ابن تیمیہ کا یہ بیان نہایت اہم اور لائقِ توجہ ہے۔
’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا لزوم اور ’’امارۃ
المؤمنین‘‘ کی اطاعت آدمی پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح پنجوقتہ نماز، روزہ اور حج۔
یہ خدا کی طرف سے فرض ہے آدمی کے اپنے ووٹ، یا دستخط، یا اتفاق نامے سے فرض ہونے
والی چیز نہیں۔ ’’اطاعت‘‘ کا مصدر ہمارے ہاں ’’خدائی شریعت‘‘ ہے۔ خدا، جو انسان
میں روح ڈالتا، اس کو کھلاتا، پلاتا اور کائنات کی سب قوتوں کو اس کے کام میں
لگاتا ہے، اور آخر میں وہی اِس کی جان لیتا اور اس کو اپنی عدالت میں کھڑا کرتا...
وہ خدا جو چاہے انسان پر فرض کرے؛ صرف اُس کے فرض کرنے سے چیزیں فرض ہوں گی ورنہ
ہرگز نہ ہوں گی۔ البتہ وہ مہربان، دانا اور غنی ہے؛ انسان پر وہی چیز فرض کرتا ہے
جو اِس کی فطرت کے موافق، اِس کے فائدے کی موجب اور اِس کے مقدور کے اندر ہو۔
یہاں سے ’’شہریت‘‘ کا جدید تصور نہ
صرف باطل ہوجاتا ہے بلکہ مسلمانوں کی ضرورت ہی نہیں رہتا:’’فرد‘‘ پر
’’جماعت‘‘ کا لزوم اور ’’اطاعت‘‘ خدا کے فرض ٹھہرانے سے فرض ٹھہرتی ہے، عین
اُسی طرح جس طرح ’’نماز‘‘ اور ’’روزہ‘‘ اُس کے فرض ٹھہرانے سے فرض ٹھہرتا ہے۔ اُس
کے سوا کوئی ہستی ہے ہی نہیں جو انسان پر کچھ فرض کرے۔ تصور کرلیجئے، اسلام میں
انسان ’’عبد‘‘ ہوتے ہوئے اتنا معزز ہے کہ کوئی اسے حکم نہیں دے سکتا سوائے اُس ایک
ہستی کے جس کا یہ عبد ہے اور جو اِس کی خالق ہے۔ ’’عبد‘‘ ہوتے ہوئے یہ اِدھر اتنا
معزز ہے جتنا اُدھر ’’خدا‘‘ ہوتے ہوئے معزز نہیں ہے... کیونکہ اُدھر کچھ انسانوں (درحقیقت بھیڑیوں) کو اس کے جان و
مال میں مطلق تصرف کرنا اور اِس کو اپنے ’قوانین‘ کا پابند کرنا ہے!
یہ واردات ’’ریاست‘‘ کے نام پر ہوتی
ہے۔ کسی ’دلیل‘ سے ایک بار ’’ریاست‘‘ کو انسان کا مطاع ٹھہرا لیا جائے تو پھر اگلے
سب مراحل آسان ہوجاتے ہیں۔ ایک خاص ذہین اور طاقتور طبقہ وسائل اور ساہوکاری کا
جادو جگا کر ’’ریاست‘‘ کے روپ میں عام انسان کا مطاع ہوجائے گا[2] اور پھر اپنے ’قوانین‘ وغیرہ کی صورت میں
مسلسل اس سے اپنی ’’عبادت‘‘ کروائے گا۔
تو پھر ’’ریاست‘‘ کی اطاعت کس دلیل سے
فرض ٹھہرائی جائے؟
ہر ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد
اپنے کام سے کام رکھتی اور وہاں کے سیاسی عمل سے کسی بھی انداز کا سروکار نہیں
رکھتی؛ اسکی مجبوری صرف اتنی ہے کہ وہ یہاں پر ’پیدا‘ ہوئی ہوتی ہے! اتنے
لوگوں نے یہاں کے سیاسی عمل سے کوئی سروکار نہیں رکھا، آخر کیسے کہا جائے کہ انہوں
نے
ریاست کو اپنی مطلق اطاعت کا راضی نامہ consent
دے دیا ہے؟ انکے جان، مال،
آبرو[3] میں ریاست کس
دلیل سے تصرف کرے... جبکہ مطلق مطاع بنے بغیر اسکا گزارہ ہی نہیں؟!
