ خوف کہ فرانسیسی تزویراتی مفادات رکھنے والے ممالک
خصوصا چاڈ اور کیمرون کہیں اپنے ہمسایہ ممالک کے تنازعات سے متاثر نہ ہو جائیں۔
4۔ وسطی افریقہ
کی ہیرے کی کانوں اور بیش بہا قدرتی وسائل پر فرانس کی نظر، کیونکہ وسطی افریقہ
ہیرے کی تجارت کا عالمی مرکز ہے اور ہیروں کی برآمد کا کل قومی آمدنی میں 60 فیصد حصہ ہے۔
یہ تو تھے اقتصادی لحاظ سے
فرانس کے افریقہ میں مداخلت کے سب سے بڑے سمجھے جانے والے اسباب، البتہ اگر ہم
دینی حوالے سے دیکھیں تو یہ پہلووسطی افریقہ کی نسبت مالی پر فرانسیسی حملے میں
کہیں زیادہ واضح طور پر نظر آتاہے۔ جیسے
ہی مجاہدین نے اسلامی مملکت قائم کرنےکے لیے ملک کے 90 فیصد حصے پر غلبہ پانے کے
بعد مالی کے دارالحکومت باماکو کے دروازے
پر دستک دی، فرانسیسی استعمار خوف و دہشت
میں مبتلا ہو گیا۔وسطی افریقہ میں بھی یہ پہلو کارفرما نظر آتا ہے اگرچہ اس کی
صورت مختلف ہے۔ وسطی افریقہ میں مسلمان 20 فیصد ہیں جن پر انتہا پسند عیسائی تنظیموں نے ظلم و زیادتی میں
کوئی کسر نہ چھوڑی، جیسا کہ افریقی اور برطانوی صحافت نے رپورٹ کیا کہ وسطی افریقہ
میں عیسائیوں کے ایک گروہ نے کم ا زکم 12 مسلمانوں کو شہید کیا جن میں حاملہ
عورتیں اور 10 بچے بھی شامل تھے۔اس سلسلے میں معزول صدرفرانسو بوزیزیہ کی ذاتی
حفاظتی ملیشیا (مناهضو السواطير) کا نام سامنے
آیا ہے جومسلمانوں پر ظلم و بربریت میں پیش پیش ہے۔اس تنظیم نے 300 کے قریب
مسلمانوں کو ذبح کیا جیسا کہ ریڈ کراس نے تصریح کی ہے۔ (زیر نظر مضمون کی اشاعت کے
بعد اب تک شہداء کی تعداد کہیں زیادہ ہو چکی ہے)
درحقیقت فرانسیسی افواج کی وسطی افریقہ میں
مداخلت مسلمانوں کو عیسائی درندوں کی بربریت سے بچانے کے لیے نہیں ہے بلکہ
مسلمانوں کی طرف سے ممکنہ دفاعی مزاحمت سے عیسائیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔
مغرب کی یہ سیاست اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔مغرب کے ہاں مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ موت کے پھیلتے ہوئے
سایے سے بھاگنے کی کوشش بھی کریں یا اپنی اولاد اور مال کی حفاظت کے لیے کچھ
کریں۔ ایسی "دہشت گردی"دنیا کے
کسی بھی حصے میں ہوتے ہی مغربی افواج "شہریوں کی حفاظت" اور "قیام
امن" کے نام پر فورا حرکت میں آ جاتی ہیں۔
ہو سکتا ہے بعض لوگوں کو
اس بات سے دھوکہ لگے کہ فرانس نے معزول صدر فرانسو بوعزیزی کے
عیسائی ہونے کے باوجود اسے ہٹانے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اورموجودہ صدر محمد
ضحیۃ(مسلمان) کو قائم رکھا ہے۔ اس چیز سے یہ گمان کیا جانا ممکن ہے کہ فرانس کی
مداخلت میں دینی پہلو نہیں ہے اور وہ واقعی امن و امان کو واپس لانے اور تنظیموں
کے باہمی قتل و قتال کو روکنے کے لیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر اس بات کو
دہرا دینا کافی ہے کہ معزول صدر فرانسو بوزیزی نے عیسائی ہونے کے باوجود فرانس کی
پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے چینی اور جنوب افریقی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے
تھے۔اس پر فرانس غیض و غضب سے بھر گیا،ایسا عیسائی بھی انہیں کیونکر
گواراہو سکتا ہے۔اگرچہ اب وہ اسے دوسرا رنگ دے رہے ہیں لیکن ایسا وہ ہر اس
حکمران کے ساتھ کرتے ہیں جو ان کے مفادات کے رستے میں رکاوٹیں ڈالنے والا ہو۔(خود
معزول صدر کی ملیشیا کی سرگرمیاں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں)
مغرب اور یہود کی اسلام سے
دشمنی میں کسی مسلمان کو شک ہو، یہ بات ممکن نہیں۔ قتل مسلم پر ان کی مسلسل خاموشی
اس بات کا ثبوت ہے کہ جہاں اس قتل عام کو روکنا ان کے مفاد میں نہیں ہوتا
وہاں اس کے جاری رہنے سے انہیں کوئی تکلیف
نہیں ہے۔ ہاں! جیسے ہی کوئی فائدہ یا
مصلحت سامنے آتی ہے تو وہ امن و امان اور معصوم انسانوں کے دفاع کے نام پر میدان
میں آجاتے ہیں! اس سے بڑی منافقت اور
دشمنی اور کیا ہو گی !
http://www.almoslim.net/node/195622