Hamid Kamaluddin
Eeqaz
اِس اعلانِ ’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ سے اگلے لمحے جس طرح ایک ’’نیا فرد‘‘ وجود میں آتا ہے عین اُسی طرح ایک ’’نئی اجتماعیت‘‘ جنم لے اٹھتی ہے
تعلیق 2 [1] (بسلسلہ: خلافت و ملوکیت، از ابن تیمیہ)
اسلام کا مختصر تعارف
لَا إِســـــــــــــــــــــــــــــــــلَامَ إِلَّا بِجَمَــــــــــــــــــــاعَةٍ[2]
ہمارے دین کا نام اور عنوان ہی ’’اسلام‘‘ ہے: یعنی خودسپردگی اور تابع فرمانی، کسی ہستی کا ہوجانا، اور اُس کے اختیار کے آگے اپنا اختیار ختم کرلینا۔
یہ ’’ہستی‘‘ خدا کی ذات ہے، تاہم چونکہ خدا کی شان یہ نہیں ہے کہ اِس دنیا میں وہ ایک ایک انسان سے ہم کلام ہو، لہٰذا وہ اپنے ایک برگزیدہ ترین اور فہمیدہ ترین بندے کوچن کر اس کو اپنا کلام اور اپنی براہ راست راہنمائی اِلقاء کرتا ہے، اور پھر اپنے اُس برگزیدہ بندے کی رسالت پر لاتعداد دلائل اور بینات کھڑے کرکے انسانوں کے مابین اس کو اپنے نمائندے کے طور پر پیش کرتا؛ اور اُس کی ’’مطلق‘‘ اطاعت کا مطالبہ رکھتا ہے۔
یہاں سے؛ خدا کے آگے وہ ’’خودسپردگی‘‘ اور ’’تابع فرمانی‘‘ جوکہ سراسر ’’اسلام‘‘ اور ’’عبادت‘‘ ہے اور جس کےلیے انسان پیدا ہوا، سب کی سب اِس چیز سے متعلقہ ہوجاتی ہے کہ خدا کا وہ ’’کلام‘‘ ہی اور خدا کی وہ ’’براہِ راست راہنمائی‘‘ ہی جو ’’رسول‘‘ کے ذریعے آدمی کو دستیاب ہوتی ہے اِس آدمی کی زندگی کا آئین ہوجائے؛ اس کے جملہ اعمال، احوال، مناسک، معاملات، رشتے ناطے اور اس کی انفرادی وسماجی حیثیتیں سب اس آئین کی روشنی میں طے ہوں؛ اور وہ آئین اس کی زندگی میں باقاعدہ بولے؛ اس کو روکے اور ٹوکے؛ اور اس کےلیے درست ونادرست اور روا و ناروا کا تعین کرے۔
اس لحاظ سے دینِ اسلام دنیا کے کسی بھی ’مذہب‘ یا ’دھرم‘ پر قیاس ہونے والی چیز نہیں۔ یہ قلب کی ایک خاص حالت اور زندگی کے ایک خاص دستور کا نام ہے؛ اور اِن ہردو پہلو سے ’’آسمانی شریعت‘‘ کی روشنی میں ’’خدارُخ‘‘ ہوجانے سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ خود لفظ ’’دین‘‘ کے معانی میں سے ایک معنیٰ ’’قلب کا کسی ہستی کے آگے ذلت اختیار کرلینا‘‘ اور ایک دوسرا معنیٰ ’’زندگی کا ایک باقاعدہ آئین ودستور رکھنا‘‘ ہے۔
پس ہر وہ آدمی جو اپنا دین ’’اسلام‘‘ بتاتا ہے اور اپنے آپ کو ’’مسلم‘‘ اعلان کرتا ہےوہ دنیا کے ہر ’مذہب‘ اور ہر ’دھرم‘ کے پیروکار سے مختلف ایک انسان ہے اور اس منفرد روش پر ہے جو ’’خالق اور مخلوق کے درست تعلق‘‘ کی نشاندہی رکھنے والےانسانوں کے ہاں زمین پر روزِ ازل سے چلا آیا ہےاور خاص آسمان سے نازل ہونے والی مستند راہنمائی کی روشنی میں متشکل ہوتا رہا ہے۔
پس اس سے پہلے کہ اسلام کوئی ’اعمال‘ کا مجموعہ ہو، یا کوئی ’ضابطۂ اخلاق‘ ہو یا کوئی ’سماجی نظام‘ ہو... اسلام ایک ’’عہد‘‘ کا نام ہے، قلب کے ’’اسیر‘‘ ہونے اور زندگی میں ایک ’’آئین‘‘ رکھنے کا نام ہے: ’’عہد‘‘ خدا کی بندگی کا، ’’اسیر‘‘ خدا کی تعظیم اور عبادت کا، اور ’’آئین‘‘ خدا کے اختیار کو تسلیم کرنے اور اس کے غیر کے ہر اختیار کو ناتسلیم کرنے کا؛ بذریعہ رسول کا لایا ہوا کلام اور ہدایت۔
