إنَّ
اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إلَى أَهْلِهَا وَإِذَا
حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إنَّ اللَّهَ نِعِمَّا
يَعِظُكُمْ بِهِ إنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء: 58)
اللہ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت
والوں کی امانتیں انہیں پہنچا ؤ۔ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے
فیصلہ کرو۔ یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کررہا ہے۔ بےشک
اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔
ابن تیمیہ اس آیت کو اپنے بیان
کردہ قاعدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ سورۃ النساء کا یہ مقام اسلام کے
’’آئینی امور‘‘ سے متعلق پورے ایک مضمون کا آغاز ہے۔ دوسرا اس لیے کہ ’’سماجی حقوق و
فرائض‘‘کو ’’امانتیں‘‘ قرار دے کر ان کو اللہ کے حکم نامے میں درج کرنے، اور
’’عدل‘‘ سے ان کا رشتہ جوڑنے، نیز اللہ کے ’’سننے اور دیکھنے‘‘ سے ان کا رشتہ قائم
کرنے کے حوالے سے یہ آیت بنیاد ہے۔ امام قرطبیؒ کہتے ہیں:
هَذِهِ الْآيَةُ مِنْ أُمَّهَاتِ
الْأَحْكَامِ تَضَمَّنَتْ جَمِيعَ الدِّينِ وَالشَّرْعِ
یہ آیت امہات الاحکام میں سے ہے، اس میں دین اور شرع پورے
کا پورا آگیا ہے۔
اس کی تفسیر میں مفسرین نے
زیادہ تر امراء کی ذمہ داریاں بحقِ رعایا اور رعایا کی ذمہ داریاں بحق امراء بیان
کی ہیں، تاہم اس کی وسعت کا اندازہ اس سے کریں کہ قرطبیؒ حضراتِ براء بن عازب، ابن
مسعود، ابن عباس اور اُبی بن کعب سے یہ تفسیر لاتے ہیں کہ یہ عام ہے ہر امانت
کو ادا کرنے میں خواہ اس کا تعلق وضوء سے ہو، نماز سے ہو، زکواۃ سے، جنابت سے،
روزہ، ماپ، تول اور لوگوں کو ادا کرنے والی اشیاء ایسے کسی معاملہ سے۔ ابن کثیرؒ
حضرت اُبی بن کعب سے یہ قول بھی لے کر آتے
ہیں: کہ عورت کو اپنی شرمگاہ کو خاص اپنے خاوند کےلیے جس طرح سنبھالنا
ہے، وہ بھی اس ’’امانت‘‘ میں آتا ہے۔
’’ہمارا دستور‘‘ اِسی اسلوب میں
بیان کیا جاتا ہے! ایک ہی جگہ پر خدا کی صفات کا بیان، وہیں پر ماپ
تول اور عہد پورا کرنے کے مسئلے، وہیں پر شرمگاہوں کی حفاظت کا درج ہونا، وہیں پر
جہاد اور رسول کی اطاعت۔ ’’دستور‘‘ کے بیان کا یہ اسلوب بھی شاید ہمیں بحال کرانا
ہے!
