دستور میں کہا گیا ہے کہ شریعت کی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا
جائے گا!
مسئلہ
پھر وہی مجموعی تفسیر کا آجاتا ہے؛ یعنی آپ دستور کی ایک دفعہ کو لےکر اُسی پر
اپنی ساری عمارت نہیں بناسکتے؛ آپ کو پورے دستو کو دیکھنا ہوتا ہے اور پھر اس سے
کوئی معنیٰ ومفہوم اخذ کرنا ہوتا ہے۔ خود دستور ہی نے اگر اپنی ایک دفعہ کو
غیرموثر کرنے کا جگہ جگہ بندوبست کررکھا ہو تو آپ کا اُس دفعہ کے الفاظ پر ہی اپنی
ساری عمارت بنا رکھنا ’دل کے خوش رکھنے‘ والی بات ہے۔
اصل
سوال ایک ہے اور وہ ہم باربار دہرائیں گے:
ما
انزل اللہ... یعنی ’’خدا کے نازل کردہ‘‘ کی اپنی پابند کن
حیثیت binding status طے ہوئی یا
نہیں۔ ہنوز جواب ندارد!
اصل
واردات ’قانون بنانے کا حق‘ رکھ کر ہی ڈال لی جاتی ہے[1]۔
قانون ’بنانے‘ کا کیا مطلب؟ خدا کی شریعت قانون ہی ہے بلکہ سب سے اٹل قانون ہے۔
مسلمان قرار پانے کےلیے آپ کو اسی بات پر تو ایمان لانا ہے کہ خدا نے جو شریعت اتار
دی، آپ کےلیے اور آپ کے پورے معاشرے کےلیے __ مرتے دم تک __ اب وہ ہر قانون سے
بالاتر قانون ہے اور ہر دستور سے بالاتر دستور۔ یہ خدا کے ہاں سے ’پاس‘ ہو کر ہی
تو زمین پہ اتری ہے، اس کو ’پاس‘ کرنا اور اس کا ’قانون‘ قرار پانا کسی مخلوق کے
ہاتھوں ’پاس‘ ہونے پر موقوف رہنا ...چہ معنیٰ؟
یعنی
’پاس‘ کرنے کا حق اب بھی ظالموں نے اپنے ہی پاس رکھ چھوڑا ہے البتہ ہمیں یہ
اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ شریعت کی تعلیمات کے خلاف کوئی چیز ’پاس‘ نہیں کر دی
جائے گی تاکہ ہم اِن کے اس ’حق‘ کو کہ یہ شریعت کو ’پاس‘ کریں گے اور یہ کہ یہی
لوگ ’پاس‘ کریں گے تو شریعت کو ’قانون‘ ہونے کا رتبہ حاصل ہوگا، ایک بار تسلیم
کرلیں۔ اِدھر ہم اِن کا یہ ’حق‘ تسلیم کر لیں گے، اُدھر یہ اپنے اِس ’حق‘ کو
’توسیع‘ دینے لگ جائیں گے اور وہ بھی باقاعدہ ’آئینی‘ طریقے سے ہی!
