فصل 9 کتابچہ: ’’اپنی جمہوریت یہ تو دنیا نہ
آخرت‘‘
اس کہانی کا سب سے افسوسناک پہلویہ ہے کہ اس آفت
کی – جس کا نام ڈیموکریسی ہے– ہم نے ’’اسلام‘‘
کے ساتھ بھی مماثلتیں اور مشابہتیں تلاش کرنا شروع کردیں !
ضمیر کی خلش دور کرنے کےلئے ہم نے اس با ت کا
سہارا لیا کہ یہ کوئی مغرب والی جمہوریت تھوڑی ہے جو کفر ہوا کرتی ہے؛ وہ جمہوریت
تو ہمارے ہاں کہیں پائی ہی نہیں جاتی۔ جمہوریت جو ہمارے خیال میں ویسے ہی اسلام سے
بے انتہا مماثلت رکھتی تھی اب ہمارے ہاں آتے آتے تو ان ’چند‘ نقائص سے بھی پاک
کرلی گئی تھی جو مغربی اقوام نے اس میں ’بلاضرورت‘ ٹھونس دیے تھے۔ یہ سب ’غیر
ضروری‘ اجزاء ’ہمارے والی‘ جمہوریت سے جھاڑ پونچھ دیے گئے تھے اور کچھ غیرموثر
دفعات کااضافہ کرکے یہ اسلا م کے شایانِ شان بھی کرلی گئی تھی۔ گویا اس دام میں نہ
آنے کی اب کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی!
یاد رہے... اِس واقعہ کے بعد، اسلامی قوتوں کا
پورا کیس ایک لحاظ سے داخل دفتر ہوگیا تھا۔ اسلام کے اِس کیس کوازسرنو اٹھانا اب
جان جوکھوں کا کام ہوگیا ہے؛ بلکہ کچھ لوگوں کے الفاظ میں ’قومی اجماع کی خلاف
ورزی‘! ان کا کہنا ہے ’اسلام‘ دستور کے حوالے ہوچکا؛ اور دستور ہی اب یہاں کا آخری
حوالہ! یعنی بقیہ زمانے کےلیےاب ’’اسلام‘‘ کی
قسمت اِس دستور اور اس کے بااختیار تعبیرکنندگان کے ساتھ وابستہ ہے یا پھر
نمائندگانِ عوام کے اِس پر مہربان ہوجانے کے ساتھ۔ تاہم اِس موضوع پر کسی اور مقام
پہ گفتگو ہوگی۔
ان ’اسلامی دفعات‘ کی بابت ہمارے یہاں جو لاحاصل
بحثیں ہوتی رہیں (گو اَب جاکر اِن بحثوں کی گرمجوشی ذرا تھم گئی ہے کیونکہ میڈیا
ہمیں قوم کے کچھ ’حقیقی‘ مسائل کی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو چلا ہے!)... ان
بحثوں کے دوران اکثر جو چیز ہم نظر انداز کربیٹھتے رہے وہ یہ کہ اس نظام کی کونسی
بات اتنی سنجید گی سے لینے کے قابل تھی۔ یہ تو وہ نظام ہے جسے معاشرے کے سبھی
طبقوں کو ساتھ چلانا تھا؛ اور یہ اِس کی مجبوری ہے۔ ہر طبقے ہی کےلئے اس آئین میں
کچھ نہ کچھ پایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ
ہر طبقہ اپنےاپنے انداز اور اپنےاپنے زاویے سے آئین کی تشریح کرے؛ اور یوں سبھی
ایک دوسرے سے الجھتے پھریں... اور بالآخر مسئلہ ’آئین کی روح‘ کی جانب لوٹا
کر بحث ختم کرادی جائے؛ ’آئین کی روح‘ جوکہ ایک غیرمرئی شےء ہے!
