جمہوریت کے نعروں کے باوجود
عرب انقلابات کی تائید؟
ایک سوال بکثرت اٹھ رہا ہے کہ عرب ملکوں میں جو عوامی ریلے اٹھے، اُن میں غالب آواز جمہوریت اور آزادی کے مطالبوں ہی کی رہی ہے، اِس کے باوجود ہمارے موحد علمی وجہادی حلقوں نے اِن عوامی ریلوں کی بھرپور حمایت کی ہے، اور اس سے امت کی امیدیں بھی قائم کروائی ہیں تو آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟
ہمیں معلوم ہے جس وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان ہونے کی ضرورت ہے اُس کے لیے ہماری یہ مختصر مجلس شدید ناکافی ہے۔ یہاں ہم اُن نکات کے ذکر پر ہی اکتفاءکریں گے جو اِس سوال کا جواب دینے میں عموماً بیان ہوئے ہیں۔
۱۔ دین کے داعی طبقے قوم کا حصہ ہیں اور ان کو قوم کا حصہ رہنا ہے۔ داعی کی قوم خدانخواستہ کافر بھی ہو تو وہ اُس سے کٹا ہوا نہیں ہوتا۔ اُس کی قوم پر ظلم اور ستم ڈھایا جائے تو وہ لاتعلق بیٹھا نہیں رہتا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف کوئی محاذ بنے تو وہ اُس کا حصہ ہوتا ہے، جیساکہ حلف الفضول والی روایات سے ثابت ہے۔ برائی اور خباثت کے خلاف قوم کے شریف النفس لوگوں کی جو بھی کارروائی ہوگی اُس میں داعی بھی پیش پیش رہے گا، مکارمِ اخلاق اور اعلیٰ انسانی قدروں کے قیام کے لیے ماحول میں کوئی سرگرمی ہوگی تو وہ اُس میں خوب شریک رہے گا، اگرچہ قوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ کجا یہ کہ قوم مسلمان ہو اور اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم اور سرکشی اور آمریت واستبداد کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہو۔ یہاں؛ داعی کا اپنا ایجنڈا ضرور ہوگا اور اُس کی پوری کوشش ہوگی کہ جہاں تک ہوسکے وہ اِس پورے عمل کو زیادہ سے زیادہ اپنے اسلامی ایجنڈا کی خدمت میں لے آئے اور وہاں سے اپنے اسلامی مقاصد زیادہ سے زیادہ پورے کروا لے (اور خود اپنے ایجنڈا سے تو ایک قدم پیچھے نہ ہٹے اور نہ اس پر اپنا آہنگ نیچا کرے)۔ تاہم اگر پورا عوامی عمل اُس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہے تو وہ محض اِس وجہ سے اس سے الگ تھلگ ہوکر نہیں بیٹھا رہے گا کہ یہ لوگ تو جمہوریت اور آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں! ظاہری بات ہے ہر کسی کو اپنی اپنی سمجھ کے نعرے لگانے ہیں، اصل سوال دو ہیں: ایک، یہ عوامی رَو کس چیز کے خلاف اٹھی ہے؟ دوسرا، کیا اِس کی روحِ رواں کوئی خبیث قوت تو نہیں ہے؟ اگر اِن دو سوالوں کے جواب تسلی بخش ہوں تو بطورِ مسلم داعی اُس میں آپ کا ایک اچھا کردار ضرور ہوتا ہے اور وہاں کوئی ”منفیت“ اور ”بیزاری“ ایسا رویہ آپ کے شایانِ شان نہیں رہتا، جیساکہ حلف الفضول میں ہوا، جوکہ کسی باقاعدہ ”اسلامی پلیٹ فارم“ سے لانچ نہیں کروایا گیا تھا تاہم اسلام میں بھی اس کی پابندی کو مستحسن رکھا گیا۔ اب جہاں تک حالیہ عرب بغاوتوں کا تعلق ہے، تو وہاں اِن دونوں سوالوں کے جواب تسلی بخش پائے گئے: یہ عوامی ریلے واضح طور پر ظلم اور استبداد کے خلاف تھے (اور درحقیقت اُن طاغوتوں کے خلاف جو مغرب کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے تھے)۔ اِن عوامی ریلوں کے پیچھے کوئی مغرب کی پروردہ قیادتیں نہیں تھیں (عوام کا اپنا پیمانئہ صبر لبریز ہوگیا تھا اور یہ خالصتاً ایک مقامی پیشرفت تھی)۔ امریکہ نے حسب ِ عادت یہ بھرپور تاثر دینے کی کوشش ضرور کی ہے کہ عالم اسلام پر یہ بھی اُسی کا ’فضل اور احسان‘ ہے، مگر ہمارے علماءاور داعی پورے وثوق سے جانتے ہیں کہ یہ انتہا درجے کا جھوٹ ہے، اس میں جتنا بھی رنگ ہے وہ صرف میڈیا کی قوت سے پیدا کر لیا گیا ہے۔ یہاں؛ اگر ہمارے علماءاور داعی اور مجاہدین ’امریکہ‘ کا نام سن کر پیچھے ہٹ جاتے تو اس سے امریکہ کی ایک بہت بڑی خواہش پوری کردیتے، یعنی ایک خالصتاً مقامی عمل کے زیر تحریک اٹھنے والی عوامی رَو امریکہ کے دامن میں جا پڑتی اور امریکہ مفت میں اُس کا چمپئن بنتا اور اُس کے ’جملہ حقوق‘ کا دعویدار ہوتا۔ مگر ہماری اسلامی قیادتوں کو اللہ نے جو بصیرت دے رکھی ہے، اُس سے کام لے کر ہماری اسلامی پیش قدمی کو کچھ نہایت کامیاب مراحل طے کرنے کا موقع مل گیا ہے، اور معاملات حد سے بڑھ کر حوصلہ افزا ہونے لگے ہیں۔ اب تو یہ کھیل اِس قدر دلچسپ ہوگیا ہے کہ اندازے سے باہر ہے۔ بہت امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ہم کچھ عظیم الشان واقعات رونما ہوتے دیکھیں۔ وما ذٰلک علی اللہ بعزیز
۲۔ عوام الناس فی الحال ایک ’خود رَو‘ فصل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ دو سو سال سے ان کو جو رٹایا گیا وہی آج اِن کی زبانوں پر ہے۔ ’ڈیموکریسی‘ اور ’سول ریاست‘ ایسے نعرے اِن کے ہاں پائے جانے والے کسی باقاعدہ اعتقاد کے غماز نہیں بلکہ ایک تقلیدی سے انداز میں ان کے یہاں رائج ہوگئے ہیں اور نری بے شعوری کی علامت ہیں۔ (نظامِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کا اثر تو آج ہماری بہت سی اسلامی جماعتوں کے اندر بول رہا ہے جو ’ڈیموکریسی‘ اور ’سول سٹیٹ‘ کے نعرے جپ رہی ہیں، تو پھر عوام الناس پر کیا ملامت؟)۔ البتہ اِن دو باتوں میں فرق کرنا ضروری ہے: ایک، وہ شخص جو ایسا کوئی نعرہ محض کسی سماجی وابلاغی تاثیر کے تحت الاپ رہا ہو، جیسا کہ آج ہمارے عوام الناس کا حال ہے۔ دوسرا، وہ شخص جو اُس کو باقاعدہ عقیدے کے طور پر لے کر چل رہا ہو، جیسا کہ یہاں کے نظریاتی سیکولر اور لبرلسٹ زنادقہ کا حال ہے۔ یہاں بھی؛ عوام الناس کی زبان پر محض ایک نعرے کو دیکھ کر اِن پورے کے پورے معاشروں کو سیکولر اور لبرلسٹ زنادقہ کے دامن میں نہیں ڈال دیا جائے گا کہ لو بھئی یہ تمہاری چیز ہوئی، ہمارا اِن سے کچھ لینا دینا نہیں! آج ہم عوام الناس کا جو حال دیکھ رہے ہیں وہ ایک طویل تعلیمی وابلاغی عمل کا نتیجہ ہے (جوکہ سیکولر مشینری کے ہاتھوں ہوا)۔ اِس صورتحال کو بدل دینے کے لیے بھی اُسی سطح کا ایک تعلیمی وابلاغی عمل چاہئے (جوکہ اسلامی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں)؛ لہٰذا فی الحال عوام الناس سے کسی اعلیٰ اسلامی نعروں اور حیران کن ایمانی رویوں کی توقع کرنی بھی نہیں چاہئے۔ ابھی تو اسلامی قیادتوں کو (اپنا خالص اسلامی ایجنڈا سامنے لانے اور کفر کے سب شعارات کو مسترد کردینے کے ساتھ ساتھ) صرف یہ کرنا ہے کہ یہ کسی طریقے سے اِن مسلم قوموں کا اعتماد حاصل کریں اور اِن کو باور کرائیں کہ اِن کی خیرخواہ اور اِن کے دکھ میں گھلنے والی اور اِن کے لیے قربانیاں دینے اور ان کے لیے پریشان ہونے والی یہ مسلمان قیادتیں ہیں نہ کہ مغرب کی مسلط کردہ قیادتیں۔
جب ایسا ہے؛ تو پھر کیسے ہوسکتا تھا کہ ہماری موحد اسلامی قیادتیں ایسے کسی موقع پر مسلم اقوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیتیں؟ عوام الناس کی زبان سے (اُن کی زبان پر چڑھ چکے بے شعوری کے) جاہلی نعرے اتارنا تو اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعلیم اور ابلاغ کی مشینری ہی آپ کے اپنے ہاتھ میں نہیں آجاتی۔ (رونا اُن اسلامی ’قیادتوں‘ کا ضرور ہے جو مسلسل اِنہی جاہلی نعروں کو جپ رہی ہیں اور قوم کو انہی جاہلی شعارات پر پختہ کررہی ہیں؛ بلکہ اِن جاہلی نعروں اور نظاموں کے حق میں ’مناظرے‘ تک چلے جانے پر تیار ہیں)۔ ابھی تو آپ کو اِن کی زبانوں پر کچھ غلط سلط نعرے اور اوٹ پٹانگ باتیں سننے کو ضرور ملیں گی؛ کیونکہ یہ معاشرہ آپ کا اپنا کاشت کردہ نہیں۔ اگر یہ کوئی مانع ہے تو پھر آپ تو ’اپنا اقتدار‘ آنے تک اِن مسلم اقوام کے کسی ایک کام نہیں آسکتے! (جبکہ ان مسلم اقوام کی خدمت اور معاونت میں کوئی شرعی ممانعت نہیں؛ بلکہ یہ دین کا مطلوب ہے، جیساکہ ہم بیان کرچکے)۔
اِس کا طریقہ یہی ہے کہ فی الحال آپ اپنا اسلامی ایجنڈا سامنے لے آنے پر تو پورا زور صرف کردیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ قوم کی خدمت اور نصرت پر بھی کمربستہ ہوجائیں، خصوصاً کڑے وقت میں اُس کے کام آکر دکھائیں، اور اس کا اعتماد لینے کے سب (جائز) طریقے اختیار کریں۔ یہاں تک کہ قوم آپ میں جراُت، دلیری، درمندی، دانشمندی، معاملہ فہمی ، باتدبیری و کارسازی کا ایک جوہر ِ وافر بچشم سر دیکھ لے؛ اور آپکے اندر اُسے اپنا وہ حقیقی نجات دہندہ نظر آنے لگے جسے وہ فرعون کے خلاف اپنا مقدمہ لڑنے کا پورا اختیار اور وکالت نامہ دے ڈالے۔ ہاں جب یہ ہدف حاصل ہوجائے، تو اُس کے بعد آپ کے پاس ہزاروں آپشن ہیں؛ جن کے لیے ابھی سے پریشان ہونا ضروری نہیں۔ البتہ قوم کی پوری پوری تربیت اِس کے بھی بعد کے کسی مرحلہ میں ہوگی۔ یہ شرط آج لگا کر بیٹھ جانا (کہ کسی خودکار عمل کے نتیجے میں قوم نہایت اعلیٰ قسم کے اسلامی مطالبے سامنے لاکر ہمیں دنگ کردے، تو اس کے بعد ہم حجروں سے باہر تشریف لا کر اِس کو اپنی رہنمائی وسرپرستی سے بہرہ یاب فرمائیں) کچھ عظیم مغالطوں اور واضح شرعی وعمرانی حقیقتوں سے ناواقفیت کی غماز ہے۔