اچھا تو اگر پھر بھی یہ مالک الملک کی شریعت کے
خلاف کچھ ’پاس‘ کر دیں اور بہت سے خلاف شریعت قوانین کو بھی پوری طرح ’برقرار‘
رکھیں، جیسا کہ اِس وقت ہے، تو اِن کو اِس فعل سے روکنے اور اِن کے اِس اقدام کو
’غیر آئینی‘ اور ’کالعدم‘ قرار دینے کےلیے آپ کے اِس آئین کے پاس کیا ہے؟... وہ
بہت کچھ جو قانون اور آئین کے نام پر مالک الملک کی شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی
ہے شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی کو اگر یہ برقرار رہنے دیتے ہیں، اور جوکہ
کوئی مفروضہ نہیں بلکہ سامنے کی حقیقت ہے... تو ذرا یہ بھی تو معلوم ہو کہ اس صورت
میں کوئی ان کا بگاڑ کیا سکتا ہے؟! کیا یہی کہ شریعت کے پرستار ’پانچ سال‘ تک
انتظار کریں اور وہ بھی صرف اس واقعۂ عظیم کو روپزیر کرانے کےلیے کہ ووٹ کی ایک
عدد پرچی ان کی بجائے اب کسی اور کی نذر کر کے آئیں گے اور پھر ’پانچ پانچ سال‘ کر
کے اپنا یہ ’جمہوری حق‘ استعمال کرتے چلے جائیں گے!!!!!؟ کہا گیا کہ ’انتظار‘ کرنے
کے علاوہ، اس دوران، ہم فیڈرل شریعت کورٹ جا کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ’دستور کا طے
کردہ‘ یہ طریقہ بھی ہم نے آزما ڈالا، شریعت کو ’قانون‘ کا رتبہ دلوا لانے کا یہ
راستہ بھی تھوڑا چل کر آگے کہیں گم ہو جاتا ہے اور کوئی دو عشرے سے مسلسل گم چلا
آتا ہے۔۔ اور شریعت ’دیارِ پاکستان‘ میں پھر ’قانون‘ کا رتبہ پائے بغیر رہتی ہے!
شریعت ’نافذ‘ ہونے کی بات ابھی ہم نہیں کر رہے، شریعت کا ’نافذ‘ ہونا ابھی بعد کی
بات ہے، ابھی تو شریعت کو ’قانون‘ کا سٹیٹس حاصل ہونے کا سوال ہے!!! رہ گیا
یہ کہ شریعت کو ’آئین‘ کا اسٹیٹس حاصل ہو، یہ تو اور بھی دور کی بات ہے!
تصور کیجئے خدا کی نازل کردہ واضح بیّن شریعت اِس
ملک میں آپ سے آپ نہ صرف ’قانون‘ شمار ہو بلکہ ’آئین‘ کا رتبہ رکھے بلکہ آئین سے
بھی بلند تر رتبہ رکھے اور ماہرینِ آئین جس طرح آج ’آئین‘ کا نام لے کر ہر کسی کو
چپ کراتے ہیں، عین اِسی طرح بلکہ اِس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ ایک دوسرے کو ”شریعت“
کا نام لے کر چپ کرایا کریں!!! تصور کیجئے ان عدالتوں اور ایوانوں پر کوئی دن ایسا
آئے کہ یہ کہہ دیا جانے کے بعد کہ فلاں بات کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر
دیا ہے، زبانیں بند، بحثیں ختم اور گردنیں جھک جائیں! کون اختلاف کر سکتا ہے کہ
”اسلامی آئین“ اصل میں یہ ہے؟! کوئی پوچھے یہ خوبصورت ’دفعہ‘ جو ہمیں سنانے کےلیے
رکھی گئی ہے اور جس کو غیر مؤثر کررکھنے کےلیے اس آئین کے اپنے ہی اندر ان گنت
انتظامات باقاعدہ محنت اور قصد کے ساتھ کر رکھے گئے ہیں، یہ دفعہ آئینی دستاویز کے
مجموعی مفہوم کے لحاظ سے مؤثر و قطعی کتنی ہے؟
آئین کے ماہرین بھی یہیں ہیں اور آئین کے دفاع
کنندگان بھی یہیں تشریف فرما ہیں، براہ مہربانی وہ ہمیں دستور سے کسی انشائیہ جملے
پر مبنی دفعہ پڑھ کر نہ سنائیں یہ دفعات ہم نے بہت سن لی ہیں۔ وہ ہمیں صرف یہ