اس کےلیے کچھ مغربی مفکرین مانند
روسو نے ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘ کا نظریہ گھڑا؛ جس کی رو سے ایک
شہری کی بابت یہ فرض کر لیا جائے گا کہ وہ
وہاں کے نظام کا مطیع ہونے کی حامی بھر چکا ہے۔ انسان جوکہ عقیدہ ہیومنزم
کی رو سے ویسے تو ’’آزاد‘‘ اور ’’اپنی مرضی کی مالک‘‘ ہستی ہے جو کسی چیز کی پابند
نہیں کی جاسکتی۔ مگر ’’ریاست‘‘ بھی ایک خدا ہے جس کا مطاعِ مطلق ہوئے بغیر
گزارہ نہیں۔ اس تناقض کو ختم کرنے کیلئے روسو یہ ’فرض‘ کرلیتا ہےکہ ایک ’شہری‘
اپنے گرد پائی جانے والی انسانی جماعت اور اسکے نظم کی اطاعت کی حامی بھر چکا ہے
اور وہ ایسی حامی ہے کہ آدمی اس نظم کی اطاعت سے اگر صراحت کے ساتھ ’ناں‘ کرے تو
بھی اُس کی ’ہاں‘ ہی ہوگی! المختصر جیسے ہی آپ ’شہری‘ ہوئے آپ ’آزاد‘ نہیں رہے؛
آپکی وہ آزادی آپ سے سلب ہوکر ریاست کے پاس چلی گئی ہے؛ اب آپ صرف وہاں پر
آزاد ہیں جہاں ریاست آپکو آزادی دے۔ ہاں مگر یہ اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ
آزادی آپ نے خود ہی اپنے حق میں ختم کرلی کسی نے آپ پر فرض نہیں کی! یعنی آپکو پتہ
تک نہیں چلا، اِس ریاست میں آنکھ کھولتے ہی آپ نے ایک ایسا ایگری منٹ سائن کرلیا
جس کو آپ زور بھی لگا لیں تو منسوخ نہیں کر سکتے!!! آپکو کوئی چناؤ نہیں دیا گیا
مگر آپ نے ان میں سے ایک بات کا چناؤ کرلیا!
یہ ہے ہابس، لاک، روسو اور کانٹ کا
پیش کردہ نظریۂ سوشل کونٹریکٹ!
یہاں سے جماعت (ریاست) کی خدائی بھی
قائم ہوگئی اور جماعت آدمی کے جان اور مال
میں متصرف بھی ہوگئی، یہاں تک کہ شہری کو subject کا نام
دینے لگی (اس کے بغیر کاروبارِ ریاست چل بھی نہیں سکتا!) یعنی صاف اطاعت... لیکن
کوئی ایسی بالاتر ہستی بھی ’فرض‘ کرنا نہیں پڑی جو انسان کو جماعت کا پابند کرتی
ہو!
اِس فوجداری کا حال یہ ہے کہ آپ یہ تک
نہیں کہہ سکتے کہ چلئے میں ریاست کے ’عطاکردہ‘ وسائل اور مواقع ہی نہیں لیتا جس کے
عوض ریاست مجھے اپنا بندہ subject بناتی ہے؛ میں کسی جنگل یا صحرا میں جا کر رہ
لیتا ہوں تاکہ مجھے ریاست کی بندگی نہ کرنی پڑے۔
یہاں ریاست آپ کو کہتی ہے، یہ جنگل اور صحرا بھی میرے ہیں؛ میری عبادت سے
نکل کر تم جا کہاں سکتے ہو؟ پس یہ پوری زمین کسی نہ کسی ’ریاست‘ کی جاگیر ہے،
لہٰذا کسی نہ کسی ’ریاست‘ کی بندگی آپ پر فرض ہے۔ یہ بندگی فرض ہوئی کہاں سے؟ عہدِ سوشل کونٹریکٹ سے؛ جس پر چاہے آپ نے کبھی
صاد نہ کیا ہو مگر روسو اور کانٹ کی آنکھ نے آپ کی وہ کارروائی ہمیشہ کےلیے محفوظ
کرلی ہے، لہٰذا اب وہ سند ہے اور تاقیامت کارآمد! یہ واحد عقد ہے جو ناقابلِ فسخ
ہے!
