اسلامی
تحریکوں کا راستہ ’’معاشروں‘‘ کے بیچ سے گزرتا ہے، نہ کہ براہِ راست ’’ایوانوں‘‘
تک پہنچتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے، اسلامی تحریکوں کا راستہ ’’ایوانوں‘‘ تک جائے
نہ جائے، ’’معاشروں‘‘ کے بیچ سے بہرحال گزرتا ہے۔
’’معاشروں‘‘
کے بیچ سے گزرنے والے راستے اسلامی تحریکوں پر کبھی بند ہی نہ تھے جو اِن کے مسدود
ہونے کے واویلے ہونے لگیں۔ یہ راستے بڑی دیر ہوئی کبھی چلے ہی نہ گئے تھے جو اَب
ہم تھک بیٹھنے کی بات کریں۔ ہم کسی تصوراتی دنیا میں تھے؛ ’’راستے‘‘ تو مسلسل
سنسان اور ہمارے منتظر ہی رہے!
ہماری
نظر میں، اسلامی تحریکوں کے لیے میدان اِس وقت پوری طرح خالی ہے۔ ’’مایوس کن‘‘
حالات کے اِس وقتی رخ سے کبیدہ خاطر ہونا درست نہیں۔ لوگوں کی سیاسی مقبولیت کے
گھٹتے بڑھتے گراف کو خاطر میں مت لائیے؛ آپ تھوڑی سی تیاری کرلیجئے؛ معاشرے کی
سرزمین پر کچھ پیر جمالیجئے اور پھر آگے بڑھئے، میدان شاید آپ کو توقع سے بڑھ کر
خالی ملے۔ پھر عالمی حالات تیزی کے ساتھ جس بہت بڑے خلا کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہو
سکتا ہے یہاں وہ ہا ہا کار مچے کہ آپ کو گزرے وقت کی بابت صرف ایک بات کا افسوس ہو
اور وہ یہ کہ ’’فارغ دنوں‘‘ میں آپ اِس چیلنج کے شایانِ شان تیاری نہ کر سکے تھے
اور یہ کہ اِن مواقع سے خاطر خواہ مستفید ہونے کے لیے آپ اپنے ’’رجال‘‘ پیدا کر
سکے تھے اور نہ ’’معاشرے کی سرزمین‘‘ تیار کر پائے تھے۔
وقت
کی اسلامی تحریکوں کو یہاں جو ’’قوت‘‘ درکار ہے، اُس کو فراہم کرنے کے یہ دو ہی
بڑے محور ہیں:
1) جاہلیت
کا نظریاتی ابطال.. جاہلیت سے اپنا زیادہ سے زیادہ فرق سامنے لے کر آنا.. جاہلیت
کے ساتھ ’’درمیانی راہیں‘‘ چلنے کو خارج از امکان بناتے چلے جانا.. جو یہ آشکار
کردے کہ یہ دو ’’عقیدوں‘‘ اور دو ’’ملتوں‘‘ کی کشمکش ہے نہ کہ ’’حزبِ اقتدار‘‘ و ’’حزبِ
مخالف‘‘ ایسی کوئی واجبی کسرت جو ’’سسٹم‘‘ کی صحت اچھی رکھنے کے لیے انجام دی جاتی
ہے.. جاہلیت کے خلاف اپنے کاٹ دار لہجوں کو کلائمکس کی طرف بڑھاتے چلے جانا اور اس
کے خلاف شدید ترین مزاحمت پیدا کروانا.. اجتماعی حوالوں سے’’اسلام‘‘ پر جینے اور
’’اسلام‘‘ پر مرنے کے مشن پر معاشرے کے ایک موثر طبقے کو یک آواز کروانا۔
2) اِس
نظریاتی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ، معاشرے کے اندر بھی جڑیں گاڑ کر چلنا اور ’’باطل‘‘
کے خلاف محض نظری بحثوں (خطبوں، تحریروں، جلسوں، ’ڈرائنگ روم ملاقاتوں‘، ’چینل
مناظروں‘ یا گلی گلی پھرنے ایسی کچھ ’’مجرد‘‘ قسم کی سرگرمیوں) تک محدود نہ رہنا۔
جس کا طریقہ یہی ہے کہ اسلامی قیادتیں معاشرے میں گہرا اترنے کے وہ سب سوتے ہاتھ
میں کریں، جس سے یہ معاشرے کے ایک موثر طبقے کے اندر بولنے لگیں، حیاتِ اجتماعی کے
بیشتر فیلڈز میں معاشرے کو دینے کے لیے موثر ترین قیادتیں سامنے لائیں۔۔۔ تاآنکہ
اِن کے اسلامی ایجنڈا کی مزاحمت مشکل سے مشکل تر ہوجائے اور ان کے دیے ہوئے
رجحانات معاشرے پر چھاجانے کی صلاحیت پائیں۔ یوں اسلام کی پیش قدمی سڑکوں پر الاپے
جانے والے کچھ سطحی ’’نعروں‘‘ کی صورت میں نہیں بلکہ معاشرے کی ’’رگوں‘‘ کے اندر ہونے
لگے۔
’’انقلاب‘‘
یا ’’خلافت‘‘ آنے تک ہر چیز مؤخر کر رکھنا کوئی صائب منہج نہیں
یہ
وہ غیرپیدآور non-productive طرزِ فکر ہے جس کی رُو سے۔۔۔:
ý
’’تعلیم‘‘ کا مسئلہ، ’’انقلاب‘‘
آنے پر سلجھایا جائے گا، ابھی تو اِس پر صرف صبر کرنا ہو گا اور زیادہ سے زیادہ،
حالیہ کافرانہ نظام تعلیم کی مذمت یا اِس سے کنارہ کشی کی اپنی وہ ایک دیرینہ
پالیسی جاری رکھنا ہوگی!