لفظ ’’امانت‘‘ کے حوالے سے قرآن
میں ایک اور مشہور آیت ہے۔ ’’خلافت‘‘ وغیرہ کے باب میں مؤلفین اس آیت کا بھی بکثرت
ذکر کرتے ہیں:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا
الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب: 72)
بےشک ہم نے امانت کی پیش کش کی آسمانوں کو، زمین کو اور
پہاڑوں کو، تو وہ اس کو اٹھانے سے انکار کرگئے، اور اس سے سہم گئے۔ اور انسان نے
اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظلم کرنے والا بڑا جہالت والا ہے۔
اِس کی تفسیر میں ابن عباسؓ اور
سعید بن جبیرؒ ودیگر سلف کہتے ہیں: یہاں امانت سے مراد ہے ’’فرائض اور ذمہ
داریاں‘‘۔ ابن جریر طبریؒ بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں؛ کیونکہ دیگر تفاسیر اِسی میں
فٹ ہوجاتی ہیں۔ ’’مکلف‘‘ ہونا، ’’ذمہ داری‘‘ اٹھانا انسان کے ساتھ خاص ہے، دیگر
مخلوقات کا خدا کی ’ڈیوٹی‘ کرنا بالکل اور انداز کا ہے۔ ’’امانت‘‘ کے اندر
’’آزمائش‘‘ کا ایک معنیٰ ہے۔ اس میں ایک طرح کا ’’اختیار‘‘ ہوتا ہے، البتہ یہ مطلق
اختیار نہیں بلکہ یہ وہ اختیار ہے جس میں ایک’’جوابدہی‘‘ ہے اور اس کی بنیاد پر باقاعدہ
جزاء و سزاء ہے۔ پس یہاں سے وہ پورا تصور آگیا جو کرۂ ارض پر بنی آدم کے کردار،
غایت اور انجام نیز اس کی سرگرمی کی طبیعت اور نوعیت کا تعین کرے، اور جوکہ بنی
آدم کی اس جانشینی کو جو ’’إنِّی جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیفَۃً‘‘ میں بیان ہوئی، خوب اُجلا کردیتا ہے۔ سورۃ الاحزاب کی
اِس آیت میں ’’ذمہ داری‘‘ اور ’’اختیار جس میں جوابدہی ہو اور جس پر جزاء وسزا
ہو‘‘ (الۡأمَانَۃ) نسبتاً ایک زیادہ عمومی سیاق رکھتا ہے۔ جبکہ
سورۃ النساء کی آیت میں جو اس سے پہلے گزری، (الۡأمَانَات) کا سیاق اُن ’’ذمہ داریوں‘‘ اور ’’اختیارات‘‘ سے زیادہ
متعلقہ نظر آتا ہے جو جماعت (سوسائٹی) کے آپس ہیں۔ چنانچہ ابن تیمیہؒ نے اسی پر
اپنے پورے مقالہ کی بِنا اٹھائی۔
یہ چیز جو قرآن مجید میں
’’امانت‘‘ یا ’’امانات‘‘ کے نام سے ذکر ہوئی، جدید جاہلیت کے مقابلے پر دو پہلوؤں
سے ہماری توجہ چاہتی ہے:
1.
پہلی
یہ کہ یہ ’’جوابدہی‘‘ ہے۔ یوم الدین۔ بادشاہِ کائنات کے دربار میں زمین کے سب
وسائل، مواقع، قوتوں، صلاحیتوں اور اختیارات
کے معاملہ میں حساب کتاب کےلیے پیش ہونا۔ یعنی یہ کوئی آزاد (لبرل) مخلوق
نہیں، بلکہ اس کو ایک ایسی جوابدہی کا بار اٹھوا رکھا گیا ہے جس کے تصور سے
آسمان، زمین اور پہاڑ کانپ گئے تھے۔ مزید برآں، بادشاہِ عادل کے ہاں جوابدہی اُس
وقت تک ناقابلِ تصور ہے جب تک وہ رعایا پر اپنے احکام
اور قوانین واضح نہ کرچکا ہو۔ یہاں سے اِس
جوابدہی کی بنیاد رسالت ہوگئی (برخلافِ معتزلہ، جو جوابدہی کی بنیاد عقل کو مانتے
ہیں)۔ ’’رسالت‘‘ کے سوا ’’قانون‘‘ کا کوئی سرچشمہ نہیں۔ جوابدہی ہوگی تو صرف اس بنیاد پر: قرآن مجید میں متعدد
مقامات پر کافروں کے دوزخ میں داخل ہونے کا منظر دکھایا
گیا ہے جہاں داروغے ان کو صرف ایک بات پوچھتے ہیں: ’’کیا خدا کے بھیجے ہوئے تمہارے
پاس نہ آئے تھے‘‘؟ پس ’’رسالت‘‘ ہی ’’قانون‘‘ ہے۔ ’’بادشاہ‘‘
