فصل 4 کتابچہ: ’’اپنی جمہوریت یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘
جمہوریت
کے ان بنیادی عناصر پر غور فرمائیے، جوکہ اسلام کے عقیدہ و شریعت کے ساتھ قدم قدم
پر متصادم ہیں ؛ آپ پر خودبخود واضح ہوجاتا ہے کہ جمہوریت نرا پرا ایک ’انتظامی ‘
طریق کار نہیں بلکہ یہ ایک باقاعدہ فلسفہ اور نظام ہے۔ اس کی جڑوں میں باقاعدہ ایک
عمرانی عقیدہ کار فرما ہے جو کائنات، وجود، زندگی اور مابعد الطبیعیات ایسے ہر ہر
مسئلے پر اپنا الگ نکتۂ نظر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اگر یہ ’دین ‘ نظر نہیں آتا تو اس
کی وجہ یہ ہے کہ کچھ تاریخی عوامل نے ہمارے یہاں ’دین‘ اور ’عبادت‘ کا مفہوم سکیڑدیا ہے۔ مغرب کے یہاں اس بات
کی پوری گنجائش ہے کہ بعض پہلوؤں سے وہ ’نصرانیت‘ کو اپنا دین رکھے تو بعض پہلوؤں
سے ’ڈیموکریسی‘ کو اور بعض پہلوؤں سے ’کیپٹل ازم‘ کو۔ ہندوؤں کو اِسے قبول کرنے
میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اجتماعی وسماجی زندگی میں ان کے ہاں ’دین ‘ کا خانہ پہلے
سے خالی چلاآتا ہے۔ بلکہ دنیا کی سبھی اقوام ہی دینِ جمہوریت کو اپنائیں (جوکہ وہ اپناچکی
ہیں) تو ان کاایسا کرنا بنتا ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں اس کی پوری گنجائش، دوسری طرف
زمانے کا یہی فیشن۔ بقول شاعر ’رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے‘!
یہ سب
اقوام پہلے دن سے کوئی جامع دین نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے ہاں اس کی پوری گنجائش تھی کہ ’پوجاپاٹ‘ کے باب میں ان کا دین کچھ ہو، تو
’معاشیات‘ کے باب میں کچھ، اور ’سیاسیات‘ کے باب میں کچھ۔ انسان کو دراصل زندگی کے ہر پہلومیں ’ہدایت‘ کی
ضرورت ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں وہ جس ہدایت پر چلتا ہے وہ اس کا ’’دین‘‘ ہے۔ اس
لحاظ سے؛ ہمارے سوا آج دنیا کی کسی بھی قوم کےلئے بیک وقت ایک سے زیادہ ’’دین‘‘
رکھنا انہونی بات نہیں بلکہ یہ ان کی مجبوری ہے؛ یہ نہ کریں تو کیا کریں۔ ایک
ہی دین جب اتنا مکمل نہ ہو کہ وہ انسانی زندگی کے ہر انفرادی و اجتماعی پہلو کو
محیط ہو تو متعدد اَدیان کو بیک وقت
اپنانے کے سوا کیاچارہ ہے؟ یہ چیز ان کے ہاں ’’تضاد‘‘
میں نہیں آئے گی۔ اِس ’’تضاد‘‘ کا
سوال دنیا کی صرف ایک قوم کے ہاں اٹھے گا
اور یہ وہ قوم ہے جس کی کتاب میں جلی حروف کے اندر لکھ رکھا ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ
عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ہونا
یہ چاہئے تھا کہ اِن جدید مذاہب کے ساتھ بھی آج ہمارا تعامل عین اِسی ’’الْيَوْمَ
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ
الْإِسْلَامَ دِينًا‘‘ کی بنیاد پر ہوتا۔ یہ سب نظام جدید دور کے مذاہب ہیں
نہ کہ محض انتظامی طریقِ کار۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ پچھلی تین چار صدیوں میں
مغرب کے ہاں بہت سے سماجی مذاہب کی پرورش ہوئی ہے۔ یہ چونکہ کلیسا کے بھگوڑے ہیں
لہذا اسے مذہبی رنگ دینے سے بچنے کےلئے یہ ’عقیدہ‘ کی جگہ’نظریہ‘ اور ’دین ‘ کی