ý
معاشرے کے اندر ’’امر بالمعروف و
نہی عن المنکر‘‘ کا مسئلہ ’’انقلاب‘‘ آنے پر چھیڑا جائے گا، ابھی اِس کا امکان
کہاں؟!
ý
’’تہذیبی جنگ‘‘ کے لیے قوم کی صفیں
بنانے کا مسئلہ، ’’انقلاب‘‘ آئے گا تو دیکھا جائے گا، ابھی بھلا اِس کی کیا صورت؟!
ý
’’میڈیا وار‘‘ میں جہاں تک ممکن ہو
پورا اتر کر دکھانے کا چیلنج ہے، وہ بھی ’’انقلاب‘‘ آنے پر ہی دیکھا جا سکتاہے،
ابھی اِس کی گنجائش کہاں؟!
ý
یہاں تک کہ کئی طبقے اپنے
’’انقلاب‘‘ کی کامیابی تک، مسلم مقبوضہ خطوں کے لیے ہونے والے ’’قتال‘‘ کو ناجائز
ٹھہراتے ہیں! دشمنانِ اسلام فلسطین، یا افغانستان، یا عراق، یا چیچنیا یا کشمیر
میں ہمیں چیر پھاڑ دیں تو بھی ان کے نزدیک اسلام کے اِن ازلی دشمنوں اور اِن خونیں
بھیڑیوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے ’’ملک‘‘ میں ان کے ’’انقلاب‘‘ کا ہی انتظار
کیا جائے اور تب تلک دشمن ہمارے ساتھ جو بھی کرے، یہاں تک کہ وہ ہماری ڈیموگرافی
ہی تبدیل کر کے چلتا بنے، اُس کے خلاف مسلح مزاحمت سے دست کش رہا جائے، خواہ ہمارے
اِن بھائیوں کا یہ منتظرہ ’’انقلاب‘‘ آنے میں کتنی ہی دیر لگے!
مختصر
یہ کہ: امت کے سب یا بیشتر اجتماعی مصالح یہاں پر لائی جانے والی کسی موہومہ سیاسی
تبدیلی کے انتظار میں موقوف ٹھہرا رکھنا!
حق
یہ ہے کہ وہ سیاسی تبدیلی جسے آپ ’انقلاب‘ یا ’’خلافت‘‘ کہتے ہیں، خود اُس کا
رونما ہونا بھی بڑی حد تک اِسی بات پر موقوف ہے کہ پہلے آپ یہاں پر جاہلیت کے ساتھ
فکری و نظریاتی و علمی میدان میں ایک معرکہ لڑ کر دیں!
مکی
مرحلہ پر قیاس!
ابتدائے نبوت کی صورتحال کے برعکس، کہ جب یہ امت گنے چنے باعزیمت
نفوس پر مشتمل تھی، آج ہم اپنے سامنے شرق تا غرب پھیلی ہوئی اور صدیوں کے اِدبار
تلے دبی ہوئی پوری ایک امت کو دیکھتے ہیں، جوکہ اُس صورتحال سے بے حد مشابہ ہے جو
موسیٰ علیہ السلام کو مصر میں پیش آئی تھی۔ امت کی اِن دینی و دنیوی ضرورتوں کو جو
کہ کچھ فوری تدارک چاہتی ہیں نظر انداز کرتے چلے جانا، کہ گویا ان کا ابھی وقت ہی
نہیں ہوا (جبکہ ان کی فراہمی عملاً یہاں کے دین بیزار طبقوں یا بیرون کی ریموٹ
کنٹرول انجیل بردار این جی اوز پر چھوڑ رکھا گیا ہو)، یہ ہم اسلامی تحریکوں کے حق
میں ایک فاش غلطی ہو گی۔
اشد ضروری ہے کہ __ آج اِس حالت میں بھی __ امت کی جو دینی و دنیوی
ضرورتیں ہیں ان کی برآری، اور عمل کے ہر ہر میدان میں امت کی راہ نمائی __ جہاں تک
ممکن ہو __ صالحین کے ہاتھوں اور صالحین کے ایجنڈا کے تحت انجام پائے نہ کہ اُن
خدا فراموش قیادتوں کے ہاتھوں جو امت کو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے برگشتہ کر دینے
کے ایجنڈا پر ہیں۔
ہرگز
ضروری نہیں کہ کسی ’’انقلاب‘‘ یا ’’خلافت‘‘ کے انتظار میں، جس کو سال بھی لگ سکتے
ہیں اور عشرے بھی، اور جس میں نسلیں بھی بیت سکتی ہیں، بلکہ بیت گئی ہیں.. امت کے
یہ سب اسٹرٹیجک مصالح معطل رکھے جائیں۔
جن حضرات کا فرمانا ہے کہ نبی ﷺ جب تک ’انقلاب‘ نہیں لے آئے، تب تک
معاشرے کی ایسی کسی ضروت کو آپؐ نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔۔۔ ان سے پوچھئے، وہاں پر
مسلم معاشرہ تھا کہاں؟ جس طرح آج ہمارے ہاں پہلے سے موجود ایک امت پائی جاتی ہے
ویسی کوئی صورتحال ’’مکی زندگی‘‘ میں تھی کہاں؟ وہاں تو ’’امت‘‘ چند درجن افراد
کانام تھا۔ محض یہ مماثلت، کہ ہر دو زمانہ میں آپ ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کو مفقود
پاتے ہیں، ہماری آج کی اجتماعی ضروریات کو ’’مکی زندگی‘‘ کی اجتماعی ضروریات پر
قیاس کروانے کے لیے کافی کیونکر ہے؟
یہ امت اپنی اِس حالت میں، اور اِس امت کے بچے اور بچیاں اِس حالیہ
مرحلہ میں، آپ کا نہیں تو کس کا بوجھ ہیں؟ یو این او کا؟ یونیسف کا؟ مستشرقین کے
وضع کردہ تعلیمی و تربیتی نیٹ ورک کا؟ انجیل بانٹنے والی ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی
تنظیموں اور انجیل پڑھانے والے ’’کانونٹس‘‘ کا؟ لہک لہک کر __ امتِ محمدؐ کے مابین
__کفر پھیلانے اور عریانی عام کرنے والے میڈیا کا؟ یہاں کفر کا نظام چلانے کی ذمہ
داری اپنے سر لے رکھنے والے حکمرانوں کا؟ یا خود آپ کا، یعنی امت کی شرعی قیادتوں
کا؟ اتنی بڑی امت آخر کسی کا تو بوجھ ہے!
