پاکستان کے
آئین میں اللہ تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ (Sovereign) مان لیا گیا ہے۔
ما شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ مان
لیا گیا ہے تو پھر مسئلہ کیا باقی رہا؟ یعنی
تمام حکم دینے والوں میں اللہ تعالیٰ سب سے اوپر؛ اس کے حکم کے بعد کسی کا حکم نہیں ہوگا۔ حاکمِ
اعلیٰ! ألَيْسَ
اللهُ بِأحْكَمِ الْحَاكِمِيْن!
نہیں آپ
سمجھے نہیں۔ اصل میں دستور کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ آپ کو پورے دستوری پروسیجر
کو دیکھنا ہوتا ہے اور اُس کی روشنی میں ہی ایک آرٹیکل یا ایک کلاز کی relevance دیکھنی ہوتی ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کسی خاص
معنےٰ میں حاکم اعلیٰ ہے، مطلق معنےٰ میں
نہیں؟!!
حضرت یہ آپ کے سمجھنے پر ہے، بہرحال دستور کی زبان خطبۂ جمعہ والی زبان نہیں
ہوتی۔ اس میں آپ کو بڑا کچھ دیکھ دیکھنا ہوتا ہے۔ پورے دستور کو سامنے رکھ کرایک
مجموعی مفہوم لینا ہوتا ہے۔
اچھا تو ہم جو شرعی معنیٰ
میں لیتے ہیں کہ اللہ احکم الحاکمین ہے۔ اس کے اوپر کسی کا حکم نہیں اور اس کے بول
دینے کے بعد کوئی نہیں بولے گا اور نہ چوں چرا کرے گا، دستور کے ’حاکمِ اعلیٰ‘ کا
وہ مطلب نہیں ہے؟
یہ تو واضح بات ہے۔ دستور میں اللہ کو حاکم اعلیٰ ماننا وہ تو نہیں ہے جو
شریعت میں اللہ کو احکم الحاکمین ماننا ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی زبان ہے۔
تو پھر ہم یہ غلط سمجھے کہ
دستور میں اللہ اور رسولؐ کی بات کو حرف آخر مانا گیا ہے؛ یعنی اللہ اور رسولؐ کے
بول دینے کے بعد سب چوں چرا ختم؟
آپ سے کہا نا... دستور کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ یہ کوئی خطبۂ جمعہ تو نہیں
ہے!
تو پھر ہمارے یہ اسلام
پسند ’’پورے دستور‘‘ کو سامنے رکھ کر کیوں بات نہیں کرتے؟ یہ دستور کی ایک شق کو
’خطبۂ جمعہ والی زبان‘ میں کیوں لیتے ہیں؟
یہ ہمیں کیوں تھپکیاں دےدیتے ہیں
کہ خدا کے احکم الحاکمین ہونے کی حیثیت کو دستور میں باقاعدہ طور پر تسلیم
کرلیا گیا ہے؟
مسئلہ یہاں پر ہے...!!!
اصل دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ کیا اس ایک
بات نے کہ ’اللہ حاکم اعلیٰ ہے‘، خالق کے سامنے مخلوق کے سب اختیارات ختم کر دیے
ہیں... یا مخلوق کا اختیار خالق کے فرمان کے
مقابلے پر ابھی باقی ہے؟
جائزہ یہ لیا جانا ہے کہ کیا اس بات نے
جمہوریت کا یہ آفاقی اصول کالعدم کردیا ہے کہ جملہ انسانی معاملات میں مسئلے کا
تعین اکثریت کے ووٹوں سے کیا جائے گا نہ کہ اس کے حق یا باطل ہونے کی بنیاد پر؟
کیا اس بات نے نمائندگانِ جمہور کے اختیارات کو پروردگارِ جمہور کے ’’نازل کردہ‘‘ کا واقعتا پابند کردیا ہے؟ اور کیا ’حاکمِ
اعلیٰ‘ کے لفظ سے مراد ان کے ہاں یہ لی جاتی ہے کہ خدا کے فرمائے ہوئے کے سامنے اب
کسی کو دم مارنے کی کوئی مجال نہیں! یا پھر یہ ایک ’برائے نام‘ تبدیلی ہے اور
جمہوریت کا عالمی کفر اس میں ابھی باقی ہے؟
’حاکم اعلیٰ‘ سے مراد کیا ہے...؟
اصل بات یہ ہے کہ قانون کی ایک اپنی زبان ہے۔
دستور کسی کو کیا ’عہدہ‘ دیتا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے اور دستور کسی کو عملاً کیا