یہ ہے ریاست کی اطاعت، جس کو آپ کی
زندگی میں مطلق تصرف کا حق مل جاتا ہے۔ ریاست آپ کے مال میں جتنا حصہ مقرر کرے اس
کی مرضی؛ آپ اس کو ’مقدس حق‘ جان کر اُس کا وہ حصہ ادا کریں گے۔ ریاست آپ کے لیے
ذرائعِ آمدن و صرف میں جائز و ناجائز کا تقرر کرے گی۔ دولت کی تقسیم کے پیمانے وضع
کرے گی۔ تعلقاتِ مردو زن کا تعین کرے گی۔
سزاؤں کا ضابطہ وضع کرے گی؛ جس کی رو سے وہ انسانوں کی جان تک لینے کی
مجاز ہے۔ کس چیز کو وہ جرم سمجھے گی اور کس چیز کو جرم نہ سمجھے گی، آپ کی
زندگی میں ان سب قدروں کا تعین کرنا ریاست کا اختیار ہےجس کو یہاں کا ’شہری‘ ہونے
کے ناطے ریاست میں ’پایا جانے‘ والا ہر ابن آدم اپنے گلے کی زینت بنا چکا ہے۔
جبکہ اِدھر... ’’جماعت‘‘ کے لزوم اور ’’اولی الامر‘‘ کی اطاعت
کا حکم خدائے علیم و حکیم کے دربار سے آتا ہے۔
اس صراحت کے ساتھ کہ یہ ’’جماعت‘‘ یا اِس کے ’’اولی الامر‘‘ اُس کے بندوں
کے جان و مال میں صرف اُس حد تک تصرف کرسکتے ہیں جتنی وہ اجازت دے۔ خود ’’جماعت‘‘
اُس کی شریعت کی پابند ہےاور اُس کے بندوں کے جان، مال اور آبرو میں اُس کی اجازت
کے بغیر ایک ذرہ تصرف کرنے کی مجاز نہیں۔ (اس کے ساتھ وہ ایک ایسی مفصل شریعت دیتا
ہے جس میں اموال، ارواح اور اَعراض وغیرہ کے معاملہ میں سب اہم اہم فیصلے وہ خود
ہی کردیتا ہے، یعنی اس معاملہ میں وہ اشرافیہ کا تشریعی کردار ہی ختم کردیتا ہے۔
پھر وہ ایسے اعلیٰ فیصلے ہیں کہ جس دانا نے بھی اُن کا مطالعہ کیا، اُس کی حکمت
اور دانائی پر اَش اَش کر اٹھا کہ کس طرح ایک محکم شریعت کے ذریعے اُس نے انسانی
زندگی سے ظلم، استحصال، بےحیائی، غلاظت، سفلہ پن اور تذلیلِ انسانیت کی راہیں
مسدود کرکے رکھ دیں... ایک حرمتِ سود کا مسئلہ ہی پوری زمین کو سکھ کا سانس دلانے
اور ساہوکاری کا ناطقہ بند کردینے کےلیے قیامت تک کافی ہے!) خود ’’فرد‘‘ کو اُس کی واضح ہدایت ہے کہ جہاں خالق
کی نافرمانی لازم آتی ہو وہاں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ ’’جماعت‘‘ اور اس پر قائم
’’امارت‘‘ کی اطاعت بھی اُس کی اپنی اطاعت کے تابع ہے۔ اُس کی خدائی پر ایمان لانا
زمین پر سکھ کی ضمانت ہے۔
یہ ہوا اسلامی پیراڈائم میں ’’ لزومِ
جماعت‘‘ بمقابلہ مغربی پیراڈائم میں ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘۔
(مزید مطالعہ کےلیے دیکھئے تعلیق 12 ’’آسمانی شریعت نہ سوشل
کونٹریکٹ‘‘، گزشتہ شمارہ صفحہ101 )