امت کا یہ بوجھ اٹھانے سے آپ اِس بنیاد پر رُکے رہتے ہیں کہ اتنا
بوجھ اٹھا لینا آپ کے بس سے باہر ہے تو یہ ایک سمجھ آنے والی بات ہے اور اِس بنیاد
پر اگر ’’اغیار‘‘ کو آپ کی امت کا یہ بوجھ ’’اٹھانے‘‘ کا موقعہ ہاتھ آتا ہے تو یہ
بھی __ باوجود تکلیف دہ ہونے کے __ سمجھ آنے والی بات ہے۔ کیونکہ بس نہ چلنا ایک معقول
عذر ہے۔ تاہم اگر آپ اِس کی کچھ ’’اصولی و علمی بنیادیں‘‘ ہی پیش کرنے لگتے ہیں تو
یہ البتہ ایک پریشان کن بات ہے۔
سوائے
امت کو ’’وعظ‘‘ کرنے، یا اپنی ’’تنظیم‘‘ میں آنے کی دعوت دینے، یا ’’انقلاب‘‘ یا
’’خلافت‘‘ کے لیے اپنی چھتری تلے اکٹھا ہونے کی یاددہانی کرانے، یا گاہے گاہے امت
سے ’’جلوس‘‘ نکلوانے یا ’’نعرے‘‘ لگوانے کے.. امت کے کسی کام آنے کا روادار نہ
ہونا اور اپنے آپ کو امت کی کسی خدمت کا مکلف نہ جاننا۔۔۔ بہت سے دینداروں کے ہاں
یہ کوئی ’’کوتاہی‘‘ اور ’’قصور‘‘ نہیں بلکہ ایک واجب الاتباع ’’منہج‘‘ ہے! کئی قابل
احترام طبقے اِس منہج کے باقاعدہ ’’دلائل‘‘ رکھتے ہیں! یہاں تک کہ اِس منہج سے
’’انحراف‘‘ کرنے والوں پر ’’شرعی گرفت‘‘ ہوتی ہے کہ بھلے مانسو! ابھی تو
’’انقلاب‘‘ یا ’’خلافت‘‘ ہی نہیں آئی، ابھی سے ’’سماجی محنت‘‘ میں جت گئے!
جہاں پہلے سے ایک امت پائی جائے گی (جیسا کہ آج ہے)، اُس کی ضروریات
یقیناًاُس صورتحال سے مختلف ہوں گی جہاں ایک امت کو ’’عدم‘‘ سے وجود میں لایا جا
رہا ہو (جیسا کہ دورِ نبوت کے ابتدائی سالوں میں تھا)۔ یہ وہ بنیادی و اصولی فرق
ہے جو بہت سی اجتماعی ضروریات کے حوالے سے ہماری آج کی صورتحال کو نبویؐ جماعت کے
’’مکی مرحلے‘‘ سے مختلف ٹھہراتا ہے۔ اور یہیں سے ہمارے اجتماعی فرائض کا نقشہ بھی،
’’خلافت‘‘ نہ ہونے کے باوجود، خاصا مختلف ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ایک ’’پہلے سے پائی
جانے والی‘‘ قوم کی ضروریات بے حد متنوع اور نہ ٹالی جانے والی ہوتی ہیں، بہ نسبت
اُس قوم کے جس کو ’’عدم‘‘ سے وجود میں لایا جانا ہو۔ یہ ہو ہی کیسے سکتا ہے کہ ایک
قوم کی صدیوں سے جو ضروریات چلی آ رہی ہوں وہ یکسر موقوف ٹھہرا دی جائیں، خصوصاً
اُس کے دینی مطالب و ضروریات.. اور ’’دلیل‘‘ یہ ہو کہ اب تو ہمارے ہاتھ سے
’’خلافت‘‘ ہی چلی گئی ہے!؟
جو ہو سکتا ہے، اور جو کہ عمل کا کوئی چھوٹا دائرہ نہیں، اسلامی
تحریکیں فی الوقت وہ کام تو معاشرے میں کریں۔ خاص طور پر جبکہ ’’راستہ‘‘ بنانے کی
کوئی صورت بھی اسلامی تحریکوں کے لیے یہیں سے نکل سکتی ہو۔ ہاں اِس کام کو ہاتھ
ڈالنے سے پہلے آپ کو لا الٰہ الا اللہ پر خوب خوب محنت کرنا ہو گی۔ اپنا وہ کیس
سامنے لانے پر سخت جان کھپانا ہو گی، جس کو منواتے چلے جانے کی صورت میں ہی جاہلیت
معاشرے کی قیادت سے معزولی کے قابل ٹھہرے گی اور اسلامی قیادتوں کے لیے یہاں پر
ایک جگہ بنے گی۔
حضرات۔۔۔! ’’خلافت‘‘ چلی گئی ہے، تو ہی تو ہم نے اِن ’’اسلامی
تحریکوں‘‘ ضرورت مانی ہے!۔۔۔ مگر یہ اِس لیے تو نہیں کہ یہ تحریکیں ’’خلافت‘‘ چلی
جانے کا رونا روتی چلی جائیں، یہ تو اِس لیے ہے کہ ’’خلافت‘‘ کی عدم موجودگی سے
پیدا ہونے والے اِس خلا کو، یہ حتی الوسع، پورا کریں.. اور اِس ’’درمیانی مرحلہ‘‘
میں امت کے دین و دنیا کو چلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
’’خلافت قائم کرنے کی جدوجہد‘‘
یقیناًاس عمل کا حصہ ہے جو اسلامی تحریکوں کو حالیہ مرحلہ میں انجام دینا ہے، مگر
یہ اس کا محض ایک حصہ ہے نہ کہ کل کام۔
اور جہاں تک امت کی قیادت ہاتھ میں لینے کی بات ہے تو اس کا طریقہ
بھی یہ نہیں کہ امت کو ’’وعظ‘‘ کئے جائیں اور اُسے ’’حرام، حرام‘‘ کے فتوے جاری کر
کے دیے جائیں (اِس شدتِ اسلوب پر ہم معذرت خواہ ہیں)۔ دو سو سال سے یہ ’’وعظ‘‘ اور
یہ ’’فتوے‘‘ دیے ہی تو جا رہے ہیں! امت کی قیادت ہاتھ میں کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ
شعبہ ہائے زندگی کے اندر __ ’’عمل‘‘ کے میدانوں میں __ آپ قوم کے آگے لگیں۔ اِن
سماجی میدانوں کے اندر امت کو اپنی راہنمائی میں چلانے کی استعداد سامنے لائیں۔
