[i] یہ وہ
قوی ترین عبارت ہے جو موجودہ دور کے بعض دساتیر سے ’’اسلام‘‘ کے حق میں پیش کی
جاتی ہے: (کتاب وسنت کی ’تعلیمات‘ کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے گا)۔ ابھی ہم
ان چوردروازوں کی بات نہیں کریں گے جو اِن دستوری ابواب ہی کے اندر باقاعدہ
’’نصوص‘‘ کی صورت رکھے گئے ہیں؛ اور جس کے بعد خود اِس عبارت کی بھی کوئی خاص
حیثیت نہیں رہ جاتی (ورنہ ’’آئین‘‘ کی خلاف ورزی کوئی ایسی چیز نہیں جس کو آپ اس
ملک کی عدالت میں چیلنج ہی نہ کرسکیں؛ مسئلہ خود آئین ہی کے کسی سقم کا ہوتا ہے،
اور جس کو ہم نے ’چوردروازے‘ کہا ہے، اور جس کے باعث وہ چیز ایک ’واضح آئینی خلاف
ورزی‘ کے زمرے میں ہی نہیں آتی؛ بلکہ
آئینی ماہرین کے ہاں اُس کی ہزارہا توجیہات ہونے کا امکان ہوتا ہے؛ جس کے باعث آپ
کو ’سپریم کورٹ‘ سے اس مسئلہ پر کچھ ملنے کی توقع نہیں ہوتی؛ اور یہ ابہام آئین
سازوں کا باقاعدہ مقصود ہوتا ہے؛ ورنہ اگر خود آئین ہی کے اندر یہ چوردروازے نہ
ہوں تو ایسا بہرحال نہیں کہ ایک ’آئینی ریاست‘ میں ’آئین کی ایک واضح خلاف ورزی‘
کوئی ایسی ہی مبہم اور ناقابلِ چیلنج رہے)۔ البتہ ہم یہاں ان چوردروازوں کی بھی
بات نہیں کررہے؛ جن کے ہوتے ہوئے اصولاً ایسی کسی دفعہ کو زیربحث لانا وقت کا ضیاع
ہے۔ ہم اِس ’مفروضے‘ کو لیتے ہوئے کہ ’آپ کے یہاں کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف
کوئی قانون نہیں بنے گا‘ عقیدۂ اسلام کا یہ مبحث بیان کرنا چاہیں گے کہ ’’آئینِ اسلام‘‘
اِس چیز کا نام بہرحال نہیں ہے۔ ’’اتَّبِعُوۡا مَا اُنۡزِلَ إلَیۡکُم مِّن رَّبِّکُمۡ‘‘ اِس
کو نہیں کہیں گے۔ ’’اسلام‘‘ اور ’’اتباع‘‘ یہ ہے کہ آپ ہدایت ہی اُس چیز میں تلاش کریں جو آسمان سے
اتری ہے اور جوکہ کلماتِ خداوندی ہیں اور احادیثِ رسولِ خداوندی۔ خود اسی ’’آسمان سے اتری ہوئی چیز‘‘ کو
وہ ٹیکسٹ ماننا ہوگا جس کے
ایک ایک لفظ سے آپ ’’استدلال‘‘ اور ’’استنباط‘‘ کے پابند ہوں گے اور پھر اسی سے جو چیز ’’نکل‘‘ کر آئے
اُس کے ’’پیچھے چلنا‘‘
ہوگا۔ المختصر... اِن دو باتوں میں بہت فرق ہے:
1.
ایک ہے ’’حکمِ خداوندی کے خلاف
نہ چلنا‘‘ (وہ بھی اگر کوئی چوردوازہ نہ رکھا گیا ہو، جوکہ ایک مفروضہ ہے؛ یہاں تو
بڑے بڑے پھاٹک ہیں، جوکہ ہر کس و ناکس کو معلوم ہے)
2.
اوردوسرا ہے ’’حکم خداوندی
کے پیچھےچلنا اور اس کے ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک اشارے سے احکام اخذ کرنااور ان
کو اپنے لیے مطلق لائقِ اطاعت جاننا‘‘۔
ثانی الذکر کا نام ’’ایمان‘‘ ہے۔ ’’اتباع‘‘ ہے۔ ’’اطاعت‘‘
ہے۔ ہم چود سو سال سے اس کو اپنے ایک
باقاعدہ آئین کے طور پر جانتے ہیں۔ آسمانی ہدایت کے بالمقابل یہ انسانی رویہ ہمارے شرعی مصادر میں جگہ جگہ سراہا گیا ہے۔
البتہ اول الذکر ہمارے لیے ایک نامانوس چیز ہے، نہ ہماری تاریخ اس سے واقف، نہ
ہماری شریعت میں اس کا کوئی بیان اور نہ ہمارے راشدین سے ایسی کوئی چیز ماثور۔
راشدین جو سیدھا سیدھا قرآن مجید سے ’’اخذِ مسائل‘‘ کرتے تھے۔ ’قانون سازی‘ کا لفظ
ہی یا اس کا کوئی مترادف ہی کوئی ہمیں خلفائے راشدین سے لا کر دکھا دے۔ ایک چیز
اپنے پورے پس منظر کے ساتھ خود بتاتی ہے کہ وہ آپ کے یہاں ’کہاں‘ سے آئی ہے۔
إِنَّمَا
كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ
بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ
الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ
وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (النور: 51، 52)
مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں
کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد
کو پہنچے۔ اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری
کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