البتہ چونکہ ’’خدا کے اختیار کو تسلیم کرنا اور غیرخدا کے اختیار کو ناتسلیم کرنا‘‘، بیک وقت، ماحول میں تبدیلی کا ایک اعلان بھی ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی کے ایک باطل ڈھب کو مسترد کرکے اس کی جگہ پر آسمانی راہنمائی پہ قائم ایک سراسر مختلف نقشہ بھی سامنے لاتا ہے؛ لہٰذا اِس اعلانِ ’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ سے اگلے لمحے جس طرح ایک ’’نیا فرد‘‘ وجود میں آتا ہے عین اُسی طرح ایک ’’نئی اجتماعیت‘‘ جنم لے اٹھتی ہے۔ ایسا ’’فرد‘‘ غیرمتصور ہے جب تک اس سے یہ ’’اجتماعیت‘‘ ظہور نہ کرے۔ ایسی ’’اجتماعیت‘‘ غیرمتصور ہے جب تک وہ ایسے ’’فرد‘‘ پر کھڑی نہ ہو۔
پس اس لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے پیداکردہ ’’فرد‘‘ کا اجتماعی ظہور ہی ’’جماعت‘‘ کہلاتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں ’’تارکِ دین‘‘ ہونے پر جیسی وعید ہے ویسی ہی وعید ’’مفارقِ جماعت‘‘ ہونے پر ہے؛ بلکہ اہل علم کا کہنا ہے یہ ایک ہی جرم اور ایک ہی وعید ہے، صرف اس کو بیان دو جہتوں سے کردیا گیا ہے۔[3] یہاں سے سلف کے ہاں یہ مقولہ رائج ہو گیا: لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ[4] ’’اسلام کا کوئی تصور نہیں بغیر ایک جماعت (اکٹھ) بننے کے، جبکہ جماعت کا کوئی تصور نہیں بغیر ایک امیر کے، اور امارت کا کوئی تصور نہیں بغیر اطاعت کے‘‘۔ دراصل اسلام کا اپنے آئین پر قائم ایک ’’انسانی وحدت‘‘ (’’جماعت‘‘) رکھنا دین کی ایک ایسی بنیادی حقیقت ہے جس کو اگر آپ نظرانداز کرتے ہیں تو دین کے بہت سے ابواب اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔ بلکہ وہ ابواب بھی جو بظاہر سمجھ آتے ہیں، اپنے مفہوم میں مبہم اور اسلام کی پوری تصویر کے لحاظ سے غیرمتعلقہ رہتے ہیں۔ ’’اولی الامر‘‘ کا ذکر جو سورۃ نساء کی اس آیت میں آرہا ہے دراصل ’’جماعت‘‘ کے اس مفہوم کو اجاگر کرتا ہے جس کے بغیر ’’اسلام‘‘ واقعتاً اعمال کے ایک بےجان مجموعہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں رہ جاتا۔
[1] ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ 2
[2] حضرتعمر سے منسوب قول۔ الفاظ کی حد تک اِس میں سند کا ضعف پایا جا سکتا ہے۔ تاہم شریعت کی عمومی نصوص اور امہات الحقائق کی دلالت یہی ہے، اور اسی پر سلف تا خلف علمائے اہل سنت کا اتفاق، کہ ’’اسلام‘‘ ایسی عظیم الشان حقیقت بغیر ایک مضبوط ’’اجتماع‘‘ اور ’’وحدت‘‘ اور ’’جتھہ بندی‘‘ کے، زمینی عمل کے حق میں ایک غیرموثر و ناتمام چیز ہے۔
[3] عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ ‘‘ (صحیح مسلم، رقم 1667) ’’عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دینے والے ایک مسلمان کے خون کی حرمت ساقط نہیں ہوتی مگر تین میں سے کسی ایک چیز کے بموجب: شادی شدہ زانی، جان کے بدلے جان، اور اپنے دین کا تارک جماعت کا مفارق‘‘۔ (تارکِ دین اور مفارقِ جماعت ہونے سے مراد ایک ہے یعنی مرتد ہونا)
[4] جامع بیان العلم وفضلہٖ، مؤلفہ ابن عبدالبر، باب جامع فی فضل العلم، ج 1 ص 263 ۔ یہ قول حضرت عمر سے منسوب ہے جو آپؓ نے صحابہ کے بھرے مجمعے کے اندر اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا تھا۔ بعدازاں سلف تا خلف ایک مقولے کے طور پر رائج رہا۔ معنیٰ کے لحاظ سے خود احادیث ہی سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ’’الجماعۃ‘‘ کے موضوع پر احادیث ایک الگ تعلیق میں (آئندہ شمارہ)۔