اِن سب سماجی محاذوں پر امت کے ساتھ مل کر اور کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ بند
راستے کھولیں.. اور یہیں سے اِس کے ایک بڑے حصے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں کر لیں۔
یہیں سے امت کو حالیہ و آئندہ مرحلوں کے لیے جاہلیت کے پنجے سے نکالنے کی کوئی
صورت سامنے آئے گی اور یہیں سے وہ چیز بھی میسر آئے گی جو آپ کو ’’بحالیِ خلافت‘‘
کی پوزیشن میں لے کر آئے۔ ورنہ اِس ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں تو ہے ہی۔ بہت
پہلے کسی عرب دانا نے کہہ دیاتھا کہ لا رَأْیَ لِمَنْ لَا یُطَاعُ یعنی ’’جس کی چلتی ہی نہ ہو، اور لوگ ہی جس کے
پیچھے نہ ہوں، اُس کی کیا رائے اور کیا وِژن‘‘؟!
’’وعظ و ارشاد‘‘ اور ’’جلسے جلوس‘‘
نکلوانے کے اِس دو سو سالہ تجربہ سے، ہم چاہتے تو بہت کافی اسباق و نتائج اب تک
کشید کر سکتے تھے!
’’مکمل اقتدار‘‘ کے بغیر امت کو کیسے چلایا جا سکتا ہے؟!
امت
کی اِس ضرورت کو، جو اوپر بیان ہوئی، اِس بات کے ساتھ خلط نہیں کر دینا چاہیے کہ
’اسلام تو ایک دین ہی ایسا ہے کہ مکمل اقتدار کے بغیر اس کے بہت سے اصول اور
بنیادیں سرے سے معطل رہتی ہیں، لہٰذا اقتدار رکھے بغیر ’’زندگی کے جملہ میدانوں‘‘
میں امت کو چلانے اور راہنمائی دینے کا امکان ہی کیونکر ہے؟‘
یقیناًاسلام
ایسا ہی ایک کامل و شامل دین ہے۔ مگر ہماراکہنا یہ ہے کہ حالیہ مرحلہ کے دوران
زندگی کے جن جن میدانوں میں اور جس جس حد تک مسلمان کا چلنا جائز ہے، کم از کم امت
کا وہ ’’چلنا‘‘ تو امت کے اہل علم و ارشاد کے زیر رہنمائی ہو۔
یہاں
سے اسلامی تحریکوں کے لیے وہ دروازہ کھلتا ہے کہ باطل کے محکوم معاشرے کے اندر بھی
یہ مسلم اقوام کو __ ممکنہ حد تک __ اپنی راہنمائی میں چلائیں۔ امت کی علمی و شرعی
قیادتیں اللہ کے فضل سے آج بھی اِن معاشروں کے جملہ حقوق رِی کلیم reclaim کر سکتی ہیں، بشرطیکہ یہ اِن
معاشروں کی جملہ سرگرمی __ ممکنہ حد تک __ اپنی نگرانی اور ہدایات کے تحت لے آنے
کا راستہ اختیار کریں۔
سوال
یہ ہے کہ اگر ہمارے دین میں اُس صورتحال تک کے لیے راہنمائی موجود ہے جب آپ مردار
اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ (بقدرِسدِ رمق) کھا لینے کے مجاز ہوتے ہیں، تو کیا
اُس صورتحال ہی کے لیے اِس دین میں کوئی راہنمائی نہ ہو گی جس کو آپ ’’امت کی
حالتِ محکومیت‘‘ کہتے ہیں؟ ’’فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ کے تحت کیا اِس حالت میں امت کی
حیاتِ اجتماعی کو شریعت و اہل شریعت کے تابع رکھنے کی کوئی صورت نہیں دی جاسکتی؟
بنا
بریں۔۔۔ آج جب ’’خلافت‘‘ کا سایہ امت کے سر سے اٹھ چکا ہے، ’’اسلامی تحریکوں‘‘ کو
یہ
دو کام بیک وقت کرنا ہوں گے:
1)
امت کے لیے فی الوقت ’’مائی
باپ‘‘ کا کردار بھی __ ممکنہ حدود میں رہتے ہوئے __ ہماری اِن تحریکوں کو ہی ادا
کرنا ہو گا۔
2)
) امت
کو وقت کے فرعونوں اور طاغوتوں سے نجات پانے کی راہیں تلاش کرکے دینا بھی اِنہی کا
فرض ہوگا، (جس کی انتہائی حالت کے لیے ہمارے کچھ طبقوں کے ہاں ’’انقلاب‘‘ یا
’’خلافت‘‘ یا ’’اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح چلتی ہے)۔
’’عمل‘‘
کے یہ دونوں محور.. ’’امت کی راہنمائی‘‘ کے یہ دونوں میدان.. ایک دوسرے کے معارض
نہیں کہ یہ بحث اٹھائی جائے کہ ان میں سے کونسا کام اِس وقت کے لیے ’’صحیح‘‘ ہے
اور کونسا کام ’’غلط‘‘۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔
ہاں اِس میں مضائقہ نہیں کہ اِن متنوع ضرورتوں پر پورا اترنے کے لئے،
ہمارے یہ صالح طبقے اپنی اپنی ہمت، اپنے اپنے امکانات اور اپنے اپنے میدان کو
مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے لئے عمل و سرگرمی کا میدان رکھیں؛ کوئی قتال کے میدان میں
امت کے کام آئے، تو کوئی تعلیم، تو کوئی سیاست، تو کوئی امر بالمعروف و نہی عن
المنکر، تو کوئی دعوت کے میدان میں۔۔۔ علیٰ ھٰذا القیاس، یوں مل کر ایک دوسرے کو
مکمل کریں نہ کہ ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے کام کو ہی یہاں کرنے کا ’واحد کام‘
قرار دیں!
