دردمندانِ قوم کے نام
اس سے پہلے کہ کشتی ڈوب جائے
ہمارے نبیﷺ نے فرمایا ہے:
مَثَلُ الْقَائِمِ عَلیٰ حُدُوْدِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ
فِیْہَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَہَمُوْا عَلیٰ سَفِیْنَۃٍ فَأصَابَ بَعْضُہُمْ
أعْلَاہَا وَبَعْضُہُمْ أسْفَلَہَا، فَکَانَ الَّذِیْنَ فِیْ أسْفَلِہَا إذَا
اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوْا عَلیٰ مَنْ فَوْقَہُمْ، فَقَالُوْا لَوْ أنَّا
خَرَقْنَا فِیْ نَصِیْبِنَا خَرْقاً وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإنْ
یَتْرُکُوْہُمْ وَمَا أرَادُوْا ہَلَکُوْا جَمِیْعاً، وَإنْ أَخَذُوْا عَلیٰ
أیْدِیْہِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعاً (صحیح البخاری)
’’اللہ کی حدوں کا پاسبان بن
کر رہنے والوں.. اور ان کو توڑ بیٹھنے والوں.. کی مثال (کسی معاشرے کے اندر) یوں
ہے جیسے ایک کشتی کے سوار اپنے مابین جگہیں بانٹ لیں؛ کچھ کو کشتی کی بالائی منزل
ملے اور کچھ کے حصے میں زیریں۔ نیچے والے جب بھی پانی کے ضروتمند ہوں ان کو اوپر
والوں کے بیچ سے گزرنا پڑے۔ تب یہ کہتے ہیں: کیوں نہ ہم اپنے والے حصے میں ایک
شگاف کر لیں اور اوپر والوں کو (بار بار) تنگ نہ کریں۔ اب اگر وہ اِن کو اپنے
ارادے پر عمل پیرا ہونے کےلیے چھوڑ دیتے ہیں.. تو سب کے سب مرتے ہیں... البتہ اگر
وہ اِن کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں.. تو نہ صرف وہ خود بلکہ سب کے سب پار لگتے ہیں‘‘۔
قوم کے دردمندو !
ذرا اپنے نبیؐ کے فرمان پر غور کرو...:
ایک قوم کے چند نادان لوگوں کو __ اپنی عام سی حیثیت میں __ معاشرے
کے اندر فساد پھیلانے کےلیے چھوٹ مل جائے... تو بھی انجام خطرے میں ہوتا ہے۔
تو پھر جرم اور فساد کی علمبردار پوری ایک مافیا کا.. اپنی باقاعدہ
’’سرکاری حیثیت‘‘ میں.. اور کشتی کا ’’ناخدا‘‘ بن کر.. معاملے کا ’’کنٹرول‘‘ ہی لے
لینا، اور وہ بھی ایک ایسی منظم، گمراہ،
کرپٹ مافیا...
جو نہ صرف اندرونی سطح پر اپنے بے تحاشا ظلم اور فساد سے اِس کشتی کا
پیندا چھلنی کر دینے پر تلی ہوئی ہے
بلکہ بیرونی سطح پر اِس کی سمت ہی تباہیوں کے بھنور کی جانب کر ڈالتی
ہے...
تو اے معاشرہ کے صالح و دَانا طبقو! یہ ہمارے لیے کس قدر عظیم لمحۂ
فکریہ ہونا چاہئے...؟؟؟
*****
ہماری یہ ’’کشتی‘‘ .. جس پر قوم کے نمازی بھی سوار ہیں اور روزہ دار
بھی.. سب متقی اور باشرع چہرے بھی.. علماء اور فقہاء بھی.. جہاں تلاوتیں بھی ہو
رہی ہیں اور خطبے اور وعظ بھی.. مدرسے بھی چل رہے ہیں اور دروسِ قرآن بھی.. جہاں
جدید تعلیم یافتہ، مخلص، محنتی اور باشعور شہریوں کی کمی ہے اور نہ دانشوروں اور
ولایت پلٹ ماہرینِ سماج کی.. اساتذہ کی اور نہ انجینئروں اور ڈاکٹروں کی.. ادیبوں
کی اور نہ شاعروں کی...