’اختیار‘ دیتا ہے، بالکل ایک الگ بحث۔ ’عہدہ‘ اور ’اختیار‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
ان میں سے ایک ہو تو ضروری نہیں دوسرا بھی ساتھ ہو۔ مثلاً ’صدر‘ ایک عہدہ ہے۔ ’وزیر
اعظم‘ ایک عہدہ ہے۔ اپنے ملک میں یہ دونوں ہی مستقل عہدے ہیں البتہ ان کے اختیارات
میں ہم جانتے ہیں آئے روز اَدل بدل ہوتا ہے اور آئے روز ہی کسی نہ کسی کے
’اختیارات‘ میں نقب لگتا ہے۔ یہاں صدر ہمیشہ صدر ہی کہلاتا ہے اور وزیر اعظم وزیر
اعظم ہی رہتا ہے مگر ’اختیارات‘ ہیں جو گردش کرتے رہتے ہیں۔ کسی وقت صدر یہاں حد
درجہ با اختیار بلکہ سیاہ وسفید کا مالک دیکھا گیا ہے تو کسی وقت محض ایک اعزازی
منصب۔ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات میں توازن لائے جانے کی کوششیں ہمارے سامنے
یہاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔
چنانچہ مسئلہ اس نظام کے اندر یہ نہیں کہ کسی
کو یہاں کیا عہدہ یا کیا لقب حاصل ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کسی کو یہاں کیا اختیار
حاصل ہے؟ یہاں سینٹ اور اسمبلی کے مابین ’اختیارات‘ کی تقسیم پر بحث ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ اور کابینہ کے عملی اختیارات کا مسئلہ اٹھ آتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں
کے مابین ’اختیارات‘ کی تقسیم آئے روز موضوع بحث بنی رہتی ہے۔ کوئی بھی یہاں ایسا
نہیں جو یہ دیکھے بغیر کہ اس کا اختیار کیا ہے محض ایک عہدے پر ریجھ جائے!
دستو راور قانون کی زبان واقعی بڑی عجیب ہے۔
اس زبان میں آپ کسی کو بادشاہ کہہ دیں __جیسا کہ برطانیہ میں چلتا ہے__ تو ضروری
نہیں ’اختیارات‘ کے معاملہ میں بھی اس سے مراد ’بادشاہ‘ ہی ہو۔ آپ سوچئے جمہوریت
میں ’بادشاہ‘ کا کیا کام؟ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر اس کو عملاً کیا اختیار
دیا جاتا ہے۔ القاب تو نرا اعزاز ہے!
پس یہ نہایت غور طلب نکتہ ہے۔ ملوک یعنی بادشاہ
اور شہنشاہ تو ملوکیت میں ہوتے ہیں، جمہوریت میں ’بادشاہ‘ کہاں سے آگئے؟! مگر
برطانیہ سمیت کئی یورپی ملکوں میں، کہ جو جمہوریت کے باب میں ایک مرجع اور حوالہ
کی حیثیت رکھتے ہیں، آج تک ’بادشاہ‘ پائے جاتے ہیں! ’جمہوریت‘ میں ’بادشاہ‘؟!!!
مگر اِس پر متعجب نہ ہوں۔ اِس کا جواب جمہوریت کے ’ہدایتکار‘ یہ دیتے ہیں کہ برائے
نام القاب سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اصل چیز پارلیمنٹ کا اختیار ہے!
اب جب اصل مسئلہ عہدہ واعزاز کا نہیں بلکہ
’اختیارات‘ کا ہے اور اصل واردات ’اختیارات‘ کے مسئلہ پر ہی ہاتھ صاف کرکے ڈالی
جاتی ہے تو ’حاکم اعلی‘ کے موضوع پر بھی ہمیں القاب کو نہیں بلکہ ان اختیارات کو
دیکھنا ہے جو اس نظام کی رو سے ’حاکم اعلی‘ کو بالفعل حاصل ہیں۔
بنیادی طور پر یہاں جو بھی شرعی قوانین کی
بحثیں اور شرعی بل زیر غور آتے ہیں۔۔ یا مثلاً آپ دیکھیں کہ ملک کی متعدد دینی
جماعتیں تہتر کا آئین پاس ہو جانے کے بعد بھی، یعنی خدا کو ’حاکمِ اعلیٰ‘ تسلیم کر
لیا جانے کے بعد بھی، کئی سال تک ’شریعت بل‘ کےلیے سڑکوں پر نکلی دیکھی جاتی ہیں...