امت
کو اٹھانا اور راہنمائی دینا.. نہ کہ سرکار کو عرضیاں پیش کرنا
باطل کے ساتھ معاملہ کرنے میں یہاں ایک اور منہج بھی پایا جاتا ہے۔۔۔
تجاویز، مطالبات، اپیلیں ۔۔۔
اور پھر شکوے، کوسنے اور دل گرفتگی۔۔۔ ستر سال سے یہی مشق جاری ہے! وہ سب
’’مسائل‘‘ آج بھی مطالبوں، اپیلوں اور شکووں کا موضوع ہیں جو ستر سال پہلے
’’حکام‘‘ کی امانت سمجھ کر ہم نے اُن تک پہنچانا شروع کئے تھے! تب سے اب تک، یہ
ریاضت اُسی معمول کے ساتھ جاری ہے۔ ’مطالبات‘ کی زبان ہمیں اتنی پسند ہے کہ نہ ہم
سنانے سے تھکیں اور نہ’’ہمارے‘‘ حکمران ’’سننا‘‘ موقوف کریں! کوئی ہمت سی ہمت ہے،
سترسال سے ہم ’قومی المیے‘ ہی بیان کرتے جا رہے ہیں! ٹیپ کے مصرعوں سے دنیا بور
ہوجاتی ہوگی مگر ہم نہیں ہوتے۔ ’مطالبوں‘ کی بجائے کیا ہی بہتر ہوتا کہ زیادہ نہیں
تو کسی ایک ہی سماجی میدان میں ہم خود آستینیں چڑھا کر اترے ہوتے تو آج کم از اکم
ایک میدان میں آپ کا کام بول رہا ہوتا! لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم اسلام پسندوں
نے خود اپنی فاعلیت کو سماج کے کسی شعبے میں آزمانا تک ضروری نہ جانا اور
’مطالبات‘ کی زبان ہی کو شرعی و عملی جانا!
کیا آپ اِس سے اختلاف کر سکتے ہیں، جہاں جہاں اِس باطل نظام کے لبادے
میں ہم نے ’اسلامی‘ پیوند لگوانے کی کوشش کی، مذاق ہی بنا۔ جہاں جہاں ہم نے باطل
کے اِس ’’کل‘‘ میں اپنے اسلامی ’’اَجزاء‘‘ ٹھونسنے کی کوشش کی، وہ ایک عجیب و غریب
چیز ہی بنی۔ اور ظاہر ہے وہ عجیب و غریب چیز ہی ہو سکتی تھی، کیونکہ واقعتا اُس
’’نظام‘‘ میں جو باہر سے درآمد ہو کر یہاں پر ’’انسٹال‘‘ ہوا ہے اور اُن
’’اسلامی‘‘ ترمیمات میں جو آپ اِس کے اندر کرانا چاہ رہے ہیں، ایسی ہی ایک مغایرت
ہے۔ ہر نظام اپنی ایک الگ بنتی رکھتا ہے اور کسی دوسری بنتی کی چیز اُس کے ساتھ
میل نہیں کھاتی۔ ہر ’’کل‘‘ کو اپنے ’’اجزاء‘‘ ایک خاص ساخت اور خاص کٹائی کے ساتھ
درکار ہوتے ہیں اور پھر وہ ان کو اپنی ایک خاص ترتیب میں جڑتا ہے تو ہی اُس سے وہ
مطلوبہ چیز برآمد ہوتی ہے۔ کسی ’’جزو‘‘ سے آپ جو کوئی خاص امید رکھتے ہیں وہ اپنا
وہ خاص فنکشن تب ہی ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے جب وہ اپنی ہی طرز کے ایک ’’کل‘‘ میں
فٹ ہو، ورنہ اُس کے بے جوڑ اجزاء کوئی اور ہی نتیجہ پیدا کریں گے۔ جس ’’موٹر کار‘‘
کے اندر ہم نے ’’جہاز‘‘ کے پرزے فٹ کروانے کی کوشش کی، اُس کا یہی نتیجہ ہو سکتا
تھا جو اَب ہم ستر سال سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، مگر کسی نتیجے پر
پہنچنے کی ہمت نہیں پا رہے! اِس عمل کی بدولت ہمیں اب ایک ایسی بے نظیر سواری
دستیاب ہوئی ہے کہ زمانہ حیران رہ جائے۔ اِس کو سعی لا حاصل بھی ہم تب کہتے اگر یہ
سواری چل کر نہ دے رہی ہوتی۔ لیکن یہ خوب چلتی ہے، مگر یہ ہمیں آگے لے جانے کی
بجائے تیزی کے ساتھ پیچھے لے جا رہی ہے! ایسی ایجاد بھلا دنیا میں کب ہوئی تھی؟!
