خلیفہ کیسے منتخب ہوگا
عاطف بیگ
بھلا یہ بات بھی سمجھنی کیا مشکل تھی ! اور کچھ نہیں تو جمہور پسندوں نے اپنے سسٹم پر ہی غور کرلیا ہوتا!
مسئلہ ذہن میں یہ الجھا ہوا ہے کہ "خلیفہ" کا انتخاب آخر "جمہوریت" کے بغیر ہوکیسے سکتا ہے !!یعنی ان گنت لوگوں کا ایک ہجوم ہے اور ان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرنا ہے یہ ووٹنگ کے بغیر آخر ہوکیسے سکتا ہے ؟!آج کل ہرطرف یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چناؤکے اس طریقے کو "اسلامی جمہوریت" ثابت کردیا جائے اور کثرت کو اس کی دلیل بنا دیا جائے !کچھ ظریف تو یہاں تک پہنچے ہیں کہ "جمہوریت اور اسلام " کے فرق کو صرف "اصطلاحات" کا فرق مان بیٹہے ہیں - کیونکہ یہ دونوں ہی "نظام حکمرانی" ہیں اس لیے ان کی واقعاتی مشابہت سے دھوکا کھا کر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ ان کی بنیاد میں بھی کوئی فرق نہیں ہے !
بہرحال اس مضمون کا مقصد ابھی اس فرق کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ "جمہوریوں" کو انہی کے نظام سے یہ سمجھانا ہے کہ لیڈر کیسے جنم لیتا ہے !اور خود ان کے ہاں لیڈر کیسے بنتے ہیں ۔
تو پیدا ہونے والے سوالات کچھ یوں ہیں
1 )خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
2 ) خلیفہ پر لوگوں کا اتفاق کیسے ہوتا ہے ؟
3)کیا خلیفہ کا انتخاب ووٹنگ کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے؟
4)اگر خلیفہ کو شوری منتخب کرے گی تو شوری کو کون لوگ منتخب کریں گے؟
5 )اہل حل و عقد کا فیصلہ کیسے ہوگا؟
شومئی قسمت سے امت کا ایک طویل دور ایسے گذرا ہے جس میں اس بدنصیب کے سامنے جمہوریت کے عمل کے علاوہ فیصلہ کرنے کا کوئی اور مظہر نہیں ورہا اور حقیت حال یوں ہے کہ مقابلہ بھی جمہوریت سے نہیں بلکہ "سیکولرازم" کہ اس گھناؤنے زہر سے ہے جو کہ "خدائی سلیکشن کے مقابلے میں عوامی سلیکشن" کو امت کی رگوں میں اتارنا چاہتا ہے ۔ اس طویل دور نے ان سوالات کا جواب بھی مشکل بنادیا ہے جو کہ کبھی سے سوالات تہے ہی نہیں۔
جمہوریت کے ہاں بھی لیڈر بننے کی واقعاتی ترتیب یوں نہیں ہے کہ کوئی شخص پہلے الیکشن جیتتا ہے تو پھر وہ لیڈر کہلاتا ہے ۔ بلکہ سب سے پہلے تو جمہوریت قائم کئے جانے کا اپنا ایک عمل ہوتا ہے۔ کہیں سے تبدیلی اور انقلاب کی آواز لگائی جاتی ہے۔ ایک شخص "ملک و قوم" کی خدمت کا جزبہ لے کر اٹھتا ہے ، اس کے کارہائے نمایاں نظر آنے شروع ہوتے ہیں ، آہستہ آہستہ ایک گروپ کی صورت اختیار کرتا ہے ، یہ گروپ ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرتا ہے ، جو کسی ایک شخص کی قیادت میں ہوتی ہے اور یہ شخص عام طور پر دعوت کنندہ ہی ہوتا ہے ،جو کہ اپنی سوچ و فکر کو پیش کرتا ہے ، اگر بالفرض محال وہ کنگ کے بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دے ، جیسا کہ برصیغیر پاک و ہند میں بھی اس کی مثالیں گاندھی ، الطاف حسین یا کچھ اور لوگوں کی صورت میں مل جاتیں ہیں تو یہ سمجھنا پھر بھی محال ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس کی منظوری کے بغیر ہوتا ہوگا!