تو اِن سب بحثوں اور مطالبوں کا موضوع دراصل ’حاکم اعلی‘ کا ’اختیار‘ ہی ہوتا ہے۔
کوئی پوچھے ’خدا کو حاکم اعلیٰ مان لیا گیا اور دستور میں باقاعدہ لکھ دیا گیا‘ تو
اب مسئلہ پیچھے کیا باقی رہا؟! ’حاکم اعلیٰ‘ حکم دینے کےلیے ہی تو ہوتا ہے! پس آپ
دیکھتے ہیں القاب سے قطع نظر، عملی اختیارات کے حوالے سے ’حاکم اعلی‘ کی بابت بھی
اِس لحاظ سے ایک بحث یہاں چلتی ہی رہتی ہے۔ سو یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ آپ کے یہاں واضح انداز میں کس چیز پر ’حاکم اعلی‘ کا اختیار
تسلیم کیا گیا ہے؟
قانون دان اور ماہر آئین پس ہمیں دستور میں
’حاکم اعلی‘ کا لفظ دکھانے کی بجائے یہ بتائیں کہ ’حاکم اعلی‘ کا عملاً کیا اختیار
ہے؟؟؟؟
قبل اس کے کہ قانون دان اور ماہرین آئین ہمیں
اس سوال کا جواب دیں، بات کو آسان کرنے کےلیے ہم اس بات کا پہلے تعین کرلیتے ہیں
کہ دین اسلام میں خدا کو ’حاکم اعلی‘ (Sovereign) ماننے کاکیا مطلب ہو سکتا
ہے اور قرآنی لفظ اَحکَمُ
الحَاکِمِین
کا کیا مفہوم ایک صاحبِ ایمان
کے ذہن میں آسکتا ہے۔ پھر ہم قانون دانوں اور ماہرین آئین سے صرف اتنا جاننا چاہیں
گے کہ ان کے اس آئین اور نظام میں بھی ’حاکم اعلی‘ کا کیا یہی مفہوم ہے جو ہم دین
اسلام میں اَحکَمُ
الحَاکِمِین کا پاتے ہیں یا ان
کے دستور کی مجموعی دلالت کی رُو سے اس کا کوئی دوسرا مفہوم ہے؟
واضح بات ہے کہ خدا نے بنی نوع انسان سے جو
کلام کرنا تھا وہ اس نے نبی آخر الزمانﷺ پر نازل فرما دیا ہے اور اپنے اس نبی کی
زندگی زندگی اس نے ’دین‘ مکمل کردیا اور اپنی اس نعمت کا اتمام فرما دیا ہے۔ اَحکَمُ
الحَاکِمِین، جس کا ایک ترجمہ Sovereign بھی بنتا ہے یعنی حاکم اعلی، اپنی مخلوق سے
جو بھی بات کرے گا وہ اپنے رسولؐ ہی کے ذریعے کرے گا، جو کہ وہ کر چکا ہے۔ انسانوں
کی سیاسی زندگی میں دین اسلام کی رو سے اس کے اَحکَمُ
الحَاکِمِین ہونے کا یہی مطلب
ہے کہ اس کا فرمایا ہوا حرف آخر ہو... حرف آخر یعنی اس کے بعد کسی کی بات نہیں۔ اس
کے بول دینے کے بعد کوئی نہیں بولے گا اور اس کے فیصلہ کر دینے کے بعد کسی کا
فیصلہ نہیں حتی کہ بحث تک نہیں۔
یوں اَحکَمُ
الحَاکِمِین (حاکم
اعلیٰ) کا یہ واضح اختیار ہے کہ وہ
آسمان سے کوئی واضح اور قطعی آیت اتار کر __جو کہ وہ اتار چکا ہے __ یا اپنے رسولؐ کی زبان سے واضح اور قطعی نص کہلوا کر __جو کہ وہ کہلوا چکا ہے __ پارلیمانی مخلوقات کا پاس کیا ہوا کوئی بھی
