روزہ… اور احساس
روزہ
رکھ کر بھوکے اور نادار مسلمانوں کااحساس ہوجانا بھی روزے کاایک مقصد
ہے۔ صدقہ دراصل اسی احساس کانتیجہ ہوتا ہے۔ مسکینوں کو کھلانا اس مہینے کاایک
بہترین عمل ہے۔ مساکین میں رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور محلہ داروں کا سب سے بڑھ کرحق
ہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ نیک اور اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہوں انکااور بھی بڑا
حق ہے۔ اگر کوئی نیکی میں کم ہے تب بھی آپ کے صدقہ و انفاق کے پیچھے اسے مسجد میں
لے آنے کا مقصد ، کوشش اور دعا ہونی چاہیے۔ کچھ بھی پکائیں اس کاکچھ حصہ غریب
پڑوسی یا پڑوسن کونکال کربھیج دیا کریں۔ کسی کو کچھ دیں تو عزت اور احترام سب سے
پہلے دیں۔ جو غریب کو کچھ بھی نہ دے سکتا ہو وہ محبت اور پیارتو دے سکتا ہے۔ یہ
نیکی بھی چھوٹی تو نہیں! مسلمان کا مسلمان کومسکرا کر ملنا بھی اللہ کے رسول نے
کہا ہے کہ صدقہ ہے۔
بڑی
بڑ ی افطاریاں عموما پیسے کی نمائش ہوتی ہیں۔دینی مواقع کو سیاسی اہمیت دے دینے کے
اس دور میں لوگ افرادی قوت دکھانے کابھی یہی موقع سمجھتے ہیں۔ ایک مالدار روزہ
کھلوانے کی نیکی کرنے پر آئے تو بھی مالداروں کونہیں بھولتا، یاد توبس غریب نہیں
رہتے۔ کھاتے پیتے آدمی کوافطار پربلانا کبھی بھول بھی جائے تو دس دس بار معذرت
ہوتی ہے،اس گناہ کا ’کفارہ‘ تک دیا جاتا ہے!جواب میں دوسرے مالدار صاحب بھی ان کے
ساتھ خوب نیکی کرتے، ہیں وہ بھی جب دعوت کریں گے تو انہی کو بلائیں گے! یوں مالدار
لوگ اپنا حساب عموماً برابر کرلیتے ہیں… خسار ے میں کوئی بھی نہیں رہتا!!!
ویسے کوئی غریب اگر قسمت کا مارا ایسی دعوت پر آبھی جائے تو شاید وہاں سے
بھوکااٹھ جانا زیادہ پسند کرے۔ الا ماشا اللہ۔
بھائیو
رمضان بھی اگر امیر اور غریب مسلمانوں میں قربت اور اپنائیت پیدا نہ کرسکا تو پھر
اس کاکب موقعہ ہے؟ ہمارا مطلب یہ نہیں کہ کھاتے پیتے عزیزوں اور دوستوں کوروزہ افطار
کروانے میں کوئی حرج ہے۔ مگرہماری بات کایہ مقصد ضرور ہے کہ اصل نیکی تو غریب
کاپیٹ بھرنا ہے۔اگر آپ یہ اصل کام کررہے ہوں توپھر کسی کو بھی کھلانے میں کوئی حرج
نہیں۔ مگر کیا آپ نے یہاں کسی امیر کوکھانا اٹھاکر کسی غریب کے گھر کا رخ کرتے بھی
دیکھا ہے؟ مالداروں کو رمضان میں یتیموں اور بیواؤں کا پتہ پوچھتے اور ان کے گھر
تلاش کرتے پایا گیا ہے؟ ایک مالدار کو غریب مسلمان کےساتھ ایک تھالی میں کھاتے
ہوئے آپ نے زندگی میں کتنی باردیکھا ہے؟ ہاں البتہ اپنی کلاس کے لوگوں کےساتھ
پرتکلف افطاری نوش فرمائی جاتی اکثر ملاحظہ کی ہوگی۔ سنا ہے اب اچھے اچھے ہوٹلوں
میں بھی لوگ یہ عبادت کرنے جاتے ہیں!
دوستو!
انسان کی موج پسند طبیعت عبادت کو عادت اوررسم بنا لینے پر تیار رہتی ہے۔ نیکی
کودیکھتے ہی دیکھتے مشغلے میں تبدیل کرلیتی ہے۔ سنجیدگی میں شغل اور دل لگی کاپہلو
جلد ہی نکال لیتی ہے۔ خواہ وہ افطار کامعاملہ ہو یا آخری راتیں جاگنے کا۔ بھائیو
اور بہنو! عادت اور عبادت میں شعورواحساس کاایک لطیف فرق ہی تو ہوتا ہے۔ بس اس فرق کو پورا مہینہ یاد رکھیئے گا۔ عبادت کے مہینے میں بس عبادت ہی ہونی چاہیے۔عبادت
نام ہے ایک بڑی ہستی کی محبت اور اس سے خوف رکھنے کا،نہ اس محبت کی کوئی حد ہے
اورنہ اس خوف کی۔ بھائیو رمضان بھر بلکہ زندگی بھر ہرعمل کے پیچھے اس جذبے اور اس
کیفیت کو ٹٹولتے رہیے گا!
(ہماری
تالیف ’’مضامین رمضان‘‘ سے ماخوذ)
تحریر
حامد کمال الدین