جمہوری نظام اور اسکے تسلسل کی قیمت
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
مستعار جمہوری نظام اور اسکے تسلسل کی قیمت بشکریہ اوریا مقبول جان گزشتہ دس سال اس دنیا نے جمہوری نظام کے قیام اور اسکےتسلسل کی جو قیمت چکائی ہے ، جس قدر قتل و غارت دیکھا ہے، اسکی تعداد دو عالمگیر جنگوں اوربادشاہوں کی ملک گیری کے ہوس میں مارے جانے والے افراد سے کسی صورت کم نہیں۔حیرت کی بات ہے کہ اس دنیا پر قابض جمہوری مافیا نے انسانوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار انہ کارپوریٹ کیساتھ اتحاد سے پوری ایک صدی میں صرف ایک ٹیکنالوجی میں کمال ترقی کی جسے جنگی مہارت کا نام دیا جاتا ہے۔کاغذ کے نوٹوں سے پیدا شدہ مصنوعی دولت کے بل بوتے پر دنیا بھر کے وسائل لوٹے گئے اور ٹینکوں، توپوں، میزائلوں ، لڑاکا طیاروں،بحری بیڑوں اور ڈرونز کے انبار لگا لیے گئے۔یہی وہ مصنوعی طور پر پیدا شدہ سرمایہ تھا جس سے دنیا بھر کا خام مال مغرب میں پہنچااور ساتھ ہی افریقہ کے ساحلوں سے جانوروں کی طرح غلام بھر بھر کر لائے گئے اور فیکٹریاں آباد کی گئیں، سڑکیں اور پل بنوائے گئے اور کھیتوں کو سرسبز کروایا گیا۔کبھی دنیا بھر سے پڑھے لکھے اور قابل افراد کو دولت کے لالچ میں خرید کر اپنے ہاں آباد کرلیا گیا ۔دنیا بھر سے جتنے ڈاکٹر اس وقت امریکہ جا کر آباد ہوئے ہیں اور وہاں کے لوگوں کا علاج کر رہے ہیں اگر امریکہ انکی تعلیم اپنے ریاستی خرچ پر کرتا تو اسکی لاگت اس امداد سے تین گنا زیادہ ہوتی جو وہ ابھی تک پوری دنیا کے غریب لوگوں کو دے چکا ہے۔ یہ سب صرف اسلئے ممکن ہو ا کیونکہ سب سے پہلے مغرب نے ایک عظیم فوجی طاقت بنائی اور پھر دنیا پر چڑھ دوڑا۔آئزک نیوٹن جسے دنیا ایک سائنسدان کے طور پر جانتی ہےاور اسکا بہت احترام کرتی ہےلیکن اکی مکاری اور عیاری سے دنیا میں جو توازن بگڑا،اسکی وجہ سے آج تک انسان جو ظلم سہہ رہاہے وہ انتہائی خوفناک ہے ۔برطانیہ کے ایک سرمایہ دار، چارلس ، ارل آف ہیلی فیکس سے نیوٹن کی دوستی ۱۶۷۹ میں شروع ہوئی ۔نیوٹن ایک غریب آدمی تھا لیکن تھا ذہین۔چارلس نے اسکے تعلیمی اخراجات اٹھائےاور اسے اپنے ساتھ ساتھ اعلی حکومتی حلقوں میں لیکر گھومنے لگا۔میں یہاں موضوع کو رنگین کرنے کیلئے نیوٹن کی بھانجی کیتھرین بارٹون اور چارلس کے تعلقات کا ذکر نہیں کرنا چاہتاجس سے اس زمانے کا محدود میڈیا لطف اندوز ہوتا تھا۔لیکن اس سارے فسانے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ چارلس نے نیوٹن کو سکے ڈھالنے والے ٹیکسال کا انچارج لگوایا۔دوسری جانب چارلس، ارل آف ہیلی فیکس نے ۱۶۹۴ میں بینک آف انگلینڈ کی بنیاد رکھ دی۔بینک آف انگلینڈ کا چارٹر بھی انگلستان کے یہودیوں نے حکومت برطانیہ کو مقروض کر کے حاصل کیا تھا۔اس میں سب سے زیادہ قرضہ چارلس، ارل آف ہیلی فیکس نے دیا تھا۔نیوٹن سائنسدان تھا، اسے علم تھا کہ قدرت نے اس دنیا میں سرمائے کے توازن کیلئے سونے اور چاندی کے درمیان ایک اور بیس کی شرح رکھی ہوئی ہے اور پوری دنیا کے ٹیکسال اسی شرح سے سکے ڈھالتے ہیں ۔۱۷۱۷ میں اس نے یہ شرح تبدیل کر کے ایک اور پندرہ کر دی ۔یہ آغاز تھا سونے کے سکوں کی قدر کم کر کے اور اسے مارکیٹ سے غائب کر کے کاغذ کے نوٹوں کو متبادل بنانے کا۔پہلے چاندی نے اہمیت اختیار کی اور پھر اس سرمایہ دارانہ جمہوری مافیا نے دنیا بھر کے وسائل کو لوٹ کر اپنے پاس جمع کر لیا۔اس شرح سے پہلے سونا سستا کیا گیا اور پھر دنیا بھر سے سونے کوخریدا گیا۔آپ حیران ہونگے ایسٹ انڈیا کمپنی جب لوگوں سے ٹیکس وصول کرتی تو سونے کے سکوں میں کرتی اور چاندی کے سکے ناقابلِ قبول ہوتے۔یوں یہ عالمی مافیا دنیا بھر سے وسائل اور سونا اکٹھا کرتا رہا۔لیکن اس ساری لوٹ مار کی بنیاد وہ فوجی طاقت تھی جو اس نے منظم کی تھی۔