سیکولر یا بے دین سیاسی جماعتیں جو کہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی الیکشن کی حامی ہیں ، وہ بھی اپنی جماعت کے ہربندے کو جماعتی قیادت کا حق نہیں دیتیں ، بلکہ کارہائے نمایاں یا طویل خدمات سرانجام دینے والے بندے کو جس کی جماعت اور جماعت کے عقیدے کے ساتھ وابستگی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہو اسی کو جماعتی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتی ہیں اور یہ امیدوار کوئی نامعلوم کارکنان نہیں ہوتے !
ان جماعتوں کی دعوت ، ان کا طریق کار ،ان کا نکتہ ہائے نظر ان کی بنیاد اسی ایک شخص کی مرہون منت ہوتی ہیں جو اس جماعت کے نظریات کا داعی اول ہوتا ہے۔اکثر معاملات میں لوگ کسی جماعت پر جمع نہیں ہوتے بلکہ جماعت کسی فرد واحد پر جمع ہوتی ہے !
یاد رہے کہ یہاں موضوع زیربحث ایک لیڈر کی تشکیل ہے نہ کہ اس لیڈر کے سیاسی جانشینوں کا تذکرہ ،جو کہ بعد میں اسی سوچ و فکر کو لے کر آگے بڑھتے ہیں اور بعض اوقات ایک "لیڈر" کا روپ بھی دھار جاتے ہیں مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کے لیڈر بننے کے پیچہے ایک ازم کارفرما نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود ایک ازم کی پاسداری ہوتی ہے !
تشکیل کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی اس فرد ،جماعت یا گروہ کے نظریات و عقائد،بالکل واضح ہوتے ہیں۔ ایک واضح و متعین مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کے مخالفین و حمایتی بالکل کھل کا آمنے سامنے آجاتے ہیں ۔
دعوت کے ابتدائی مرحلے میں ہی یہ بات وضح ہوجاتی ہے کہ یہ پارٹی کے سیکولر اور مذہبی رجحانات کیا ہونگے۔ اس کا جھکاؤ لیفٹ ونگ پر ہوگا یا رائٹ ونگ پر۔ یہ کس طرز معاشرت ،نظام معشیت کی طرف دعوت دیتی ہے ،مختلف پیش آمدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ کیا حل تجویز کرتی ہے ،اور پھر اس دعوت کو لے کر یہ میدان عمل میں کود جاتی ہے اور ایک طویل مدت کے بعد معاشرے میں ایک اثر پزیر قوت بن جاتی ہے یا دم توڑ دیتی ہے۔
اس فرد یا جماعت کو اگر حکمرانی بھی مل جائے تو یہ سارے فیصلے کم و بیش پہلے سے فیصل ہوچکے ہوتے ہیں کہ پرائم منسٹر کون ہوگا ،ایڈوائزری کونسل کن اراکین پر مشتمل ہوگی ،وزرا کون ہوں گے ،مشیران کو ہوں گے !! کیا ان سب فیصلوں کے لیے بھی کبھی کوئی "عوامی رائے سازی" کروائی جاتی ہے !؟؟
اسلامی سیاسی جماعتیں جو کہ "امیر" کا فیصلہ مجلس شوری کے ذریعے کرتی ہیں ، وہ بھی شوری کے اندر اپنی جماعت کے ہربندے کو "امارت کا ایک امیدوار" تصور نہیں کرتیں ، بلکہ چند کارہائے نمایاں والے اشخاص ہی ان شرائط پر پورا اترتے ہیں اور انہی کو زیربحث لایا جاتا ہے اور یہ "مجلس شوری" بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی جماعتی اساسات کے ساتھ وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہو اور ایک انتھک جدوجہد و قربانی کی تاریخ اس پر گواہ ہو !