بتائیں کہ جو لوگ مالک الملک کی اتاری ہوئی شریعت کو اس ملک میں قانون کا رتبہ ملا
ہوا دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ الیکشن میں ’بھرپور
کامیابی‘ حاصل کر کے وہ پارلیمنٹ میں اپنی ’اکثریت‘ شو کر ڈالیں، آپ کے آئین کی رو
سے ان کو اب مزید کیا کرنا ہے؟ کوئی جواب...؟؟؟
اگر وہ یہ فرمائیں کہ حوصلہ رکھیں دستور کی ایک
اپنی زبان ہوتی ہے اور ایک اپنا طریق کار، تو پھر یہی تو وہ بات ہے جو ہم اپنے
اسلام پسند بھائیوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دستور کی ایک اپنی زبان اور اپنا
طریقۂ کار ہے اس سے کسی ایک خوش نما دفعہ کو پڑھ لینا اور اس سے ماقبل ومابعد کو
نظر انداز کرتے ہوئے، خصوصاً دستور کی ’خاص زبان‘ اور ’طریق کار‘ کو نظر انداز کر
رکھتے ہوئے، اس ایک ہی دفعہ سے اپنے سب مطالب ثابت سمجھنا نادرست ہے۔ قانون کی
زبان میں ایک بات ایک جگہ کی جاتی ہے اور اس سے متعلقہ ’اگر مگر‘ اور ’شوشے شذرے‘
پوری دستاویز میں بکھیر رکھے جاتے ہیں۔ بہت سی باتیں ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ
سے واپس بھی لے لی جاتی ہیں۔ آئین کی ایک دفعہ میں فیڈرل شریعت کورٹ کا جاں فزا
مژدہ سنایا جا سکتا ہے اور کسی دوسری دفعہ میں اسی فیڈرل شریعت کورٹ کے ہاتھ پیر
باندھے جاسکتے ہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ کسی دستاویز کا ایک مجموعی مفہوم لیا جائے
اور پھر ہی کسی چیز کی آئینی یا قانونی حیثیت کا تعین کیا جائے۔
پس سوال صرف یہ ہے کہ کوئی خلافِ شریعت قانون ’نہ
بن سکنے‘ اور موجودہ خلافِ شریعت قوانین کے ’لازماً شریعت کی مطابقت میں لائے
جانے‘ کے اس مژدۂ جانفزا کی آئینی قطعیت کس درجے کی ہے اور یہ کہ اس بات کی قطعیت
کو ’محل نظر‘ ٹھہرا دینے یا متاثر کر دینے والی اشیاءتو آیا اِس دستور کے اپنے ہی
اندر نہیں پائی جاتیں؟؟؟ یعنی، مثال کے طور پر، آپ کا آئین جب کہتا ہے کہ کوئی شخص
تیسری بار ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ واقعتا
کوئی شخص تیسری بار وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ اور آئین نے ’واقعی‘ جب یہ کہہ دیا ہے
تو کوئی لاکھ اس کو وزیر اعظم بنائے وہ وزیر اعظم بن ہی نہیں سکتا۔ جی ہاں، ’آئین‘
ایسی ہی ایک چیز ہے۔ اس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اندر اکثریت حاصل ہو تو
بھی وہ وزیر اعظم بننے کا سوچے گا تک نہیں، جب تک کہ وہ یہ آئینی رکاوٹ ہی آئینی
طریقے سے دور نہ کر لے۔ ایوان کا کوئی فلور اس کو وزیر اعظم بنانے کی قرارداد
’ووٹنگ‘ کےلیے تو کیا ’بحث‘ کےلیے ہی قبول نہ کرے گا۔ کیونکہ آئین اس مسئلے پر واقعی
بہت واضح ہے! یہاں ہم کہیں گے: آئین کی رو سے ایک چیز واقعتا نہیں ہو سکتی کیونکہ
دستور کی کوئی اگر مگر یا کوئی شوشہ شذرہ اس بات کے معارض ہے ہی نہیں۔ مگر ’خلاف
شریعت قانون نہ بن سکنے‘ اور ’خلاف شریعت قوانین کو شریعت کے موافق بنانے‘ کا مطلب
