ایقاظ کے فائل سے
ایقاظ اِس آگ کو بجھانے کیلئے آواز
اٹھاتا چلا آ رہا ہے
|
ایقاظ کا یہ موقف
کوئی آج سے نہیں۔ پچھلے نصف عشرے سے... پورے تسلسل کے ساتھ... یہ بات نہ صرف یہاں
کے ’مذہبی‘ طبقوں کے گوش گزار کی جارہی ہے بلکہ اُن ’غیرمذہبی‘ طبقوں کے سامنے بھی
رکھی جارہی ہے جن کو اس خطے کا امن اور استحکام عزیز ہوسکتاہے۔ یہ کشتی خدانخواستہ
ڈوبتی ہے، اور صلیبی قوتیں اپنی یہ منحوس جنگ ہمارے اِن شہروں اور بستیوں میں
منتقل کروا دینے میں کامیاب ہوتی ہیں... تو سب کے حق میں یہ ایک جان لیوا
سانحہ ہوگا۔ اتنی سی سمجھداری حالیہ مرحلہ میں یہاں کے ہرطبقہ سے مطلوب ہے کہ وہ
صورتحال کی اس سنگینی کا ادراک کرے۔ وقت آگیا ہے کہ خطرے کے اِس منبع کی ایک بار
پھر نشاندہی ہو اور آنے والے دنوں میں خطے میں موجود صلیبی قوتوں کے کچھ ممکنہ
ڈرامائی پینتروں سے متنبہ رہا جائے۔ ملک کو داخلی جنگ کی جانب دھکیلنے والے
اقدامات خواہ یہاں کے کسی بھی فریق کی جانب سے ہوں، ہمارے ان شہروں اور بستیوں میں
جنگ کا بھڑک اٹھنا صلیب کے کچھ دیرینہ مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
خدا ہم سب کو اپنی عافیت میں رکھے اور ہمارے اِس خطے کو خونریزی سے حفظ وامان
بخشے۔
’مسئلہ کا ایک فریق‘ یہاں پر ایسا
بھی ہے جو عرف عام میں بلیک واٹر کے نام سے جانا جاتا ہے اور جوکہ ہمیں سبوتاژ
کرنے کےلیے مسلسل اپنا راستہ بنارہا ہے اور جس کی نظر میں یہاں کے سرکاری اہداف
بھی ہیں اور غیرسرکاری بھی، اسلامی بھی اور غیراسلامی بھی، سنی بھی اور شیعہ بھی،
خصوصاً یہاں پر پائے جانے والے جہاد کے ہمدرد طبقے، اگرچہ یہ ’فریق‘ اپنے آپ کو
مختلف پردوں اور لیبلز کے پیچھے چھپا رہا ہو۔
امریکی زخمی ناگ، جو
ایک عرصے سے اپنا زہر پاکستان کی سرزمین میں انڈیلنا چاہتا ہے... اپنے کئی ایک
خطرناک منصوبے موخر کیے آرہا تھا۔ پاکستان میں جنگ کا سماں پیدا کرنے پر صلیبی
دشمن کی جانب سے بڑے عرصے سے کوشش ہورہی ہے۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا عمل کئی ایک
انداز میں تیز کردینے کےلیے اب وہ اور بھی سرگرم ہوا چاہتا ہے۔ افغان جہاد کےلیے
ہمدردی رکھنے والے سبھی طبقوں کے ساتھ ہم دلی محبت رکھتے ہیں۔ ہمیں عقل کل ہونے کا
دعویٰ نہیں، مگر سن دو ہزار سات سے ہم اس اندیشے کی جانب ان کی توجہ مبذول کراتے
آئے ہیں کہ اِس جنگ کو پاکستان کی جانب بڑھانا دشمن کا ایک دیرینہ ہدف ہے اور یہ
ہمارے اِس مسلم خطے کے بہت سے مفادات کو نقصان پہنچانے پر منتج ہوسکتا ہے لہٰذا کل
کوشش اور توجہ اس بات پر رہنی چاہئے کہ یہ جنگ افغانستان کے دائرہ سے باہر نہ
نکلنے پائے۔
یہاں ہوشیار ہوجانے
کی ایک اور جہت ہے اور اس سے بھی صلیبی بھارتی دشمن کو ہمیں ایک لامتناہی
خونریزی میں جھونک دینے کا موقعہ ہاتھ آسکتا ہے، اور وہ وہاں سے اپنے مفادات کےلیے
بہت سا راستہ بنا سکتا ہے۔ یہ ہے ’شیعہ سنی تصادم‘ جس کی ہزارہا طریقے سے کوششیں
ہورہی ہیں۔ یہ بات نہایت واضح ہوجانی چاہئے۔ کسی گروہ کے خون کو مباح کرنا
خدا کی شریعت میں ایک بہت بڑی جرأت ہے۔ نصوصِ شریعت اس موضوع پر نہایت خوف
دلاتی ہیں۔ علماء اس سے شدید متنبہ کرتے ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں خون کا حساب دینا
آسان نہیں۔ قتلِ ناحق ایک کافر تک کا ہو تو خدا کے ہاں جوابدہ ہونا ہوگا کجا یہ کہ
اہل قبلہ کا خون یوں حلال کرلیا جائے۔ پس اول تو یہ خونریزی شرعاً حرام ہے۔ پھر یہ
ہمارے خلاف دشمن کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ہمارے جہادِ
افغانستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا چاہتا ہے جیساکہ اس سے پہلے وہ شیعہ سنی تصادم
کروا کر عراق میں ہمارے جہاد پر ایک کاری ضرب لگا چکا ہے۔
ہوشیار باش! شیعہ سنی کے نام پر خونریزی... عالم اسلام میں استعماری قبضہ
کاروں کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اس سے پہلے وہ عراق میں ’شیعہ سنی‘ کی خونریزی کروا
کر وہاں مجاہدین کے مشن پر ایک کاری وار کرچکے۔ انکل سام اب ہمارے اس خطے کے درپے
ہے۔ ایک طرف بھارت کو ششکارا جارہا ہے، دوسری طرف بلیک واٹر نے ماردھاڑ کا بازار
گرم کررکھا ہے۔ یاد رکھیے؛ ہر جذباتی ہڑبونگ اس وقت یہاں دشمن کو اپنا کھیل کھیلنے
کا موقع دینے کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔
ملک میں بھڑکتی چلی
جانے والی اس آگ پر قابو پانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کوئی انسان جو اپنے گھر کو
شعلوں کی نذر ہوتا دیکھے خاموش بیٹھا نہیں رہ سکتا، کم از دُہائی ضرور دیتا ہے۔
مسلمان بالاَولیٰ اس پر لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ عالمی استعمار جس کا افغانستان میں
پورا زور لگ چکا ہے، ان شاء اللہ ناکام ہونے والا ہے۔ ہمارے جذبوں کو غلط رخ دینا
اور ہمیں اپنی بپتا ڈلوا دینا دراصل اس کی جانب سے خطے میں اپنی بقا کے حق میں
ہاتھ پیر مارنے کی ایک کوشش ہے۔ وہ ہمارا ازلی وابدی دشمن ہے، دوست بھی ہوتا تو ہم
اس کے منصوبے سرے لگانے کی خاطر اپنا گھر جلانے کے روادار نہ ہوتے!
(اداریہ ایقاظ،
اکتوبر 2012)