کیا آپ کوئی ایسی سیاسی جماعت بتا سکتے ہیں جو کہ اپنے ہر سیاسی قدم کا فیصلہ اپنے ہر سیاسی کارکن کی رائے جان کر کرتی ہو؟ اور تقریبا ہر معاملے میں الیکشن کرواتی ہو؟ یا کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی "مجلس مشاورت" اس جماعت کے خالص ترین اراکین پر مشتمل نہ ہوتی ہو؟ چاہے ان اراکین کا انتخاب کسی ووٹنگ سے ہوا ہو مگر ان کے خلوص کی گواہی یہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ "طویل سیاسی جدوجہد و قربانی ھوتی ہے جو کہ ان کو اپنے حلقے میں معروف بنادیتی ہے اور ان کی وفاداری کو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر۔ یہ ووٹ اس خلوص اور سیاسی جدوجہد کو پڑتے ہیں نہ کہ ان کی شخصیت کو!!
ابھی ہم معاملے کی آئیڈیل صورت لے رہے ہیں اور اس صورت کو ابھی زیربحث نہیں لایا جارہا ہے جس میں مفاد پرست عناصر پیسہ ، دھونس و دھاندلی ، جبر ، فریب وغیرہ استعمال کر کے کسی پارٹی کو ہائی جیک کرلیا جاتا ہے اور اس کو اس کی اساس سے بدل دیا جاتا ہے۔!
بہر حال آپ چاہیں کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں مگر لیڈر کے یہ خدو خال آپ کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہوں گے۔
عمران کا جادو اگر آج کام کررہا ہے تو اس کے پیچھے ورلڈ کپ کی فتح ، شوکت خانم میموریل ہسپتال ، ایک مسمراتی شخصیت ،سترہ سال کی طویل سیاسی جدوجہد شامل ہے !کیا ان کے بغیر عمران کو کوئی لیڈر بھی کہہ سکتا ہے !
یاد رہے کہ تحریک انصاف نے عمران کو جنم نہیں دیا بلکہ عمران نے تحریک انصاف کو جنم دیا ہے !
الطاف حسین کے نام کی مالا اگر آج مہاجر جپ رہے ہیں تو اس پیچھے ایک خونیں تاریخ ہے جس میں الطاف پر ہوا بدترین تشدد، اس کی جرأت،شعلہ بیانی اپنی کیمونٹی کے لیے بے انتہا قربانی کی ایک تاریخ موجود ہے !پھر یاد دلواتا چلوں
کہ ایم کیوایم نے الطاف کو جنم نہیں دیا بلکہ الطاف سے ایم کیوایم معرض وجود میں آئی ہے "
بھٹو وزیر خارجہ سے ایکدم عوام کی آنکھوں کا تارا نہ بن گیا تھا ، اس کی جرآت و شعلہ بیانی کی ادا پاکستانی عوام کے دل میں گھر کر گئی تھی،
بھٹو پیپلز پارٹی سے نہیں نکلا تھا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی !
بعینہ اسی طرح گاندھی کانگرس سے نہ نکلا تھا بلکہ کانگرس اس کی وجہ سے مشہور ہوئی !
سید مودودی جماعت اسلامی سے نہ نکلے تھے بلکہ جماعت اسلامی سید مودودی سے معرض وجود میں آئی تھی !
جرمنی کی نازی پارٹی کسی کونے میں پڑی گل سڑ رہی تھی کہ ہٹلر جیسے شعلہ بیان مقرر نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی !
ہزارہا مثالیں ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ، ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی قوم کی فکر ، تاریخ و تمدن پر عہد ساز نقوش مرتب کردیئے ،انہی سے آپ کی جماعتیں بنیں یا پارٹیوں کے تن مردہ میں جان پھونکی گئی !