بھی کیا ویسا ہی قطعی ہے کہ آئین کی ایک دفعہ نے اگر کہہ دیا کہ ایک چیز نہیں ہوگی
تو وہ چیز اب کسی قیمت پر کبھی ہو ہی نہ سکے، یا پھر اس باب میں ’اگر مگر‘ کا
مفہوم دینے والے کئی حصے آپ کے اِسی آئین میں ہی باقاعدہ طور پر پائے جاتے ہیں
بلکہ اس مقصد کےلیے باقاعدہ طور پر رکھے گئے ہیں؟ آپ خود ہی سوچئے یہ بات آئین میں
اتنی ہی واضح اور قطعی ہوتی کہ شریعت کے واضح مسلمات سے متصادم ایک قانون کی یہاں
کسی صورت گنجائش ہی نہیں تو یہ سب غیر اسلامی قوانین کیا یہاں کالعدم نہ ہو گئے
ہوتے!؟ لیکن جب یہ خلافِ اسلام قوانین کالعدم نہیں ہوئے بلکہ پوری طرح ساری
المفعول ہیں تو آخر کوئی تو بنیاد ہوگی جس کے بل پر ان ’خلافِ اسلام‘ قوانین کی
آئینی حیثیت باقی رہتی ہوگی! خود ہمارے اسلام پسند بھائی ہی ان بنیادوں کا رونا
روتے کئی بار دیکھے گئے ہیں! یہ ان کار نہ کریں گے کہ ’شریعت بل‘ کی ضرورت بھی
ایسے ہی کچھ رونوں کے باعث پڑی تھی ورنہ سیکولروں کے اس الزام سے بچنا بہت مشکل ہو
جاتا ہے کہ یہ تو محض جونیجو و دیگر ’جمہوری‘ قوتوں کے مقابلے میں ضیاءالحق کے
ہاتھ مضبوط کرنے کی ایک کوشش تھی!
ہمارے اسلام پسند بھائیوں کا کوئی طبقہ ایک دستوری
قسم کی جدوجہد پر ہی یقین رکھتا ہے تو ضرور رکھے، مگر اس نظام کو یہ سرٹیفیکیٹ دے
دینا پھر بھی صحیح نہ ہوگا کہ یہ شرک سے نکل آیا ہے اور مالک الملک کے آگے گھٹنے
ٹیک چکا ہے اور اس کی شریعت کو قبول کر چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہیں کہ دستوری
جدوجہد کا جو راستہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے جاری ہے، کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور
جب تک یہ مالک کی شریعت کے آگے تسلیم نہیں ہو جاتا ہماری جدوجہد ختم نہیں ہو گی۔
البتہ جب ہمارے یہ بھائی اس نظام کے حق میں یہ سرٹیفکیٹ دے دیتے ہیں کہ یہ نظام
مالک الملک کے آگے تسلیم ہو گیا ہے تو تب البتہ ایک بہت بڑا خلط مبحث جنم لیتا ہے
اور تب خود ہمارے ان بھائیوں کی جدوجہد کی راہیں بھی تنگ ہوتے ہوتے کہیں روپوش ہو
جاتی ہیں اور ان کو اپنی سرگرمی کا کوئی مؤثر و زوردار میدان چننے میں ہی دشواری
پیش آنے لگتی ہے۔ اور تب یہاں کے سیکولر طبقوں کو دستور میں ایک نہایت غیر مؤثر
صلاحیت کی حامل اس ’اسلامی دفعہ‘ کو ڈال دینے کا احسان قیامت تک ہم پر جتاتے رہنے
کےلیے بھی ایک نہایت خوب بنیاد ہاتھ آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ یہ تاثر دینے میں
کامیاب رہتے ہیں کہ اس نظام کو ’اسلامی‘ کرنے کے معاملہ میں اسلام پسندوں کی جو
کوئی منزل ہو سکتی تھی وہ تو کب کی آکر گزر چکی، یعنی نظام اب یہ پوری طرح اسلامی
ہے صرف ’عمل‘ رہ جاتا ہےاور اس پر کون کسی کو مجبور کر سکتا ہے؟ ہم بھی مسلمان
ہیں، ایک کام خدا کےلیے کرنا ہے اور وہ حسب توفیق ہی ہوسکتا ہے، ہاں کوئی خلافِ
آئین چیز ہے تو جائیں اس کو عدالتوں میں چیلنج کریں، باقی، اسلام پسند چاہیں تو کس
نے روکا ہے اپنی اکثریت لے آئیں اور اس پر ’عمل‘ بھی کروالیں!
