بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ
أمَّا بَعۡد
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ
نظریاتی ثابت قدمی.. وقت کا سب سے بڑا محاذ
ملک کے سیاسی منظرنامے پر... سات عشروں سے ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے اسے محض ایک ’انتظامی بحران‘ قرار دینا یا ’بدعنوانی‘ ایسے کسی چھوٹےموٹے زمرے میں قید کرنا، پھر اِسی حد تک، یا اِنہی ’ترجیحی بنیادوں‘ پر، اس کا علاج تجویز کرنا... قرآن پڑھنے والی امت کی ’’قیادت‘‘ اور ’’راہ نمائی‘‘ کے نام پر، یہ اگر عیاری نہیں تو سادگی اور صورتحال سے لاعلمی ضرور ہے۔
آج ہمیں اپنی چودہ سو سالہ تاریخ کے جس سب سے بڑے اور سب سے سنگین بحران(۱) کا سامنا ہے، تاریخ کے اِس فتنۂ عظیم کو ’بدانتظامی‘ اور ’بدعنوانی‘ ایسے چند حقیر عنوانات کے تحت بھگتانا، اور اس کی سنگین تر جہتوں کو پس منظر میں لےجانا، معاملے کی ایک گمراہ کن تصویر ہے۔ امت کو اس کے اصل بحران سے غافل اور حقیقی اہداف سے برگشتہ کررکھنے کی یہ صورت آج نہ صرف عوام بلکہ بہت سے دینی طبقوں کے حق میں کارگر جارہی ہے۔ ’کرپشن کرپشن‘کی یہ دہائی، جس کا شور میڈیا میں آسمان تک پہنچتا ہے، یہاں باطل کے کچھ بڑے بڑے مقاصد کو پورا کراتی ہے۔ ہو بھی کیوں نہ، قوم کو اُس کے حقیقی مسائل سےمتعلق آگاہی اور راہنمائی دینے کا عمل ایک عرصے سے مفقود چلا آتا ہے۔
مسئلہ کا حقیقی حجم آپ پر واضح ہوجائے... تو ایک منہج کا بوداپن آپ سے آپ عیاں ہوتا ہے اور وہ ہے ایک باطل نظام کو ’ٹھیک‘ کرنے کی کوشش! ایک منحرف چیز کو ’قابل استعمال‘ بنانے کی جدوجہد!
ایک چیز اپنی اساس میں باطل ہے تو وہاں ’’اصلاح‘‘ یہ نہیں ہوگی کہ آپ اُس کی کچھ جزئیات کو سنوارنے اور نکھارنے میں برسوں کے برس اور عشروں کے عشرے کھپادیں اور اِس باب میں ہونے والی ’کچھ‘ پیش رفت کو کامیابی کی اعلیٰ مثال کے طور پر تاقیامت ذکر فرماتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس، یہاں ’’اصلاح‘‘ یہ ہوگی کہ اُس باطل کو اساس سے ختم کرکے اس کی جگہ ایک صالح چیز استوار کرنے کی کوشش ہو، اور اسی ایک مقصد کےلیے یہاں تمام دستیاب وسائل اور حالات کو بہترین اور مفیدترین انداز میں بروئےکار لایا جائے۔ جتنی محنت اور جدوجہد ہو وہ عین اس بات پر ہو، نہ یہ کہ ایک باطل کی نوک پلک سنوارنے پر ہی اپنی تمام تر محنت اور توانائی صرف کرڈالی جائے۔
حق یہ ہے کہ آپ اپنے سامنے آج جو چیز دیکھ رہے ہیں، یہ محض ایک سیاسی منظرنامہ نہیں... یہ حیاتِ انسانی کو چلانے، تشکیل دینے اور اس کا انتظام کرنے کا پورا ایک پروگرام ہے جو اپنی اصل اور اساس میں وقت کی ایک غالب تہذیب کے دو سو سالہ اقتدار کا پیداکردہ تہذیبی وعمرانی فساد ہے۔
آپ جانتے ہیں، حیاتِ انسانی کو چلانا، تشکیل دینا اور اس کا انتظام کرنا درحقیقت زمین میں کارِنبوت ہے یا پھر نبوت کی جانشینی(۲) ... زمین کی سب ’’صلاح‘‘ اِسی کے دم سے ہے؛ اور زمین کا سب ’’فساد‘‘ اِس سے بیگانہ ہونے کے اندر پوشیدہ ہے۔ دوسری جانب، انبیاء اور پیروکارانِ انبیاء کے چلائے ہوئے اس دھارے سے ٹکر لینا اور حیاتِ انسانی کو اس کے مخالف جہت دینا زمین میں شیاطینِ انس و جن کی سرگرمی کا اہم ترین محور ہے۔ جاہلی نظام، جاہلی تہذیب، جاہلی دھارا درحقیقت انبیاء اور ان کے جانشینوں کے دیے ہوئے تہذیبی وعمرانی دھارے کا متبادل بننے اور انسانوں کو اس کا متبادل دینے کی ہی ایک کوشش کا نام ہے اور یہی وہ اصل ’’فساد‘‘ (mischief, corruption) جس کا قرآن بار بار ذکر کرتا ہے(۳) ۔ زمینی عمل کو انبیاء اور ان کے جانشینوں کی دی ہوئی جہتوں سے خالی کرانا قرآنی اصطلاح ’’جاہلیت‘‘ اور ’’فساد‘‘ کا مرکزی نکتہ ہے؛ اور زمین کو فساد کی اِس خاص صورت سے پاک کرنا قرآنی لفظ ’اصلاح‘ کا اصل لب لباب۔ ’’فساد‘‘(corruption) جب اپنی اس اصل کے ساتھ آتا ہے، یعنی انبیاء کو زمینی جہتوں سے باہر کرنے کی صورت میں خدا سے ’’آزادی‘‘ پانا(۴) ... تو پھر فساد کی تمام صورتیں آپ سے آپ چلی آتی ہیں؛ نظریات، افکار، معاشرت، سماج، اخلاق، رشتے، اموال، وسائل، انساب سب فساد (corruption) کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور زمینی عمل ایک سڑاند اور ایک ناسور کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حتیٰ کہ کسی وقت اس ناسور کو آسمانی عذاب سے پاش پاش کرادینا پڑتا ہے اور جو کہ زمین کی صفائی اور ’’اصلاح‘‘ کی ہی ایک انتہائی صورت ہے۔