مگر.. اِن سب نیک اعمال کرتے نمازیوں روزہ داروں.. وعظ کرتے خطیبوں..
آگہی نشر کرتے پروفیسروں اور دانشوروں.. ادیبوں اور شاعروں.. اور سماجیات کے
ماہروں.. کو اٹھائے ہوئے... ہماری یہ تیز رفتار ’’کشتی‘‘
تباہی کے کس ہولناک بھنور کی جانب بھاگی چلی جا رہی ہے.. اور اپنے
طبعی انجام کے کس قدر قریب پہنچ چکی ہے...؟
اِس کے طول و عرض میں فساد کے کیا کیا انتظامات ہیں...، اور اس کے پتوار
کن مکروہ ہاتھوں نے تھام رکھے ہیں؟
کیا اِس پر ہمیں ابھی تک پریشانی لاحق نہیں ہوئی...؟؟؟
کیا کبھی ہم نے نہیں سوچا... جس وقت بغداد میں تاتاریوں نے ہماری
اینٹ سے اینٹ بجائی تھی.. یا جس وقت اندلس میں ہماری آٹھ سو سالہ تاریخ نے اپنا
آخری سانس لیا تھا.. یا جس وقت مسلم ہند میں ہمارے اقتدار کا چراغ گل ہوا تھا.. یا
جب بھی اور جہاں بھی ہماری یہ کشتی ڈوبی... تو کیا اُس وقت ہمارے یہاں نمازی نہیں
پائے جاتے تھے..؟ روزہ دار ختم ہو گئے تھے..؟ متقی اور باشرع چہرے ناپید ہو گئے
تھے..؟ علماء اور فقہاء نہیں رہے تھے..؟ خطبے اور وعظ.. خانقاہیں اور درس نہیں چل
رہے تھے..؟ ادب اور شاعری نہیں ہو رہی تھی..؟ پڑھے لکھوں کی کمی ہو گئی تھی..؟
شریف، بھلے مانس، محنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والے معزز شہریوں کا کال پڑ گیا
تھا...؟
آخر وہ کونسا وقت ہوتا ہے جب خدا کی نصرت اور عنایت ہم سے دستکش ہو
جاتی ہے؟
جس وقت اصلاح کا کام ہمارے معاشرے کے اندر موقوف ہو جاتا ہے.. اور جب
’’نیکی‘‘ کا یہ تصور مقبولِ عام ہو جاتا ہے کہ: بس اپنے اپنے اعمال درست کرو اور
اُس فساد سے تعرض مت کرو جو اِس کشتی کے پیندے میں شگاف ڈالنے کا موجب بن رہا ہے..
جس وقت ظلم اور فساد کے لشکروں کو معاشرے کے اندر کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور ان کو
روکنے ٹوکنے والی آوازیں دھیمی پڑ جاتی ہیں اور کلمۂ حق کہنے والے کہیں کونوں اور
گوشوں میں جا کر سو جاتے ہیں یا اپنی انفرادی عبادتوں میں محو ہو جاتے ہیں.. اور
’’کشتی‘‘ میں شگاف کرنے والوں کا کام زوروں پر چلا جاتا ہے... تو یہ وہ وقت ہوتا
ہے جب ایک کلمہ گو قوم پر سے آسمان کے پہرے اٹھ جاتے ہیں!