قانون کالعدم کردے یعنی ملک کی قانون ساز ہستیوں کا جاری کیا ہوا قانون قرآن کی
ایک آیت یا رسول اللہﷺ کے فرمان سے واضح اور قطعی طور پر متصادم ہونے کی بنا پر آپ
سے آپ کالعدم ٹھہرے۔
اتَّبِعُواْ
مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء (الاَعراف: 3)
”جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور
اس کے سوا دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو“۔
خدا جو اتار دے، وہ خود بخود قانون ہو اور
خدا کے اتارے ہوئے سے جو چیز متصادم ہو ___خواہ وہ پارلیمنٹ کا ’اتارا‘ ہوا ہو یا
کسی اور ہستی کا___ وہ خودبخود کالعدم ہو اور ’قانون‘ و ’دستور‘ کہلانے کا تو حق
تک نہ رکھے۔
یہ ہے دینِ اسلام۔ قانون دان بتائیں کیا آپ
کا آئین اور نظام بھی یہی کہتا ہے یا ’اختیارات‘ کے معاملے میں ’حاکم اعلی‘ کی
بابت ان کا جواب کچھ اور ہے؟
ابھی ہم اَحکَمُ
الحَاکِمِین کے ’اختیارات‘ کی
بابت دو باتیں دین اسلام میں دیکھ آئے ہیں۔ یعنی اس کا اتار ہوا خودبخود __اور کسی
اضافی شرط کے بغیر __ قانون ہو اور اس سے متصادم ہر کسی کی بات خودبخود کالعدم۔ ان
دونوں باتوں کےلیے کوئی شرط ہو سکتی ہے تو صرف ایک اور وہ یہ کہ کسی بات کی نسبت اس
سے یا اس کے نبی سے بہرحال پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہو اور اس کی دلالت متعین ہو۔
آپ کی اس جمہوریت میں اللہ وحدہ لاشریک کیا
عین اسی معنی میں ’حاکم اعلیٰ‘ ہے جوکہ اُس کے اَحکَمُ
الحَاکِمِین ہونیکا شرعی مفہوم
ہے۔۔ یا ان کے نظام میں یہ _معاذ اللہ _ محض ایک اعزازی لقب ہے؟
آپ کی جمہوریت اِس سوال کا جواب کیا دیتی ہے؟
”خدا کا فرمایا ہوا“ یہاں مذہبی تقدس تو آپ سے آپ رکھتا ہے مگر قانونی حیثیت آپ سے
آپ نہیں رکھتا۔ ”قانونی حیثیت“ پانے کےلیے ”خدا کے فرمائے ہوئے“ کو بہرحال
”اکثریت“ کے ہاں سے پاس ہونا ہوتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، اکثریت اگر ”خدا کے
فرمائے ہوئے“ کو پاس نہیں کرتی تو ”خدا کا فرمایا ہوا“ صرف ”مذہبی تقدس“ رکھے گا
نہ کہ کوئی ”قانونی حیثیت“!!!
تَعَالَى
عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
ان کا شرک یہی ہے۔
جب تک کوئی چیز اللہ اور اس کے رسول کی نسبت سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی یا جب تک
کسی بات کی شرعی دلالت متعین نہیں ہوتی تب تک اسلام میں اس کو ”مذہبی تقدس“ بھی
حاصل نہیں۔ مگر جب اس کا ثبوت اور دلالت شرعی ضابطوں کی رو سے متعین ہو جائے ...
