پاسِ وفا
تقی الدین منصور
بنگلہ دیش میں مسجدوں میں بوٹوں سمیت گھس نمازیوں کو پکڑ پکڑ کر ذبح کیا گیا۔ ایک نہیں،
دو نہیں ،ایسی مساجد شمار سے باہر ہیں جہاں یوں قتلِ عام ہوا ہے۔ مسجدوں کے ساتھ
موجود مدرسوں میں گھس کر قرآنِ مجید کے
طالبِ علموں کو گولیوں سے بھونا گیا۔ پھر اس پر
بھی ان خون آشام درندوں کی ہوس
تمام نہ ہوئی تو بازاروں میں اسلام
پسندوں کی دکانوں کو آگ دکھا ئی گئ تاکہ ان کے بچوں کے منہ سے نوالے تک چھین لیے
جائیں۔جب پھر بھی آتشِ انتقام نہ بجھی تو
بے وردی کے لبرل غنڈوں کو ہتھیار تھما کر ان کے آشیانوں کو پُھونک دیا۔ سرپر سے چھت چھین کر موسموں کی تلخیوں کے سپرد
کردیا۔ گھروں ، بازاروں ، مسجدوں اور
مدرسوں میں جسم گھائل ہوتے رہے، خون بہتا رہا، سسکیاں ابھرتی رہیں اور ان
کی غرّاہٹیں گونجتی رہیں۔
یہ کوئی نیا کھیل ہے؟ نئی داستان ہے؟ نیا فسانہ ہے؟ نہیں!!یہ
پرانا کھیل ہے، بہت پرانی داستان ہے، دہرایا گیا افسانہ ہے۔یہ اجڑی ، ویران
اور خدا اور اس کے رسولوں کی شریعتوں کی نافرمان قوموں کے فرعونوں کے تکبر کی بازگشت
ہے:
قَالَ
الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِيَ آمَنتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (الاعراف:76)
(یہ سن کر) متکبر مزاج بڑے
کہنے لگے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے کافر و منکر ہیں۔
رزق کے سَوتے ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ چین کی نیند ہمارے اختیار میں ہے۔ ہمارا انکار
ایک مطلب رکھتا ہے۔ ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک
اسی انکار سے داڑھیاں لہو سے تر بتر ، گھر سوختہ اور خواب شکستہ ہیں۔ اگر ہم اسے ماننے والے نہیں جس پر
تمہارا ایمان ہے تو پھر پھانسی کے پھندے
تمہارے انتظار میں ہیں۔ جھوٹے مقدّمے، جھوٹی پیشیاں، جھوٹے وکیل اور جھوٹے منصف۔
دروغ کا کاروبار ہے۔ دروغ کی کمائی ہے۔ دھوکے کا گھر ہے اور دھوکے کی کمائی ہے !
سچ کا مقدمہ ہے۔ سچ کی گواہی ہے۔ سچ کے وکیل ہیں ۔ سچ
کی کمائی ہے ۔پھانسی کے پھندے پر سچ جھول گیا
ہے۔ ملاّعبدالقادر کا سچ۔
نامعلوموں اور گمناہوں کا سچ۔ کھیت ہوئے
جوانوں کا سچ۔ لا الٰہ کے نام لیواؤں کا سچ۔
مِنَ
الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ (الاحزاب:23)
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ ہیں
جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے
داڑھی منڈے،
غنڈہ گرد اور کمینہ صفت سیکولر۔۔۔۔
نہ سفید داڑھی کا خیال ، نہ دریدہ
چادر کا پاس۔۔۔۔۔ اسلحہ بردار اور ظالم
سرکار کے پشتیبان ۔۔۔۔چاہیں تو دکانوں کو آگ لگائیں، چاہیں تو گھروں پر بلوہ
بولیں، چاہیں تو داڑھی والے مزدوروں تک کو نہ بخشیں!
یہاں کسی کو انتہاپسند، غیر ریاستی عناصر، ماورائے
عدالت قتل اور راج دُلارے انسانی حقوق کا خیال نہیں آتا۔ ''تحقیقات جاری ہیں،
تحفظات ہیں"سے زیادہ نہ لکھنے کی توفیق ، نہ بولنے کی توفیق اور نہ عمل کی
توفیق ہو تی ہے۔ ڈھاکہ کی گلیوں میں ان غیر ریاستی سیکولر غنڈوں کے قتلِ عام پر نہ
تصویری البم ، نہ خصوصی ضمیمے،نہ قارئین کی آراء اور نہ تصویر پر شعری تبصرے شائع
کیے جاتے ہیں۔ یہ اخبار نہیں ہیں، یہ نیوز
ایجنسیاں نہیں ہیں، یہ ریڈیو اور ٹی وی
سروس نہیں ہے۔ یہ استعمار کے چابی والے بندر ہیں۔ بیس بیس ہزار روپے میں ایسے
سینکڑوں آجاتے ہیں۔ علی گڑھیے ، نوکر پیشہ، ٹاؤٹ ذہنیت، گرے پڑے، ضمیر فروش۔آلِ
جعفر، آلِ صادق۔ ظالم کے بھونپو اور امریکی، برطانوی، روسی اور چینی پراپیگنڈہ
مشین کے کل پرزے۔بھاڑے کے ٹٹو،بکاؤمال ، ابن الوقتیے اورچڑھتے سورج کے پجاری ۔
رہیں انسانی حقوق، اظہارِ رائے، باہمی برداشت ، جمہوریت اور آزادی کی باتیں
؟؟۔۔۔۔۔تو جھوٹے نعرے،طفل تسلیاں، کتابی
باتیں اور وقت گزاری!
یہ "سب وے پر پتلون کے بغیر دن "پر ننگی
عورتوں اور برہنہ مردوں کی تصویروں کوہائی
لائٹ دیں گےاور خونِ مسلم گرنے پر گونگے
شیطان بن جائیں گے بلکہ الٹا انہی مظلوموں
کو بے شرمی سے paranoidہونے کے طعنے بھی دیتے
ہیں۔امت کے لیے ان کے پاس ہےکیا۔۔۔۔ لاؤڈ اسپیکر کے طعنے۔ ان کے
پرکھوں کے پاس یہ طعنے نہیں تھے تو
انگریز سرکارکے خلاف جنگِ آزادی کو "غدر"کہتے تھے اور جنگِ آزادی کے جاں
بازوں کو "غادر"اور "مفسد"کی گالیوں سے نوازتے تھے۔ باپ پہ پوت پتا پہ گھوڑا۔۔۔بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔۔۔
مسجدوں ، مدرسوں میں بے
کفن نعشوں اور پھانسی کے پھندے پر جھولتے
عبدالقادروں کے لاشوں کا فسانہ وفاؤں کا فسانہ ہے۔عزیمتوں کی داستان ہے ۔محبتوں
کی کہانی ہے ۔ کنارِ نیل سے خلیجِ بنگال تک۔۔۔۔۔ قافلۂ عُشاقِ حوراں سیلِ رواں کی
طرح گامزن ہے۔ فصیلِ شہر شگاف شگاف ہونے کو ہے۔ امیرِ شہر غرقاب ہونے کو
ہے۔ ظلمتِ شب چاک چاک ہونے کو ہے!