حضرات! معاشرے کے اندر ظلم اور فساد اور عبادتِ غیر اللہ کے خلاف اٹھ
کھڑے ہونا... اس کشتی کا بھی تحفظ ہے.. اور خود آپ کا بھی.. اور آپ کی آئندہ نسلوں
کا بھی۔
*****
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ
ایک بار منبر پر کھڑے ہوئے، اور بعد از
حمد وثناء، فرمانے لگے:
یا أیہا الناس إنکم تقرأون ہٰذہ الآیۃ وتضعونہا علیٰ غیر
موضعہا: ( یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أنْفُسَکُمْ لا
یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ إذَا اھْتَدَیْتُمْ).. وإنَّا سَمِعْنَا النَّبِیَّ ا یَقُوْلُ: ’’إنَّ النَّاسَ إذَا رَأوْا
الظَّالِمَ فَلَمْ یَأخُذُوْا عَلیٰ یَدَیْہِ، أوْشَکَ أن یَعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ‘‘۔ ( رواه أحمد، و أبو داود، والترمذی، وابن ماجة، وصححه أحمد شاکر
والألبانی، واللفظ لأبی داود)
اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو
اور اِس کا نہایت غلط اطلاق کرتے ہو: (المائدۃ کی آیت ۱۰۵) ’’اے
ایمان والو ! اپنی فکر کرو۔ تم خود اگر راہ راست پر ہو تو کسی کے گمراہ رہنے سے
تمہارا کچھ نہیں بگڑتا‘‘ جبکہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’یقیناًلوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کو اُس کے
دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو عقوبت کی
لپیٹ میں لے لے‘‘
تو کیا ہم نے غور کیا؟...’’ظالم کو دیکھیں تو اُس کو دونوں ہاتھ
پکڑ کر اُس کے ظلم سے روکیں‘‘... کیونکہ سفینہ جب ڈوبتا ہے تو پورے کا پورا
ڈوبتا ہے!
قالت زینبُ: فقلتُ: یا رسولَ اللّٰہ أنَھْلَکُ وَفِینا الصَّالِحُون؟ قال: ’’نعم إذا کَثُرَ الخَبَثُ‘‘ (متفق علیه)
ام المومنین زینبؓ (بنت جحش) فرماتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے
رسولؐ! کیا ہم ہلاک ہوں گے درحالیکہ ہمارے مابین صالحین پائے جاتے ہوں گے؟ آپؐ نے
فرمایا: ’’ہاں جب گند زیادہ ہو جائے‘‘
قوم کے دن پھرنے کے آرزو مندو !
اپنے نبیؐ کی بات پر غور
کرو... :
أنَھْلَکُ وَفِینَا الصَّالِحُوْنَ؟ کیا
صالحین کے ہوتے ہوئے ہم برباد ہونگے؟ قال: ’’نعم إذا کَثُرَ الخَبَثُ‘‘ فرمایا: ’’ہاں جب گند بڑھ جائے‘‘
’’گند‘‘بڑھ جائے... تو وہاں پر صالحین کی
نمازیں اور دعائیں... قربانیاں اور روزے... اعتکاف اور عمرے.. حج اور چلے... مسئلے
کا علاج نہیں رہتے.. اور قوم کے سر پر منڈلانے والے اُس ’’طبعی انجام‘‘ کو ٹال
دینے پر قدرت نہیں رکھتے... جب تک کہ یہ صالح طبقے ’’گند‘‘ صاف کرنے کےلیے ہی
میدان میں نہ اتر آئیں...! ’’صفائی‘‘کا یہ عمل... بڑی دیر سے یہاں ’’صالحین‘‘ کا منتظر ہے!!!
*****
آئیے اٹھیں... اور اپنے حصے کا کام انجام دیں:
ایک فورم... جس پر.. ہر طبقے، ہر پیشے ، ہر سماجی حیثیت و پسمنظر، ہر
مسلک، ہر فقہ، ہر تنظیم، اور ہر پارٹی کے لوگ.. مل کر:
Ã
باطل
اور ظلم کے خلاف اہل اسلام کی وہ مزاحمت سامنے لائیں... جو :
ý
اپنے معاشرے میں کفر والحاد کی یورش کو روک نہ سکے تو بھی
اُس کی راہ میں کچھ بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دینے میں کامیاب ہو۔
ý
عالمی
استعمار نے ہم پر جو نظامِ ظلم و استحصال مسلط کر رکھا ہے.. کبھی ’جمہوریت‘ اور
’عوام کی نمائندگی‘ اور ’عوامی امنگوں کی ترجمانی‘ کے نام پر.. تو کبھی اپنے چہیتے
ڈکٹیٹروں کے ناز نخرے اٹھانے کی صورت میں.. جبکہ پون صدی سے چلا آنے والا یہ نظامِ
باربرداری و بردہ فروشی ہمارا سارا خون چوس چکا ہے اور ہمارے وجود سے زندگی کی
آخری رمق ختم کر دینے والا ہے... عالمی استعمار کے مقاصد پورا کرنے والے اِس نظامِ
استبداد کو اپنے یہاں سے رخصت کرانے کےلیے..