یعنی جب ایک بار اس کو ’مذہبی تقدس‘ حاصل ہو گیا تو ’قانونی حیثیت‘ خودبخود حاصل
ہو گئی۔ ان دو باتوں کو الگ الگ کرنا ہی ان کا وہ شرک ہے جو عالمی طور پر
”سیکولرزم“ کے نام سے معروف ہے۔ سیکولرزم جمہوریت کا ایک جزولاینفک ہے اور وہ
’اپنی‘ اس جمہوریت میں بھی پوری طرح ساتھ آیا ہے۔
ہاں پارلیمنٹ کو __بلکہ ہر مخلوق کو __ یہ
پورا حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے کہ خدا نے فلاں بات کہی ہے یا نہیں کہی اور آیا اس
کی یہ دلالت بنتی ہے یا نہیں؟ حتی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک بنیاد پر کسی بات کے
رد کرنے کا بھی اس مخلوق کو پورا پورا حق ہے کیونکہ ہمارا دین پوپ کا دین بہرحال
نہیں اور نہ ہی ہم تھیو کریسی پر ایمان رکھتے ہیں __ بشرطیکہ اس کو رد کرنے والی
وہ مخلوق شریعت کی کسی بات کے ثبوت یا دلالت کا تعین کرنے کی فقہی صلاحیت رکھتی ہو
__مگر یہ کہ ایک بات کی نسبت اور دلالت کا اللہ و رسول سے ثبوت تو واضح ہو لیکن
پھر بھی اس کو صرف ’مذہبی تقدس‘ ملے اور ’قانونی حیثیت‘ پانے کےلیے وہ ہنوز کسی
مخلوق کی منظوری (Approval) کی محتاج ہو اور اس کی یہ ”احتیاج“ پوری
ہوئے بغیر وہ قانونی حیثیت سے محروم ہی رہے تو اس کا کفر ہونا اظہر من الشمس ہے۔
خدا کے ہاں سے جب کوئی چیز اترتی ہے تو وہ
’مذہبی تقدس‘ اور ’قانونی حیثیت‘ ہر دو کے ساتھ بیک وقت نازل ہوتی ہے اور رسول کے
حکم کو بھی بیک وقت یہ دونوں حیثیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ رسول صرف ’مذہبی‘ معنی میں
پیروی کرانے کےلیے مبعوث نہیں کیا جاتا بلکہ مطلق اطاعت کےلیے مبعوث ہوتا ہے۔
وَمَا
أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ
ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ
الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ
يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ
فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء: 65 ۔ 64)
”ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے وہ اس لئے تو بھیجا ہے کہ خدا کے حکم سے اس
کی اطاعت وفرمانبرداری کی جائے۔ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ
اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور
رسول بھی ان کےلیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا اور
رحم کرنے والا پاتے۔ نہیں اے محمد۔ تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب
تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ
تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم
کرلیں“۔
*****
”حاکم اعلیٰ“ ، ”سلطانیِ جمہور“ اور ”سیکولر
ازم“ کے ضمن میں اس مسئلے کی کچھ اور وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے ...
خطابات اور القابات کو اگر ایک طرف رکھ دیا
جائے...۔ تو فحوائے جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت کا فرمایا ہوا ہی مستند ہوگا اور
زیادہ ووٹوں سے پاس کیا جانے والا ہی ”قانون“ کہلائے گا اور یہ کہ اکثریت کی منظوری
حاصل ہوئے بغیر کوئی چیز بھی، خواہ وہ خدا کا فرمایا ہوا کیوں نہ ہو، آپ سے آپ
قانون کہلانے کا حق نہ رکھے گا ... اگرچہ وہ خدا اور رسول کا واضح ترین حکم کیوں
نہ ہو اور اپنی دلالت میں قطعی ترین کیوں نہ ہو اور خواہ چودہ سو سال سے لے آج تک
فقہائے اسلام میں سے کسی ایک نے بھی کبھی اس پر اختلاف نہ کیا ہو جس کی ایک مثال
__اور نہایت واضح مثال __ سود کی حرمت ہے، اور اس کی ایک اور مثال فحاشی و عریانی
کا تمام شرائع میں حرام ہونا۔
چنانچہ خطابات اور القابات کو اگر ایک طرف
رکھ دیا جائے... تو اس نظام کی رو سے مذہب مذہب ہے اور قانون قانون۔ واقعتا یہ
نظام اس پر معترض نہیں کہ ”مذہب“ کی کوئی بات کسی وقت ”قانون“ بنا دی جائے۔ مگر اس
کی رو سے ہیں یہ دو الگ الگ چیزیں۔ اور یہی بات غور طلب ہے۔ ”مذہب“ یہاں قانون بن
ضرور سکتا ہے البتہ ”مذہب“ خود بخود ”قانون“ نہیں۔ دوبارہ یہ جملہ نوٹ فرما لیجئے:
مذہب قانون بن ضرور سکتا ہے مگر مذہب خودبخود قانون نہیں...