۳- یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ عوام کی زبانوں پر آج اگر ’ڈیموکریسی‘ اور ’سول اسٹیٹ‘ کے نعرے ہیں تو وہ اسلام سے کسی تصادم اور مخاصمت کی بنیاد پر نہیں۔ بلکہ وہ اِن چیزوں کو بھی (اپنی جہالت کے باعث) اسلام ہی کا تقاضا سمجھ رہے ہیں۔ (اور جبکہ عوام میں یہ جہالتیں راسخ کروانے میں ایک بڑا کردار ہماری اپنی ہی کچھ اسلامی قیادتوں کا ہے؛ یعنی قصور عوام کا خاصا کم ہے؛ جن کو ایک بات بتائی تک نہیں گئی) ۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام سے تصادم کا کوئی رویہ کم از کم نظریاتی سطح پر اِن اقوام کے ہاں تاحال جگہ نہیں پاسکا ہے (لہٰذا اِن سے بیزار ہو کر دکھانا ’شریعت کا عائد کردہ فرض‘ قرار نہیں پائے گا!)۔ بلکہ اِس کا مطلب تو یہ بھی ہے کہ ان پر اگر واقعی واضح ہوجائے کہ وہ بات اسلام سے متصادم ہے تو ان شاءاللہ وہ اس کو جپنے کے روادار نہ رہیں؛ مگر یہ اُسی وقت ہوگا جب اُن پر یہ واضح کرنے والی شخصیات (علمی واخلاقی وسماجی سطح پر) خود اُن کا اعتماد لے چکی ہوں (اور یہ اعتماد لینے کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ: یہ عوام ان شخصیات کو اپنے حق میں ایک مسیحا کے طور پر دیکھیں نہ کہ بے رحم ’فتوے‘ جاری کرنے اور تقریروں و پمفلٹوں کے ذریعے ’عقیدہ ٹھیک کرانے‘ والے واعظ یا مبلغ کے روپ میں (۱))۔ اللہ کا شکر ہے، اسلام سے محبت اور وابستگی ابھی تک اِن اقوام کا جزوِ ایمان ہے؛ جس کے باعث اِن کے ساتھ ولاءاور وابستگی رکھنا آپ سے سے آپ فرض ہوجاتا ہے۔ وہ چیز جس کی بابت واقعتا ان کا اعتقاد ہو کہ وہ اسلام سے متصادم ہے، اِن کے ہاں پزیرائی پانے سے ہنوز قاصر ہے۔ ہاں ان کی یہ جہالت دور ہونا دنوں میں ہوجانے والا کام نہیں۔ پس کچھ حرج نہیں کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہوں: اِن کی جہالت کا بقدرِ امکان ازالہ، اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کا ایک زوردار معاشرتی عمل۔ یہ ہردو متعارض ہرگز نہیں۔