جب اس دولت اور لوٹ مار کی بدولت خوشحالی نے مغرب کے دروازے پر دستک دی تو پھر اسکے تحفظ کیلئے ایک مضبوط جمہوری نظام قائم کیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ یہ تمہاری حکومت ہے ، یہ تمہاری دولت ہے اور اسکا تحفظ تم پر فرض ہے ۔بھولے بھالے عوام کو کیا خبر کہ پارلیمینٹ میں بیٹھے ارکان وہ کٹھ پتلیاں ہیں جنہیں ان مکاری سے امیر ہونے والوں نے پارٹی فنڈ کے نام پر خریدا ہوا ہے، آج بھی اگر سرمایہ دار اربوں ڈالر، پونڈ یا یورو پارٹی فنڈ میں نہ دیں تو کوئی بھی الیکشن نہ جیت سکے۔سرمائے کے بل بوتے پر جہاں انہوں نے حکمرانوں کو خریدا ، وہاں کمیونزم کے خوف اور مزدوروں کے غصے سے بچنے کیلئے لولی پاپ کی طرح شہری سہولیا ت اور تھوڑی بہت سوشل سکیورٹی میں اضافہ کیا ورنہ آلیور ٹویسٹ کا ناول جس زمانے میں لکھا گیا، اس وقت کا انگلستان دنیا کا سب سے بڑا چائلڈ لیبر کا مرکز تھا جہاں روزانہ معصوم بچے مشینوں کے پٹوں میں آ کر یا گرم گرم چمنیاں صاف کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ جمہوریت بھی تھی، پارلیمینٹ بھی تھی لیکن کوئی ایک آواز اسکے خلاف نہ اٹھ سکی ۔یہ تو بھلا ہو مزدوروں کی سوشلسٹ تحریک کا جس نے خوف زدہ کر کے تھوڑا بہت ان سے چھین لیا ۔ سود ، سرمایہ، فوجی قوت اور جمہوریت کا یہ گٹھ جوڑ اب عوام کو مکمل طور پر بیوقوف بنانے کیلئے تیار تھا۔ اسکا بہترین راستہ میڈیا تھا۔ پہلے اخبارات اور نیوز ایجنسیاں بنیں اور پھر میڈیا ہاؤسز اور آج یہ سب کے سب اسی مافیا کے کنٹرول میں ہیں ۔ ان پر اشتہارات کی صورت میں نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے جس کے بدلے میں میڈیا وہی راگ الاپتا ہے جو وہ چاہتے ہیں ۔ دنیا کو پہلے لوٹا گیا پھر فوجی طاقت بنائی گئی ، پھر کاغذ کے نوٹ عام کیے گئے اور پھر ان کاغذ کے نوٹوں کے بدلے جہاں سے چاہا تیل، گندم، کپاس، سونا، ہیرے اور قیمتی دھاتیں سب خرید لیا گیا۔ آج بھی یہ لوٹ مار جاری ہے اور اسکا تحفظ انکے پیسے پر پلنے والی کانگریس ، پارلیمینٹ ، اسمبلیاں اور میڈیا کرتا ہے۔ کیا خوبصورت نظام ہے ۔دنیا کو آزادی، انسانی حقوق اور عوام کی بادشاہت کے خواب میں الجھا کر لوٹ مار جاری رکھو اور جو اس ملک کو نہ مانے اسکا وہ حشر کرو کہ دنیا کانپ اٹھے۔ یہی وہ گورکھ دھندا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دس سال کے دوران اس دنیا نے جمہوری نظام کے قیام اور اسکے تسلسل کیلئے بیس لاکھ سے زیادہ انسانوں کی لاشیں اٹھائی ہیں ۔ان لوگوں نے شور مچایا کہ افغانستان اور عراق میں آمریت ہے، یہ غدار کہاں سے آ گئے۔ پوری دنیا نے مل کر ان ممالک پر حملہ کیا ، ہر ملک میں دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا، ایک آئین تحریر کیا، الیکشن کروایا اور کہا : جاہل ، گنواراور اجڈ لوگو! ایسے زندگی گزارو ورنہ جینے نہیں دیں گے۔ میرے ملک میں پانچ سال لوٹ مار ہوتی رہی ، قتل و غارت ہوا، انسانوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی ، لوگ بھوک سے خود کشیاں کرنے لگے، لیکن خبردار !خاموش رہو کہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔ اس نظام کو ہاتھ مت لگا نا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا ۔ یہ ملک کون توڑے گا؟ وہ مغربی ممالک جن کے شہروں میں اس ملک کو توڑنے کا نعرہ لگانے والے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے سرمائے سے وہ اسلحہ خریدتے ہیں ۔ خوف بھی خود پیدا کیا ، اپنے خریدے ایجنٹوں کے ذریعے کیا اور بچت کا راستہ بھی خود دکھاتے ہیں کہ جمہوریت کے تسلسل میں ہی تمہاری بچت ہے ۔یہی وجہ ہے، ہر کوئی یہ کہتا پھرتا ہے الیکشن تو عراق اور افغانستان میں بھی ہو گئے تھے ، پاکستان میں کونسی مشکل ہے ۔عراق اور افغانستان میں الیکشن قابض فوجوں نے کروائے تھے ، وہاں کے عوام نے نہیں ۔عوام کے بس میں ہوتا تو وہ ان لوگوں کی بوٹیاں نوچ لیتے جنہوں نے انہیں قتل، بربریت، بھوک اور افلاس کیساتھ جمہوریت بھی تحفے میں دے دی۔
|
|
|
|
|
|