جبکہ اللہ کے ہاں ’دین‘ وہ ہے جو بیک وقت
”مذہب“ بھی ہو اور ”قانون“ بھی۔ اللہ کے ہاں سے جو کچھ اتر آیا ہے، کسی بھی اضافی
شرط کے بغیر، وہ آپ سے آپ ”مذہب“ ہے اور آپ سے آپ ہی ”قانون“۔ جتنا وہ ”مذہب“ ہے
اتنا ہی وہ ”قانون“ ہے۔ اس کی ایک حیثیت کو ماننا اور دوسری کو نہ ماننا خدا کے
ساتھ کفر ہے۔
خدا کے ہاں سے جو نازل ہوا یعنی ”مَا
أَنزَلَ اللّهُ“ جس طرح کسی
مخلوق کے ”پاس“ کرنے یا نہ کرنے پر اس کا ”مذہب“ ہونا موقوف نہیں __بس صرف اس کا
ثبوت اور دلالت واضح ہونا ضروری ہے __ اسی طرح کسی کے ”پاس“ کرنے یا نہ کرنے پر اس
کا ”قانون“ ہونا بھی موقوف نہیں، صرف اس کا ثبوت اور دلالت واضح ہونا ضروری ہے۔
”سیکولرزم“ اور ”سلطانی جمہور“ البتہ اسلام
سے متصادم نظام ہیں ...۔
”سیکولرزم“ کی رو سے دین خود بخود اور کسی
بھی اضافی شرط کے بغیر ”مذہب“ مانا جا سکتا ہے ”قانون“ نہیں۔ اس کے قانون ہونے کےلیے
البتہ ایک اور شرط درکار ہے۔
یہ ’اور شرط‘ کیا ہے؟ اس کا جواب ”سلطانیِ
جمہور“ کا عقیدہ دیتا ہے: ”مذہب“ کو ”قانون“ کا رتبہ ملنے کےلیے ”شرط“ یہ ہے کہ وہ
”اکثریت“ کے ہاں سے پاس ہو۔
آپ کی جمہوریت نے، دیکھ لیجئے، ’حاکم اعلی‘
سے اپنے یہ دونوں خواص کسی نہ کسی طرح بچا ہی لئے!!!!
یوں ”دین“ کو ”مذہب“ اور ”قانون“ میں بانٹ کر
سیکولرازم ہمیں عملاً کلیسا کے دھرم میں داخل کر دیتا ہے بے شک ہم اس بات کو ’ذرا
مشکل سے‘ ہی محسوس کریں۔
سیکولرزم زندگی کو عملاً دو خداؤں کے بیچ میں
بانٹ دیتا ہے۔ ایک وہ خدا جو ”مذہب“ کے دائرے میں پوجا جاتا ہے اور ایک وہ خدا جو ”قانون“
کے دائرے میں پوجا جاتا ہے۔ ”مذہب“ کے خدا کو ”قانون“ کے دائرے میں بہرحال ”قانون“
ہی کے خدا کی منظوری درکار رہتی ہے۔ ”قانون“ کے خدا کی منظوری کے بغیر ”مذہب“ کا
خدا جو مرضی کہہ لے اس کا کہا ”مذہب“ تو ہوتا ہے ”قانون“ نہیں۔ یہ سیکولرزم
تقریباً پورے کا پورا آپ
کی جمہوریت میں بھی ساتھ ہی
درآمد ہوا ہے۔
یہاں ”سیکولرزم“ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اب
”سلطانیِ جمہور“ کا عقیدہ یہاں اس ’خدا‘ کا
تعین کرتا ہے جس کو ”قانون“ کے دائرے میں پوجا جانا ہے اور جس کے ہاں سے صادر ہونے
والا ”قانون“ کہلاتا ہے اور جس کے ”پاس“ کئے بغیر ”مذہب“ کی بات کو صرف مذہبی تقدس
ہی حاصل رہتا ہے ...۔ یہ ”نمائندگان جمہور“ ہے۔
جبکہ دین اسلام یہ ہے کہ ”مذہب“ کا معاملہ ہو
یا ”قانون“ کا اللہ اور اس کا رسول جب کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو سب پارلیمانی
وغیر پارلیمانی مخلوقات صرف دو لفظ کہنے کی مجاز و روادار پائی جائیں: سَمِعناَ
وَأطَعنا ”ہم نے سنا اور ہم تابع فرمان ہوئے“۔ اس
دائرے میں کسی مخلوق کو اختیار کہاں؟ اللہ کے ہاں دین بس یہ ہے۔ اِنَّ
الدِّینَ عِندَ اللّٰہِ الِاسلاَم
”دین اللہ کے ہاں فرماں بردار ہوجانے کا نام ہے“۔ ”فرمانبرداری“ کے سوا ہر روش
شیطان کا بہکاوا ہے۔
ِإِنِ
الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ
الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (یوسف: 40) ”فرماں روائی کا اقتدار، اللہ کے سوا کسی کےلیے نہیں ہے
اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ طریق زندگی ہے،
مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“۔
وَمَن
يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ
مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران: 85) ”اس فرماں برداری کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار
کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام ونامراد
رہے گا“۔