حق یہ ہے کہ آج ہمارے سامنے محض ایک سیاسی منظرنامہ نہیں جسے ’ٹھیک‘ کردینے کا چیلنج لیا جارہا ہے... بلکہ یہ حیاتِ انسانی کو تشکیل دینے اور اس کا انتظام کرنے کا پورا ایک پروگرام ہے جو وقت کی ایک باطل تہذیب کے دو سو سالہ اقتدار کا پیداکردہ تہذیبی وعمرانی فساد ہے۔ یقیناً یہ فساد اس باطل تہذیب نے خود اپنے گھر میں بھی پھیلا رکھا ہے اور اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ غیراللہ کی خدائی اور شرعِ محمدﷺ سے اعراض پر مبنی یہ فساد تو آج ہر جگہ ہے... تاہم استعمار کی ایک ’کالونی‘ ہونے کے ناطے (جوکہ غلاموں کا ایک ’ماس پروڈکشن پلانٹ‘ بنی رہی ہے) ہمارا گھر دو سو سال تک اُس فساد کا کچرا پھینکنے کےلیے استعمال ہوتا رہا ہے اور تاحال بھی ہمارے گھر کی یہ حیثیت اُس کی نظر میں ختم نہیں ہوئی ہے...
یہاں جب آپ اُس کا سکھایا ہوا کوئی لفظ مانند ’ڈیموکریسی‘، ’نیشن سٹیٹ‘، ’ویزا‘، ’بارڈرز‘، ’ورلڈ کمیونٹی‘، ’انٹرنیشنل لاء‘، ’ماڈرن اکانومی‘، ’بینکاری‘، ’پیپرکرنسی‘، ’کونسٹی ٹیوشن‘، ’لیجس لیشن‘، ’پارلیمنٹ‘ وغیرہ ایک پرعقیدت لہجے میں اور اُسی کے پڑھائے ہوئے تلفظ کے ساتھ بولتے ہیں تو وہ آپ کی اِس بات کو استحسان کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آپ کے ہاں ان اشیاء کی قدر افزائی پاکر آپ کو اندازہ نہیں اُس کا دل کس طرح باغ باغ ہوتا ہے۔ اور اگر اُس کے محنت سے پڑھائے ہوئے یہ الفاظ اور تعبیرات وہ آپ کے ہاں متروک پائے تو وہ کس قدر پریشان ہوتا ہے (ہمارا نہیں خیال کوئی شخص اِس پر ہمارے ساتھ اختلاف کرے گا)۔ پھر اگر ان الفاظ و تعبیرات کے مقابلے پر آپ اپنی ہی ’دورِقدیم‘ کی اصطلاحات اُنہی قدیم معانی اور مفہومات کے ساتھ استعمال کریں مانند ’’امت‘‘، ’’شریعت‘‘، ’’ولاء(بہ اہل ایمان) اور براءت (از اہل کفر)، ’’خلافت‘‘، ’’امارت‘‘، ’’جہاد‘‘، ’’حدود‘‘، ’’دارالاسلام‘‘، ’’ذمی‘‘ اور ’’ثُغُور(۵)‘‘ وغیرہ ایسے ’خوفناک‘ الفاظ (گو کہ یہ الفاظ سب کے سب آپ کی شریعت میں آتے ہیں!)... تو انہیں سن کر تو وہ ہڑبڑا اٹھتا ہے! بلکہ اس پر آپ کو مصر دیکھے تو شاید وہ آپ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کےلیے اٹھ کھڑا ہو(۶) !!!
صرف اِسی ایک بات پر غور فرمالیں تو یہ پوری کہانی آپ پر منکشف ہوجاتی ہے اور آپ کے سب اِبہام دور ہوجاتے ہیں کہ یہ بخشیش کا مال آپ کے ہاں کن دوررَس مقاصد کو پورا کرانے کےلیے بچا رکھا گیا ہے۔ آپ کو وہ تمام ’حکمتیں‘ سمجھ آتی ہیں کہ اُس کے چھوڑےہوئے اثاثہ جات ہمارے یہاں محفوظ حالت میں باقی رہنا اُس کی نگاہ میں اس درجہ اہم اور ناگزیر کیوں ہے! یہاں تک کہ اگر آپ کو یہاں کوئی ہلکاپھلکا ’اسلامی تصرف‘ کرنا ہے تو بھی گنجائش اِسی حد تک ہے کہ آپ اپنے یہ سب ’قابلِ عمل‘ اسلامی شوق اُسی کے دیے ہوئے ’’فریم‘‘ میں رہ کر اور اُسی کے ’’پوائنٹ آف ریفرنس‘‘ سے وابستہ رہتے ہوئے پورے کریں نہ کہ اس سے یکسر آزاد ہوکر اور خاص اپنی شرعی تاریخی اصطلاحات کو کام میں لاتے ہوئے(۷) ...؛ کیونکہ جانتا ہے ایک عالمی حقیقت (مغرب کا دیا ہوا فریم آف تھاٹ) اپنے عالمی حوالوں کے ساتھ جب تک قائم ودائم ہے اور پوری دنیا سے اپنا کلمہ پڑھواتا اور فکری، ثقافتی، سماجی، معاشی ہرہر سطح پر اس سے خراج وصول کرتا ہے تو آپ کے وہ چھوٹے موٹے ’اسلامی تصرفات‘ جو آپ ایک ایسی دیوہیکل عالمی شےء کے اندر فرمانا چاہ رہے ہیں اُس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے بلکہ اس کے کچھ ’علاقائی شیڈ‘ بڑھانے میں ہی مددگار ہوں گے، جوکہ ایک ’کشادہ ظرف‘ عالمی نظام کی بہت بڑی ضرورت ہوا کرتی ہے اور جس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام قومیں اپنے مذاہب وامتیازات سمیت اس کی چھتری تلے سماسکتی ہیں!
