اولی الأمر کی اصطلاح اور مرزا قادیانی کی ایک سنت خبیثہ
|
:عنوان |
|
|
یہ کوئی باک محسوس نہ کریںگے کہ قرآن کے "اولی الامر" کا اطلاق یہ تاجِ برطانیہ اور وائٹ ہاؤس تک پر کر آئیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی اطاعت و وفاداری کو بھی یہ انہی ’قرآنی‘دلائل سےثابت کردیںگےجن سے آپ اسلامی خلافت کی اطاعت |
|
|
يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي
الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 59)
’’اولی الامر‘‘ کا
درست سیاق اور صحیح محل واضح رہنا... یہ ان بنیادی ترین حقیقتوں میں
سے ایک ہے جو مسلمانوں کے یہاں معروف چلی آئی ہیں؛ اور جس کے باعث اِس ’’تیسری
اطاعت‘‘ کا اطلاق صرف اور صرف اسلامی امارت اور خلافت کے پیراڈائم میں رہتے ہوئے
کیا جاتا رہا ہے؛ اور اس سے نکلنا سراسر الحاد باور ہوتا رہا ہے۔مگر دورِ حاضر میں
مرزا غلام قادیانی نےاسلام کی ان تعلیمات کو جو ’’اولی الامر کی اطاعت‘‘ سے متعلق
آئی ہیں ’’انگریزی اقتدار کا مطیع وفرماں بردار بن رہنے‘‘ پر بھی بےدریغ لاگو کیا؛
اور یوں اسلامی تاریخ میں وہ ایک ایسی سنتِ خبیثہ کا بانی ہوا جسے بعدازاں کئی
’غیرقادیانی‘ طبقے بھی طریقے طریقے سے مسلمانوں میں رائج کروانے کی کوشش کرتے رہے
ہیں، بلکہ الفاظ وتعبیرات کے ہیرپھیر کے ساتھ
ابھی تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس ’نقطۂ نظر‘ کے داعی کسی وقت
’تکلف‘ برطرف کریں یاکھل کر اپنی بات کہنے کی ’آزادی‘ پائیں (جس کے نہ ہونے کا اِن
کو اکثر گلہ رہتا ہے؛ لہٰذا اس ’حق گوئی‘ کےلیے کسی وقت ان کو جلاوطنی کی سہولت اختیار
کرنا پڑتی ہے!) تو اس میں یہ کوئی باک
محسوس نہ کریں گے کہ قرآن کے ’’اولی الامر‘‘ کا اطلاق یہ تاجِ برطانیہ اور وائٹ
ہاؤس تک پر کر آئیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی
اطاعت اور وفاداری کو بھی یہ نکتہ ور اُنہی قرآنی دلائل سے ثابت کردیں گے جن سے آپ
اسلامی خلافت کی اطاعت و وفاداری کو واجب ٹھہراتے رہے ہیں! قرآنی ’’اولی الامر‘‘
سے مراد ان کے ہاں مطلق ’اتھارٹی‘
ہوجاتی ہے نہ کہ ’’دینِ اسلام‘‘ کی پابند اتھارٹی۔ زیادہ سے زیادہ یہ اُس کے ’جمہوری
طور پر منتخب‘ ہونے کی شرط لگائیں گے؛ البتہ ’’پابندِ شرعِ محمدی‘‘ ہونے کی شرط لگانا غیر متعلقہ اور غیرضروری ہی جانیں گے
(کیونکہ اتھارٹی کا سرچشمہ ہیں ہی ’عوام‘ نہ کہ ’’شرعِ خداوندی‘‘! قرآنی حوالے
مانند ’’اولی الامر‘‘ یا ’’معروف و منکر‘‘ وغیرہ تو صرف اس ہیومن اسٹ پیراڈائم کی
تائید میں پیش کرنے کےلیے ہیں؛ یہ کوئی اُس سے ٹکرانے کےلیے تھوڑی ہیں!)۔
|
|
|
|
|
|