ý
عوامی
طاقت کو میدان میں لائے۔
ý
ہماری
یہ مزاحمت: نظریاتی بھی ہو۔ سماجی بھی۔ اور سیاسی بھی۔ یہ مزاحمت گلی گلی، محلے
محلے، کی سطح پر پائی جائے.. مسجدوں اور منبروں سے پھوٹے.. ابلاغی فورموں سے اپنا
پتہ دے... اور بیک وقت عالمی لہجے بھی اختیار کرے۔
ý
تشدد
کی راہ سے دور رہتے ہوئے.. یہ ایک ’’عوامی ریلا‘‘ اٹھانے پر ہی اپنا زور صرف کرے...؛
اور جوکہ مسلم دنیا کے متعدد خطوں میں قابل ذکر پیشرفت دکھا چکا ہے۔
Ã
یہ
فورم مسلم صفوں میں پائے جانے والے انتشار اور افتراق کا ایک جرأتمندانہ حل سامنے
لائے۔ ایک طرف لسانیت، صوبائیت اور قومیت ایسے رجحانات کے خلاف سرگرم ہو، کیونکہ
یہ چیزیں جسدِ مسلم کو تار تار کروانے کےلیے ہی ہمیں مہیا کر رکھی گئی ہیں؛ اور ان
سب جاہلی عصبیتوں کے مقابلے میں ’’رشتۂ اسلام‘‘ اور ’’اخوتِ ایمانی‘‘ کو ہی اپنی
مضبوط تر شیرازہ بندی کی بنیاد بنائے۔ دوسری جانب ’مذہب‘ کے نام پر کھڑی کی گئی
اُن دیواروں کو گرائے جو ہمیں فرقوں اور ٹولوں کے اندر بانٹ چکی ہیں اور جن کے
باعث آج ہماری مسجدیں اور نمازیں تک الگ ہوچکی ہیں...! آج ہمیں فرقہ واریت کی اِن
سب بنیادوں کو ہی ملیامیٹ کرنا ہو گا۔
Ã
یہاں
ہونے والی کرپشن اور چوری اور لوٹ کھسوٹ کی خبر لے، سماجی ظلم و ناانصافی کے خلاف
اٹھے اور قوم کو اٹھائے۔
Ã
مقامی
صنعت کو فروغ دلوانے کےلیے.. نیز مسلم وسائل کو ملٹی نیشنلز (’ایسٹ انڈیا کمپنی‘
کی فی زمانہ شکل) کی آہنی جکڑ سے آزاد کرانے کے لیے، اور مسلم معاشروں کو
خودانحصاری کی راہ دکھانے کے لیے.. نیز یہود وہنود وصلیب کے پنجے میں سسکتی مسلم
اقوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے... ’’بائیکاٹ‘‘ کا ہتھیار سامنے لے کر آئے۔
Ã
گلی
گلی محلے محلے کی سطح پر، ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت ریلیف اور سماجی خدمت کے کم خرچ
بالانشین ماڈل سامنے لائے۔ زکات و صدقات کا اسٹرٹیجک استعمال متعارف کروائے۔ گلی
محلے اور مسجد کی سطح پر کواپریٹو اسکیمیں سامنے لے کر آئے۔ سمال انڈسٹری کی قابل
عمل صورتیں دے۔ اور مسلم ٹیلنٹ کی سرپرستی کرے۔
حضرات!
آپ کے سامنے آج ظلم بھی ہے، کفر بھی، فساد بھی، عبادتِ غیر اللہ بھی،
اور شرائع کی پامالی بھی۔ جبکہ پرسانِ حال کوئی نہیں! اصلاح کاروں کا اٹھنا آج فرض
نہیں تو کب ہے؟