یہاں؛ آپ کے سب شبہے دور ہوجاتے ہیں؛ آپ پر نصف النہار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ:
--یہ محض ایک ’سیاسی منظرنامہ‘ نہیں جس سے آپ کو واسطہ ہے... بلکہ یہ انسانی زندگی کی تشکیل اور تنظیم کا پورا ایک بندوبست ہے،
-- اور یہ کہ اِس کی جڑیں وقت کی ایک باطل تہذیب میں پوری طرح پیوست ہیں،
-- اور یہ کہ اِس کے پیچھے وہ تمام فکری، نظریاتی، اخلاقی، تاریخی، ثقافتی اور ابلاغی جہتیں عین اُسی طرح کارفرما ہیں جس طرح یہ اُس وقت تھیں جب گورا آپ کو براہِ راست صحبت کا شرف بخشتا تھا!
یہاں؛ آپ کو یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں رہتا کہ کڑی در کڑی جڑتی چلی جانے والی یہ وہی ایک عالمی حقیقت ہے جس پر پچھلے دو سو سال سے دنیا کے کچھ ذہین ترین دماغوں کی محنت ہورہی ہے، اور جوکہ مشرق تا مغرب ایک ہی حقیقت ہے مگر پچھلے چند عشروں کے دوران اُس میں ’کلرز اور شیڈز‘ کا ایک عظیم الشان تنوع پیدا کرکے اسے ایک ’آفاقی حقیقت‘ بنانے میں خاطرخواہ پیش رفت کرلی گئی ہے!
یہاں؛ آپ پر کھلتا ہے کہ یہ بارڈر، یہ لکیریں اور یہ ’آزادیاں‘ زمین پر بننے والے نقش و نگار ہیں؛ ’فضائیں‘ آج بھی ان کی پابند نہیں؛ ’ہوائیں‘ اور ’آندھیاں‘ آج بھی آزادانہ پھرتی ہیں؛ وہ زمین کے کسی بھی گوشے میں ’خلا‘ کو ڈھونڈتی ہیں؛ اور جہاں ’خلا‘ ملے وہیں سمانے کےلیے ہجوم کرتی ہیں۔ جہاں ’گنجائش‘ ہو، آپ سے آپ وہاں کا رخ کرتی ہیں۔ البتہ جگہ ’خالی‘ نہ پائیں تو کوئی لاکھ کوشش کرلے وہ طرح دےکر گزرجاتی ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی مسلم جمعیت کے ہاں کوئی نظریاتی خلا نہ ہو اور وقت کے عالمی افکار، خیالات، اصطلاحات اور فیشن وہاں سمانے پر ضد کریں! دنیا کا کوئی طوفان نہیں جو کسی شدید قسم کے ’خلا‘ کا پیداکردہ نہ ہو؛ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہواؤں اور پانیوں کو اپنی سطح برابر رکھنے کی فکر نہ ہو!