ایک رسالت کا نسخ کرکے دوسری رسالت لے آئے تو جانتے بوجھتے ہوئے پرانی رسالت (یعنی خود
اُسی کے دربار سے صادر ہونے والے مگر اب منسوخ قانون) پر چلنے والے بھی اُس کے ہاں پکڑے جانے والے
ہیں (کجا یہ کہ قانون صادر کرنے والا ’’دربار‘‘ ہی وہ زمین پر لےآئیں اور عرش کو
اپنے یہاں سے فارغ خطی دے دیں! اس سے بڑا کفر زمانے میں کبھی نہ ہوا ہوگا)۔ پس
یہ ’’امانت‘‘ بیک وقت دو پہلو سے ہوئی: ایک خدا کے آگے جوابدہی۔ دوسرا، سب وسائل
اور اختیارات میں ’’خدا کے نازل کردہ‘‘ کے مطابق تصرف کرنا۔ ’’امانت‘‘ کا مطلب ہی
یہ ہے کہ آدمی بظاہر ایک چیز کا مالک ہو
مگر درحقیقت وہ کسی اور کی ہو جسے وہ کسی وقت واپس لے لینے والا ہو: وہ ’’انجام‘‘ سے غافل ہو تو اس
(امانت) کے معاملہ میں جیسے مرضی گلچھرے اڑائے لیکن
’’انجام‘‘ سے آگاہ ہو تو اس میں اپنا اختیار معدوم جانے۔ پس نعمتوں، آسائشوں،
وسائل اور اختیارات سے لدی ہوئی اِس زمین کو، جوکہ درحقیقت ایک پھندا ہے، کافر
کی نظر سے دیکھیں تو اس پر سب سے زیادہ جچنے والا لفظ ’’لبرلزم‘‘ ہوگا (ہمارا
اندازہ ہے کافر خدا کی زمین پر اپنے تصرف کےلیے اِس سے زیادہ صریح اور
برہنہ لفظ شاید کبھی نہ لاسکے گا)۔
جبکہ وسائل، امکانات اور اختیارات سے لدی ہوئی اِس دنیا کو مومن کی نظر سے
دیکھیں تو اس کےلیے ’’امانت‘‘ سے بڑھ کر کوئی لفظ مناسب نہ ہوگا۔ پھر کیوں نہ ہوتا
کہ اسے سن کر آسمان اور زمین اور پہاڑ کانپ اٹھتے؛ البتہ انسان کی ہمت کہ اس نے
آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیا! إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا
جَهُولًا... لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ
وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔ یہ
وجہ ہے کہ ’’خلافت‘‘ جوکہ زمین کے وسائل اور اختیارات سے بحث کرنے والا ایک مضمو ن
ہے، کو ہمارے بہت سے علماء نے اِسی ’’امانت‘‘ کے تحت لاکر بیان کیا ہے۔
2.
دوسری
بات یہ کہ: وہ اشیاء جن کو ہم آج کی
مستعمل زبان میں سماجی رشتے، باہمی حقوق و
فرائض، آئینی اختیارات اور قانونی حیثیتیں کہتے ہیں وہ کوئی ’سوشل
کونٹریکٹ‘ نہیں۔ یعنی وہ اپنی
’’پابند کن حیثیت‘‘ binding status اِس نقطہ سے نہیں لیتے کہ یہ اشیاء انسانوں نے آپس میں طے کرلی ہیں،
بلکہ وہ اپنی یہ ’’پابندکن حیثیت‘‘ اِس نقطہ سے لیتے ہیں کہ یہ خدا کے مقرر ٹھہرائے ہوئے شرعی
حقوق و واجبات اور اُس کے بخشے ہوئے
اختیارات ہیں۔ یعنی ’’الأمانات‘‘۔ بلاشبہ خدا نے ایک دائرہ اپنے بندوں کےلیے بھی رکھ
چھوڑا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنی آسودگی کو دیکھ کر حقوق، فرائض، معاملات اور اختیارات کو آپس
میں طے کریں، لیکن اس دائرہ کو بھی ایک تو اس بنیاد پر لینا ہوگا کہ یہ شریعت کا
دیا ہوا دائرہ ہے نہ کہ کوئی مطلق دائرہ (’’لبرلزم‘‘ ہر معنیٰ میں کفر ہے اور
ہرحال میں واجبِ جنگ)۔ دوسرا، مسلسل یہ
نظر رکھی جائے گی کہ معاملہ کہیں شریعت کی حدوں سے نکل تو نہیں رہا: الْمُسْلِمُونَ
عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، وَأحَلَّ حَرَاماً۔
ہر دو مبحث کو آئندہ تعلیقات
میں کھولا جائے گا، ان شاء اللہ