’’جماعت‘‘ کا اسلامی تصور... اور’’ہیومنسٹ‘‘ جاہلیت
|
:عنوان |
|
|
جماعت (سوسائٹی)جو "ہدایت" سےتشکیل پائےشریعتوں اور نبوتوں کا اصل محور ہے۔ اگر آپ غور فرمائیں تو قرآن کا پورا خطاب کسی"فرد"سے نہیں ہے۔ قرآن کا خطاب اول تا آخر ایک"جماعت"کی تشکیل کرتا اور"جماعت"سےہم کلام ہوتا ہے |
|
|
چنانچہ ’’فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ‘‘ اِن چار لفظوں پر مبنی بنیادی اسلامی دستور کو بیان کردینے کے بعد ایک بات یہ فرمائی کہ: ’’إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ
بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‘‘ تاکہ اس آئین کی دنیوی و
اخروی جہتیں واضح ہوجائیں اور اس کا دائرہ
زمین کے اِس چھوٹے سے کرے سے نکل کر آفاق سے جڑ جائے اور ’’کائنات‘‘ میں رہنے کا استحقاق
اِس کائنات کے مالک کی شرطوں پر پورا ہو، بلکہ اپنے وجود ہی کی غایت پوری ہو؛ یعنی
ایمان۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ: ’’ذٰلِكَ خَیۡرٌ‘‘۔ یعنی خود تمہارے حق میں بھی یہی بہتر ہے۔ تمہاری تقویم اور سرشت کے لائق بھی صرف یہی
شیوہ ہے۔ تمہاری اپنی فلاح اور سعادت بھی یہی ہے۔ دفعِ فساد، رفعِ نزاع اور حصولِ
صلاح بھی عین اسی میں ہے۔
[أ] دیکھئے تعلیق 11 کا حاشیہ أ
[ب] دیکھئے اِس فصل کی
تعلیق 11
[ج] ہیومن ازم کی بابت مزید جاننے کےلیے دیکھئے
ہمارا پمفلٹ ’’فتنہ ہیومن ازم‘‘۔
|
|
|
|
|
|