پس زمانہ آج بھی ویسی ہی ایک جُڑی ہوئی اکائی ہے جس کے اندر آپ ’’دینے والے‘‘ ہوتے ہیں یا پھر ’’لینے والے‘‘۔ پیداکار یا پھر صارف۔ افکار، نظریات، نظام، تہذیبیں آج بھی ’ویزا‘ کی قید سے آزاد ہیں اور ان کو کبھی اِن حدبندیوں کی پروا نہیں۔ نہ آپ کے ’آزاد‘ ہونے کی اِن کو کچھ خبر اور نہ ’خودمختار‘ ہونے کی کوئی پروا۔ یہ برابر آپ کے ہاں بول رہی ہیں؛ اور آپ مسلسل اِن کی زبان۔ اِن مستعار بولیوں کو ترک کرکے اگر آپ اپنی ایک زبان لے کر آنا چاہتے ہیں؛ اپنی ایک الگ تھلگ پہچان کرانا چاہتے ہیں؛ اور اپنے اُسی تاریخی چہرے کے ساتھ اِس عالمی سٹیج پر نمودار ہونا چاہتے ہیں جسے زمانہ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے جانتا تھا، اور اُسی ’’مسلمان‘‘ کے لہجے میں یہاں پر بولنا اور سناجانا آپ کا مقصود ٹھہرچکا ہے؛ اور جوکہ بلاشبہ وقت کا اہم ترین فریضہ ہے... تو آپ کا یہ مطلوبہ ہدف اِن بدیسی الفاظ، افکار، حوالہ جات، اور اِن نام نہاد ’پیراڈائمز‘ کے مقابلے پر ایک غیرمعمولی مزاحمت چاہے گا۔ ایک مطلق مزاحمت۔ an absolute defiance!۔ ایک غیرمعمولی اعتماد، ایک غیرمعمولی قوتِ ارادی اور غیرمعمولی ہوشیاری اور پختہ کاری۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَوَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَوَاصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ(ھود: 112۔116)
پس ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا تمہیں حکم دیا جاتا ہے، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، اور بندگی کی حد سے تجاوز ہرگز مت کربیٹھنا۔ اللہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے۔
اور اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا... ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔
اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں
پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے ہوش مند پائےگئے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔
پچھلے دو سو سال سے پورے عالَم میں جو زبان بولی جارہی ہے... آپ کی وہ ’’شرعی تاریخی‘‘ زبان واقعتاً اُس سے اِس قدر مختلف ہے اور وہ زبان بولتے ہوئے کچھ دیر آپ واقعتاً اِس قدر عجیب لگیں گے (یا عجیب بنا کر پیش کیے جائیں گے) کہ اس پر بڑے بڑے خیرخواہ آپ کےلیے فکرمند ہوجائیں۔ اِس کے باوجود، یہاں آپ کو اپنی ہی وہ ’’شرعی تاریخی‘‘ زبان بولنی ہے؛ اور دنیا کے نہ سمجھنے کے اندیشے سے دنیا کی زبان میں اُس کو ’ترجمہ‘ کرنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی۔ زمانہ اتنا ’سادہ‘ نہیں جو آپ کی زبان نہ سمجھتا ہو! وہ اسے خوب سمجھتا ہے اور باوجود اس کے کہ فی الوقت وہ کہیں نہیں بولی جارہی اُس نے اسے سمجھنے کےلیے کثیر لاگت ’’ریسرچ ڈیسک‘‘ بٹھا رکھے ہیں۔ آپ کی ’’کتابوں‘‘ میں لکھے ایک ایک لفظ کی تہہ میں اترنے کےلیے اُس نے بڑےبڑے مشاق غوطہ زن حاصل کررکھے ہیں۔ اور پھر آپ کی زبان تو وہ ہے جو ہزار سال تک زمانے میں بولی گئی؛ اور زمانہ ہزار سال اسے کان لگا کر سنتا رہا بلکہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زمانہ تو آج بھی کان لگا کر بیٹھا ہے؛ ہم ہی بولنے پر آمادہ نہیں! زمانے کےلیے تو یہی یقین کرنا دشوار ہوگا کہ ’’مسلمان‘‘ آج خاموش ہے! زمانہ یقین کر بھی کیسےلے؛ دونوں کا بہت طویل ساتھ رہا ہے؛ یہ زمانہ تو گویا ’’مسلمان‘‘ کے سوا کسی کو سننا ہی بھول گیا تھا!!! اور حق یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ تو جب بھی بولے زمانہ اُسے ضرور سنتا ہے! زمانہ تو خود اُس ’’مسلمان‘‘ کو ڈھونڈ رہا ہے جس کےلیے یہ جہان تخلیق ہوا ہے! آج ہمارے ہاں یہ منحنی بولیاں سن کر، ہم سے زیادہ تو شاید زمانہ حیران ہوگا! خدایا! یہودی سپروائزر کے نیچے اسلام کے جدید مسائل پر ’ریسرچ پراجیکٹ‘ کرتا مسلمان... کیا یہ وہی مخلوق ہے؟! کوئی عمرؓ بن خطاب کو ’مسلمان‘ کی یہ قسم دریافت ہوجانے کی خبر کیوں نہیں کرتا!
دو سو سال تک یہی ’ریسرچ‘...! آخر کچھ تو نکلنا تھا! اور اب آپ کے پاس یہ ڈھیر لگے ہیں؛ کونسی چیز ہے جو ’اسلام‘ سے باہر رہ گئی ہے؟ ’ڈیموکریسی‘، ’سوشل کونٹریکٹ‘، ’نیشن سٹیٹ‘، ’ویزا‘، ’بارڈرز‘، ’ورلڈ کمیونٹی‘، ’انٹرنیشنل لاء‘، ’یواین چارٹر‘، ’سٹیزن رائٹس‘، ’بینکاری‘، ’پیپرکرنسی‘، ’کونسٹی ٹیوشن‘، ’لیجس لیشن‘، ’پارلیمنٹ‘... کیا ہے جو خدا کے فضل سے اِس گھر میں نہیں ہے!
کیا یہ وہی کباڑ نہیں جسے مغرب دو سو سال سے آپ کے ہاں ڈھیر کرتا آیا ہےاور آپ اُس کی ڈھیر کی ہوئی ایک ایک چیز کو اٹھاتے، جھاڑتے اور ’اسلام کے مطابق‘ کرتے چلے گئے ہیں؟! اور آج یہ حال کہ اِن ٹوٹی پھوٹی بےہنگم ’نئے ماڈل‘ کی اشیاء سے آپ کا گھر بھرا ہے؛ کوئی ثابت کرے کہ یہ ایک ’جدید ریاست‘نہیں ہے! کوئی تھوڑی محنت ہوئی ہے! اور آج خدا کا فضل ہے نظام ’کلمہ‘ بھی پڑھتا ہے اور ’جدید تقاضوں‘ پر پورا بھی اتر کر دکھاتا ہے؛ ’اسلام‘ کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آپ اِسے ’بےعملی کا شکار‘ کہہ لیں؛ جوکہ پریشان کن ہے مگر مایوس کن نہیں! آپ بھی اِس کے فکری پیراڈائم کو تو من و عن قبول کریں اور اس کے حق ہونے کی شہادت بھی صبح شام ریکارڈ کرائیں، البتہ اس کی ’بے عملی‘ کا عارضہ دور کرنے کا کوئی نسخہ یا وظیفہ تجویز کریں تو آپ کے روحانی عملیات کی داد دی جائےگی اور آپ کی محنت اور اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؛ کچھ نہیں تو آپ خود تو اِس محنت اور جدوجہد کے دوران کہیں کھپ ہی جائیں گے!