ان کے ہوتے ہوئے کسی اور لیڈر ، کسی اور رہبر کا تصور کرنا بھی ان جماعتوں کے لیے محال ہے ! یہ لیڈران کسی الیکشن کے ذریعے معرض وجود میں نہیں آئے ! بلکہ کسی الیکشن میں ہارنے کہ باوجود ان میں سے کسی کی عظمت اس کی جماعت میں گہنا نہیں سکی اسی کو شائد قدرتی طریقہ انتخاب کہتے ہیں !
اب اگلا مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کو آپ ہی کے اصولوں کے مطابق سمجھ لیا جائے
۱)لیڈر کسی پارٹی یا انتخاب کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ پارٹیاں ان کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں یا دوبارہ سے زندہ ہوتی ہیں
۲) لیڈران کا چناؤ کسی قسم کا الیکشن یا کوئی طے کردہ طریق کار نہیں کرتا بلکہ ان کے کارہائے نمایاں ہی ان کا انتخاب کرتے ہیں ، الیکشن صرف اس پر ایک مہر ثبت کرتا ہے
۳) لیڈران کسی قسم کی اکثریت کے محتاج نہیں ہوتے ، بلکہ یہ کسی ایک یونٹ کی کل کہےمختار ہوتے ہیں
۴) جن لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ بھی کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے مخصوص یا جماعتی حلقہ میں خوب پہچان ھوتی ہے
۵) وہ مجلس مشاورت یا شوری جو کہ ان لیڈران کو منتخب کرتی ہے اس جماعت کے ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے۔
"الغرض، خلافت ہو یا جمہوریت، یہ لیڈران ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی قوم میں ابھرتے ہیں اور جو اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے ایک کثیر خلقت کے دلوں پہ راج کرتے ہیں۔ اپنے اسی ابتدائی اور پہلے سے قائم شدہ لیڈرانہ تشخص کی بنیاد پر یہ اس بات کے اہل قرار پاتے ہیں کے نظامِ حکومت کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں دی جائے۔ طریقہِ انتخاب کی باری تو بعد میں آتی ہے، سب سے پہلے لیڈرانہ تشخص اور اس کے نتیجہ میں ایک زیرِ اثر وسیع حلقہ پائے جانے کی یہ ابتدائی شرط پوری ہونا ضروری ہوتی ہے۔ طریقہِ انتخاب جمہوری ہو تو یہ لیڈرانہ تشخص کے حامل افراد اپنی اپنی پارٹیوں یا حامیوں کے ہمراہ انتخابی معرکےلڑتے ہیں، اور پھر اپنی اپنی مقبولیت و حمایت کے بقدر انتخابی فتح اور اس کے بعد جمہوری حکومت کے قیام میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ایک خالص اسلامی طرزِ معاشرت میں جب امتِ مسلمہ کے مقبول سرکردہ افراد و کبار علما (نہ کہ کسی خاص مقامی جماعت یا تنظیم کے اپنے افراد!)امت کے اندرکسی ایسے ہی لیڈرانہ تشخص کے حامل شخص کے اوپر امت کے امور و معاملات کی نگرانی کے لیے مجتمع و متفق ہوجاتے ہیں تو خلیفۃ المسلین کا منصب ظہور پذیر ہوتا ہے۔
اب بتایئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ امت کا دامن کسی بھی قسم کے ایسے شخص سے خالی ہے جس کے کچھ کارہائے نمایاں صرف اور صرف اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ہوں ؟ یا کہیں بھی ایسے اشخاص کا وجود نہیں ہے جن کی اسلام کے ساتھ وفاداری ہرقسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہو؟ کیا آپ کے گمان میں امت میں اس وقت کوئی لیڈر ہے ہی نہیں؟ اگر آپ کا یہ گمان ہے اور اسمیں کوئی حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ لیڈر ہونے کا مطلب آپ کے ہاں "جمہوری" ہونے سے مشروط ہے تو پھر یقین کرلیجیے کہ مسلمان لیڈر نہ تو ایسے جنم لیتا ہے اور نہ ہی ایسے پہچانا جاتا ہے !