اپنے اجتماعی اسلامی مقاصد و عزائم کے حوالے سے، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ستر سال
پہلے ہم اِس سے کہیں بہتر پوزیشن میں تھے۔
یہاں
سب سے کم افسوس آپ کو اپنی اُن (اسلامی) تجاویز پرہو گا جو اِن نظاموں اور
حکمرانوں کے زیر غور آنے سے رہ گئی ہوں! البتہ جو حشر آپ اپنی اُن ’’اسلامی‘‘
تجاویز کا دیکھیں گے جو اِن نظاموں کی نگاہِ التفات کا محل ٹھہرجاتی رہی ہیں، وہ
بیان سے باہر ہے! ایک دلدل ہے جس میں جتنا زور لگائیں اتنا دھنستے ہیں۔
ایک ڈائنامک طریقِ عمل
لہٰذا وہ منہج جس کو ہم پیش کرنے جا رہے ہیں، اور جس کو ہم نے سید
قطبؒ کے مدرسۂ فکر سے سمجھا ہے، یہ ہے کہ اِن باطل نظاموں کے سائے تلے رہتے ہوئے،
اسلامی تحریکیں ’مطالبات‘ اور ’سفارشات‘ اور ’شکووں‘ اور ’کوسنوں‘ کا اسلوب اپنی
قاموس سے خارج کر دیں۔ ’’اسلامی نظام‘‘ ایک کل کا نام ہے اور اِس کے کچھ اجزاء کو
جاہلی نظاموں کے اندر فٹ کروانے کے لیے منتیں سماجتیں کرنے کا یہ منہجِ عمل آج تک
’’اسلامی تبدیلی‘‘ کی صداؤں کو مضحکہ خیز بنا دینے کا ہی باعث بنا ہے۔ اِن نظاموں
سے مفاصلت اور برأت اختیار کر رکھنا اِن کے آگے درخواستیں رکھنے کی نسبت کہیں
زیادہ باعزت موقف ہے، اسلام کے حق میں بھی اور خود اِن تحریکوں کے حق میں بھی۔
اِس منہج کا دوسرا حصہ، جو کہ ہم نے سفر الحوالی کے مدرسۂ فکر سے
سمجھا ہے، یہ ہے کہ اسلامی تحریکیں ’’ایوانوں‘‘ کے راستے میں خوار ہونے کی بجائے
’’معاشروں‘‘ کے اندر اتریں؛ اور یہیں سے معاشروں کی سرزمین میں اپنے پیر جمائیں۔
امت کو لا الٰہ الا اللہ سکھانے سے لے کر (جو کہ اِس وقت کاسب سے بڑا چیلنج ہے)
اِس کے دین و دنیا کی جملہ ضروریات __ اِس وقت کے دستیاب امکانات کو بروئے کار
لاتے ہوئے __ یہی تحریکیں بہم پہنچائیں۔ جس کسی کے ساتھ جو تعامل کرنا ہو، امت
اِنہی کی راہنمائی میں رہ کر کرے۔ اِن تحریکوں کو اِس پوزیشن میں لازماً آنا ہو گا
کہ امت جاہلی نظام کے تحت رہتے ہوئے بھی __ ممکنہ حد تک __ اِنہی کی سرکردگی میں
چلے۔ شعبہ ہائے زندگی میں یہی آگے لگیں اور ہر ہر میدان میں __ ممکنہ حد تک __
معاملات کو اپنے ہاتھ میں کریں۔ یہاں ہر ہر چپے پر ان کی جو مزاحمت ہو گی وہ ان کو
زندگی دینے کا ذریعہ ہو گی۔ یوں یہ تحریکیں امت کو سیاسی جنگ سے بڑھ کر ’’عقیدہ‘‘
اور ’’تہذیب‘‘ کی جنگ لڑ کر دیں۔ ہر ہر فیلڈ میں ایسی اسلام شناس قیادتیں لائیں جو
اپنے اپنے شعبہ میں جاہلی ایجنڈا کو نیچے سے ہلا کر رکھ دیں۔ علوم و افکار اور
عقائد و نظریات کی زمین پر یہ قیادتیں معاشرے کے زیادہ سے زیادہ با صلاحیت عناصر
کو اپنی پشت پہ لاکر جاہلیت کے داعیوں کے ساتھ دست بدست لڑیں، یہاں تک کہ پوری امت
اِس تہذیبی و نظریاتی جنگ کی گرد اڑتی دیکھے کیونکہ وہ اِس معرکہ کی گرد دیکھ کر
ہی قرآن اورلا الٰہ الا اللہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ اور اپنی جانبداری
وغیرجانبداری کا ترین تعین کر سکتی ہے۔
ہمارے
اِس مجوزہ منہج اور ’’جزوی
تبدیلی‘‘ کے منہج میں کیا فرق ہے؟
یہاں پر ایک سوال وارد ہو سکتا ہے، اور وہ یہ کہ جاہلی نظاموں میں
’اسلامی‘ پیوندکاری جب ہماری نظر میں بے فائدہ اور اِن کے آگے اپیلیں اور
درخواستیں رکھنے کا منہج مسترد ہونے کے لائق ہے۔۔۔ تو اِس نظام کے ہوتے ہوئے، جہاں
اِسی کی حکمرانی اور اِسی کی پالیسیاں چل رہی ہوں گی، سماجی شعبوں میں سرگرم ہو کر
بھی آخر کیا تیر ماراجا سکتا ہے؟
اِس
موضوع کو تفصیل کے ساتھ ہم کسی اور مقام پر ہی زیر بحث لا سکیں گے۔ تاہم صورتِ
مسئلہ یہ ہے کہ:
۱۔ حالتِ
مغلوبیت میں اسلام کی قوتِ مزاحمت کو سامنے لانا امت کے وجود سے پستی و اِدبار کی
گرد جھاڑنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اِس کے بر عکس، جاہلیت کے دیے ہوئے نظاموں کو own کرنا امت کو آپ اپنے ہاتھ سے
جاہلیت کے شکنجے میں دے آنے کے مترادف ہے۔ جہاں باطل کا غلبہ ہو، وہاں امت کے اندر
’’فدویانہ‘‘ لہجوں کو فروغ دینے کی بجائے ’’اِنکار اور اِباء‘‘ کے لہجے پروان
چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ امت کے اندر خودشناسی کے عمل کی بحالی بھی اِسی سے ممکن ہے۔