یہ چیز جسے فی الحال آپ ’نظام‘ کہتے ہیں اور جس میں کچھ ردوبدل کرلینے کے بعد آپ اِس کو ’اسلام سے ہم آہنگ‘ بھی تصور کرچکے ہیں یہ دراصل ایک ’کالونی‘ کا سیٹ اپ تھا جس پر جنگِ عظیم دوم (دنیا کے مظلوموں خصوصاً امتِ محمدؐ کیلئے خدائی ریلیف)(۸) کے بعدانگریز سے ’آزادی‘ کا بورڈ لگا دیا گیا تھا۔ حق یہ ہے کہ نہ انگریز کو یہاں کسی نے نکالا تھا اور نہ انگریز کے نظام کے خلاف یہاں کوئی تحریک چلی تھی۔ نہ انگریزی افکار کے خلاف کوئی ہل چل، نہ انگریزی تہذیب کو کوئی مزاحمت جس نے انگریزی اقتدار کےلیے یہاں کوئی پریشانی پیدا کی ہو۔ وہ تو محض اپنی کچھ مجبوریوں کے تحت یہاں سے رخصت ہوا؛ جس کو ہم نے ’آزادی‘ کہا۔ یعنی انگریز کا فکری، ثقافتی، تعلیمی اور نظامی اقتدار ایک قائم established حالت میں کھڑا تھا اور تب بھی بڑی حد تک ہمارے ہی ہاتھوں چل رہا تھا اور ہم سب خوشی خوشی اُس کا حصہ تھے اور ہندو سے بڑھ کر اپنے آپ کو اُس کا وفادار ثابت کرتے اور اُس کی نظرکرم کے خواستگار رہتے بلکہ اُس کے ہندو کے ساتھ بلاوجہ ’معاشقے‘ پر برہم ہوتے تھے؛ اُس نظامِ قائمہ کے ساتھ ہمارے دین کا تصادم بھی یہاں ہماری کسی قیادت کی زبان پر نہیں تھا؛ محض اُس کا سیاسی قبضہ خطرے میں پڑگیا جس کے اسباب بھی ہمارے اپنے پیداکردہ نہ تھے۔ پس طبعی بات تھی کہ اِس ’کالونی‘ میں صرف ایک سیاسی ردوبدل ہی عمل میں آئے اور اِس کی باقی کوئی چیز اپنی جگہ سے نہ ہلے؛ اور یہی ہوا۔ نیچے کی سطح پر تو تھا ہی ہمارا (’ٹریننگ یافتہ‘) عملہ؛ اوپر کی آسامیوں پر بھی اب ہماری بھرتی ہونا ٹھہری؛ جس کےلیے یہاں کے ’چنیدہ‘ لوگوں کی اہمیت اب کچھ اور بڑھ گئی تھی!
پس یہ جو ایک ’کالونی‘ سیٹ اپ تھا، اور ہمیں باقاعدہ چالو حالت میں ملا تھا، کوئی نراپرا ’انتظامی‘ بندوبست نہیں تھا۔ یہ پورا ایک ڈیزائن تھا جو تہذیبِ وقت کی ایک ’کالونی‘ کو سامنے رکھ کر تشکیل ہوا تھا۔ ایسی بھاری چیز جو دو سو سال کی محنت سے جمائی گئی تھی اور کڑی در کڑی ایک معلوم عالمی حقیقت (۹)کی ہی تشکیل کررہی تھی، محض کچھ ’دفعات‘ اور ’شقوں‘ سے ہلا دینے کی نہیں تھی خصوصاً جبکہ اُس کا اپنا وہ فریم جس میں آپ کی ’دفعات‘ اور ’شقیں‘ فٹ کرائی گئیں من و عن اُسی سے لیا گیا ہو بلکہ وہی ہو، اور جبکہ اصطلاحی پہلوؤں سے اُس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ’’ہم آہنگی‘‘ خود آپ کے بھی پیش نظر رہی ہو! نتیجہ یہ کہ آپ کا یہ ’ترمیمی عمل‘ چلتی ٹرین پر سوار ہونا ثابت ہوا جس کی ایک سمت پہلے سے متعین ہوتی ہے!