بلکہ خود جمہوری لیڈر اس طرح جنم نہیں لیتا، بلکہ اس کے لیڈر بننے میں پہلے پہل وہی فطری طریقہِ انتخاب کار فرما ہوتا ہے جس پر اوپر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک جمہوری لیڈر اپنی دانست میں اپنی جماعت ،گروہ یا عوام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے اٹھتا ہے اور ہر اس امر کا خیال رکھتا ہے جو کہ اسے اپنی جماعت ،گروہ یا عوام میں مقبول بنادے چاہے اس کے لیے اس کو رب العزت کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینا پڑے ، اور ایک اسلامی لیڈر اللہ کے دین کے لیے اٹھتا ہے اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے وہ ہر اس امر سے محتاط رہتا ہے جو کہ اللہ کی نظروں میں غیر مقبول ٹہرے چاہے اس کے لیے انسانوں کے ایک گروہ میں وہ ملامت زدہ ہی کیوں نہ ٹہرے اور بدلے میں اللہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کا پیار ڈال دیتے ہیں !
غور کیجیے یہ چھوٹا سا فرق جو کہ آپ کو بالکل ایک سا لگتا ہے اصل میں کتنا عظیم الشان ہے ! ایک لیڈر کی ہر جدوجہد "عوامی مقبولیت و انقلاب" کے لیے ہے اور ایک لیڈر کی ہر کوشش "الہی انقلاب" کے لیے ہے۔
یہ خود ، اس کی جماعت ، اس کا گروہ ، اس کے مشیران ،اپنی مسلسل جدوجہد و قربانیوں کی وجہ سے ہرقسم کے شک وشبے سے بالاتر ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دعوت ، ان کا منشور ، ان کے دوست و دشمن ،مختلف مسائل سے نمٹنے کا جو حل یہ رکھتے ہیں وہ امت میں قبولیت پانے ہیں ۔ یہ مجہول الحال اشخاص کا ایک گروہ نہیں ہوتا ، ان کا عقیدہ عین اسلامی عقیدہ ہوتا ہے اور اسی سے ان کا منہج و طریق کار تشکیل پاتا ہے ، یہ اس کولے کر میدان عمل میں کود جاتے ہیں اور یہ میدان عمل صرف جمہوریت ہی نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے دین کی سرفرازی ہوتی ہے
یہ اسی نیچرل پروسیس سے نکلتا ہے جہاں سے آپ کے لیڈران جنم لیتے ہیں مگر ان کے مقاصد میں جوہری فرق ہوتا ہے۔ اس لیے ایک"جمہوری لیڈر" لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہونے کے باوجود اسلام کی نظر میں "نفس کے پجاری" سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور ایک اللہ کے دین کی تابعداری کی وجہ سے امت کا سرخیل بن سکتا ہے !