یعنی مسئلہ ’عمل‘ رہ جاتا ہے نہ کہ ’نظام کا
انحراف‘! باطل کو اس کے سوا کونسی شہادت درکار ہے؟
بہرحال ان سب دفعات کے باوجود، کہ جن کی بدولت یہ
نظام اپنا کچھ بھی تبدیل کئے بغیر لوگوں کی ایک تعداد کے نزدیک ’اسلامی‘ ہونے کی
سند پا گیا ہے، یہ سوال جوں کا توں باقی ہے کہ خدا کے اتارے ہوئے واضح و قطعی
احکامات کی اس نظام کے اندر ’’قانونی حیثیت‘‘ کیا
ہے؟
اب جہاں تک ’کتاب و سنت کے برخلاف ہرگز کوئی قانون
نہ بن سکنے‘ کا تعلق ہے تو محض ایک مثال کے طور پر، اور ظاہر ہے اس پر بے شمار
مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ ’کتاب وسنت کے برخلاف کوئی قانون نہ بن سکنے‘ کے معاملہ
میں دستور کی یہ ایک نہایت غیر مؤثر دفعہ ہے...۔ ہمارے سامنے پیس ٹی وی پر پاکستان
کے ایک معروف ترین داعیِ دین جناب ڈاکٹر اسرار احمد بھارت کے ایک عظیم جلسہ عام
میں خطاب کر تے ہوئے ’بھارتی مسلمانوں‘ کو یہ خراج عقیدت پیش کر کے آتے ہیں کہ
بھارت ایسے ’سیکولر‘ ملک میں رہتے ہوئے بھی آپ لوگوں نے کسی کو اپنے ”مسلم عائلی
قوانین“ کو ہاتھ نہیں لگانے دیا، جبکہ ہم پاکستانی مسلمان شرمندہ ہیں کہ اتنا بھی
نہ کر سکے اور ہمارے وہ مسلم عائلی قوانین جن کو ہاتھ لگانے کی انگریز بھی کبھی
جرأت نہ کر سکے تھے، پاکستان کے اندر اُن میں اب کئی ایک کھلی کھلی خلافِ شریعت
اشیاءڈال دی گئی ہیں۔ (روایت بالمعنیٰ) ڈاکٹر اسرار صاحب کی یہ بات کہ انگریز بھی
ہمارے جن عائلی قوانین کو ہاتھ نہیں لگا سکے تھے ’ہمارے‘ اِس ’اسلامی‘ نظام کے
اندر تو وہ بھی سلامت نہ رہنے دیے گئے اور خود انہی کے اندر خلافِ اسلام قوانین
ڈال دیے گئے، اس قدر سچ ہے کہ کوئی واقفِ حال اس سے ان کار نہ کر سکے گا۔
غرض کون نہیں جانتا کہ جس دستور کی ایک دفعہ ہمیں
وہ مژدہ سناتی ہے کہ کوئی قانون خلاف شریعت نہ بنے گا، اسی دستور کی ایک دوسری
دفعہ، علاوہ کچھ دیگر اشیائ، مسلم عائلی قوانین کے موضوع تک پر ’فیڈرل شریعت کورٹ‘
کے ہاتھ باندھ کر آتی ہے؟!