جگہ ’نظام‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔کپٹل ازم ، سوشل ازم ، آزادی فکر، آزادی
نسواں، مساوات مردو زن، قومی ریاست (Nation State)، عالمی اخوت (عالمی برادری)، اباحیت،
جمہوریت، وطنیت (Patriotism)،
انسانی پرستی (Humanism)،
سیکولرزم وغیرہ وغیرہ سب جدید دور کے مذاہب ہیں جو ’دھرم‘ کو چرچ میں بند کردینے
کے بعد یورپی معاشروں نے پہلے اپنے لئے ایجاد کئے اور پھر پوری دنیا پر اس شریعت
کی پیروی لازم کردی۔
ہر
باطل مذہب کی طرح ان جدید مذاہب میں بھی بہت سے اچھے اچھے اور اسلام سے مشترک پہلو
پائے جاتے ہیں مگر قدیم مذاہب کی طرح ان جدید مذاہب پر بھی ہمیں وقت برباد کرنے کی
ضرورت نہ تھی کہ ان میں سے کیا چیزہمیں لینی ہے اور کیا چیز چھوڑنی ہے۔ ہمارے دین
کی تعلیم اس بارے میں بہت سادہ اور واضح ہے: ہمیں ان سے کچھ بھی نہیں لینا ، سبھی
کچھ چھوڑنا ہے۔ ان میں اگر کوئی خیرہے (اور ظاہر ہے کچھ نہ کچھ خیر ہر باطل میں
ہونی ہی چاہیے) تو وہ خیر ہمارے دین میں آپ سے آپ اورپہلے سے موجود ہے ۔ اس کے لئے
ہمیں باہر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ خیر ہمیں اپنے ہی دین پر چلتے ہوئے
وافرطور پر خود بخود مل جائے گی؛ اس کےلئے ہمیں مغرب کے کسی نظام یا اصطلاح کا حوالہ دینے
کی ضرورت نہیں؟ہم ایک خود کفیل ملت ہیں دوسرے ہمارا حوالہ دیں تو دیں؛ ہم ایک
آسمانی امت ہوتے ہوئے اور آسمانی شریعت پاس رکھتے ہوئے زمینی مذاہب کے حوالے کیوں
دیں؟ اللہ تعالی ہمیں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ایسا
اعزاز دے مگر ہم اپنی فکری پہچان کی تلاش میں یورپ کی خاک چھانتے پھریں! اللہ
تعالی ہمیں ہمارے دین کا تعارف فِي
صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ
مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي
سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ کہہ کر کرائے اور ہم اپنی شناخت تک کےلئے
مغرب کے دست نگر ہوں۔ کیا عزت و برتری ایسی نعمت غیروں کا طفیلی (Parasite)
بن کر مل سکتی ہے؟ بلاشبہ، دوسروں کے سامان میں اپنی چیزڈھونڈتے پھر نا لاچاری اور
مفلسی کی دلیل ہے۔ یہ مفلسی ہمارے دین میں نہیں، ہماری اپنی اختیارکردہ ہے۔
حضرات!
کچھ دیر کےلیے ہم ’اسلامی جمہوریت‘ کی تفصیلا ت میں نہیں جاتے... صرف اتنا پوچھ
لیتے ہیں کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں
خاتم المرسلینﷺ کی امت کو یورپ کی تراشیدہ ایک اصطلاح کی ضرورت کیونکر پڑی؟ جی ہاں،بیسویں صدی میں جب استعمار ہمیں پوری ایک
صدی تک اپنے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں پڑھا چکا تھا، ہمارے ہزار وں ذہین
دماغوں کو لمبے لمبے کورسوں پر محیط ولایت یاترا کراچکا تھا اور اپنے پیچھے اس تعلیمی
، تربیتی اور ثقافتی نظام کو چلتی حالت میں چھوڑ کرجانے کی پوری پوری تسلی
کرچکا تھا... جمہوریت میں اسلام اور اسلام میں جمہوریت اتنی عیاں ہو کر
عین اسی مرحلہ پر آخر ہمیں کیوں نظر آئی؟ اسلام کےلئے ایک ’عالمی طور پر معتبر‘
حوالے کی ضرورت ہمیں آج آکر ہی کیوں محسوس ہونے لگی؟ اسلام کےلئے خود اسلام ہی اب
کیوں حوالہ نہیں؟
اس سوال پر للہ غور فرمائیے ۔ یہ ہماری گزارش ہے۔