۲۔ امت
کے دین و دنیا کو ہر صورتحال میں شریعت و اہل شریعت کے تابع کر کے چلایا جانا ہے۔
جس کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اہل شریعت ہی آگے لگیں، اور
یہ فرض ’’حالتِ مغلوبیت‘‘ میں بھی موقوف نہیں ہوتا۔ بلکہ حالتِ مغلوبیت کا تو کیا
ذکر، کہیں پر ’’حالتِ اسیری‘‘ ہو، وہاں بھی ضروری ہو گا کہ مسلمان اپنے میں سے اہل
علم وشرع کی جانب رجوع کریں،
جبکہ اہل علم و شرع پر واجب ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں جو کوئی بہترین ممکنہ
صورت میسر ہے، اُس کے مطابق چلائیں اور جہاں تک ممکن ہو، راستہ بنا کر دیں۔ یہاں
تک کہ اسیر کرنے والوں کے ساتھ کوئی تعامل کرنا ہو، تو وہ بھی اسلامی قیادتوں کی
راہنمائی میں رہ کر ہو۔
۳۔ حالتِ
اسیری میں بھی اگر اہل اسلام پر جتھہ بند ہو کر رہنا لازم ہے، اور اُن میں سے جو
اہل علم وفطانت ہوں اُن پر واجب ہے کہ اس اسیری سے رہائی کے لیے راستہ بنانے میں،
نیز ایامِ اسیری کا یہ درمیانی عرصہ، وہ اپنے مسلم ساتھیوں کی راہنمائی کریں۔
اسیری کے ’’قوانین‘‘ خواہ کتنے ہی ناموافق ہوں، وہ ’’دستیاب امکانات‘‘ کو مسلمانوں
کے حق میں بہترین طور پر بروئے کار لائیں۔۔۔ چنانچہ ’’حالتِ اسیری‘‘ میں بھی،
مسلمانوں کے مابین پائے جانے والے سمجھدار، صاحبِ علم اور معاملہ فہم شخصیات کے
فرائض اور ذمہ داریوں کا نقشہ یوں بنتا ہے.. تو ’’حالتِ مغلوبیت‘‘ میں پائے جانے
والے امکانات تو کہیں زیادہ ہونے چاہئیں۔ ان کو بروئے کار کیوں نہ لایا جائے گا؟
۴۔) پھر
جبکہ یہ دستیاب امکانات جو معاشرے کے اندر ہمارے منتظر ہیں، اِس قدر زیادہ ہیں کہ
یہاں سے ہمیں امت کے بے شمار مصالح کو یقینی بنانے کا موقعہ ملتا ہے اور بے شمار
پہلوؤں سے کفر کے خباثت سے لبریز ایجنڈا کو ناکام بنانے کی صورت میسر آتی ہے۔ نیز
امت کو راستہ دکھانے اور چلانے کے بے پناہ امکانات ہاتھ آتے ہیں۔ مزید برآں،
جاہلیت کے خلاف امت کو صف آرا کرنے کا راستہ بھی یہیں سے گزرتا ہے۔ اور تو اور،
امت کے ساتھ حقیقی رابطہ کی بھی یہی صحیح صورت ہے۔ علاوہ ازیں، معاشرے کے اندر
جاہلیت سے بہت سی زمین واگزار کرانے کی بھی __ اندریں حالات __ اِس کے سوا کوئی
صورت ممکن نہیں۔
۵۔) صورتِ
موجودہ کو سامنے رکھتے ہوئے، یہاں کی سب سے بڑی اجتماعی ترجیح یہی ہو سکتی ہے (اور
یہی اِس سارے موضوع کا اہم ترین نقطہ ہے) کہ باطل کے محکوم معاشرے کے اندر بھی
ہماری اسلامی قیادتیں مسلم اقوام کو __ ممکنہ حد تک __ اپنی راہنمائی میں چلائیں۔
امت
کے ایک مؤثر حصہ میں جب آپ یوں جڑیں گاڑ لیں گے، اور ان کو اپنے ساتھ جوڑ لیں گے،
تو یہیں سے اُس صورتحال کو وجود میں لاناممکن ہے کہ رفتہ رفتہ یہ امت یا امت کا با
صلاحیت ترین اور مؤثر ترین حصہ آپ کے ایجنڈا کی پشت پر آکھڑا ہو۔
ایک اشکال
اِس سلسلہ میں کچھ تجربہ کار اصحاب کی جانب سے ایک خدشہ بھی پیش کیا
جاتا ہے اور وہ یہ کہ:
اِس راستہ میں چلتے ہوئے، کارکنانِ اسلام کے ہاتھ میں لے دے کر سماجی
خدمت ہی رہ جائے، اور ان کا کردار یہاں محض اور محض ایک ’’سماجی کارکن‘‘ کے طور پر
ہی باقی رہ جائے۔
یہ یقیناًایک بجا خدشہ ہے؛ نظر انداز کر دینے والی بات ہرگز نہیں۔
اسلامی طبقوں کی جانب سے کیے جانے والے ’’سماجی عمل‘‘ کے کئی تجربات واقعتا ایسے
ہیں جن سے برآمد ہونے والے نتائج ایسے امید افزا نہیں۔ ایسے نمونے بکثرت ہماے
سامنے ہیں جنہیں دیکھ کر بجا طور پر سوال اٹھتا ہے کہ سماجی خدمت کے اِن
’’اسلامی‘‘ پروگراموں اور اُن ’’غیر اسلامی‘‘ پروگراموں کے مابین کونسا جوہری فرق
ہے سوائے یہ کہ اول الذکر کے ہاں اذان ہونے پر نماز پڑھ لی جاتی ہے، داڑھیاں ہیں
اور اِن شاء اللہ و ماشاء اللہ و جزاک اللہ ایسے الفاظ کا استعمال ہے؟ سکول ہیں تو
ایک واجبی سا فرق ڈال کر ’’اسلامی متبادل‘‘ سامنے لے آیا گیا ہے۔ نصاب ہیں تو یہی
حال ہے۔ عملاً، یہ سب پروگرام جاہلیت کو ریلیف دے رہے ہیں۔ جاہلیت کی اپنی ضرورت
بھی تو یہی ہے کہ یہاں بے لوث سماجی رضاکار بے حد وحساب پائے جائیں! کرپٹ نظاموں
کو یہ معاشرہ آخر چلانا بھی تو ہے!