۴۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ اپنی اسلامی امیدیں رکھنے میں حقیقت پسند رہیں گے۔ دو چیزیں ناگزیر ہیں: قوم کو اسلامی راہنمائی دینے کے لیے اور آئندہ سب مراحل میں معاملات کی زمام کار صالح ہاتھوں میں رکھنے کے لیے آپ کو ایک ”بنیادی جمعیت“ لازماً میدان میں لانا ہوگی، جس میں معاشرے پر اثرانداز ہونے کی ایک نہایت اعلیٰ صلاحیت ہو۔ اس کے بغیر کوئی بڑی امید رکھنا فضول ہے۔ دوسرا، عوام کے ایک معتدبہ حصے میں اپنی جڑیں گاڑ نا اور اُن کا اعتماد لے لینا (اگرچہ اُن کی تربیت نہ بھی ہوئی ہو، جیساکہ اِس شمارہ میں ہم یہ مبحث واضح کرآئے ہیں)۔ یہ دو اہداف جیسے جیسے حاصل ہوتے چلے جائیں ویسے ویسے آپ کو اپنی امیدوں کا گراف بلند کرتے جانا ہوگا۔ (الحمد للہ بعض عرب ملکوں میں یہ دونوں اہداف خاصی اچھی سطح پر حاصل ہورہے ہیں)۔ تاہم اگر آپ اعلیٰ سماجی صلاحیتوں کی مالک کوئی تربیت یافتہ جمعیت ہی اپنے معاشرے کو نہیں دے سکے (اور یہ جمعیت وہ ہونی چاہئے جو معاشرے کے منجھدار میں رہتے ہوئے، جاہلی دھارے کے خلاف تیرنے اور جاہلیت کو للکارنے کی صلاحیت سامنے لا چکی ہو نہ کہ جاہلی (قومی) دھارے کا ایک فدویانہ حصہ بننے اور جاہلیت کے دیے ہوئے مواقع کو "avail" کرنے کی)، نیز قوم کا اعتماد لینے کی بھی کوئی صلاحیت سامنے نہیں لاسکے.. تو ٹریفک کی کسی گہماگہمی سے دھوکہ کھابیٹھنا (محض یہ دیکھ کر کہ آپ ’میڈیا‘ پر چھا گئے!) اور کسی ’منزل‘ کے قریب آلگنے کی آس لگانا وقت، وسائل اور جذبات کا ضیاع ہے۔ جاہلیت کے پاس اتنی بھول بھلیاں ہیں کہ ہر ہر جماعت صدیوں تک اپنی مصروفیات اور اپنی دلچسپیاں قائم رکھ سکتی ہے! جاہلیت کے نظریاتی وجود کو جڑ سے ہاتھ ڈالنا اور اُس سے صاف برات اور بیزاری کے لہجے سامنے لانا اسلامی عمل کے احیاءکا جزوِ اساس ہے۔ عقیدہ (کفر بالطاغوت وایمان باللہ) کو آگے رکھے بغیر یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
_______
(۱) اِس اندازِ فکر کے حامل حضرات کسی قوم کی جہالت دور کردینے کو ’انفارم‘ کردینے کا ہم معنیٰ سمجھتے ہیں! موسیٰ علیہ السلام نے ایک جملہ بول کر اپنی قوم کی جہالت دور کردی تو اِن کے خیال میں ایسے ہی چند الفاظ اِن کا بھی بول دینا قوم پر حجت تمام کردینے کے لیے نہایت کافی ہے، اور اِن کے بول دینے کے بعد اگر قوم اُنہی جہالتوں میں ڈوبی ہے تو براٍت و بیزاری کردینے کے سوا کسی سلوک کے قابل نہیں! اور یہ بھول جاتے ہیں کہ موسی ں کی قوم کے سامنے (جب موسیؑ نے اُن کو ” قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌۭ تَجْهَلُونَ “ کی سرزنش فرمائی) ایک ایسا شخص کھڑا تھا جس کو وہ اپنا مسیحا جانتی ہے اور جس کا دامن تھام کر وہ بحرقلزم پار کرآئی ہے اور جس کے پیچھے ”اعتماد“ کا ایک بحر ِ زخار بولتا تھا۔ اِس سے کہیں بڑھ کر حیثیت ہمارے نبی ا کو حاصل تھی جب ذاتِ انواط کے موقع پر آپ کا دو لفظ بول دینا صدیوں کی روایت پاش پاش کردینے کے لیے کافی ہوا۔ یہاں البتہ ’خیالی دنیا‘ میں رہنے کا عمل اِس قدر آگے گزر چکا ہے، اِن حضرات کے لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہوئی جارہی ہے کہ اِن کے ’دروسِ عقیدہ‘ سے قوم آخر کیوں ٹس سے مس نہیں ہوتی!