اہل سنت کا ’’ایمان‘‘ نہ کہ معتزلہ کا! (بسلسلہ خلافت و ملوکیت
|
:عنوان |
|
|
عند النزاع اپنی بات سےدستبردار ہوکر اللہ و رسول کےفیصلےپر آنا، اصل تصدیق یہ ہے۔ شریعت سے اپنی بات کی تصدیق کروانا کیاایمان ہوا۔یہ تو معتزلہ کاایمان ہوا کہ اصل فیصلہ عقل کا ہے شریعت سےمحض اسکی تائید کرائی جائےگی |
|
|
تاویل کا مطلب ہے ایک بات کو معنیٰ پہنانا یا ایک معاملے کو انجام کو
پہنچانا۔ یہاں پر مفسرین نے اس کا مطلب ’’حسنِ عاقبت‘‘ اور ’’خوبیِ انجام‘‘ بھی
کیا ہے اور ’’صحیح موقف پر پہنچنا‘‘ اور ’’بات کو صحیح کروٹ بٹھانا‘‘ بھی۔
امام ابن جریر طبریؒ نے وَاَحۡسَنُ تَأوِیلاً کی ایک تفسیر ایک تبع تابعی مفسر عبد الرحمٰن بن
زید بن اسلمؒ کے حوالے سے’’تصدیق کرنا‘‘ بھی کی ہے؛ اور جوکہ ایک نہایت عمدہ تفسیر
ہے۔ اِس کی وضاحت یوں ہے کہ تأویل باب تفعیل ہے آلَ یؤولُ سے، جس کا مطلب ہوتا ہے معاملے کا ایک صورت سے
چل کر دوسری صورت پر جا پہنچنا (اِسی سے مآل
کا لفظ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے)۔ چنانچہ متنازع فریقوں کا اپنی اپنی بات
چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی بات پر آجانا اور اپنی اپنی رائے کو اللہ اور رسول
کے قول پر لے آنا ’’اَحۡسَنُ تأوِیلاً‘‘ کہلائے گا۔ اور
یہ تصدیق کی اعلیٰ ترین حالت ہے کہ عند النزاع آدمی اپنی بات سے دستبردار ہوکر
اللہ اور رسول کے فیصلے پر آجائے۔بلکہ اصل تصدیق ہی یہ ہے؛ شریعت سے اپنی بات کی
تصدیق کروانا کیا ایمان ہوا؛ ایمان یہ ہے کہ ہر فریق اپنی بات چھوڑ کر کتاب اللہ
پر آجائے اور کتاب اللہ کے ایک ایک لفظ تو کیا ایک ایک اشارے کو اپنے اور پورے
جہانِ انسانی کے حق میں فیصل اور حَکَم مانے۔
یہ تو معتزلہ کا ایمان ہوا کہ
اصل فیصلہ عقل کا ہے، شریعت سے محض اس کی تائید کرائی جائے گی اور جہاں شریعت اس
کی تائید کرنے پر ’بظاہر‘ آمادہ نہ ہو تو شریعت کے الفاظ کو ان کے اُس ’’ظاہر‘‘ سے
پھیر دیا جائے گا؛ اِسی چیز کا نام متاخرین کی اصطلاح میں ’’تاویل‘‘ ہے۔ یعنی ’’اصل‘‘ تو مانا ’’انسانی دانائی‘‘ کو ہی،
البتہ شریعت کو ’’اس کے مطابق‘‘ ثابت کرتے چلے گئے؛ اور یہ ہوا ’’شریعت سے
استدلال‘‘!
معتزلہ چونکہ ایک ’’دیندار‘‘
زمانے میں تھے لہٰذا ان کا رخ اپنے اس منہج کے حوالے سے ’الٰہیات‘ کی طرف رہا۔
دورِحاضر کے اعتزالی رجحانات نے چونکہ بےدینی کے زمانے میں آنکھ کھولی؛ لہٰذا ان
کا رخ زیادہ ’الٰہیات‘ کی بجائے ’انسانیات‘ کی طرف رہا۔ مگر مبدأ principle وہی کہ تحسین و تقبیح ’’عقلی‘‘ ہوتی ہے شریعت کو محض اس کی ’تائید‘
کرنی ہوتی ہے؛ اور تیور یہ کہ شریعت بھلا کیسے ’تائید‘
نہیں کرے گی؛ آپ تو قرآن کو غور سے پڑھتے ہی نہیں ہیں ورنہ اس کا تو ہر لفظ بول
بول کر ’انسانی‘ تحسین و تقبیح کی تائید ہی کررہا ہے! اِن(جدید معتزلہ) کا رخ چونکہ ’مابعد الطبیعیات‘ کی بجائے
’سماجیات‘ کی طرف زیادہ ہے لہٰذا اِس تحسین و تقبیحِ عقلی کی اصل تان ’’معروف و منکر‘‘ کے مسئلہ پر
ٹوٹتی ہے۔ ان کے بقول ’’معروف‘‘ وہ ہے جو لوگوں کے ہاں معروف ہو۔ اور ’’منکر‘‘ وہ
ہے جسے لوگ منکر جانیں؛ یوں قرآن کا ایک بہت بڑا مبحث بابت امر بالمعروف و نہی عن
المنکر اِسی ہیومن اسٹ اصول ’’رُدُّوہُ
إِلَى الۡإنۡسَان‘‘ میں پورا ہوا!)
|
|
|
|
|
|