یہ وجہ ہے کہ اس کو محض ایک ’انتظامی بحران‘ کہنایا اس کی ’بدعنوانی‘ اور ’ناانصافی‘ کے ہی رونے روتے چلے جانا... اور خاص اِن حوالوں سے ہی اسے ’قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام‘ قرار دینا قوم کو اور خود اپنے آپ کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک بہت بڑی اور گھناؤنی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، خواہ کوئی دانستہ کرے یا نادانستہ۔ یہ آفت – ہماری تاریخ کا یہ فتنۂ عظیم – ہمارے در و دیار سے جس درجہ مزاحمت چاہتا ہے وہ مزاحمت کبھی سامنے نہیں لائی جاسکتی جب تک کہ آپ اِس کی اس اصل گھناؤنی حقیقت سے ہی پوری طرح خبردار نہ ہوں اور جب تک آپ قوم کو بھی مسئلہ کے حقیقی حجم اور سنگینی سے آگاہ کرنے کا بیڑہ نہ اٹھائیں۔
’درمیانی مرحلہ‘ کےلیے اس کے ساتھ معاملہ کرنے کے کچھ احکام ضرور نرم ہوسکتے ہیں، اور ہم بھی اس نرمی کے مخالف نہیں (۱۰)۔ لیکن اس کو ’حق‘ ہونے کی سند دینا ہماری اس صدی کی سب سے فاش غلطی تھی۔ اس کو ’اسلام کے مطابق‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کرڈالنا، کہ جس کے بعد صرف ’عملی کوتاہی‘ کے ہی رونے روئے جاسکتے تھے، برصغیر میں ہمارے تحریکی عمل کی سب سے بڑی لغزش تھی۔ یہ نظام اپنی اساس، اپنے نظریے، اپنے تاریخی پس منظر، اپنی پیدائش، اپنے سب مراحلِ پرورش، اپنے وضع کنندگان، اپنے سٹینڈرڈ شارحین اور ترجمانوں، اپنے بنیادی سٹرکچر اور فارمیٹ، اپنی اصطلاحات، اپنے مراجع اور حوالہ جات اور اپنی روزمرہ تعبیرات... غرض اپنی ہر ہر چیز میں اور ہر ہر پہلو سے ایک اجنبی حقیقت alien phenomenon تھی جسے نہ صرف اسلام سے کچھ علاقہ نہ تھا بلکہ اپنے بنیادی ترین امور میں وہ اسلام سے متصادم تھی بلکہ وہ ’’دین‘‘ نامی چیز سے ہی ایک تاریخی بیر رکھتی آئی تھی، پھر جبکہ یہ اجنبی حقیقت (جسے سہولتِ بیان کےلیے ہم ’’ڈیموکریسی‘‘ کہہ لیتے ہیں) عالمی سطح پر ابھی ’یتیم‘ بھی نہیں ہوگئی تھی کہ اس کا کوئی والی وارث ہی نہ رہ گیا ہو اور کوئی اس کے ساتھ جو مرضی کرتا پھرے!... ایک ایسی گہری و دوررَس عالمی حقیقت کو ’حق‘ ہونے اور ’اسلام کے مطابق‘ قرار پانے کی سند دینا اپنا پورا کیس ختم کرلینے کے مترادف تھا۔
اس نظام کے ساتھ معاملہ کرنے کے احکام خواہ آپ کتنے بھی نرم رکھنا چاہیں، اور جس پر یقیناً بات ہوسکتی ہے، حتیٰ کہ اس پر ہونے والا اختلافِ آراء بھی قبول ہوسکتا ہے... مگر ایک کفر کو، جس کے تاریخی وآفاقی حوالے آپ کے سامنے اُسی طرح دندناتے ہوں، ’اسلام‘ کی سند دے کر فارغ ہونا وہ سنگین غلطی ہے... اور اس غلطی پر اصرار کرتے چلے جانا، خصوصاً اس کے بھیانک نتائج بچشمِ سر دیکھ لینے کے بعد بھی اِس کو اسلام کا لبادہ پہنا رکھنے پر ہی بضد رہنا وہ صریح ظلم ہے... جو آج ہمارے تحریکی عمل کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بنا ہوا ہے۔ اِس کا ازالہ جلداز جلد ہونا چاہئے ۔ اِس نظام کو دے رکھی گئی وہ جعلی ’اسلام کی سند‘ ہی یہاں تبدیلی کی گھٹائیں اٹھنے میں سب سے بڑا مانع ہے؛ باوجود اس کے کہ ان گھٹاؤں کو اٹھانے کےلیے خدا کے فضل سے یہاں سمندر کھول رہے ہیں۔ ان شاء اللہ، اہل علم وایمان کی جانب سے جیسے ہی اس ’سند‘ کی منسوخی کی بات ہوگی خودبخود یہاں وہ بھونچال اٹھ کھڑے ہوں گےجو اِس باطل کے پاؤں تلے زمین لرزنے کے حق میں ضروری ہیں۔تبدیلی کا عمل ان شاء اللہ یہیں سے اٹھ کھڑا ہوگا۔ اس کو آگے بڑھانا پھر بھی جان جوکھوں کا کام ہوگا تاہم معاملے کا ایک سرا یقیناً آپ کے ہاتھ آجائے گا... معاملے کا وہ سرا جو کئی عشروں سے کہیں مل ہی نہیں رہا!