سبھی کا اتفاق ہے کہ شریعت کے موضوع پر آئین میں
ایک ابہام ضرور ہے۔ اِس ابہام کو رفع کرنے کےلیے آئینی ترامیم پر مشتمل ایک شریعت
بل بھی ہمارے اُن طبقوں کی جانب سے پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہےجو اس سے کچھ
عشرے پیشتر اِس آئین کو اسلام کے تابع مان چکے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ
آئین تو سرے سے اسلام کے تابع نہیں ہے؛ صرف کچھ قوانین کو ’اسلام کے مطابق‘ کرنے
کی بات ہوئی ہے اور اسی میں ایک بڑا ابہام ہے ( یہ واضح ہونے کے بعد ہی یہاں آئینی
شریعت بل کی ضرورت جانی گئی مگر دستورساز ’اتھارٹی‘ نے اِس ’درخواست‘ کو قابل
اعتنا نہیں جانا)۔ ہماری اِس گفتگو میں اسی آئینی ابہام یا دستوری رخنے کی
بات ہورہی ہے جس نے یہاں ’اسلامی قوانین‘ کے ہاتھ باندھ ڈالے ہیں۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے، آئین میں پایا جانے
والا یہ ابہام کسی غفلت یا کوتاہی یا لاپروائی کا نتیجہ ہے! بہت کم لوگ
جانتے ہیں، یہ ابہام بجائےخود مقصود ہے اور اِسی نے ہمارے مذہبی اور
غیرمذہبی طبقوں کے مابین بیچ کی راہ نکال کر دی ہے۔ اِسی ابہام نے ان مختلف الخیال طبقوں کے چار عشرے اِس
فنکاری کے ساتھ نکلوا دیے کہ بسیار کوشش کرلینے کے بعد بھی آئین سے نہ کسی فریق کے
کچھ ہاتھ آیا اور نہ کسی فریق کی امید ٹوٹی! حق تو یہ ہے کہ اس آئین میں سبھی کچھ
پایا جاتا ہے۔ اس میں کچھ اور داخل کرنے کی ضرورت کیا ہے؛ یہ بتایئے کس طبقے کےلئے
اس میں کیا نہیں ہے!
چنانچہ ہم سے جو ایک بڑی بھول ہوئی وہ یہ کہ اس
نظام کو اور اس کی اسلامی یا غیر اسلامی دفعات کو خوامخواہ سنجیدہ لے بیٹھے۔ یہ تو
ایک چکر میں گھومنا تھا، اس کی بس یہی بات سنجیدہ تھی؛ باقی اس کے الفاظ اور
تعبیرات پر جانا تو ایک خوامخواہ کی اضافی مشقت تھی۔
بنیادی طور پر یہ ایک استحصالی نظام ہے۔ اس میں ہر
چیز کا استحصال ہونا تھا۔ ہمارا تو سو سال سے ہورہا تھا اب اسلام کا بھی ہمارے
ساتھ ہونے لگا ۔ سادگی میں آکر اس کی اسلامی دفعات کی سب سے زیادہ تشہیر بھی ہم نے
ہی کی۔ بھائیو ہم ان دفعات کو لے کر کہاں کہاں نہیں پھرے؟ کہا ں کہاں ان کے حوالے
نہیں دیے؟ اب یہ کوئی ہماری بات تھوڑی تھی جو کہیں سنی ہی نہیں جائے! یہ دستور کے
حوالے تھے ۔ آئین کی دفعات تھیں۔ ہم ان دفعات کے نمبر بتا سکتے تھے۔صفحات کی
نشاندہی کرسکتے تھے۔ ہم ان کو لے کر عدالتوں میں پھرے۔ اسمبلیوں میں گئے۔ ایوانوں
سے کہا کہ ظالمو اب یہ صرف قرآن اور حدیث کے حوالے تھوڑی ہیں جن کی اپنی کوئی
دستوری حیثیت ہی نہیں۔ یہ تمہارے دستور کی دفعات ہیں اب تو سنو۔ ’’آئین‘‘ کی شقیں
ہیں ان کا تو احترام کرو۔ کس نے ہماری سنی؟ہاتھ کیا آیا ؟ ہم بھی خراب ہوئے اور
ہمارا دین بھی۔
چنانچہ اس نظام کے بارے میں مناسب ترین رویہ یہی
ہوتا کہ اس کے ساتھ کچھ ایساسنجیدہ نہ ہوا جائے؛ نہ اس سے اسلام کی کوئی امید رکھی
جائے اور نہ اس کے الفاظ اور عبارتوں پر اتنی جان کھپائی جائے۔ نہ ہی ہمیں اس نظام
کے خلاف کوئی لمبےچوڑے نعرے لگانے کی ضرورت تھی ۔ بس معاشرے میں اسلام کی اصل
بنیاد اٹھانے کے سلسلہ میں اپنے کام سے کام رکھا جاتا۔ اِس نظام کا متبادل دینے
اور اِس کے کارپردازوں کا متبادل بننے والی ایک باصلاحیت جمعیت کی تیاری پر زور
رکھا جاتا۔ ایسا کوئی جاندار تحریکی انفراسٹرکچر کھڑا کرنے پر محنت کرلی
جاتی... تو تب سے اب تک نہ
جانے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہوتے۔
حضرات ایک ایسے نظام سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں
جس کی بنیاد ہی بددیانتی، دو رخی، استحصال، انتشار اور افراتفری پر رکھی گئی ہو
اور ہر لمحہ اس میں پینترے بدلے جاتے ہوں!