اگر آپ کو اس نظام کے لیے جدوجہد کرتے لوگ نظر نہیں آرہے ہیں تو یہ ان کا نہیں بلکہ آپ کی نظروں کا قصور ہے جس کے مطابق ہر لیڈر کا کم از کم "جمہوری" ہونا لازمی ہے۔ اور یہ جمہوری ہونا بھی آپ کے نزدیک مغرب کے مخصوص پیمانوں پر نہ کہ خدائی تشکیل کے اس پیمانے پر جس کی وجہ سے اللہ اپنے بندے کی محبت اپنی مخلوق کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
پھر بھی نظریں کھولیے ،ذرا افغانستان کے پہاڑوں پر نظر دواڑیئے ، عراق کے ریگستانوں کو دیکھیے ، افریقہ کے تپتے میدانوں پر نگاہ کیجیے ،ڈرونز کے شکار مظلوم لوگوں پر نظر ڈالیے ،شام کے میدانوں پر نظر ڈالیے ،مصر کے جلوسوں کو دیکھیے ، جیل خانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ،گواتناموبے کی بیرکوں میں ،کچھ مظلوموں کی آہ پکار سنیے کیا ان جگہوں پر آپ کو کوئی ایک بھی لیڈر نظر نہیں آرہا؟ کہ ہر لیڈر کے لیے "آپ کے فراہم کردہ ایک جمہوری میعار پر اترنا ضروری ہے ؟"کیا ان میں کوئی بھی صاحب اہل حل و عقد نہیں ہے ؟ کوئی بھی اصحاب شوری بننے کا اہل نہیں ہے ؟ کسی کی بھی اسلام سے وابستگی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہے ؟ کسی کی محبت بھی امت کے دلوں میں پھولوں کی خوشبو کی طرح بسی ھوئی نہیں ہے ؟ کسی کے پیچھے قربانیوں اور جدوجہد کی ایک عظیم داستان نہیں ہے ؟! اس کا انکار امر واقعہ کا انکار ہے۔
مشرق تا مغرب جو ایک عظیم دعوتی ،اصلاحی و جہادی کام چل رہا ہے اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ! ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابھی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ایک نظام کی صورت میں بپا نہیں ہوپارہا مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ "طاقت آپ کے وضع کردہ جمہوری نظام کے ذریعے ہی ان لوگوں کے ہاتھوں میں آئے "ان کے روشن کرداروں کے آگے امت کے ہزاروں مفتیوں ، لیڈروں ،مدرسوں کی مسیحائی ہیچ تھی ، امت کا بچہ بچہ ان کے نام سے ان کے کردار سے ان کے کارناموں سے واقف ۔
یاد رہے کہ "خلافت اقامت دین کے راستے کی ایک منزل ہے نہ کہ اصل مراد"کوشش و جدوجہد اقامت دین کے لیے ہے اور اسی راستے پر وہ منزل بھی آتی ہے جس کو خلافت ارضی کہتے ہیں اور یہ خدائی انتخاب ہوتا ہے نہ کہ عوامی !
آج خلافت اجنبی اس لئے لگتی ہے کیوں کہ ہمارے بھولے بھالے عوام بلکہ ہمارے کچھ مخلص داعی بھی مغرب کے باطل سیکولر گلوبل نظام میں کہیں خلافت کو فٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خلافت اس نظام میں فٹ ہوہی نہیں سکتی اور جو چیز اس نظام میں فٹ ہوگئی وہ خلافت نہیں بلکہ کچھ وقتی سمجھوتے ہی ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک قائد نے جس نظام کو توڑنے کی جدو جہد کی ہو وہ اسی نظام کے مطابق اپنی قیادت منوانے کو کوشش کرے۔ آج کے دور میں خلافت کی پہلی شرط ہی یہ ہوگی کہ کوئی فرد یا جماعت باطل کے اس فریم کو توڑنے پر تیار ہوجائے۔ خلیفہ اپنا اسلامی فریم خود بنائے گا اور اسلامی اجتماعی نظام کو بغیر کسی کامپرومائز کے مخلوق خدا پر نافذ کرے گا۔
اور اس خلیفہ کو نہ کسی ووٹنگ کی ضرورت ہوگی اور نہ کسی اور مصنوعی عمل کی ! وہ خلیفہ ہوگا جس کے کارہائے نمایاں پوری امت پر کھلے ہوں گے نہ کہ کوئی مجہول الحال شخص جس کو اپنی لیڈری کے لیے بھی چند ٹکے کے ووٹوں کی ضرورت ہو جس کہ لیے وہ کفرکو کفر کہنے سے بھی دستبردار ھونےکو تیار ہو!!