(۱) مراد ہے: ملت کی حیاتِ اجتماعی میں شرعِ خداوندی کا برخاست کردیا جانا اور غیراللہ کی شریعت کو باقاعدہ حوالے دے کر، اور دفعہ نمبروں کے ساتھ، جاری وساری کرنا، اور امت کا ایک بڑی حدتک اس پر خاموش رہنا۔ داخلی سطح پر یہ حالت تو بین الاقوامی سطح پر ’اقوامِ متحدہ‘ کی شریعت، جو نہ صرف اِن (اہل اسلام) کے آپس کے تعلقات میں حاکم اور حَکَم ٹھہرتی ہے بلکہ ان کے ہاں ’’بنیادی انسانی حقوق اور فرائض‘‘ کا بھی اچھی خاصی حد تک تعین کرتی ہے، نیز حیاتِ انسانی کی بہت سی بنیادی قدروں (values) کےلیے بھی باقاعدہ ایک میزان نصب کرتی ہے۔ (’’یو این شریعت‘‘ کے اِن بعض اطلاقات کا بیان ہم کسی اور مقام پر کریں گے، ان شاء اللہ)۔
اِس فتنۂ عظیم کا جو ہمیں آج درپیش ہے، ہمارے پچھلے تمام ادوار سے، خواہ وہ کتنے ہی قابل تنقید رہے ہوں، کوئی موازنہ نہیں۔
ہمارے ادوارِ ملوکیت میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوا تھا کہ ہمارا ’’شوریٰ‘‘ کا ادارہ معطل کر دیا گیا تھا۔ تاہم ہماری’’شریعت‘‘ کو (قانونِ عام کی حیثیت سے) کسی ایک لمحے کےلیے بھی معطل نہیں کیا گیا۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے اُن ادوار میں خلافت (نبوت کی جانشینی) بالکلیہ ختم نہیں سمجھی گئی اور ہماری اسلامی تاریخ کے کثیر فقہاء، محدثین، قضاۃ، ائمۂ دین، زُہاد، عُباد، محتسب، مجاہدین، امراء اور فاتحین اِس خلافت کے دست وبازو بنے رہے تھے (یہاں تک کہ ان کے ہاں یہ مقولہ باقاعدہ دستور کی حیثیت پاگیا جیساکہ طحاویہ کے سٹینڈرڈ متن میں درج ہے (والحج والجهاد ماضيان مع أولي الأمر من المسلمين، بَرّهِم وفاجرِهِم إلى قيام الساعة، لا يبطلهما شيء ولا ينقضهما ’’حج اور جہاد قیامت تک برقرار ہے مسلمانوں میں سے اولی الامر کے ساتھ مل کر خواہ وہ نیکوکار ہوں یا بدکار؛ اِن ہردو فرض کو نہ کوئی چیز باطل ٹھہراسکتی ہے اور نہ کسی دلیل سے اس کا توڑ ہوسکتا ہے‘‘)۔ اِن سب طبقاتِ خیر کے دم سے؛ کفرواسلام کے معرکے نے روئے زمین پر کچھ عظیم الشان موڑ بھی مڑے تھے اور خدا کی نصرت بھی یہاں امت کے شاملِ حال رہی تھی؛ یہاں تک کہ شمالی افریقہ، مغربی افریقہ، اندلس، ترکستان، جنوبی یورپ، مشرقی یورپ اور ہند کے لاتعداد سومنات ہمارے انہی ’ادوارِ ملوکیت‘ میں توڑے گئے تھے... اور ان سومناتوں کی جگہ تاحدنگاہ خدائے واحد کی کبریائی کی شہادت دیتے منارے، اذانیں، تکبیرات وتسبیحات اور ہماری پوری اسلامی تہذیب جو اِن سب ملکوں میں بلکہ ان سے بھی آگے، دور دور خطوں تک، کفر اور فساد کی تہذیبوں کو پیامِ اجل دیتی پھررہی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ’’شریعت کی فرماں روائی‘‘ اور ’’غلبۂ کفر کا خاتمہ‘‘ ملت کی اجتماعی ترجیحات میں سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ہر چیز برداشت ہوسکتی ہے سوائے اس ایک بات کے کہ مسلمانوں کی کسی بستی میں شرعِ خداوندی کو حاکمانہ حیثیت سے سبکدوش کررکھا جائے۔ ’’شریعت کے راج میں تعطل آنا‘‘، اس سے بڑا امت کی زندگی میں کوئی فتنہ نہیں۔ پس آج جس چیز کو آپ اپنے سامنے قائم دیکھ رہے ہیں اور جس کو ہمارے کچھ نام نہاد مدعیانِ منہجِ سلف ’’اولی الامر‘‘ کے طور پر ہمارے لیے پیش کرتے ہیں، یہ ’’الاَمر‘‘ نبوت کی جانشینی نہیں استعمار کی جانشینی ہے اور جوکہ کسی ’مقبوضہ‘ حیثیت میں نہیں (جس کی مثالیں ہماری تاریخ کے گزشتہ ادوار سے بہرحال دی جاسکتی ہیں) بلکہ رضاکارانہ ہورہی ہے اور ’آزادی‘ و ’خودمختاری‘ کے عنوان سے انجام پارہی ہے۔ ماضی میں ایسا بہرحال کبھی نہیں ہوا؛ یہی وہ چیز ہے جسے ہم نے ملت کی تاریخ کا عظیم ترین فتنہ کہا ہے۔
(۲)نبوت کی جانشینی کو ہماری شرعی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ہے۔ زمین میں یہ کردار ادا کرنا، اور اِس کردار کو بحال رکھنا، امت محمدﷺ پر تاقیامت فرض ہے اور اس کو نظرانداز کردینا فساد فی الارض کی عظیم ترین صورت کی راہ ہموار کرنا۔