دستور کی اِس ’امید افزا‘ دفعہ پر ہم کسی فنی
بنیادوں پر یہاں بات نہیں کر رہے، البتہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دستور کی اس دفعہ
کو ’بیلنس‘ کرنے کےلیے بہت کچھ اِس دستور کے اپنے ہی اندر موجود ہے۔ جہاں ہم اسلام
پسند دستور سے حوالہ دینے کےلیے بہت کچھ پاس رکھتے ہیں وہاں ملک کے سیکولر طبقے
بھی اپنی بات کے حق میں حوالہ دینے کےلیے اِسی دستور سے ہی بہت کچھ پاس رکھتے ہیں۔
یہ تو پارلیمنٹ میں کچھ پیش ہو پھر آپ دیکھیں گے کہ دستور کی یہ ’اسلامی دفعات‘ جو
ابھی تک صرف ہمیں ہی سنانے کےلیے رکھی گئی ہیں اِن کا صحیح صحیح قانونی و آئینی
اقتضاءدرحقیقت کیا ہے!
سوال یہ ہے کہ اگر یہ ’اسلامی دفعات‘ اپنے معنی و
اقتضاءمیں اتنی ہی واضح اور دوٹوک ہیں تو پارلیمنٹ میں کچھ ’اسلامی قوانین‘ کے بل
پیش کر کے اور کچھ ’خلافِ شریعت قوانین کو کالعدم ٹھہرانے‘ کے بل پیش کر کے آخر
دیکھ ہی کیوں نہیں لیا جاتا کہ ’کیا بنتا ہے‘؟ اس کے نتیجے میں ملکی قوانین اگر
شریعت کی موافقت میں لے آئے جاتے ہیں تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے، اور اگر یہ
دفعات پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر کام نہیں دیتیں تو بھی ان ’اسلامی دفعات‘ کی
تاثیر و قطعیت کی بابت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو ہو ہی سکتا ہے، یہ بھی
کوئی چھوٹی پیشرفت تو نہیں! تاہم یہ بات نوٹ کی جائے کہ دستور کی یہ اسلامی دفعات
اگر پارلیمنٹ کے فلور پر کام نہیں دیتیں اور ’پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوؤں‘ کو خاموش
نہیں کراسکتیں، تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ ان ’اسلامی دفعات‘ کا حوالہ دے کر صرف ہم
ایسوں کو ہی خاموش کرایا جاتا رہے؟!!!!
کہا جاتا ہے یونان کے فلسفی بڑی صدیوں تک ’نظری‘
بحثیں کرتے رہے کہ دو مختلف وزن کے پتھر ایک سی بلندی سے گرائے جائیں تو ہلکے پتھر
کی نسبت بھاری پتھر زمین پر پہلے گرے گا، البتہ ’فلسفی‘ ہونے کے باعث اتنا نہ کر پائے
کہ دو مختلف وزن کے پتھر اٹھائیں اور گرا کر دیکھ لیں! بجائے اس کے کہ 1973ء سے لے
کر اب تک، کہ تقریباً چار عشرے مدت بنتی ہے، ان ’اسلامی دفعات‘ کی آئینی صلاحیت و
قطعیت پر صرف ’نظری‘ بحثیں کی جاتی رہیں، پارلیمنٹ یا عدالتوں میں جا کر ان دفعات
کی یہ ’آئینی صلاحیت‘ آزما کیوں نہیں لی جاتی، کہ پتہ چل جائے ان دفعات میں فنی
اعتبار سے جان کتنی ہے اور ان کو بے جان کر دینے کے انتظامات خود اسی دستور کے
اندر کیا کیا ہیں؟؟!
[1] کوئی ریاست اپنی روزمرہ ضروریات کےلیے قواعد و ضوابط بناتی
ہے، خصوصا ان امور کے اندر جن کو ’بائی لاز‘ کہا جاتا ہے، تو یہ بات کسی کے ہاں
بھی محل اعتراض نہیں۔ اصل اعتراض اس بات پر ہے کہ شریعت کے معروف و زبان زد عام
امور بھی کہ جنہیں مسلماتِ شریعت کہا جاتا ہے...۔ یہ مسلماتِ شریعت تک کسی نظام
میں ’قانونی و آئینی حیثیت‘ پانے کےلیے پارلیمنٹ کے ہاں سے پاس ہونے کے ضرورت مند
رکھے جائیں اور جب تک پارلیمنٹ انہیں ’پاس‘ نہ کر دے ان کی کوئی قانونی حیثیت ہی
نہ ہو!