حقیقت واقعہ یہی ہے۔ مضمون کے مقدمہ میں ہم خود اِس بات پر زور دے
آئے ہیں کہ اِس سارے عمل کو ’’عقیدہ‘‘ کی ایک اصیل محنت سے ہی برآمد کرایا جانا ہے
اور جب تک ’’عقیدہ‘‘ سے ہی اس سارے عمل کو جنم نہیں دلوایا جاتا، تب تلک یہ نہ صرف
بے فائدہ ہے بلکہ الٹا دینداروں کی یہ محنت طاغوتوں اور جاہلیت کے کارپردازوں کو کام
دینے والی ہے۔
مگر
سوال یہ ہے کہ یہ دینی طبقے جن کی ’’سماجی محنت‘‘ جاہلیت کو خاصی حد تک ’’ریلیف‘‘
دیتی نظر آتی ہے۔۔۔ ان کے احاطۂ افکار میں آپ کو ’’کفر بالطاغوت‘‘ اور ’’جاہلیت کے
انکار‘‘ ایسے مباحث نظر ہی کہاں آتے ہیں؟ پس یہ نقص تو اصل میں ’’تصورِ دین‘‘ کا
ہے، جو ان کے ’سیاسی وسماجی عمل‘ کے اندر جھلک اٹھتا ہے، اور آپ کو یہ لگتا ہے کہ
اصل خرابی ’سیاسی وسماجی کردار رکھنے‘ میں ہے۔ ہمارا کہنا یہی تو ہے کہ ’’معاشرے‘‘
کا میدان اُن لوگوں کا منتظر ہے جن کا یہاں پر ایک معاشرتی کردار اور سماجی اثر
ورسوخ رکھنا جاہلی اقتدار میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنے نہ کہ اُس کے پائے مضبوط
کرنے کا۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ عقیدہ کے یہ ہتھیار اٹھائے بغیر معاشرے میں جا اترنا
گھاٹے کا سودا ہے؛ اور اِس صورت میں آپ اپنی معاشرتی سرگرمی سے محض اور محض جاہلیت
کا پانی بھرنے کے کام آتے ہیں۔
اور اگر ذراگہری نظر سے دیکھیں تو۔۔۔ عقیدہ کے ہتھیاروں کے بغیر یہاں
انجام پانے والے ’سماجی عمل‘ ہی کا ایک کیا گلہ، کیا یہاں کا ’مذہبی عمل‘ فی الوقت
جاہلیت کا پانی بھرنے کے کام نہیں آرہا؟
’’سماجی کردار‘‘ محض ایک آلہ ہے،
جس کو ہاتھ میں کرنا ضروری ہے لیکن اصل چیز وہ ہاتھ تیار کرنا ہے جو اِس آلہ کو
استعمال کرے اور جوکہ آپ کا ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ ’’آلہ‘‘ بذاتِ خود تو کوئی چیز نہیں!
اقتباسات از اداریہ
جولائی 2010 ء: ’’معاشرہ اسلامی تحریکوں کا منتظر‘‘
تاہم اپنا حق لینے کے لیے قوم کا اٹھ کھڑا ہونا ایک اور
چیز ہے؛ مثلاً کسی ملک میں مسلمانوں کا اپنے پرسنل لاز کو محفوظ بنانے کے لیے
محاذآرا ہوجانا اور اپنے کسی خاص معاملے پر زد نہ آنے دینا، جوکہ ایک مسلمان ملک
میں بھی ہوسکتا ہے اور ایک کافر ملک میں بھی۔ اِسی طرح کسی ایک خاص مسئلہ پر آپ
اپنی اسلامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حاکم نظام کو پسپائی پر مجبور کرتے ہیں،
مثلاً کسی علاقے میں ایک اسلامی قوت عوام کی طاقت کے بل بوتے پر اور کچھ دیگر
عوامل کو کام میں لا کر لچر فلموں یا فحاشی کے کچھ مظاہر کا داخلہ بند کروالیتی ہے
یا ہیپی نیوایئر کی سرگرمیوں پر پابندی لگوا لیتی ہے۔ وغیرہ۔ (کسی وقت سسٹم کو
اپنی ساکھ بچانے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے __ جس طرح اُس کو یہاں قادیانیت پر
پابندیاں لگانے پر مجبور ہونا پڑا تھا __ اور اسلامی قوتیں اُس کو اِس پوزیشن میں
لے آنے کی متعدد صورتیں اختیار کرتی اور اس کے ہاتھ سے ایک ایک چیز لیتی چلی جاتی
ہیں) یہ ایک صحت مند سرگرمی ہے؛ 'عرضیاں پیش کرنے کا منہج' جس کی اوپر مذمت ہوئی،
ایک اور چیز ہے۔