(۳)قاری کےلیے یہاں ہم تجویز کریں گے کہ ’’فساد‘‘ کے موضوع پر قرآنِ مجید کی سب سے پہلی آیت وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (البقرۃ: 11۔12) کے تحت سلف سے ماثور تفاسیر کا مطالعہ ضرور کریں۔ ’اقوامِ متحدہ‘ کے دور میں لکھی جانے والی تفاسیر سے ہی ’’فساد‘‘ اور ’’اصلاح‘‘ اور ’’مفسدت‘‘ اور ’’مصلحت‘‘ ایسے الفاظ کی تفسیر لینا کچھ عظیم فکری نقصانات کا موجب ہوسکتا ہے۔ خود ہم بھی ان شاء اللہ اس پر کسی وقت قلم اٹھائیں گے۔
(۴)انبیاء کی لائی ہوئی ہدایت اور شریعت سے آزاد ہونا ہی دراصل خدا سے آزاد ہونا ہے؛ کیونکہ خدا نے انسانوں کے ساتھ رابطہ و مراسلت کا کوئی ذریعہ انبیاء اور شریعتوں کے سوا اختیار نہیں فرمایا۔ ہاں البتہ شریعت سے آزاد ہوکر خدا پر ایمان کا دم بھرنا وہ طرزعمل ہے جو زمین میں بدترین فساد کی بنا ڈالتا ہے؛ اور کچھ خاص حالتوں میں یہ خدا پر جھوٹ اور بہتان کی صورت دھارتا ہے۔
(۵)’’سرحدوں‘‘ borders کا لفظ ہماری تاریخ میں نیا ہے اور ’نیشن سٹیٹ‘ کے پیکیج میں ساتھ آیا ہے۔ ہمارے قدیم ادوار میں جو لفظ مستعمل رہا وہ ’’ثغور‘‘ ہے (ثغر کی جمع)۔ یعنی وہ مقامات جہاں سے در آکر کافر ہم پر حملہ آور ہوسکتا ہے یا جہاں سے ہم اس پر چڑھائی کا موقع پاتے ہیں۔ تب عالم اسلام بھر کے صالحین کی من پسند جگہیں ’’ثغور‘‘ ہی ہوتی تھیں جن میں اقامت اختیار کرنا ’’رباط‘‘ کا حکم رکھتا ہے (رباط یعنی اُس جگہ پر پڑاؤ رکھنا جہاں سے دشمنِ خدا ورسولؐ ہم پر حملہ آور ہوسکتا ہو یا ہم اُس پر حملہ آور ہوسکیں) اور جس پر حدیث ہے کہ رباطِ یومٍ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا (بخاری) ’’ایک دن رباط کرنا دنیا ومافیہا سے افضل ہے‘‘۔ شروحِ حدیث میں اور کتبِ فقہ کے اندر ثُغُور کا لفظ جگہ جگہ آتا ہے، حتیٰ کہ مجاہدین کیلئے بسااوقات اھل الثغور ہی کا لفظ بولا جاتا ہے۔
(۶)اس کی زندہ مثال کے طور پر وہ افغانستان میں اپنی یہ ’اصلاحی کارروائی‘ ایک عشرے سے آپ کو دکھا رہا ہے تاکہ پوری دنیا کو سبق ہو ’اقوامِ متحدہ‘ کی شریعت سے خروج کرنے والوں کا اِس جہان میں کیا حکم ہے! جن لوگوں کے نزدیک یہ سب کارروائی صرف ’بن لادن‘ کو پکڑنے کےلیے تھی اور اس کی وجہ بھی صرف ’نائن الیون‘ تھی، گویا ان کے خیال میں ’بن لادن‘ اور ’نائن الیون‘ والی وجہ نہ ہوتی تو طالبان کو عالمی سٹیج پر یہ ’فکری وتہذیبی جرائم‘ کرنے کےلیے چھوڑدیا جاتا کہ وہ مغرب کی فکری وتہذیبی مصنوعات کو صاف ناں کرتے ہوئے اپنی قدیم اسلامی اشیاء پر اسی طرح مُصِر ہوکر دکھائیں اور مغرب ان کو کچھ نہ کہے!
(۷)کیونکہ ہماری یہ شرعی تاریخی اصطلاحات اُسکے چلائے ہوئے سسٹم کے ساتھ براہ راست تصادم رکھتی ہیں نہ کہ اًسکے اندر ’فٹ‘ ہوکر گزارہ کرنے والی ہیں۔ ہو بھی کیسے یہ دو دھارے ہیں ہی ایک دوسرے کی ضد: ایک انبیاء اور ان کے جانشینوں کا چلایا ہوا دھارا، اور ایک انبیاء کے منکروں اور ان کے پیروکاروں کا اپنایا ہوا دھارا، زمین میں یہ دو ہی تو ملتیں ہیں۔ مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚأَفَلَا تَذَكَّرُونَ۔ اِن دو فریقوں کے مابین بات بات پر دنگا نہ ہو اور پل پل پر ٹکراؤ نہ ہو! اِن کے مابین ہی ’موافقت‘ اور ’ہم آہنگی‘ ہوجائے تو پھر دنیا میں قیامت کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے؛ جس کی نشانیاں ظاہر ہوچکیں!
(۸)یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ انگریز کو نکالنا یہاں کسی سورما کا کام نہیں تھا؛ جنگ عظیم دوم نے خود ہی اللہ کے فضل سے استعمار کی کمر توڑ ڈالی تھی۔ قدرت اللہ شہاب (اُس زمانے کے ایک اونچے درجے کے بیوروکریٹ) اپنے شہاب نامے میں جنگ عظیم کے بعد برصغیر میں رہ جانے والے انگریز افسروں کی تعداد چند سو بتاتے ہیں اور اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ برصغیر ایسے وسیع وعریض خطے پر انگریزی اقتدار کا بھرم اتنے سال کیونکر قائم رہ گیا!
(۹)وہ عالمی حقیقت جس نے باقاعدہ ایک فلسفے اور نظام اور سٹینڈرڈز (بلکہ شرائع) کے اجراء کے ساتھ پہلے ’لیگ آف نیشنز‘ اور بعد ازاں ’یونائیٹڈ نیشنز‘ کی صورت میں ظہور کیا۔
(۱۰)اس پہلو کو قدرے واضح کرنے کیلئے ہم ایک علیحدہ مضمون میں قلم اٹھا رہے ہیں۔