شریعت کے معروف مسلمات، مانند:
- شرک، سود، فحاشی وعریانی اور موالاتِ کفار وغیرہ کی حرمت، یا
- نماز، حیاداری اور عدل اجتماعی ایسی اشیاءکا وجوب، یا
- جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ ایسے امور کا مشروع و
مطلوب ہونا۔
یہ ایک واضح امر ہے کہ مسلماتِ شریعت کو آپ سے آپ آئینی و
قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باعث یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کثیر
شرعی امور کہ جن سے فقہائے احناف کی کتب بھری پڑی ہیں بلکہ سب کے سب اسلامی مذاہب
کی کتبِ فقہ ان سے بھری ہوئی ہیں، اور کتاب و سنت کی نصوص بھی ان کے حق ہونے پر
نہایت واضح دلالت رکھتی ہیں...۔ مسلماتِ شریعت کو اس نظام میں آپ سے آپ ’آئینی و
قانونی حیثیت‘ حاصل نہ ہونے کے باعث، حسبہ و امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ایسے
کثیر شرعی امور بلکہ واجباتِ دین تک یہاں آئین کے ’بنیادی حقوق‘ والے باب کے ہی
صاف متعارض قرار پائیں گے۔ یعنی شریعت میں جو چیز فرض کا درجہ رکھے گی آپ کے آئین
کے ’بنیادی حقوق‘ والے چیپٹر کی رو سے وہ ’جرم‘ قرار پائے گی۔ اس کی زیادہ وضاحت
کسی اور وقت کی جائے گی، البتہ اس کی صرف ایک مثال ذیل میں دی جاتی ہے:
ایک باپ اپنی بیٹی کو جو قانون کی نظر میں بالغ
ہے، کسی ایسی اردو یا پنجابی یا پشتو فلم میں ڈانس سے روک دینا چاہتا ہے جس کو
یہاں کے سنسر بورڈ نے ’پاس‘ کر دیا ہوا ہے یا جس پر سنسر بورڈ معترض نہیں! بیٹی
اگر اپنا یہ ڈانس ریکارڈ کرانے پر ہی بضد ہے تو چونکہ قانون کی نظر میں پنجابی اور
پشتو فلموں کا یہ ڈانس (جوکہ آپ کو کچھ اندازہ ہوگا کہ کیا ہوتا ہے!) ایک ’جائز‘
کام ہے لہٰذا باپ اور اس کا پورا قبیلہ مل کر بھی اگر لڑکی کو اس حیا باختہ عمل سے
روکنا چاہیں تو قانون بہرحال یہاں لڑکی کے ساتھ کھڑاہوگا۔ اور اگر لڑکی کا پورا
محلہ یا پورا قبیلہ مل کر بھی اس کو اس بے حیائی سے روکنے میں ’زبردستی‘ کا مرتکب
ہوتا ہے تو قانون کی نظر میں (جس کی رِٹ کو ماننا نہایت ضروری ہے!) لڑکی حق پر ہے
اور قبیلہ جرم کا مرتکب! آپ جس بھی ماہر آئین سے پوچھنا چاہیں پوچھ کر دیکھ لیں،
نہی عن المنکر کا ایک کام، جوکہ شریعت میں بقدرِ استطاعت مطلوب ہے، اس حالت میں
آئین کے ’بنیادی حقوق‘ کے باب سے صاف متصادم ہے اور قانوناً منع۔ اور جہاں شریعت
اور آئین میں تصادم آجائے وہاں ترجیح __ اِ س نظام کے اندر __ بھلا کس کو حاصل
ہوگی؟ ہمارا خیال ہے اس کا جواب یہاں ہر شخص کو معلوم ہے، فَحَسبُنَا اللّٰہُ
وَنِعمَ الوَکِیل۔