السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ معزز قارئین ایقاظ کا حالیہ شمارہ ’’جمہوریت‘‘ پر مواد فراہم کرنے کےلیے مختص ہے۔ اِس موضوع پر کچھ نیا مواد بھی شامل اشاعت ہے، تاہم ایک خاصا بڑا حصہ ہماری گزشتہ تحریروں سے ہی حاصل کیا گیا ہے جن کو ترمیم، اضافہ یا اختصار کے عمل سے گزار کر زیادہ موثر بنانے کی کوشش ہوئی ہے۔ بعض تحریروں کا ثقل دور کرکے یا اجزاء میں تقسیم کرکے ان کو افادۂ عام کے قابل بنانے کی کوشش ہوئی ہے، جس سے امید ہے ان تحریروں کو پھیلانا اب پہلے کی نسبت آسان تر اور مفیدتر ہوگا۔ ہماری انہی تحریروں کا ایک مجموعہ ’’اپنی جمہوریت، یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘ اور ایک دوسرا مجموعہ ’’یہ وہی انگریزی نظام ہے مگر اب یہ اسلامی بھی ہے‘‘ کتابی صورت میں الگ سے دستیاب ہے۔ علاوہ ازیں، ان میں سے کچھ مضامین تقسیمِ عام کی غرض سے ہینڈبلز کی صورت میں بھی شائع ہوئے ہیں، جوکہ ادارہ سے بذریعہ فون یا ای میل طلب کیے جاسکتے ہیں۔ ان شائع شدہ ہینڈبلز کے علاوہ، حالیہ شمارہ کے بیشتر مضامین کے پی ڈی ایف ہمارے ویب سائٹ پر اِس انداز میں دیےگئے ہیں کہ وہ ہینڈبلز کا ہی کام دیں، جنہیں آپ ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کریں اور فوٹوسٹیٹ کرکے اپنے احباب میں پھیلائیں۔ تاہم اگر ہماری کوئی تحریر زیادہ تعداد میں درکار ہو تو آپ اسےادارہ سے بھی طلب کرسکتے ہیں؛ ہمارا جو بھی مضمون کم از کم پانچ سو کاپی طلب کیا جائے، ادارہ بہت تھوڑے وقت میں اسے چھپا کر آپ کو بذریعہ بلٹی بھیج سکتا ہے۔ حضرات یہ سب کچھ اِس غرض سے کہ عقیدۂ توحید کی تعلیم اور ترسیخ کا یہ اہم موقع بدرجۂ اتم استعمال کیا جائے اور وہ حضرات وخواتین جو اپنے اپنے حلقۂ احباب میں ایک آواز پہنچانے کی پوزیشن میں ہیں کچھ لٹریچر تیار حالت میں دستیاب پائیں۔ ہمارا قاری یقیناً اس بات سے آگاہ ہے کہ افکارِ مغرب کا اندھیرا ہمارے معاشرے میں روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ ’ملک‘ کو تو بہت پہلے سے وہ اپنی گرفت میں لےچکا ہے مگر اب وہ ’معاشرے‘ کو بھی بڑی تیزی کے ساتھ اپنے قابو میں لیتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں اہل اسلام روزبروز معاشرے میں بےاثر، بےوزن اور غیرمتعلقہ ہوتے جارہے ہیں؛ اور یہ بات اب ہر شخص محسوس کرنے لگا ہے۔ اندھیرا دنیا میں صرف روشنی کرنے سے ختم ہوتا ہے۔ حضرات کیا یہ عجیب نہیں کہ ہم حاملین قرآن جوکہ روشنی کے سب سے بڑے ذخیرے پر بیٹھے ہیں، اپنے گھر میں تاریکیوں سے خائف ہیں! حضرات ہم داعیانِ توحید یہاں سب سے عظیم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ اِن معاشروں اور پورے جہانِ انسانی میں کوئی کردار ادا کرنا ہمارے ہی بس میں ہے بشرطیکہ ہم اپنے عقیدے میں پائی جانے والی اس قوت اور فاعلیت کا اندازہ کرلیں جس نے چند عشروں کے اندر دنیا سے نہ صرف باطل افکار کے یہ سب اندھیرے ختم کرڈالے تھے بلکہ ان افکار پر قائم بڑی بڑی سلطنتیں زیروزبر کرڈالی تھیں، ظلم کی بےشمار تہذیبیں تہہ خاک کردی تھیں اور ان کی جگہ جہانِ انسانی کو اُس صالح آسمانی تہذیب سے آشنا کرایا تھا جو ان کی دنیا وآخرت کی فلاح کی ضمانت ہے اور جس کے ثمرات انسانیت بڑی صدیوں تک اپنے ہاتھوں سمیٹتی رہی ہے۔ اِس عمل کا نقظۂ آغاز کیا ہے؟ باطل کے خلاف ایک کھرا دبنگ لہجہ جو اندھیروں کو پسپا کردینے کی طاقت رکھے۔ باطل کے ساتھ عدم مفاہمت کا وہ جاندار اسلوب جو ضمیرانسانی کو حق اور باطل کے مابین اپنی جانبداری کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردینے والا ہو۔ اِس مقصد کےلیے حق اور باطل کا فرق ہی سب سے پہلے واضح کرنا ضروری ہوتا ہے؛ ’’راستوں‘‘ کا الگ الگ ہونا اور سمتوں کا جداجدا ہونا اس کے بعد ہی متصور ہے۔ بیچ کی راہ چلنا ہمیں باطل کے گھر پہنچاتا ہے اور راستے جداجدا کرلینا ہمیں اپنی منزل تک لےکر جاتا ہے۔شرک اور باطل کے خلاف ایک نظریاتی مزاحمت برپا کرنا یہاں ایک صالح تبدیلی برپا کردینے کےلیے سنگِ بنیاد ہے۔ اِس مرحلہ میں باطل کو چھپنے کےلیے جتنے زرق برق عنوانات میسر ہوں گے حقیقی تبدیلی کا ہمارا یہ سفر اتنا ہی موخر ہوتا چلا جائے گا۔ باطل کو بےنقاب کردینے کا عمل جس شدت سے ہوگا اُسی تیزی سے ’’تبدیلی‘‘ کا یہ نقشہ یہاں کے صالح نفوس پر واضح ہوتا چلا جائے گا۔
|
|
|
|
|
|